سانگھڑ  میں حیدرآباد  روڈ سے کراچی سے تعلق  رکھنے والے صحافی خاور حسین کی لاش ملی ہے۔

رپورٹ کے مطابق خاور حسین کی لاش حیدرآباد روڈ پر نجی ہوٹل کے باہر کھڑی ان کی گاڑی سے ملی، پولیس نے خاور حسین کی لاش اسپتال منتقل کرکے تفتیش شروع کر دی۔

ڈی آئی جی شہید بینظیر آباد فیصل بشیر میمن نے کہا کہ خاور حسین نے حفاظتی نکتہ نظر سے پستول رکھا ہوا تھا، خاور حسین گاڑی پارک کرکے 2 بار واش روم گئے۔

سی سی ٹی وی کے مطابق خاور تنہا تھے، خاور نے ہوٹل کے منیجر سے جاکر واش روم کا پوچھا، پھر واپس گاڑی میں آکر بیٹھ گئے، خاور دوبارہ گاڑی سے اترے اور پھر چوکیدار سے واش روم کا پوچھا، خاور پھر واش کے پاس گئے اور واپس آکر دوبارہ گاڑی میں بیٹھ گئے۔

انہوں نے بتایا کہ سی سی ٹی وی میں خاور تنہا دکھائی دے رہے ہیں، سی سی ٹی وی کیمرا ڈرائیورنگ سیٹ کے دوسری جانب لگا تھا، سی سی ٹی وی میں کوئی نظر نہیں آیا، ہوٹل منیجر نے چوکیدار کو کہا جاکر ان سے پوچھو کچھ آڈر کریں گے یا نہیں، کافی دیر ہوگئی ہے۔

ڈی آئی جی فیصل بشیر میمن نے بتایا کہ چوکیدار جب گاڑی کے پاس گیا تو اندر خاور کی گولی لگی لاش پڑی تھی، ہم ابھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچے، تمام پہلوؤں سے تحقیقات کر رہے ہیں۔

ڈی آئی جی نے بتایا کہ مئی میں خاور نے والدین کو امریکا شفٹ کردیا تھا، خاور سانگھڑ مجلس میں شرکت کرنے گئے، ان کے بہنوئی کے گھر مجلس تھی، تاہم خاور مجلس میں نہیں پہنچ سکے۔

اس کے علاوہ ایس ایس پی عابد بلوچ نے بتایا کہ صحافی خاورحسین کےخودکشی کرنے کےمصدقہ شواہد نہیں ملے، صحافی کے خودکشی کرنے کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہاجاسکتا، پوسٹمارٹم رپورٹ آنے پر ہی ہلاکت کی وجہ معلوم ہوسکےگی۔ 

اس سے قبل ایس ایس پی عابد بلوچ کا کہنا تھا کہ  خاور حسین نے مبینہ طور  پر فائر کرکے خودکشی کی، متوفی کراچی میں نجی نیوز چینل سے منسلک تھے تاہم صحافی خاورحسین کا آبائی گھر سانگھڑ میں ہے۔

جسدخاکی سول ہسپتال حیدرآباد کے سرد خانے سے ہلال احمر کے سرد خانے منتقل

خاور حسین کا جسدخاکی سول ہسپتال حیدرآباد کے سرد خانے سے ہلال احمر کے سرد خانے منتقل کردیا گیا۔ سول ہسپتال کے سرد خانے میں بجلی اور جگہ نہ ہونےکے باعث میت منتقل کی گئی ہے۔

سانگھڑ پولیس نے پوسٹ مارٹم اور قانونی کارروائی مکمل ہونے کے بعد خاور حسین کی لاش سول ہسپتال سرد خانے منتقل کی تھی، خاور حسین کے والدین اور اہل خانہ کی امریکا سے واپسی پر تدفین کا اعلان کیا جائے۔

اظہار افسوس

چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے اپنے بیان میں اینکر اور سینئر رپورٹر خاور حسین کے ایک اندوہناک واقعے میں جاں بحق ہونے پر افسوس کا اظہار کیا۔

انہوں نے صحافی خاور حسین کے جاں بحق ہونے پر مرحوم کے ورثاء اور کراچی کی صحافی برادری کیلئے تعزیتی پیغام میں کہا کہ صحافی خاور حسین ایک فرض شناس اور ذمہ دار پروفیشنل تھے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کراچی کی صحافی برادری آج فعال اور اپنے ایک متحرک ساتھی سے محروم ہوگئی،  بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سندھ حکومت صحافی خاور حسین کے اندوہناک حادثے میں جاں بحق ہونے کے معاملے کی فی الفور شفاف تحقیقات کروائے.

