وزیراعظم نے کل جماعتی کانفرنس میں شرکت کیلیے پارٹی وفد نامزد کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT
اسلام آباد:
وزیراعظم شہباز شریف نے عوامی نیشنل پارٹی کی کل جماعتی کانفرنس میں شرکت کے لیے پارٹی وفد نامزد کر دیا۔
سینیٹ میں پارلیمانی پارٹی لیڈر سینیٹر عرفان صدیقی اور وفاقی وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری اے پی سی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نمائندگی کریں گے۔
اے این پی کے زیر اہتمام اے پی سی آج اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں ہو رہی ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
اسلام آباد میں ’غیر قانونی‘ مساجد کے تنازع کا حل کیا ہے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 اگست 2025ء) اسلام آباد کے راول ڈیم چوک میں قائم مدنی مسجد کو کپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے گزشتہ ہفتے کی رات منہدم کر کے وہاں پودے لگا دیے جس کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف علماء کے بیانات سامنے آنے لگے اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
سی ڈی اے کا اصرار ہے کہ یہ انہدام قانون کے مطابق اور مسجد انتظامیہ کی رضامندی سے کیا گیا۔
جبکہ مذہبی طبقے کا کہنا ہے کہ مدرسے کی منتقلی پر اتفاق ہوا تھا لیکن مدنی مسجد کا انہدام کسی معاہدے کا حصہ نہ تھا۔رحمت اللعالمین اتھارٹی کے چیئرمین خورشید ندیم ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’مسجد ایک سماجی ادارہ پے۔ مدنی مسجد کے حوالے سے کیا معاہدہ ہوا، سول سوسائٹی اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔
(جاری ہے)
ایسے معاملات عوام کے سامنے اور عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے طے ہونے چاہئیں۔
غیر قانونی مساجد کا مسئلہ پیچیدہ ہے اور پُرامن حل کا متقاضی ہے۔‘‘ممکنہ طور پر پُرامن حل کیا ہو سکتا ہے؟ یہ جاننے سے پہلے ہم مسئلے کی پیچیدگی کو تاریخی و سماجی پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت میں غیر قانونی مساجدایک منصوبہ بند شہر کے طور پر اسلام آباد کے وسیع سبزہ زار نہ صرف شہر کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ صاف ہوا کے بھی ضامن ہیں۔
ایسے بہت سے ٹکڑوں اور نالوں پر مختلف وقتوں میں مساجد اور مدارس تعمیر ہوتے رہے جن کی تعداد اب سینکڑوں میں ہے۔اس حوالے سے سی ڈی اے نے اپنی آخری رپورٹ دس سال پہلے جاری کی تھی جو 'دی ایکسپریس ٹربیون‘ کے مطابق وزارت داخلہ کی ہدایت پر تیار کی گئی تھی تاکہ غیر قانونی مساجد کے درست اعداد و شمار حاصل کیے جا سکیں۔
مذکورہ رپورٹ کے مطابق،’سی ڈی اے کی حدود میں واقع 492 میں سے 233 مساجد غیر قانونی ہیں جو موسمی نالوں کے کنارے، اہم شاہراہوں کی گزرگاہوں اور گرین بیلٹس پر تعمیر کی گئی ہیں۔
‘ جبکہ قانونی طور پر قائم کی گئی 259 مساجد میں کئی ایسی ہیں جو اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے تعمیرات کا دائرہ وسیع کر چکی ہیں۔ سی ڈی اے غیر قانونی تعمیرات روکنے میں ناکام کیوں؟’راول راج‘ کے مصنف اور اسلام آباد کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے محقق سجاد اظہر ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”ستر کی دہائی کے بعد اسلام آباد میں مساجد اور مدارس کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا۔
مذہبی گروہوں کو ریاستی سرپرستی حاصل ہوئی تو انہوں نے جہاں چاہا ڈیڑھ اینٹ کی اپنی مسجد بنا لی۔‘‘بہت سے قانونی اور سماجی ماہرین سوال اٹھاتے ہیں کہ جب یہ مساجد اور مدارس تعمیر ہو رہے تھے تب سی ڈی اے کہاں تھی؟
سجاد اظہر سی ڈی اے کے انتظامی ڈھانچے پر سوال اُٹھاتے ہوئے کہتے ہیں، ”سی ڈی اے میں سول سروس کے افسران اپنی دو تین سال کی عارضی پوسٹنگ پر آتے ہیں، اس کے مستقل ملازمین گریڈ سولہ سے نیچے والا عملہ ہوتا ہے جو تمام باریکیاں جانتا ہے۔
