UrduPoint:
2025-08-17@13:18:14 GMT

ڈیلٹا کی موت: دریائے سندھ سکڑتا اور ڈوبتا جا رہا ہے

اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT

ڈیلٹا کی موت: دریائے سندھ سکڑتا اور ڈوبتا جا رہا ہے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 اگست 2025ء) سمندری پانی کے سندھ ڈیلٹا میں داخل ہونے سے کاشت کاری کے ساتھ ساتھ ماہی گیر برادریاں بھی تباہ ہو رہی ہیں۔ حبیب اللہ کھٹی کا تعلق کھارو چھان کے گاؤں عبداللہ میر بہار سے ہے اور یہ دریائے سندھ کے سمندر میں گرنے کی جگہ سے تقریباً 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ''نمکین پانی نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔

‘‘

مچھلیوں کے ذخائر کم ہونے کے بعد 54 سالہ حبیب اللہ نے درزی کا کام شروع کیا لیکن جب 150 گھرانوں میں سے صرف چار باقی رہ گئے تو یہ بھی ناممکن ہو گیا۔

درجنوں دیہات غائب ہو چکے ہیں

انہوں نے بتایا، ''شام کو علاقے پر ایک عجیب سی خاموشی چھا جاتی ہے، جبکہ آوارہ کتے لکڑی اور بانس کے خالی گھروں میں گھومتے رہتے ہیں۔

(جاری ہے)

‘‘ کھارو چھان میں کبھی تقریباً 40 دیہات تھے لیکن اب زیادہ تر نمکین سمندری پانی کے بڑھنے سے غائب ہو چکے ہیں۔ مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق شہر کی آبادی 1981ء میں 26 ہزار سے کم ہو کر 2023ء میں فقط 11 ہزار رہ گئی۔

حبیب اللہ بھی اپنے خاندان کو کراچی منتقل کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور سندھ ڈیلٹا سمیت دیگر علاقوں کے معاشی مہاجرین سے بھرا ہوا ہے۔

ماہی گیر برادریوں کی وکالت کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پاکستان فشر فوک فورم کا اندازہ ہے کہ ڈیلٹا کے ساحلی اضلاع سے دسیوں ہزار لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ تاہم جناح انسٹی ٹیوٹ کے ایک تھنک ٹینک کے مارچ میں شائع کردہ مطالعے کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں میں سندھ ڈیلٹا کے مجموعی علاقے سے 12 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔

تباہی کے اسباب کیا ہیں؟

سن 1950 کی دہائی سے واٹر ایپلی کیشنز، ہائیڈرو پاور ڈیمز اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گلیشیئرز کے پگھلنے کے اثرات نے ڈیلٹا میں پانی کا بہاؤ کو 80 فیصد تک کم کر دیا ہے۔

یہ حقائق 2018ء کے ایک مطالعے میں ''یو ایس-پاکستان سینٹر فار ایڈوانسڈ اسٹڈیز ان واٹر‘‘ کی طرف سے بتائے گئے تھے۔

ماحولیاتی تبدیلیاں اور پاکستان میں غذائی بحران کے منڈلاتے سائے

ان عوامل کی وجہ سے سمندری پانی کی ڈیلٹا میں تباہ کن دخل اندازی ہوئی ہے۔ سن 1990 سے زمینی پانی میں نمک کی مقدار میں تقریباً 70 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس سے فصلیں اگانا ناممکن ہو چکا ہے جبکہ جھینگوں اور کیکڑوں کی آبادی پر بھی شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے مقامی اہلکار محمد علی انجم کہتے ہیں، ''ڈیلٹا بیک وقت سُکڑ اور ڈوب رہا ہے۔‘‘

زندگی اور ثقافت کا نقصان

دریائے سندھ تبت سے شروع ہوتا ہے اور متنازع کشمیر سے گزرنے کے بعد پورے پاکستان کو عبور کرتا ہے۔ یہ دریا اور اس کی شاخیں ملک کی تقریباً 80 فیصد زرعی زمینوں کو سیراب کرتی ہیں اور اس طرح لاکھوں لوگوں کے روزگار کو سہارا ملتا ہے۔