ترجمان وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق  وزیراعلیٰ سندھ نے صحافی خاور حسین کی غیرطبعی موت کا نوٹس لیا ہے۔

ترجمان کے مطابق  وزیراعلیٰ سندھ نے آئی جی پولیس سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔

ترجمان کا کہنا ہےکہ وزیراعلیٰ نے پولیس کے بہترین افسرکو  تفتیش سونپنےکی ہدایت کرتے ہوئےکہا ہےکہ تحقیقات کرکے موت کی اصل وجہ کا پتا لگایا جائے گا۔

وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار نے واقعہ کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ ایس ایس پی ضلع سانگھڑ واقعہ کی تمام پہلوؤں سے انکوائری کریں، واقعہ کی شفاف تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کی جائے۔

سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے خاور حسین کے انتقال پر اظہارِ تعزیت کیا۔

شرجیل انعام میمن کا کہنا تھا کہ خاور حسین نہ صرف ایک پروفیشنل صحافی تھے بلکہ میرے قریبی رفقا میں سے بھی تھے، ان کا اچانک انتقال ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: صحافی خاور حسین خاور حسین کے خاور حسین کی کے سرد خانے سول ہسپتال سی سی ٹی نے بتایا کے مطابق کی لاش کہا کہ

پڑھیں:

