راولپنڈی میں 86 خستہ حال عمارتیں خطرناک قرار، فوری خالی کروانے کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
ویب ڈیسک: میونسپل کارپوریشن راولپنڈی نے شہر میں 86 بوسیدہ اور خستہ حال عمارتوں کو خطرناک قرار دیتے ہوئے فوری خالی کروانے کا حکم دے دیا۔
خستہ حال عمارتوں کے مالکان کو انخلاء کے نوٹسز جاری کر دیے گئے ہیں۔
نوٹس میں کہا گیا ہے کہ موسلادھار بارش کے باعث بوسیدہ عمارتیں کسی بڑے سانحہ کا سبب بن سکتی ہیں، مالکان کو نوٹسز پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2022 کے تحت جاری کیے گئے ہیں۔
سکولوں کی انسپکشن کرنے والے افسران کی آن لائن مانیٹرنگ کا فیصلہ
مالکان کو ہدایت کی گئی ہے کہ 15 دنوں میں عمارت کی مرمت کروائیں یا مخدوش حصہ گرا دیں، عدم تعمیل کی صورت میں مکینوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
بوسیدہ عمارتیں بھابڑا بازار، لنڈا بازار، سید پوری گیٹ، راجا بازار، موچی بازار، ڈنگی کھوئی اور دیگر علاقوں میں موجود ہیں۔
Ansa Awais Content Writer.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
پاکستان سے نفرت کا دکھاوا بھی کام نہ آیا! یوسف پٹھان کو عدالت نے زمین خالی کرنے کا حکم کیوں دیا؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
گجرات ہائی کورٹ نے ٹرائنا مول کانگریس کے رکنِ پارلیمنٹ اور سابق کرکٹر یوسف پٹھان کو ودوڈارا کے ٹنڈالجا علاقے میں سرکاری زمین پر غیر قانونی قبضے کا مرتکب قرار دیتے ہوئے فوری طور پر پلاٹ خالی کرنے کا حکم جاری کردیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ کوئی بھی شخص، خواہ وہ مشہور شخصیت ہی کیوں نہ ہو، قانون سے بالاتر نہیں ہوسکتا، اور ایسی رعایت دینا غلط نظیر قائم کرے گا۔
یہ تنازعہ 2012 میں شروع ہوا جب ودوڈارا میونسپل کارپوریشن نے یوسف پٹھان کو نوٹس بھیجا کہ وہ سرکاری زمین خالی کریں جسے وہ غیرقانونی طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ پٹھان نے نوٹس کو چیلنج کیا اور معاملہ گجرات ہائی کورٹ تک پہنچ گیا، جہاں ان کی عرضی مسترد کرتے ہوئے انہیں غیرقانونی قابض قرار دیا گیا۔
یوسف پٹھان نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ وہ اور ان کے بھائی عرفان پٹھان معروف کھیل شخصیتیں ہیں اور سیکیورٹی خدشات کی بنا پر انہیں یہ پلاٹ خریدنے دیا جائے، مگر ریاستی حکومت نے 2014 میں یہ درخواست رد کر دی تھی۔
عدالت نے فیصلے میں مزید کہا کہ عوامی نمائندے اور مشہور شخصیات چونکہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں، اس لیے ان پر قانون کی پابندی کی ذمہ داری عام شہریوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اگر انہیں قانون سے استثنیٰ دیا گیا تو اس سے عدالتی نظام پر عوام کا اعتماد مجروح ہوگا۔