UrduPoint:
2025-10-04@23:34:06 GMT

ڈیلٹا کی موت: دریائے سندھ سکڑتا اور ڈوبتا جا رہا ہے

اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT

ڈیلٹا کی موت: دریائے سندھ سکڑتا اور ڈوبتا جا رہا ہے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 اگست 2025ء) سمندری پانی کے سندھ ڈیلٹا میں داخل ہونے سے کاشت کاری کے ساتھ ساتھ ماہی گیر برادریاں بھی تباہ ہو رہی ہیں۔ حبیب اللہ کھٹی کا تعلق کھارو چھان کے گاؤں عبداللہ میر بہار سے ہے اور یہ دریائے سندھ کے سمندر میں گرنے کی جگہ سے تقریباً 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ''نمکین پانی نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔

‘‘

مچھلیوں کے ذخائر کم ہونے کے بعد 54 سالہ حبیب اللہ نے درزی کا کام شروع کیا لیکن جب 150 گھرانوں میں سے صرف چار باقی رہ گئے تو یہ بھی ناممکن ہو گیا۔

درجنوں دیہات غائب ہو چکے ہیں

انہوں نے بتایا، ''شام کو علاقے پر ایک عجیب سی خاموشی چھا جاتی ہے، جبکہ آوارہ کتے لکڑی اور بانس کے خالی گھروں میں گھومتے رہتے ہیں۔

(جاری ہے)

‘‘ کھارو چھان میں کبھی تقریباً 40 دیہات تھے لیکن اب زیادہ تر نمکین سمندری پانی کے بڑھنے سے غائب ہو چکے ہیں۔ مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق شہر کی آبادی 1981ء میں 26 ہزار سے کم ہو کر 2023ء میں فقط 11 ہزار رہ گئی۔

حبیب اللہ بھی اپنے خاندان کو کراچی منتقل کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور سندھ ڈیلٹا سمیت دیگر علاقوں کے معاشی مہاجرین سے بھرا ہوا ہے۔

ماہی گیر برادریوں کی وکالت کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پاکستان فشر فوک فورم کا اندازہ ہے کہ ڈیلٹا کے ساحلی اضلاع سے دسیوں ہزار لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ تاہم جناح انسٹی ٹیوٹ کے ایک تھنک ٹینک کے مارچ میں شائع کردہ مطالعے کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں میں سندھ ڈیلٹا کے مجموعی علاقے سے 12 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔

تباہی کے اسباب کیا ہیں؟

سن 1950 کی دہائی سے واٹر ایپلی کیشنز، ہائیڈرو پاور ڈیمز اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گلیشیئرز کے پگھلنے کے اثرات نے ڈیلٹا میں پانی کا بہاؤ کو 80 فیصد تک کم کر دیا ہے۔

یہ حقائق 2018ء کے ایک مطالعے میں ''یو ایس-پاکستان سینٹر فار ایڈوانسڈ اسٹڈیز ان واٹر‘‘ کی طرف سے بتائے گئے تھے۔

ماحولیاتی تبدیلیاں اور پاکستان میں غذائی بحران کے منڈلاتے سائے

ان عوامل کی وجہ سے سمندری پانی کی ڈیلٹا میں تباہ کن دخل اندازی ہوئی ہے۔ سن 1990 سے زمینی پانی میں نمک کی مقدار میں تقریباً 70 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس سے فصلیں اگانا ناممکن ہو چکا ہے جبکہ جھینگوں اور کیکڑوں کی آبادی پر بھی شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے مقامی اہلکار محمد علی انجم کہتے ہیں، ''ڈیلٹا بیک وقت سُکڑ اور ڈوب رہا ہے۔‘‘

زندگی اور ثقافت کا نقصان

دریائے سندھ تبت سے شروع ہوتا ہے اور متنازع کشمیر سے گزرنے کے بعد پورے پاکستان کو عبور کرتا ہے۔ یہ دریا اور اس کی شاخیں ملک کی تقریباً 80 فیصد زرعی زمینوں کو سیراب کرتی ہیں اور اس طرح لاکھوں لوگوں کے روزگار کو سہارا ملتا ہے۔

ڈیلٹا، جو دریا کے سمندر سے ملنے علاقے میں بنتا ہے، کبھی کاشتکاری، ماہی گیری، مینگرووز اور جنگلی حیات کے لیے مثالی تھا۔ لیکن 2019ء میں حکومتی واٹر ایجنسی کے ایک مطالعے کے مطابق سمندری پانی کے شامل ہونے کی وجہ سے 16 فیصد سے زیادہ زرخیز زمین غیر پیداواری ہو چکی ہے۔