غزہ: موت کے سائے میں صحافت

افتخار گیلانی

غزہ کے صحافی وہ چراغ ہیں، جو شبِ سیاہ میں بجھا دیے جا رہے ہیں۔ مگر انہی کی قربانیوں نے غزہ کی کہانی کو دنیا تک پہنچایا ہے ۔ اگر یہ نہ ہوں تو دنیا اندھی ہو جائے ۔ تاریخ ان کے خون کو سطر سطر لکھے گی اور آنے والی نسلیں جانیں گی کہ ظلم کے اندھیروں میں بھی کچھ لوگ اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر سچ کا چراغ جلاتے رہے ۔
رات کی چادر بھی فلسطین کے مظلوم خطہ غزہ یا وہاں کام کرنے والے صحافیوں کے لیے سکون کا لمحہ فراہم نہیں کرتی ہے ۔ فضا کو اسرائیلی ڈرونز کی گونج مسلسل چیرتی رہتی ہے ۔یہ ڈرونز بھوکے گِدھوں کی طرح جیسے زخمی شکار کے اوپر منڈلاتے رہتے ہیں۔ غزہ میں کسی بھی صحافی سے بات کیجیے تو فون کے پس منظر میں ڈرونز کی بھنبھناہٹ سنائی دیتی ہے ، جو ہر لمحہ موت کی خبرسنا تی ہے ۔اس شور کا مطلب ہے ؛ نہ نیند، نہ آرام، نہ لمحے بھر کی فراغت۔ ہر پل اچانک موت کو گلے لگانے کا خدشہ۔
اڑتیس سالہ آزاد صحافی اور فلمساز مومن فائز کے لیے ڈرون کی یہ آواز زندگی کا کڑوا سنگیت بن چکی ہے ۔وہ غزہ سے مجھے بتا رہے تھے : جب ہم آنکھیں بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہی بھنبھناہٹ کانوں میں گونجتی ہے ۔ پھر اچانک ایک زوردار دھماکہ ہوتا ہے ۔ مکانات لرز اٹھتے ہیں، شیشے ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔ ہم گھبرا کر باہر نکلتے ہیں تاکہ دیکھیں کس عمارت کو زمیں بوس کر دیا گیا، کتنے لوگ مارے گئے ، اور کہیں ہمارے کسی ساتھی کی لاش تو ملبے میں نہیں دبی ہے ۔المیہ یہ ہے کہ جہاں عام لوگ دھماکے کے مقام سے دور بھاگتے ہیں، وہاں فائز اور ان کے ساتھی اس طرف دوڑ کر ملبے اور دھویں میں کود پڑتے ہیں۔ ہاتھوں میں کیمرے تھامے ، اور اوپر سے دوبارہ بم برسنے کا خدشہ موجود رہتا ہے ۔جب میں نے فائز سے پوچھا کہ آجکل ایک صحافی کا دن غزہ میں کیسے شروع ہوتا ہے ۔ تو ان کا کہنا تھا؛جب ہم صبح گھر سے نکلتے ہیں تو یقین نہیں ہوتا کہ شام تک زندہ واپس لوٹیں گے یا نہیں۔ رات کو سوتے ہیں تو پتا نہیں کہ اگلی صبح آنکھ کھلے گی یا نہیں۔
فائز کا جسم خود غزہ کی جنگوں کی ایک چلتی پھرتی دستاویز ہے ۔ تیرہ برس پہلے ایک اسرائیلی بم نے ان کی دونوں ٹانگیں چھین لیں۔ وہ بیساکھیوں کے سہارے صحافت کے میدان میں واپس لوٹے ۔ وہ ملبوں پر کھڑے ہو کر کیمرہ اٹھاتے رہے ۔ بعد میں ایک اور حملے میں ان کی انگلیاں ضائع ہوگئیں۔ وہ کہتے ہیں؛میں کم از کم تین بار شدید زخمی ہو چکا ہوں۔ محض اتفاق نے بچا لیا، ورنہ میں بھی انہی قبروں میں سویا ہوا ہوتا، جن پر آجکل فوٹیج بناتا رہتا ہوں۔ کام جاری رکھنا بھی ایک فرض ہے ۔وہ اپنی صبح عام لوگوں کی طرح چائے یا ناشتے سے نہیں بلکہ مرنے والوں کی گنتی کرنے سے شروع کرتے ہیں۔ موبائل پیغامات کھنگالتے ہیں، پیرا میڈکس اور سول ڈیفنس اہلکاروں سے تصدیق کرتے ہیں، اور پھر ہسپتالوں میں پہنچتے ہیں جہاں ہر راہداری چیخوں سے بھری رہتی ہے ۔اس کے بعد جنازے ۔ پھر ایک اور بمباری۔ پھر ایک اور جنازہ۔ پچھلے دو سال سے یہ ایک معمول بن چکا ہے ۔ یہ ایک ایسا دائرہ ہے جس میں صرف غم ہے ۔ وہ بتاتے ہیں:ہم صبح شہیدوں کی تلاش میں نکلتے ہیں اور رات بموں کی آواز کے ساتھ سو جاتے ہیں۔
