Islam Times:
2025-11-04@01:19:04 GMT

امریکہ مخالف ایک اہم اجلاس کی کارروائی

اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT

امریکہ مخالف ایک اہم اجلاس کی کارروائی

اسلام ٹائمز: برازیل کے شہر ریو ڈی جنرو میں برکس کے سربراہی اجلاس کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ "ہم اسلامی جمہوریہ ایران کیخلاف 13 جون 2025ء کے فوجی حملوں کی جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں، مذمت کرتے ہیں۔ برکس کے رکن ملکوں کے سربراہوں نے اپنے اعلامیہ ميں اسی طرح غزہ میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ برکس کے رکن ملکوں کے سربراہوں نے اسی طرح ٹرمپ حکومت کے ٹیرف کے بارے میں کہا ہے کہ ہم ان کے یک جانبہ اقدامات پر جنھوں نے تجارت کو مختل کر دیا ہے اور تجارت کی عالمی تنظیم کے قوانین کے خلاف ہیں، تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی

امریکی صدر نے اعلان کیا کہ کوئی بھی ملک جو برکس گروپ کی امریکہ مخالف پالیسیوں سے ہم آہنگ ہوگا، اسے 10 فیصد اضافی ٹیرف کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ٹرمپ کا یہ اقدام امریکہ اور برکس کے رکن ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافے کی عکاسی کرتا ہے۔ ایسی صورتحال میں جب دنیا کثیر قطبی کی طرف بڑھ رہی ہے، ایسی پالیسیاں بڑی طاقتوں کے درمیان معاشی اور سیاسی مسابقت کو تیز کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔ برکس گروپ، جس میں برازیل، روس، بھارت، چین اور کئی دوسرے ممالک شامل ہیں، ایک اقتصادی اور سیاسی بلاک کے طور پر پھیل رہا ہے۔ یہ گروپ اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانے اور امریکہ پر انحصار کم کرنا چاہتا ہے۔ اس دھمکی کے ساتھ، ٹرمپ عالمی سطح پر امریکی اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے اور برکس طاقت کی توسیع کو روکنا چاہتے ہیں۔

اپنے پیغام میں، ٹرمپ نے واضح طور پر کہا ہے کہ ان محصولات میں کوئی استثنا نہیں ہے۔ ٹرمپ نے یہ بیان برکس اجلاس کے اس بیان کے جواب میں کہا ہے کہ برکس ممالک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے "اندھا دھند" ٹیرفس کے نفاذ کی پالیسی کی مذمت کرتے ہیں۔ بلاک کے رہنماؤں نے "یکطرفہ ٹیرفس اور نان ٹیرفس اقدامات میں اضافے کے بارے میں شدید خدشات کا اظہار کیا، جو تجارت کو مسخ کرنے کے ساتھ ہی عالمی تجارتی تنظیم کے قوانین سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔" ان کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات "عالمی اقتصادی ترقی کے امکانات کو متاثر کر رہے ہیں۔ برکس گروپ نے حالیہ برسوں میں نئے ممالک کے الحاق کے ساتھ اپنی طاقت میں اضافہ کیا ہے۔ برکس بلاک کو ابتدا میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ نے تشکیل دیا تھا، جس میں گذشتہ برس مصر، ایتھوپیا، ایران، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور انڈونیشیا بھی رکن کے طور پر شامل ہوئے اور اس کے سائز میں اضافہ ہوا۔

یہ دنیا کی تقریباً نصف آبادی پر مشتمل گروپ ہے۔ اقتصادی طور پر برکس 2023ء میں تقریباً 30.

8 ٹریلین ڈالر کی جی ڈی پی کے ساتھ تیزی سے مغربی ممالک کے لیے ایک کاؤنٹر بلاک کے طور پر ابھرا ہے۔ اس کے علاوہ، اس بلاک میں دنیا کے تیل کے ذخائر کا تقریباً 44.4% ہے اور دنیا کی گندم کی پیداوار میں نمایاں حصہ (48.7%) ہے۔ یہ اثرات برکس کی معاشی طاقت اور قدرتی وسائل کو ظاہر کرتے ہیں، جو موجودہ مغربی ورلڈ آرڈر کو چیلنج کرسکتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کے وسیع تر ہوتے گروپ برکس کے رہنماؤں نے اتوار کے روز برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں ملاقات کی، جس میں کثیرالجہتی سفارت کاری کے لیے بلاک کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ اپنے افتتاحی کلمات میں برازیل کے صدر لوئیز اناسیو لولا دا سلوا نے کہا، "ہم کثیرالجہتی کے بے مثال خاتمے کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔"