ڈیلٹا کے کیٹی بندر شہر میں زمین پر نمکین کرسٹلز کی سفید تہہ چھائی ہوئی ہے۔

کئی میل دور سے پینے کا پانی کشتیوں کے ذریعے لایا جاتا ہے اور دیہاتی اسے گدھوں کے ذریعے گھر لے جاتے ہیں۔ حاجی کرم جٹ، جن کا گھر بڑھتے ہوئے پانی کی سطح میں ڈوب گیا، نے بتایا، ''کون اپنی سرزمین کو رضاکارانہ طور پر چھوڑتا ہے؟‘‘

انہوں نے ایک دوسری جگہ دوبارہ گھر بنایا اور امید کرتے ہوئے کہ ان کے ساتھ مزید خاندان شامل ہوں گے۔

وہ کہتے ہیں، ''ایک شخص اپنے آبائی علاقے کو اس وقت چھوڑتا ہے، جب اس کے پاس کوئی اور چارہ نہ ہو۔‘‘

پاکستان فشر فوک فورم سے وابستہ ماحولیاتی کارکن فاطمہ مجید کا کہنا ہے کہ کمیونٹیز نے اپنے گھروں کے ساتھ ساتھ ڈیلٹا سے جڑی زندگی کے ایک طریقے کو بھی کھو دیا ہے۔ خاص طور پر خواتین، جو نسلوں سے جال بُنتی اور مچھلیوں کو پیک کرنے کا کام کرتی تھیں، شہروں میں نقل مکانی کے بعد روزگار کے حصول میں مشکلات کا شکار ہیں۔

فاطمہ مجید، جن کے دادا نے خاندان کو کراچی منتقل کیا تھا، کہتی ہیں، ''ہم نے نہ صرف اپنی زمین کھوئی، بلکہ اپنی ثقافت بھی کھو دی۔‘‘ بحالی کے لیے اقدامات

برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں نے سب سے پہلے سندھ دریا کے راستے کو نہروں اور ڈیموں سے تبدیل کیا، جس کے بعد حالیہ دہائیوں میں درجنوں ہائیڈرو پاور منصوبوں کے ذریعے بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔

رواں سال کے شروع میں کسانوں کے احتجاج کے بعد سندھ صوبے کے نشیبی دریائی علاقوں میں فوج کی زیر قیادت سندھ دریا پر کئی نہری منصوبوں کو روک دیا گیا۔

سندھ دریا کے طاس کی تنزلی سے نمٹنے کے لیے حکومت اور اقوام متحدہ نے 2021ء میں ''لیونگ انڈس ایشن ایٹو‘‘ شروع کیا۔ اس کا ایک مقصد ڈیلٹا کی بحالی ہے، جس میں مٹی میں نمکیات کی سطح کو کم کرنے اور مقامی زراعت کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی نظام کی حفاظت شامل ہے۔

سندھ حکومت فی الحال اپنا مینگروو بحالی منصوبہ چلا رہی ہے، جس کا مقصد سمندری پانی کو روکنے کے لیے قدرتی رکاوٹ کے طور پر کام کرنے والے جنگلات کو بحال کرنا ہے۔

تاہم ساحلی پٹی کے کچھ حصوں میں مینگرووز کی بحالی کے باوجود کئی دوسرے علاقوں میں زمین پر قبضہ اور رہائشی ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے جنگلات کا صفایا جاری ہے۔

مستقبل کے خدشات

دریں اثنا پڑوسی ملک بھارت نے 1960ء کی انڈس واٹرز ٹریٹی کو منسوخ کر کے اس دریا اور اس کے ڈیلٹا کے لیے خطرات بڑھا دیے ہیں۔

بھارت نے اس معاہدے کو دوبارہ بحال نہ کرنے اور بالائی علاقوں میں ڈیم بنانے کی دھمکی دی ہے، جو پاکستان میں پانی کے بہاؤ کو محدود کر سکتا ہے، جسے پاکستان نے ''جنگ کا عمل‘‘ قرار دیا ہے۔

ماہرین کے مطابق سندھ ڈیلٹا کی تنزلی صرف ایک ماحولیاتی بحران نہیں بلکہ ایک سماجی، معاشی اور ثقافتی تباہی بھی ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق فوری اقدامات کی ضرورت ہے، جن میں مینگرووز کی بحالی، پانی کے بہاؤ کو بہتر بنانے کی پالیسیاں اور علاقائی تعاون شامل ہیں۔ اگر یہ مسائل حل نہ ہوئے تو ڈیلٹا کی باقیات اور اس سے جڑی ثقافت ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتی ہے۔