بجلی اور انٹر نیٹ کی عدم دستیابی کہ وجہ سے صحافی کبھی سولر پینل، کبھی ہانپتے ہوئے جنریٹر، کبھی اسرائیلی یا مصری سم کارڈ کے سہارے اپنی خبریں دنیا تک پہنچاتے ہیں۔اس خطر ے کے باوجود کہ اسرائیلی سم کا استعمال جاسوسی کے شبہ میں ان کی جان کو مزید خطرے میں ڈال سکتا ہے ، وہ اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔فائلیں چھوٹے چھوٹے میموری کارڈز پر چھپا کر رکھی جاتی ہیں تاکہ اگر بمباری میں سب کچھ تباہ بھی ہو جائے تو شواہد محفوظ رہیں۔کیمرے ٹوٹے ہوئے ، لینز دراڑ زدہ، ٹرائی پوڈ بکھرے پڑے ہیں۔ فائز کہتے ہیں:زیادہ تر سامان حملوں اور آئے دن کی بے دخلی اور نقل مکانی کی وجہ سے تباہ ہو گیا۔ جو بچا ہے وہ بھی ٹوٹا پھوٹا ہے ۔ پھر بھی استعمال کرتے ہیں، کیونکہ اس کے بغیر دنیا کچھ نہیں دیکھ پائے گی۔فائز کا کہنا ہے کہ یہ جنگ پچھلی جنگوں سے مختلف اور اس میں خاص طور پر صحافیوں کو ٹارگیٹ کیا جا رہا ہے :بمباری اندھی ضرور ہوتی ہے ۔ مگراس بار صحافیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ہم دنیا کو ایک حقیقت دکھا رہے ہیں، ہم ماتم کی آواز ہیں۔ اسی لیے ہمیں خاموش کرنا چاہتے ہیں۔
یہ حقیقت صرف ان کے ذاتی احساسات نہیں بلکہ اعداد و شمار بھی گواہی دیتے ہیں۔ فلسطینی صحافی یونین کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے اب تک کم از کم 240 فلسطینی صحافی مارے جا چکے ہیں۔رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز یعنی آر ایس ایف کے مطابق یہ تعداد 278 ہے ۔
جدید تاریخ میں کسی بھی جنگ نے صحافیوں کو اس پیمانے پر ہلاک نہیں کیا۔عراق، افغانستان، شام یا بوسنیا، کہیں بھی اتنے زیادہ صحافی ایک ہی تنازع میں مارے نہیں گئے ۔جن صحافیوں کو ٹارگٹ کیا گیا، وہ پریس جیکٹ پہن کر کام کر رہے تھے ، بعض اسپتالوں کے باہر میڈیا خیموں میں بیٹھے تھے ، یا اپنے گھروں میں اہلِ خانہ کے ساتھ تھے ۔ اس کے باوجود میزائل ان پر برسائے گئے ۔دنیا میں شاید ہی کوئی دوسرا خطہ ہو جہاں کیمرہ یا صحافت اتنا بڑا جرم بن گیا ہو۔یہ صحافی صرف بموں سے نہیں لڑ رہے ہیں بلکہ بھوک سے بھی نبرد آزما ہیں۔مارچ 2024 میں اسرائیل نے سرحدی راستے بند کر دیے جس سے 24 لاکھ انسان محصور ہو گئے ۔ اب تک 450 افراد بھوک سے مر چکے ہیں، جن میں 150بچے شامل ہیں۔رپورٹرز بھی قطار میں کھڑے ہو کر روٹی کا ایک ٹکڑا لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر اوقات اپنی بھوک بھلا کر بچوں کو کھلاتے ہیں، اور پھر میدانِ کارزار میں نکل پڑتے ہیں۔کئی بار وہ جنازے میں اپنے ہی بچوں کو دفناتے ہیں اور شام کو دوسروں کے جنازے کور کرتے ہیں۔ فائز کہتے ہیں:ہم فلم تو بناتے ہیں، مگر ہمارے دل ٹوٹ جاتے ہیں۔ ہر بچہ جو کیمرے میں آتا ہے وہ اپنا بچہ لگتا ہے۔کچھ صحافی ایسے بھی ہیں جو دن بھر بھوکے رہ کر رپورٹنگ کرتے ہیں، محض چائے اور ایک روٹی پر گزر بسر کرتے ہیں۔ کئی بار تھکن اور فاقے سے وہ میدان میں گر پڑتے ہیں، لیکن پھر بھی کیمرہ نہیں چھوڑتے ۔صحافیوں کی ہلاکت پر عالمی میڈیا اور ادارے صرف بیانات اور قراردادوں تک محدود ہیں۔ یکم ستمبر کو ستر ملکوں کے ڈھائی سو سے زائد اخبارات نے صفحہ اول پر مشترکہ سرخی لگائی: جس رفتار سے اسرائیلی فوج صحافیوں کو مار رہی ہے ، جلد ہی کوئی باقی نہ رہے گا جو آپ کو خبر دے سکے ۔لیکن عملی قدم کچھ نہ ہوا۔ آر ایس ایف نے چار بار جنگی جرائم کی شکایت عالمی فوجداری عدالت میں دی مگر پیش رفت صفر۔ مغربی میڈیا کے بڑے ادارے بھی خاموش ہیں۔فائز کڑواہٹ سے کہتے ہیں:باہر کے بڑے چینل بھی خاموش ہیں، نوکری کھونے یا ملک بدری کے خوف سے ۔ تاریخ ان کی خاموشی معاف نہیں کرے گی۔