انہوں نے کہا، "اگر بین الاقوامی طرز حکمرانی 21 ویں صدی کی نئی کثیر قطبی حقیقت کی عکاسی نہیں کرتی ہے، تو پھر یہ برکس پر منحصر ہے کہ وہ اس کی تجدید میں مدد کرے۔" انہوں نے نیٹو فوجی اتحاد پر بھی تنقید کی اور الزام لگایا کہ اس نے گذشتہ ماہ کے اواخر میں جی ڈی پی کے 5 فیصد دفاعی اخراجات کا ہدف مقرر کرنے کے بعد اسلحے کی عالمی دوڑ کو ہوا دی ہے۔ برازیل کے صدر نے عالمی اداروں کا ڈھانچہ از نو تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ برازیل کے صدر نے برکس سربراہی اجلاس کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں اقوام متحدہ، آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ڈھانچے کی از سر نو تیاری اور جدید عالمی نظام کی معماری ميں دنیا کے جنوبی ملکوں کے زیادہ کردار پر زور دیا ہے۔

ریو ڈی جنرو میں برکس سربراہی اجلاس کا ایجنڈا، امریکا کی تجارتی پالیسیوں کی مخالفت، ٹیکنالوجی پر اجارہ داری کا مقابلہ اور عالمی اداروں کی اصلاح ہے۔ ریو ڈی جنرو میں دو روزہ برکس سربراہی اجلاس کے شرکا جنوبی ملکوں کے باہمی تعاون کی تقویت کے ذریعے مغرب کی تسلط پسندی، نئے اقتصادی چیلنجز، مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) اور موسمی تغیرات  جیسے مسائل پر بحث و مباحثہ اور تبادلہ خیال کریں گے۔ برازیل کے صدر لوئس ایناسیو لولا ڈا سلوا نے برکس سربراہی اجلاس سے خطاب میں جدید ترین ٹیکنالوجی بالخصوص آرٹیفیشل انٹلیجنس پر چند جانبہ نگرانی کی ضرورت پر زور دیا اور خبردار کیا کہ اگر اس حوالے سے معاہدے کا شفاف ڈھانچہ تیار نہ کیا گیا تو بڑی کمپنیاں جدید ٹیکنالوجی پر اپنا تسلط اور اجارہ داری قائم کرلیں گی۔

انھوں نے کہا کہ شفاف اور جامع دستور العمل کے فقدان کی صورت میں ایسے ماڈل اپنائے جائیں گے، جن میں صرف بڑی کمپنیوں کی تجربے کہ بنیاد پر توسیع آئے گی۔ برازیل کے شہر ریو ڈی جنرو میں برکس کے سربراہی اجلاس کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ "ہم اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف 13 جون 2025ء کے فوجی حملوں کی جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں، مذمت کرتے ہیں۔ برکس کے رکن ملکوں کے سربراہوں نے اپنے اعلامیہ ميں اسی طرح غزہ میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ برکس کے رکن ملکوں کے سربراہوں نے اسی طرح ٹرمپ حکومت کے ٹیرف کے بارے میں کہا ہے کہ ہم ان کے یک جانبہ اقدامات پر جنھوں نے تجارت کو مختل کر دیا ہے اور تجارت کی عالمی تنظیم کے قوانین کے خلاف ہیں، تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: برکس سربراہی اجلاس ریو ڈی جنرو میں برازیل کے صدر بین الاقوامی کہا ہے کہ اجلاس کے کرتے ہیں ممالک کے کے ساتھ میں کہا بلاک کے دیا ہے

پڑھیں:

عراق میں نیا خونریز کھیل۔۔۔ امریکہ، جولانی اتحاد۔۔۔ حزبِ اللہ کیخلاف عالمی منصوبے

اسلام ٹائمز: علاقائی صورتحال بتا رہی ہے کہ امریکہ اپنی عالمی حکمتِ عملی کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف پروکسیز، فوجی حرکات اور سیاسی دباؤ کا استعمال کر رہا ہے۔ مگر اب خطے کے ممالک۔۔۔۔ چاہے ایران، عراق، لبنان، پاکستان یا یمن ہوں۔۔۔۔ اپنی خود مختاری کی حفاظت کے لیے زیادہ باخبر اور منظم ہو رہے ہیں۔ یہ لڑائی محض بندوقوں کی نہیں؛ یہ سیاست، بیداری اور عوامی ارادے کی جنگ ہے۔ جو قومیں اپنی داخلی یک جہتی قائم رکھیں گی، وہی آخر میں اپنی مظلوم انسانیت کے لیے پائیدار امن اور استحکام یقینی بنا سکیں گی۔۔۔۔ نہ کہ وہ لوگ جو "امن" کے نام پر تسلط بیچتے ہیں۔ تحریر: سید عدنان زیدی