ڈیلٹا، جو دریا کے سمندر سے ملنے علاقے میں بنتا ہے، کبھی کاشتکاری، ماہی گیری، مینگرووز اور جنگلی حیات کے لیے مثالی تھا۔ لیکن 2019ء میں حکومتی واٹر ایجنسی کے ایک مطالعے کے مطابق سمندری پانی کے شامل ہونے کی وجہ سے 16 فیصد سے زیادہ زرخیز زمین غیر پیداواری ہو چکی ہے۔

ڈیلٹا کے کیٹی بندر شہر میں زمین پر نمکین کرسٹلز کی سفید تہہ چھائی ہوئی ہے۔

کئی میل دور سے پینے کا پانی کشتیوں کے ذریعے لایا جاتا ہے اور دیہاتی اسے گدھوں کے ذریعے گھر لے جاتے ہیں۔ حاجی کرم جٹ، جن کا گھر بڑھتے ہوئے پانی کی سطح میں ڈوب گیا، نے بتایا، ''کون اپنی سرزمین کو رضاکارانہ طور پر چھوڑتا ہے؟‘‘

انہوں نے ایک دوسری جگہ دوبارہ گھر بنایا اور امید کرتے ہوئے کہ ان کے ساتھ مزید خاندان شامل ہوں گے۔

وہ کہتے ہیں، ''ایک شخص اپنے آبائی علاقے کو اس وقت چھوڑتا ہے، جب اس کے پاس کوئی اور چارہ نہ ہو۔‘‘

پاکستان فشر فوک فورم سے وابستہ ماحولیاتی کارکن فاطمہ مجید کا کہنا ہے کہ کمیونٹیز نے اپنے گھروں کے ساتھ ساتھ ڈیلٹا سے جڑی زندگی کے ایک طریقے کو بھی کھو دیا ہے۔ خاص طور پر خواتین، جو نسلوں سے جال بُنتی اور مچھلیوں کو پیک کرنے کا کام کرتی تھیں، شہروں میں نقل مکانی کے بعد روزگار کے حصول میں مشکلات کا شکار ہیں۔

فاطمہ مجید، جن کے دادا نے خاندان کو کراچی منتقل کیا تھا، کہتی ہیں، ''ہم نے نہ صرف اپنی زمین کھوئی، بلکہ اپنی ثقافت بھی کھو دی۔‘‘ بحالی کے لیے اقدامات

برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں نے سب سے پہلے سندھ دریا کے راستے کو نہروں اور ڈیموں سے تبدیل کیا، جس کے بعد حالیہ دہائیوں میں درجنوں ہائیڈرو پاور منصوبوں کے ذریعے بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔

رواں سال کے شروع میں کسانوں کے احتجاج کے بعد سندھ صوبے کے نشیبی دریائی علاقوں میں فوج کی زیر قیادت سندھ دریا پر کئی نہری منصوبوں کو روک دیا گیا۔

سندھ دریا کے طاس کی تنزلی سے نمٹنے کے لیے حکومت اور اقوام متحدہ نے 2021ء میں ''لیونگ انڈس ایشن ایٹو‘‘ شروع کیا۔ اس کا ایک مقصد ڈیلٹا کی بحالی ہے، جس میں مٹی میں نمکیات کی سطح کو کم کرنے اور مقامی زراعت کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی نظام کی حفاظت شامل ہے۔

سندھ حکومت فی الحال اپنا مینگروو بحالی منصوبہ چلا رہی ہے، جس کا مقصد سمندری پانی کو روکنے کے لیے قدرتی رکاوٹ کے طور پر کام کرنے والے جنگلات کو بحال کرنا ہے۔

تاہم ساحلی پٹی کے کچھ حصوں میں مینگرووز کی بحالی کے باوجود کئی دوسرے علاقوں میں زمین پر قبضہ اور رہائشی ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے جنگلات کا صفایا جاری ہے۔

مستقبل کے خدشات

دریں اثنا پڑوسی ملک بھارت نے 1960ء کی انڈس واٹرز ٹریٹی کو منسوخ کر کے اس دریا اور اس کے ڈیلٹا کے لیے خطرات بڑھا دیے ہیں۔

بھارت نے اس معاہدے کو دوبارہ بحال نہ کرنے اور بالائی علاقوں میں ڈیم بنانے کی دھمکی دی ہے، جو پاکستان میں پانی کے بہاؤ کو محدود کر سکتا ہے، جسے پاکستان نے ''جنگ کا عمل‘‘ قرار دیا ہے۔