ایک اور فلسطینی صحافی، سلمیٰ القدومی بتارہی ہے کہ جنگ کے پندرہ ماہ میں بار بار زبردستی نقل مکانی اور خاندان سے جدائی سہنا سب سے مشکل مرحلہ رہا ہے :آپ ایک جگہ ٹھہرتے ہیں، اور پھر دوبارہ سب کچھ چھوڑ کر چل پڑتے ہیں۔ اور یہ جانتے ہوئے کہ کوئی جگہ واقعی محفوظ نہیں ہے ۔وہ جنوبی غزہ میں رپورٹنگ کے دوران وہ زخمی ہوئیں، اسی واقعے میں ان کی ایک ساتھی جان سے گئیں۔ایک صحافی محمد منصور اپنے گھر پر فضائی حملے میں اپنی بیوی اور بیٹے سمیت مارے گئے ۔ وہ خان یونس کے رہائشی تھے اور فلسطین ٹوڈے کے لیے کام کرتے تھے ۔اسی روز شمالی غزہ کے شہر بیت لاہیا میں 23 سالہ صحافی حسام شباط، جو الجزیرہ کے نمائندے تھے ، کار حملے میں مارے گئے ۔اسرائیلی فوج نے بیان میں کہا کہ اس نے شباط کو’ختم کر دیا’ اور الزام لگایا کہ وہ ‘اسنائپر دہشت گرد’تھے ۔
شباط کی ہلاکت کے بعد قطر میں قائم الجزیرہ نے اپنے نمائندے کی ہلاکت کو’قتل ناحق’قرار دے کر سخت مذمت کی۔ ادارے نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کے ‘صحافیوں کے منظم قتل’کی مذمت کرے ۔مرام حمید، جو الجزیرہ انگلش، ڈیجیٹل کے لیے غزہ سے رپورٹنگ کرتی ہیں، کہتی ہیں؛میں تھک گئی ہوں۔
وہ بتاتی ہیں:میں اس لیے تھک گئی ہوں کیونکہ میرا دل اور دماغ مسلسل آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ وہ جھگڑتے ہیں کہ کون سی کہانی لکھنی ہے ، کون سی چھوڑنی ہے ۔ اتنی دردناک، غم انگیز اور صدمہ خیز کہانیاں ہیں کہ آپ انہیں نظرانداز نہیں کر سکتے ۔ یہ عقل اور جذبات کی جنگ ہے ۔ کوئی بات منطقی نہیں لگتی۔ اس طویل جنگ کے ہولناک مناظر دیکھنے کے بعد نیند اور سکون دونوں رخصت ہو گئے ہیں۔ نہ دل یہ سب سہہ سکتا ہے نہ دماغ۔ اپنی روزمرہ کی روٹین کے بارے میں وہ بتار ہی ہیں:میں سوتی ہوں، جاگتی ہوں، چلتی ہوں، کھانا پکاتی ہوں، کپڑے ہاتھ سے دھوتی ہوں، اپنے نومولود کی دیکھ بھال کرتی ہوں، مگر دماغ مسلسل متحرک رہتا ہے ۔ وہ کہانیاں لکھتا رہتا ہے ۔وہ عورت جو چار بچوں کے ساتھ خیمہ نہ ملنے پر سڑک پر سو رہی ہے ، وہ شخص جو قابض فوج کی قید سے چھوٹ کر اب ہسپتال میں چائے بیچ رہا ہے ، وہ میڈیکل کی طالبہ جو تعلیم مکمل نہ کر سکی اور اب مایوس ہو کر خیمے میں بیٹھی ہے ، وہ ماں جو ہر روز صحافیوں سے بچی کے لیے دودھ کی فریاد کرتی ہے ، اور وہ عورتیں جو ہسپتال کی راہداریوں میں بچوں کو گرمی اور سردی سے بچانے کیلئے سو جاتی ہیں۔مرام مزید کہتی ہیں کہ اس کا دماغ ہر روز اس کو ایک نئی کہانی کی طرف لے جاتا ہے ؛
ایک جوشیلی لڑکی کی کہانی جو صبح روٹی کی قطار میں لگتی ہے اور شام کو ہسپتال میں صحافیوں کے کپڑے دھو کر مدد کرتی ہے ۔ یا اس نوجوان کی کہانی جو لکڑی کے ڈنڈے پر موبائل باندھ کر کیمپ والوں کو ہاٹ اسپاٹ سے انٹرنیٹ بانٹتا ہے ۔ یہ سب طاقتور کہانیاں ہیں، جو دنیا تک پہنچنی چاہیے ۔
