اسلام آباد، سندھ اور پشاور ہائی کورٹس کے نئے چیف جسٹسز نے حلف اٹھا لیا
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ میں قیادت کی نئی صف بندی مکمل ہو گئی ہے، جہاں 3 اہم ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز نے اپنے عہدوں کا باضابطہ حلف اٹھا لیا۔ حلف برداری تقریبات میں سیاسی، عدالتی اور سفارتی حلقوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے نئے چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر کی حلف برداری کی تقریب ایوانِ صدر میں منعقد ہوئی، جہاں صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے اُن سے حلف لیا۔ یہ تقریب ایک رسمی مگر باوقار ماحول میں انجام پائی جس میں ملک کی ممتاز شخصیات شریک ہوئیں، جن میں چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز، وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی، اور دیگر کئی نامور وکلا اور ججز شامل تھے۔
دوسری جانب کراچی میں سندھ ہائی کورٹ کے نئے چیف جسٹس محمد جنید غفار نے اپنے منصب کا حلف گورنر ہاؤس میں لیا۔ اس موقع پر گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے اُن سے حلف لیا، جب کہ چیف سیکرٹری آصف حیدر شاہ نے تعیناتی کا نوٹیفکیشن باقاعدہ طور پر پڑھ کر سنایا۔
تقریب میں نہ صرف عدلیہ سے وابستہ افراد بلکہ سندھ حکومت کے اہم عہدیدار، کاروباری شخصیات، اور غیر ملکی سفیروں نے بھی شرکت کی ۔ جسٹس جنید غفار کو سندھ ہائی کورٹ کے 26ویں چیف جسٹس کی حیثیت حاصل ہوئی ہے۔
اُدھر خیبرپختونخوا کے گورنر ہاؤس میں بھی ایک پروقار تقریب منعقد ہوئی، جہاں جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے پشاور ہائی کورٹ کے نئے چیف جسٹس کے طور پر اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے ان سے حلف لیا۔
اس موقع پر وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور، وفاقی وزیر سیفران امیر مقام، اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد اللہ، صوبائی وزرا، اور مختلف سرکاری و عدالتی اداروں کے سربراہان موجود تھے۔ تقریب کے دوران گورنر، وزیراعلیٰ اور دیگر سیاسی شخصیات نے ایک دوسرے سے غیر رسمی گفتگو بھی کی، جس میں باہمی دلچسپی کے امور زیر بحث آئے۔
ان تمام تقرریوں کی منظوری رواں ماہ کی یکم جولائی کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں دی گئی تھی، جس میں سردار سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائی کورٹ، محمد جنید غفار کو سندھ ہائی کورٹ، اور ایس ایم عتیق شاہ کو پشاور ہائی کورٹ کا نیا چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔
ساتھ ہی بلوچستان ہائی کورٹ کے لیے جسٹس روزی خان کو بھی منظوری دی گئی تھی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے نئے چیف جسٹس ہائی کورٹ کے
پڑھیں:
جسٹس محسن اختر کیانی نے اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات نہ ہونے پر سوال اٹھا دیا
جسٹس محسن اختر کیانی—فائل فوٹوزاسلام آباد ہائی کورٹ میں سی ڈی اے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کا تذکرہ ہوا۔
عدالتِ عالیہ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قانون کے مطابق تمام اختیارات سی ڈی اے سے ایم سی آئی کو منتقل ہونا تھے، جو کچھ سی ڈی اے بورڈ کر رہا ہے، یہ لوکل گورنمنٹ کے ادارے نے کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ایک، ایک روپے کے استعمال کا اختیار لوکل گورنمنٹ کا ہے، آئین کہتا ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے اپنا اختیار استعمال کریں گے، ہائی کورٹ نے 4، سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ دیا لیکن حکومت نے اسلام آباد میں بلدیاتی الیکشن نہیں ہونے دیے۔
جسٹس محسن کیانی نے سوال کیا کہ مجھے پاکستان کا کوئی ایک ادارہ بتائیں جو اپنا کام ہینڈل کرنے کے قابل رہا ہو؟ مجھے عدالتوں سمیت کوئی ایک ادارہ بتادیں جو وہ کام کر رہا ہو جو ان کو کرنا چاہیے تھا۔
اسلام آباد چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے...
انہوں نے استفسار کیا کہ آپ نے ماتحت عدالتوں کی حالت دیکھی ہے؟ کوئی ادارہ اس قابل نہیں رہا کہ اپنا کام کر سکے، ہمارا جذبہ ہی ختم ہو چکا ہے، کسی کو احساس ہے کہ 25 کروڑ عوام کس طرح زندگی گزار رہے ہیں؟
جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ گورننس کے سنجیدہ ایشوز ہیں، جو کام عوامی نمائندوں کے کرنے والے تھے وہ عدالتیں کر رہی ہیں، اگر کسی کو سوٹ کرتا ہو تو کہتے ہیں کہ سسٹم چلتا رہے، اگر قانون کسی کو سوٹ نہ کرے تو قانون کو ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے۔
ان کا ریمارکس میں کہنا ہے کہ اب کیونکہ کسی کو سوٹ نہیں کرتا تو 5 سال بلدیاتی انتخابات نہیں ہونے دیے گئے، کیا اسلام آباد کے لوگوں کا حق نہیں کہ ان کے منتخب نمائندے ان کے فیصلے کریں؟
جسٹس محسن اخترکیانی کا کہنا ہے کہ اگر کچھ بھی غیر قانونی ہو تو عدالتوں کے پاس جایا جاتا ہے اور اس وقت عدالتوں کی حالت دیکھ لیں، جوکچھ عام آدمی کے ساتھ ہو رہا ہے وہی سب ججز کے ساتھ بھی ہو رہا ہے، جو کچھ اس وقت ہو رہا ہے وہ بہت ہی بد قسمتی کی بات ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے اس پر دعا ہی کی جا سکتی ہے، ہر کسی کو اپنا کام کرنا چاہیے، غلطیاں سب سے ہوتی ہیں لیکن بدنیتی نہیں ہونی چاہیے۔