ماہرین کے مطابق سندھ ڈیلٹا کی تنزلی صرف ایک ماحولیاتی بحران نہیں بلکہ ایک سماجی، معاشی اور ثقافتی تباہی بھی ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق فوری اقدامات کی ضرورت ہے، جن میں مینگرووز کی بحالی، پانی کے بہاؤ کو بہتر بنانے کی پالیسیاں اور علاقائی تعاون شامل ہیں۔ اگر یہ مسائل حل نہ ہوئے تو ڈیلٹا کی باقیات اور اس سے جڑی ثقافت ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتی ہے۔

ادارت: شکور رحیم

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سمندری پانی سندھ ڈیلٹا کی وجہ سے کے مطابق ڈیلٹا کے ڈیلٹا کی کے ساتھ پانی کے اور اس کے لیے کے بعد ہے اور کے ایک

پڑھیں:

دریائے ستلج میں پانی کی سطح بلند، قصور کے درجنوں دیہاتوں سے زمینی رابطہ منقطع

لاہور:

دریائے ستلج میں پانی کی سطح مسلسل بلند ہونے کے باعث ضلع قصور کے متعدد دیہات زیر آب آگئے ہیں، جب کہ درجنوں علاقوں کا زمینی رابطہ مکمل طور پر منقطع ہو چکا ہے۔

پی ڈی ایم اے قصور کے مطابق گنڈا سنگھ والا ہیڈ سے پانی کا اخراج 75 ہزار کیوسک تک پہنچ چکا ہے۔

آج صبح 6 بجے دریائے ستلج کی کیکر پوسٹ پر پانی کی سطح 19.60 فٹ ریکارڈ کی گئی۔ پی ڈی ایم اے نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بھارت کی جانب سے ہریکے ہیڈورکس سے مزید پانی چھوڑے جانے کا امکان ہے جس سے صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔

متاثرہ علاقوں میں بھکی ونڈ، واڑہ حاکو والا، ایمن نگر، بستی بنگلہ دیش، اور چندہ سنگھ شامل ہیں، جہاں کی سڑکیں اور راستے پانی میں ڈوب چکے ہیں۔

کھڑی فصلیں اور سینکڑوں ایکڑ زرعی اراضی مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہے، جس سے کسانوں کو شدید نقصان کا سامنا ہے۔

ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو 1122 کی ٹیمیں امدادی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں کشتیوں کے ذریعے آمد و رفت ممکن بنائی گئی ہے جبکہ فلڈ ریلیف کیمپس قائم کر دیے گئے ہیں، جہاں طبی سہولیات، راشن، اور مویشیوں کے لیے چارے کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہے۔

ڈپٹی کمشنر قصور کے مطابق ضلعی انتظامیہ پی ڈی ایم اے کے ساتھ مل کر ہر قسم کے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے مکمل تیار ہے۔ انہوں نے متاثرہ خاندانوں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ حکومت ان کی مکمل مدد کرے گی۔

ریسکیو ذرائع کے مطابق ریسکیو 1122 کی جانب سے بوٹ ٹرانسپورٹیشن سروس شروع کر دی گئی ہے، تاکہ پھنسے ہوئے افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا سکے۔

ضلعی حکومت نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں 1122 پر فوری رابطہ کریں اور اپنی مدد آپ کے تحت محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہونے کی کوشش کریں۔

متعلقہ مضامین

  • راول ڈیم میں پانی کی سطح میں اضافے کے بعد اسپل ویز کھول دیے گئے
  • پنجاب میں بھی کلاؤڈ برسٹ کا الرٹ جاری
  • پنجاب کے دریاؤں میں پانی کی سطح مسلسل بلند، درجنوں دیہات سے زمینی رابطہ منقطع
  • دریائے ستلج میں پانی کی سطح بلند، قصور کے درجنوں دیہاتوں سے زمینی رابطہ منقطع
  • دریائے سندھ میں درمیانے درجے کا سیلاب
  • پنجاب کے دریاں میں پانی کی سطح بلند، کئی مقامات پر نچلے درجے کا سیلاب
  • پنجاب کے دریاؤں میں پانی کی سطح بلند، کئی مقامات پر نچلے درجے کا سیلاب
  • دریائے سوات میں پانی کے بہاؤ میں اضافے سے کئی علاقے زیر آب، الرٹ جاری
  • مودی کا اشتعال اور خوف بے نقاب: ایٹمی میں بلیک میلنگ میں نہ آنے کی گیدڑ بھبکی