ہسپتالوں کے ایک سین کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتی ہے :وہ اپنا بیگ خیمے میں رکھ کر باہر نکلتی ہوں تو ایک بچی کی لاش پر بین سنائی دیتا ہے ۔ لوگ کل کے ملبے سے نکالے گئے شہید کے جنازے کی نماز پڑھ رہے ہیں۔ ماں باپ چیختے ہیں۔ عورتیں زمین پر گرتی ہیں۔ مرد حوصلہ دیتے ہیں:صبر کرو، بیٹا شہید ہے ۔ مردوں کو غسل دلوانے کی بھی لائن ہے ۔ ایک باپ اپنی بیٹی کو اٹھائے کھڑا ہے کہ کب کفن نصیب ہو۔وہ کہتی ہے کہ یہ روزِ محشر کا منظر ہے ۔مگر اب عادی ہو چکی ہوں۔اسی دوران کوئی چائے بیچ رہا ہے ، تھکے لوگ کافی پی رہے ہیں، بچے بھُنے ہوئے چنے بیچ رہے ہیں۔مرام کے مطا بق :یہ مناظر اب اتنے عام ہو گئے ہیں کہ اب یہ جذبات سے عاری لگتا ہے ۔ وقت اور جگہ ہی نہیں کہ کوئی اپنے پیاروں کو الوداع کہہ سکے ۔ان سب کے بیچ میرا دماغ شرمندہ ہو جاتا ہے ۔ مگر پھر سوال اٹھتا ہے ؛ اگر ہم نہ لکھیں تو کون لکھے گا؟ اگر ہم نہ دکھائیں تو کون دکھائے گا؟ شہیدوں کی کہانیاں کون سنائے گا؟ تاریخ کے لیے اس قیامت کو کون محفوظ کرے گا؟ خدایا، یہ کیسا ظلم ہے !تقریباً دو سال ہو گئے ، لائیو کوریج، انٹرویوز اور مضامین کا سلسلہ ہے ۔ مگر دل پوچھتا ہے ؛ کیا فائدہ؟ دماغ پوچھتا ہے ؛ کیا فائدہ؟ دنیا تو کچھ کرتی نہیں۔
صحافیوں کی یہ کہانیاں مل کر ایک حقیقت کو نمایاں کرتے ہیں،غزہ کے صحافی دنیا کے آخری گواہ ہیں۔ اگر یہ نہ ہوں تو غزہ کی کہانی اندھیروں میں دفن ہو جائے گی۔ شاید دنیا بعد میں کہہ دے ہمیں پتا نہیں تھا۔مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ صحافی اپنی جان پر کھیل کر یہ حقائق دنیا تک پہنچا رہے ہیں تاکہ کل کوئی انکار نہ کر سکے ۔مومن فائز کہتے ہیں کہ غزہ کے صحافی عنقا کی طرح راکھ سے پھر جی اٹھتے ہیں۔ انہیں پتا ہے کہ ہر کوریج ان کی آخری ہو سکتی ہے ۔ پھر بھی ان کا عزم ہے کہ ٹوٹے کیمروں سے ، اپنی آخری سانس تک سب کچھ ریکارڈ کرتے رہیں گے اور دنیا کے ضمیر کو جگانے کا کام کرتے رہیں گے ۔ ان کے کئی ساتھی فاقے سے بے ہوش ہو گئے مگر رپورٹنگ نہیں چھوڑی۔
غزہ کے صحافی وہ چراغ ہیں جو شب ِسیاہ میں بجھا دیے جا رہے ہیں۔ مگر انہی کی قربانیوں نے غزہ کی کہانی کو دنیا تک پہنچایا ہے ۔ اگر یہ نہ ہوں تو دنیا اندھی ہو جائے ۔ تاریخ ان کے خون کو سطر سطر لکھے گی اور آنے والی نسلیں جانیں گی کہ ظلم کے اندھیروں میں بھی کچھ لوگ اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر سچ کا چراغ جلاتے رہے ۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • امریکی سفارتخانے کی پاکستان میں ویزامعلومات ایکس پر محدود
  • جماعت اسلامی ضلع سانگھڑ کا اہم اجلاس، اجتماع عام کی تیاریوں کاجائزہ
  • کشمیر میں جاری عوامی احتجاج پر صحافی حیدر شیرازی کا خصوصی انٹرویو
  • لندن سے چوری شدہ گاڑی کی کراچی میں موجودگی، انٹرپول سے ٹریکرز ایکٹیویٹی لاگ طلب
  • آئی پی سی واقعے کی تحقیقات محض رسمی کارروائی نہیں ہونی چاہیے: عرفان صدیقی
  • لندن سے چوری شدہ گاڑی کی کراچی میں موجودگی کی اطلاع، پاکستان نے انٹرپول سےٹریکرز لاگ مانگ لیا۔
  • کراچی میں لندن سے چوری شدہ گاڑی کی موجودگی کا معاملہ: پاکستان نے انٹرپول سے ٹریکر لاگ مانگ لیا
  • برطانیہ سے چوری ہونے والی رینج روور کراچی میں برآمد، یہ سب کیسے ہوا؟
  • کراچی میں چوری کی واردات، معروف کامیڈین کی گاڑی گھر کے باہر سے چوری
  • غزہ: موت کے سائے میں صحافت