ادارت: شکور رحیم

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سمندری پانی سندھ ڈیلٹا کی وجہ سے کے مطابق ڈیلٹا کے ڈیلٹا کی کے ساتھ پانی کے اور اس کے لیے کے بعد ہے اور کے ایک

پڑھیں:

میٹا نے پاکستان میں انسٹاگرام روڈ میپ لانچ کر دیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی: سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام کی ملکیت رکھنے والی کمپنی میٹا نے پاکستان میں انسٹاگرام میپ کے اجرا کا اعلان کر دیا ہے۔

بین الاقوامی میڈیا کے مطابق یہ فیچر صارفین کو نہ صرف نیا اور دلچسپ مواد دریافت کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے بلکہ انہیں دوستوں اور پسندیدہ تخلیق کاروں سے جڑے رہنے کا بھی ایک نیا اور انٹرایکٹو طریقہ پیش کرتا ہے، جبکہ اس میں مضبوط پرائیویسی کنٹرولز بھی شامل کیے گئے ہیں۔

کمپنی کے مطابق انسٹاگرام میپ کا یہ نیا فیچر صارفین کے ڈی ایم ان باکس کے اوپر براہِ راست دستیاب ہوگا۔ اس کے ذریعے پاکستانی صارفین اپنی لوکیشن شیئر کرنے کے ساتھ ساتھ کہانیاں، ریلز، پوسٹس اور نوٹسز کو لوکیشن ٹیگز کے ذریعے ایکسپلور کر سکیں گے۔ اس طرح صارفین با آسانی جان سکیں گے کہ ان کے دوست یا مشہور کریئیٹرز مقامی کیفے، کنسرٹس یا دیگر مقامات سے کیا شیئر کر رہے ہیں۔

انسٹاگرام نے صارفین کے لیے یہ سہولت بھی رکھی ہے کہ وہ اپنی آخری فعال لوکیشن کے حوالے سے مکمل اختیار رکھتے ہیں۔ وہ چاہیں تو یہ معلومات صرف منتخب افراد، قریبی دوستوں کے ساتھ شیئر کریں یا کسی کے ساتھ بھی شیئر نہ کریں۔

پرائیویسی کے اسی تصور کو مزید مضبوط کرنے کے لیے پلیٹ فارم پر موجود نوعمر صارفین کے والدین کو بھی یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی شیئرنگ ترجیحات دیکھ سکیں اور انہیں منظم بھی کر سکیں۔

میٹا نے انسٹاگرام میپ میں متعدد تکنیکی بہتریاں بھی کی ہیں، جن میں نقشے پر پروفائل فوٹوز کو ہٹانا، لوکیشن بند ہونے کی صورت میں واضح نشاندہی فراہم کرنا اور ٹیگ شدہ مواد کے ظاہر ہونے سے قبل اس کی پیشگی جھلک دکھانے جیسے فیچرز شامل ہیں۔

انسٹاگرام کے اس نئے فیچر کو صارفین کے لیے ایک ایسا ٹول قرار دیا جا رہا ہے جو نہ صرف مواد تک رسائی کو مزید آسان بنائے گا بلکہ سوشل میڈیا پر صارفین کے روابط اور تجربات کو بھی مزید ذاتی اور محفوظ بنا دے گا۔

ویب ڈیسک دانیال عدنان

متعلقہ مضامین

  • حیدرآباد: دریائے سندھ میں سیلابی ریلے کے نتیجے میں مکین سڑک کنارے عارضی خیموں میں زندگی بسر کررہے ہیں
  • حیدرآباد: دریائے سندھ میں پانی کے تیز بہائو کے سبب ماہی گیر کنارے پر مچھلیاں پکڑنے میںمصروف ہیں
  • پاکستان خطے میں ایک عظیم ملک کے طور پر ابھر رہا ہے، گورنر سندھ
  • میٹا نے پاکستان میں انسٹاگرام روڈ میپ لانچ کر دیا
  • پاکستان خطے میں ایک عظیم ملک کے طور پر ابھر رہا ہے۔ گورنر سندھ
  • موجودہ حالات میں پاکستان کو سب سے زیادہ معاشی استحکام کی ضرورت ہے، گورنر سندھ
  • این ڈی ایم اے نے مختلف علاقوں میں بارشوں کا الرٹ جاری کردیا
  • "فتح" 4 پاکستان کی میزائل کمانڈ میں شامل کر دیا گیا
  • تاریخ میں پہلی بار اسموگ کے خاتمے کے لیے پنجاب میں جدید گنز کا استعمال شروع
  • چینی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی: گورنر سندھ