صحافی خاور حسین کی موت: قتل یا خودکشی؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT
صوبہ سندھ کے ضلع سانگھڑ میں کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی خاور حسین کی لاش ایک گاڑی میں ملی ہے۔ مقامی صحافیوں نے واقعے کی اطلاع کراچی میں صحافی حلقوں کو دی۔
Journalist Khawar Hussain was found dead in Sanghar. His body was found inside a vehicle near a restaurant with gunshot wounds.
Police said he held a pistol in his hand and a bullet wound to his head.
— Kumail Soomro (@kumailsoomro) August 16, 2025
سانگھڑ کے صحافیوں کی جانب سے بھیجی گئی ابتدائی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خاور حسین ایک سیاہ گاڑی کے ڈرائیونگ سیٹ پر خون میں لت پت مردہ حالت میں موجود ہیں۔ ان کے ایک ہاتھ میں پستول ہے اور سر میں گولی لگنے کا نشان بھی واضح ہے۔
صحافتی حلقوں کا ردعمل
خاور حسین کو ایک ہنس مکھ اور خوش اخلاق شخصیت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ صحافتی حلقے اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں کہ خاور حسین نے خودکشی کی ہو۔ اسی لیے مختلف صحافتی تنظیموں نے معاملے کی مکمل اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
پولیس اور حکومتی موقف
آئی جی سندھ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اس معاملے کا ہر پہلو سے جائزہ لیا جا رہا ہے اور تحقیقات قتل کے امکان پر ہی مرکوز ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر یہ قتل ثابت ہوا تو قاتل کسی بھی صورت بچ نہیں پائیں گے۔
عوام اور سرکاری ردعمل
خاور حسین کی موت پر وزیر اعلیٰ سندھ، وزیر داخلہ سندھ اور مختلف صحافتی تنظیموں نے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
پولیس کے مطابق تحقیقات جاری ہیں اور ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ بظاہر یہ خودکشی لگ رہی ہے، مگر تحقیقات کے بعد ہی یہ واضح ہوگا کہ خاور حسین کی موت قتل تھی یا خودکشی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئی جی سندھ خاور حسین صحافی ضلع سانگھڑذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: خاور حسین صحافی ضلع سانگھڑ خاور حسین کی
پڑھیں:
آئی پی سی واقعے کی تحقیقات محض رسمی کارروائی نہیں ہونی چاہیے: عرفان صدیقی
— فائل فوٹومسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ اسلام آباد پریس کلب (آئی پی سی) واقعے کی تحقیقات کا فیصلہ اچھا اقدام ہے۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ محض جذبات ٹھنڈا کرنے کی رسمی کارروائی نہیں ہونی چاہیے، غیر ذمہ داری اور زیادتی کرنے والے اہلکاروں کا تعین کر کے انہیں سزا ملنی چاہیے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ تحقیقات کو شفاف رکھتے ہوئے صحافی تنظیموں کو بھی شریک رکھا جائے۔ پریس کلب، صحافت کے ’ایوان‘ ہیں، ان کے تقدس کو پامال کرنا نہایت افسوسناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیشہ ورانہ فرائض سر انجام دینے والے کسی صحافی پر تشدد کا کوئی جواز قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ ایسے اقدامات کی مستقل روک تھام کا ٹھوس انتظام نہایت ضروری ہے۔