امریکہ اور جولانی کے باہمی تعاون سے عراق کے خلاف ایک نیا اور خطرناک منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے۔ شام کے الحسکہ صوبے میں واقع الہول کیمپ میں موجود تقریباً 20 ہزار تربیت یافتہ داعشی دہشت گردوں کو عراق منتقل کرنے کی تیاریاں زیرِ عمل ہیں اور یہ منصوبہ محض عسکری حرکت نہیں، بلکہ سیاسی انتشار، انتخابی مداخلت اور علاقائی تسلط کے لیے ایک سازش ہے۔ لیکن یہ سلسلہ صرف عراق تک محدود نہیں رہا۔ مشرقِ وسطیٰ کے حالیہ سیاسی و عسکری منظرنامے میں ایک اور اہم نکتہ سامنے آرہا ہے: حزبِ اللہ کو غیر مسلح کرنے کی امریکی کوششیں اور اس کے نتیجے میں لبنان کی داخلی اور علاقائی پالیسی میں پیدا ہونے والا شدید تناؤ۔ الہول کیمپ میں مقیم شدت پسندوں کی منتقلی کا مقصد واضح ہے: عراق میں خوف و ہراس پھیلانا، تاکہ آئندہ انتخابات سے قبل مرجعیت اور مزاحمتی بلاک کا اثر کم کیا جا سکے۔

امریکہ کے پالیسی ساز اپنے حامی پروکسیز کے ذریعے ایسی صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں، جو عوامی رائے کو تقسیم کرے اور انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہوسکے۔ یہ ایک گہرا اور خطرناک جال ہے، جس میں عوامی جان و مال اور سیاسی آزادی دونوں داؤ پر ہیں۔ اس خطے میں جب بھی کسی طاقت نے مزاحمتی تنظیموں کو کمزور کرنے کی کوشش کی، تو اس کے نتیجے میں عدم استحکام اور جوابی ردِعمل سامنے آیا۔ حالیہ دنوں میں واشنگٹن کی جانب سے حزبِ اللہ کو غیر مسلح کرنے کے مطالبات اور دباؤ میں اضافہ ہوا۔۔۔ مگر لبنان کے اعلیٰ سرکاری حلقوں نے اس خیال کو محض بعید بلکہ ناممکن قرار دیا ہے۔ لبنان کے صدر نے سرکاری طور پر واضح کیا کہ حزبِ اللہ کو غیر مسلح کرنا ملک کی سیاسی حقیقت اور دفاعی ضرورت کے تناظر میں ممکن نہیں۔ صدر کا مؤقف ہے کہ حزبِ اللہ لبنان کی قومی حقیقت کا حصہ ہے اور اسے ختم کرنے یا غیر فعال کرنے کے مطالبات لبنان کی سالمیت اور عوامی امن کے خلاف جائیں گے۔

واشنگٹن نے لبنان پر دباؤ بڑھانے کے لیے ایک اور راستہ اپنایا۔۔۔ کہا گیا کہ اگر حزبِ اللہ غیر مسلح نہ ہوئی تو اسرائیل کے ساتھ تعاون یا سیاسی دباؤ کے ذریعے لبنان کو سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ واضح دھمکیاں لبنان کے سیاسی استحکام کو مزید خطرے میں ڈالتی ہیں اور خطے میں جنگ کے امکانات بڑھا دیتی ہیں۔ ایسی بلیک میلنگ سے یہ تاثر جنم لیتا ہے کہ طاقتیں علاقائی معاملات کو حل کرنے کے بجائے دھمکی اور جنگ کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔۔۔۔ حالانکہ یہ طریقہ کار نہ تو پائیدار امن لائے گا، نہ ہی عوامی بھلائی کا ضامن بنے گا۔ قریبِ مشرق کی متعدد صحافتی رپورٹس میں بھی اس بات کی تصدیق ملتی ہے کہ حزبِ اللہ نے اپنی دفاعی حیثیت کو مزید مستحکم کرنے کے لیے بڑی سطح پر تیاری کی ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے متعدد رپورٹس میں حزبِ اللہ کی عسکری تیاریوں، نئے اسٹرائیک صلاحیتوں اور دفاعی منصوبہ بندی کے بارے میں نشاندہی کی ہے۔۔۔ جو ظاہر کرتی ہیں کہ لبنان کی مزاحمتی قوتیں کسی بھی بیرونی دباؤ کے جواب میں مضبوطی سے قابو پانے کے لیے تیار ہیں۔

