بیجنگ :چین کی وزارت تجارت نے یورپی یونین کی جانب سے درآمد کردہ مخصوص مشروبات کے خلاف اینٹی ڈمپنگ تحقیقات پر حتمی فیصلے کا اعلان کیا ، جس کے مطابق 5 جولائی سے یورپی یونین میں تیار کیے جانے والے درآمد شدہ مخصوص مشروبات پر پانچ سالہ اینٹی ڈمپنگ اقدامات نافذ کیے گئے۔ چینی تحقیقاتی اتھارٹی نے یورپی یونین کے 34 اداروں کی درخواستوں کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے جنہوں نے پہلے رضاکارانہ طور پر “پرائس انڈرٹیکنگ” کی درخواستیں جمع کرائی تھیں اوران پر اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی عائد نہیں کی جائےگی۔چونکہ ان 34 کمپنیوں کی جانب سے چین کو برآمد کیے جانے والے مخصوص مشروبات یورپی یونین کی برآمدات کی بڑی اکثریت ہے ،لہذا چین کے فیصلے سے نہ صرف تقریباً 20 ماہ سے جاری اس کشیدہ تجارتی تنازعے کو حل کیا گیا ہے ، بلکہ یہ چین اور یورپی یونین کے مابین بات چیت اور مشاورت کے ذریعے عملی حل کا ایک ماڈل بھی بن گیا ہے۔ اسی روز فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے پیرس میں سی پی سی سینٹرل کمیٹی کے پولیٹیکل بیورو کے رکن اور چینی وزیر خارجہ وانگ ای سے ملاقات کے موقع پر بھی تنازعے کے حل کے لیے چین کے اس طرز عمل کو سراہا۔چین یورپی بالخصوص فرانسیسی مخصوص مشروبات کے لئے نہایت اہم مارکیٹ ہے.
متعلقہ فرانسیسی ایسوسی ایشن کے اعداد و شمار کےمطابق ، اس کی عالمی فروخت کا 25فیصد چین کو جاتا ہے ، اور پوری صنعت میں 4،400 فارم ، 120 فیکٹریاں اور 270 تاجر شامل ہیں ، اور اس سے 15،000 براہ راست ملازمتیں اور 70،000 بالواسطہ ملازمتیں پیدا ہوتی ہیں۔ یوں فرانس کے لئے چین کی بڑی صارفی منڈی کو کھو دینے کا مطلب ہے اپنی صنعتی چین کو شدید نقصان پہنچانا۔ ” پرائس انڈرٹیکنگ ” میکانزم بلاشبہ اس کیس کے حل کے لئے کلیدی کوڈز میں سے ایک ہے۔ پرائس انڈرٹیکنگ ایک برآمد کنندہ کی جانب سے رضاکارانہ طور پر یہ وعدہ ہے کہ اس کی برآمدات کی قیمت ایک طے شدہ لیول سے کم نہیں ہوگی اور یوں یہ برآمدات اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹیز سےبچ جائیں گی ۔ اگست 2024 میں جب چین کی ابتدائی تحقیقات نے اس بات کی تصدیق کی کہ یورپی یونین کی مخصوص مشروبات کی ڈمپنگ کی شرح 27.7فیصد سے 34.9فیصد تک تھی ، تو متعلقہ یورپی یونین کی کمپنیوں نے بروقت ” پرائس انڈرٹیکنگ ” کی درخواستیں جمع کروائیں۔دوسری جانب چین نے اس معاملے سے نمٹنے میں انتہائی تحمل اور خیر سگالی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ابتدائی فیصلے کے اعلان کے بعد چین نے فوری طور پر عارضی اینٹی ڈمپنگ جیسے سخت اقدامات اختیار نہیں کیے بلکہ اس رد عمل کو اسی سال اکتوبر تک ملتوی کر دیا۔ بین الاقوامی طریقہ کار کے مطابق ، عارضی اینٹی ڈمپنگ اقدامات کے نفاذ کے بعد ، یورپی یونین کے متعلقہ کاروباری اداروں کو لین دین کو جاری رکھنے کے لئے “نقد ڈپازٹس” ادا کرنے کی ضرورت تھی اور اگر ڈپازٹس کی ادائیگی ہوتی تو قدرتی طور پر ان کاروباری اداروں کے نقد دباؤ میں ایک بڑا اضافہ ہوتا۔ اس صورت حال کے پیش نظر ،اسی سال نومبر میں چین نے اپنی شرائط میں مزید نرمی کرتے ہوئے ان کاروباری اداروں کو “نقد ڈپازٹس” کو “لیٹر آف گارنٹی” سے تبدیل کرنے کی اجازت دے دی۔ بظاہر معمولی سی ایڈجسٹمنٹ نے اس تجارتی تنازعے میں “ڈی فیکٹو شٹ ڈاؤن” کے امکانات کو ختم کر دیا، جس سے دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت کے لئے قیمتی موقع پیدا ہو گیا۔ حتمی فیصلے کے اعلان کے بعد، چین نے عارضی اینٹی ڈمپنگ اقدامات کو ختم کر کے ڈپازٹس اور لیٹر آف گارنٹی دونوں کو واپس کر دیا ہے، جو بات چیت کے ذریعے تجارتی تنازعات کو حل کرنے میں چین کے خلوص کی عکاسی کرتا ہے.چین نے اتنے تحمل، خیر سگالی اور خلوص کا مظاہرہ کیوں کیا؟ کیا دنیا میں یورپ کا اس سے بہتر کوئی متبادل نہیں ہے؟ نہیں. کیا چین میں کوئی مقامی کمپنی نہیں ہے جو یورپ جیسی مخصوص مشروبات تیار کرسکے؟ نہیں .تو کیا چین طاقت کی کمی کے باعث مجبوری اور کمزوری کا مظاہرہ کر رہا تھا؟ ہرگز نہیں. امریکی ٹیرف غنڈہ گردی سے نمٹنے میں چین کے رویے اور کامیابیوں پر نظر ڈالیں تو یہ ایک نظر میں واضح ہو جائےگا۔چین کے طرز عمل کے پیچھے چین-یورپ معاشی و تجارتی تعلقات کے حوالے سے چین کا “باہمی فائدے اور مشترکہ کامیابی” کا مستقل فلسفہ ہے،بلکہ یہ یورپی یونین کے بارے میں چین کے مجموعی نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے جس کے مطابق چین یورپی یونین کو کثیر الجہتی اور آزاد تجارت کی پاسداری کرنے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد کے بین الاقوامی قواعد اور نظم و نسق کا تحفظ کرنے سمیت دیگر عالمی چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لئے ایک اسٹرٹیجک شراکت دار سمجھتا ہے۔ اس تنازعے کا کامیاب حل چین اور یورپی یونین کے درمیان الیکٹرک گاڑیوں کی اینٹی سبسڈی تحقیقات اور طبی آلات کی سرکاری خریداری سمیت دیگر شعبوں میں تجارتی تنازعات، یہاں تک کہ پوری دنیا میں تجارتی تنازعات کے حل کے لئے ایک مفید حوالہ فراہم کرتا ہے۔ یعنی مساوی بنیادوں پر مکالمہ، لچک اور عملیت پسندی اور اسی طرح کا سیاسی عزم، جو تنازعات کو حل کرنے کی کلید ہے۔چین اور یورپ دنیا کی معیشت کا ایک تہائی سے زیادہ اور دنیا کی تجارت کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ رکھتے ہیں، اور ان کے مابین روزانہ تجارتی حجم اب ماضی میں پورے سال کے کل تجارتی حجم کے برابر ہے. اس سال چین اور یورپی یونین کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 50 ویں سالگرہ ہے ، اور ان کے مابین مفادات کا کوئی بنیادی ٹکراؤ نہیں ہے۔ چین اور یورپی یونین کے تعلقات کی ترقی کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان تعلقات اچھے شراکت دار کے طور پر موجود ہیں،تعاون ان کا مرکزی دھارہ ہے، خودمختاری ان کی کلیدی قدر ہے، اور جیت جیت ان تعلقات کی ترقی کا مستقبل ہے.امید کی جاتی ہے کہ یورپی یونین آئندہ منعقد ہونے والے چین-یورپی یونین سربراہ اجلاس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مستقبل میں چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں عالمی قطب کے طور پر معروضیت، معقولیت، مثبت رویے اور عملیت پسندی کا مظاہرہ کرے گی۔