بڑے افسران عملی طور پر غیر موثر ہوتے ہیں۔ سرکاری پلاٹ سے براہ راست کوئی شہری متاثر نہیں ہو رہا ہوتا اس لیے آرام سے مسجد اور مدرسہ بن جاتے ہیں۔ اس میں سی ڈی اے کے نچلے طبقے کے مالی مفادات اور مسلکی تعصبات بھی شامل ہوتے ہیں۔‘‘سی ڈی اے نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو کو ادارہ جاتی موقف دینے سے معذرت کی البتہ ادارے کے ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ”حالیہ واقعے میں آپ دیکھ لیں کس طرح مذہبی گروہ سرعام دھمکیاں دے رہے ہیں، نہ ہم نے یہ گروہ تیار کیے اور نہ ہم ان سے نمٹ سکتے ہیں۔
چھ چھ ماہ میٹنگز چلتی ہیں، ایک آپریشن کرتے ہیں اور پھر ہمیں اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ مساجد اور مدرسے نہ ہماری اجازت سے بنتے ہیں نہ ہمارے کہنے سے ان کے خلاف آپریشن کیے جاتے ہیں۔ ہم اتنے صاحب اختیار نہیں۔‘‘ اداروں کی ساکھ اور عوامی حمایت سے محرومیاسلام آباد میں جب بھی سی ڈی اے تجاوزات کے خلاف آپریشن کرے پسند ناپسند اور غیر مساوی رویے کی شکایات سامنے آتی ہیں۔
’مارگلہ کہانی‘ کے نام سے اسلام آباد کی تاریخ، ثقافت اور سماجی روایات پر کتاب لکھنے والے مصنف اور قانون دان آصف محمود ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”سی ڈی اے کچی آبادیاں اور مساجد مسمار کرنے میں جس پھرتی سے کام لیتا ہے وہ بڑے بڑے غیر قانونی پلازوں اور کلبوں کے معاملے میں کیوں نظر نہیں آتی؟ مارگلہ نیشنل پارک میں تعمیرات پر پابندی ہے مگر وہاں ہوٹل کھلے ہیں، گنز اینڈ کنٹری کلب دھوم دھام سے چل رہا ہے، اگر آپ طاقتور طبقوں کے خلاف آپریشن نہیں کر سکتے تو آپ کی کیا ساکھ رہ جاتی ہے؟ عوام آپ پر کیوں اعتماد کرے؟ کیوں ساتھ کھڑی ہو؟‘‘
سجاد اظہر اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں،”کراچی میں نسلا ٹاور گرایا جا سکتا ہے لیکن یہاں شاہراہِ دستور پر کانسٹی ٹیوشن ون کی غیر قانونی عمارت کھڑی ہے، عدالتی حکم نامے بھی کچھ نہیں بگاڑ سکے۔
‘‘وہ کہتے ہیں، یہ محض سی ڈی اے کی نہیں حساس اداروں کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان ہے۔”جنہوں نے کچھ مسالک کو سرکاری چھتری فراہم کی اور وہ اتنا طاقتور ہوئے کہ انتظامی مشینری کی یہ جرات نہیں کہ ان کے خلاف کوئی قدم اٹھا سکے۔ لال مسجد کا کیس آپ کے سامنے ہے، جو مولوی ایک تھانے کی مار ہوا کرتے تھے وہ جب چاہیں پوری ریاست کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔
‘‘خیال رہے مدنی مسجد کے انہدام کے بعد لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا، ”اگر مساجد گرائی گئیں تو جنگ ہو گی، کھلی جنگ۔ ہم سول نافرمانی کی تحریک شروع کریں گے۔ یہ بے ایمان لوگ، یہ یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ، ان کا حساب ہونا چاہیے۔‘‘
ممکنہ حل کیا ہے؟خورشید ندیم کے مطابق،”مساجد کا کردار سماجی ہونا چاہیے، سیاسی نہیں۔
ریاست نے ماضی میں انہیں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا، مگر اب واضح ہے کہ مدارس و مساجد کو سکیورٹی پالیسی کا حصہ بنانا نقصان دہ ہے۔ جب تک مساجد سیاست سے الگ نہیں ہوں گی، مذہبی طبقہ ریاست کو چیلنج کرتا رہے گا۔‘‘ وہ تجویز دیتے ہیں کہ پارلیمنٹ علماء کی مشاورت سے قانون سازی کرے، مساجد کے انتظام اور گرین بیلٹس پر قائم مسجدوں کے لیے شفاف پالیسی وضع کرے۔اس حوالے سے سجاد اظہر کہتے ہیں، ”شہری حکومتیں عوامی نمائندوں اور مقامی انتظامیہ کے ذریعے چلنی چاہییں، جو پانی، صفائی، ٹریفک اور تعمیرات سمیت غیر قانونی تجاوزات کے معاملات دیکھے۔ موجودہ صورتحال میں بہتر ہو گا جو مساجد عوامی ضرورت پوری کر رہی ہیں مگر کاغذی کارروائی میں غیر قانونی ہیں، انہیں جرمانہ یا زمین کے عوض ریگولرائز کیا جائے اور یہ مرحلہ وار ہو۔
‘‘اوپن یونیورسٹی کے شعبہ فکر اسلامی سے وابستہ استاذ ڈاکٹر طاہر اسلام عسکری نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، ”چونکہ یہ مساجد پہلے ہی وفاقی اداروں کی منظوری سے چل رہی ہیں، اس لیے موجودہ حالات میں انہیں چھیڑنے کے بجائے ریگولرائز کرنا بہتر ہے۔ نئی مساجد کی تعمیر کے لیے لائسنس، نقشے اور زمین کی الاٹمنٹ کے سخت اصول نافذ کیے جائیں اور ان پر عملدرآمد کے لیے ایک آزاد مانیٹرنگ کمیٹی قائم کی جائے۔
ادارت: جاوید اختر