یہ رپورٹس ان دھمکیوں کے پیشِ نظر اہم پیغام دیتی ہیں: حزبِ اللہ اپنی عوامی حمایت اور علاقائی تجربے کی بنیاد پر اپنی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے سنجیدہ دفاعی اقدامات کر رہی ہے اور اس میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔ واشنگٹن کی خواہش ہے کہ عراق میں ایک ایسا سیاسی توازن قائم رہے، جو امریکی مفادات کے مطابق ہو۔ اسی لیے الہول کے جنگجوؤں کی منتقلی، سکیورٹی صورتحال میں ردوبدل اور معلوماتی آپریشنز۔۔۔ سب ایک جامع حکمتِ عملی کا حصہ لگتے ہیں۔ قومی انتخابات سے قبل خوف و دہشت پھیلانے کا مقصد ووٹروں کی سرِ حراستی صورتحال پیدا کرنا ہے، تاکہ عوامی مزاحمتی اور مرجعیت پسند جماعتوں کی سیاسی قوت کمزور پڑ جائے۔ یہ وہی کلاسِک طریقہ ہے، جس کے ذریعے بیرونی قوتیں اندرونی تقاضوں کو متاثر کرکے اپنے سیناریو نافذ کرواتی ہیں۔

موجودہ حالات واضح کرتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کے نام پر چلنے والی پالیسیوں کے پیچھے اکثر سیاستِ تسلط کام کرتی ہے۔ عراق میں داعش کی واپسی جیسی کہانیاں، لبنان میں حزبِ اللہ کے خلاف دباؤ اور یمن میں القاعدہ کو استعمال کرنے کی کوششیں۔۔۔۔ یہ سب ایک مربوط تصویر پیش کرتی ہیں: وہی پرانا جال، نئے حربے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ تاریخی تجربات نے بارہا دکھایا ہے کہ طاقت کے ذریعے امن مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک علاقائی اقوام اپنی خود مختاری، سیاسی وفاق اور عوامی امن کے لیے متحد منصوبہ بندی نہیں کریں گی، تب تک بیرونی طاقتیں اپنی سفارتی اور عسکری حکمتِ عملیاں جاری رکھیں گی۔ لبنان کا صدر جب کہتا ہے کہ حزبِ اللہ کو غیر مسلح کرنا ناممکن ہے، وہ دراصل ایک حقیقت کا اعتراف کر رہا ہے۔۔۔

وہ حقیقت جو واشنگٹن سمجھنے سے قاصر ہے: خطے کی مزاحمتی قوتیں عوامی حمایت اور تاریخی پس منظر کی حامل ہیں، انہیں زباں سے نہیں، پالیسی سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ علاقائی صورتحال بتا رہی ہے کہ امریکہ اپنی عالمی حکمتِ عملی کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف پروکسیز، فوجی حرکات اور سیاسی دباؤ کا استعمال کر رہا ہے۔ مگر اب خطے کے ممالک۔۔۔۔ چاہے ایران، عراق، لبنان، پاکستان یا یمن ہوں۔۔۔۔ اپنی خود مختاری کی حفاظت کے لیے زیادہ باخبر اور منظم ہو رہے ہیں۔ یہ لڑائی محض بندوقوں کی نہیں؛ یہ سیاست، بیداری اور عوامی ارادے کی جنگ ہے۔ جو قومیں اپنی داخلی یک جہتی قائم رکھیں گی، وہی آخر میں اپنی مظلوم انسانیت کے لیے پائیدار امن اور استحکام یقینی بنا سکیں گی۔۔۔۔ نہ کہ وہ لوگ جو "امن" کے نام پر تسلط بیچتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • چین امریکہ بھائی بھائی ، ہندوستان کو بائی بائی
  • بھوک کا شکار امریکہ اور ٹرمپ انتظامیہ کی بے حسی
  • پاکستان، چین اور روس خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کر رہے ہیں، ٹرمپ کا دعوی
  • پاکستان، چین اور روس خفیہ ایٹمی تجربات کر رہے ہیں، ٹرمپ کا دعویٰ
  • عراق میں نیا خونریز کھیل۔۔۔ امریکہ، جولانی اتحاد۔۔۔ حزبِ اللہ کیخلاف عالمی منصوبے
  • کینیڈین وزیرِاعظم نے ٹیرف مخالف اشتہار پر ٹرمپ سے معافی مانگ لی
  • ٹیرف مخالف اشتہار پر امریکی صدر سے معافی مانگی ہے: کینیڈین وزیر اعظم
  • امریکہ نے عالمی امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے‘اعجازقادری
  • امریکہ امن کا نہیں، جنگ کا ایجنڈا آگے بڑھا رہا ہے، ثروت اعجاز قادری
  • خطرناک تر ٹرمپ، امریکہ کے جوہری تجربات کی بحالی کا فیصلہ