Post Views: 7
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ:
چین اور یورپی یونین کے
پرائس انڈرٹیکنگ
یورپی یونین کی
مخصوص مشروبات
چین اور یورپ
اینٹی ڈمپنگ
میں چین کے
کا مظاہرہ
کے درمیان
چین یورپ
کے لئے
چین نے
کے بعد
پڑھیں:
اقوام متحدہ کی اسرائیل پر اسلحہ بندش، تجارتی پابندی اور مالی تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جنیوا: اقوام متحدہ میں فلسطینی علاقوں سے متعلق خصوصی نمائندہ فرانچیسکا البانیزے نے اسرائیل پر ’نسل کشی کی مہم‘ چلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل پر اسلحہ کی فراہمی پر پابندی عائد کرے، تجارتی و مالی تعلقات منقطع کرے اور اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والی کمپنیوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے خطاب کرتے ہوئے فرانچیسکا البانیزے نے کہا کہ فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں صورتحال قیامت خیز ہوچکی ہے اور اسرائیل جدید تاریخ کے بدترین نسل کشی کے مظالم کا ذمہ دار ہے۔
فرانچیسکا البانیزے نے اپنے تازہ ترین رپورٹ میں ان 60 سے زائد کمپنیوں کی نشاندہی کی جو ان کے بقول اسرائیلی بستیوں کی تعمیر اور غزہ میں جاری فوجی کارروائیوں میں معاونت فراہم کر رہی ہیں، یہ صرف ایک فہرست نہیں بلکہ ایک منظم نظام ہے، جسے بے نقاب کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔”
انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ اسرائیل پر مکمل اسلحہ پابندی عائد کی جائے، اسرائیل کے ساتھ تمام تجارتی معاہدے معطل کیے جائیں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث کمپنیوں کو قانونی طور پر جوابدہ بنایا جائے۔
اسرائیل نے اقوام متحدہ کی ماہر کی رپورٹ کو “قانونی طور پر بے بنیاد، بدنیتی پر مبنی اور ان کے منصب کا کھلا غلط استعمال” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر عالمی برادری نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو انسانی تاریخ ایک اور سیاہ باب کی گواہ بنے گی۔
خیال رہےکہ اقوام متحدہ کی کونسل میں ان کے خطاب پر شرکاء کی جانب سے زوردار تالیاں بجائی گئیں، جنیوا میں اسرائیلی مشن کی جانب سے تاحال اس بیان پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا جب کہ اسرائیلی نمائندہ اجلاس میں موجود نہیں تھا کیونکہ اسرائیل نے انسانی حقوق کونسل کو “یہودی مخالف تعصب کا شکار” قرار دے کر اجلاسوں کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔
یاد رہے کہ اسرائیل نے غزہ میں اکتوبر 2023 سے جاری فوجی کارروائیوں میں اب تک 57 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا ہے، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، جب کہ لاکھوں افراد بنیادی ضروریات سے محروم ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی اس تازہ پیش رفت نے عالمی برادری کو ایک بار پھر اس مسئلے پر فیصلہ کن اقدامات کی طرف متوجہ کر دیا ہے۔