اسلام ٹائمز: گھات لگا کر حملوں کی کامیابی کا راز محدود پیمانے پر افراد کا استعمال اور دشمن پر اچانک وار کرنے میں پوشیدہ ہے۔ یوں حماس کو غزہ کے تمام علاقوں میں اپنے مجاہدین تعینات کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ فلسطینی مجاہدین موقع پا کر تیزی سے دشمن پر حملہ کرتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہاں سے غائب ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف صیہونی فوجی جب تک سنبھلتے ہیں اس وقت تک فلسطینی مجاہدین اپنی کاروائی مکمل کر کے جا چکے ہوتے ہیں۔ اس طرح صیہونی فوجی گویا بھوتوں کے خلاف لڑ رہے ہیں اور انہیں معلوم نہیں ہوتا مجاہدین کس وقت اور کہاں ان پر حملہ ور ہوں گے۔ اس نے صیہونی فوجیوں کو شدید نفسیاتی دباو کا شکار کر کے ان کے حوصلے پست کر دیے ہیں۔ وہ ہر وقت حملے کے خوف کا شکار ہوتے ہیں اور اس خوف نے انہیں مار ڈالا ہے۔ تحریر: علی احمدی
غزہ پر غاصب صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت کے 737 ویں دن بیت حانون کے علاقے میں فیصلہ کن معرکہ ہوا جس میں صیہونی فوج کا سیکنڈ لیفٹیننٹ بنجمن ایسولین، جو اپنے افراد کے ساتھ گشت کر رہا تھا مارا گیا۔ اب تک اس علاقے میں حماس کئی بار چھاپہ مار کاروائیاں انجام دے چکی ہے۔ یہ علاقہ اسٹریٹجک لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں عام طور پر صیہونی فوج گشت زنی کرتی رہتی ہے لیکن اس بار حماس کے ملٹری ونگ شہید عزالدین قسام بٹالینز نے ایک جان لیوا حملہ کیا اور صیہونی فوج کو بڑے جانی نقصان کا شکار کر دیا۔ مقامی ذرائع کے بقول پہلے ایک اسرائیلی ٹینک کو بم سے نشانہ بنایا گیا اور اس کے بعد جب امدادی ٹیمیں وہاں پہنچیں تو یکے بعد از دیگرے کئی بم دھماکے ہوئے جو پہلے سے نصب کئے گئے بموں کے ذریعے انجام پائے تھے۔
یوں چار بم دھماکے ہوئے اور ساتھ ہی حماس کے مجاہدین نے اسرائیلی فوجیوں پر فائرنگ کر دی۔ صیہونی ذرائع ابلاغ کے بقول یہ اب تک کا شدید ترین حملہ تھا جو نتسح یہودا یونٹ کے خلاف انجام پایا۔ یہ یونٹ اس سے پہلے مغربی کنارے میں بھی فلسطینیوں پر ظلم و ستم کرنے میں ملوث رہی ہے اور اس کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات بھی ہیں۔ حماس کی اس چھاپہ مار کاروائی نے صیہونی فوج کو شدید مشکل میں ڈال دیا اور آخرکار اسرائیلی جنگی طیارے ان کی نجات کے لیے آنے پر مجبور ہو گئے لیکن فائرنگ اور جھڑپوں کا سلسلہ صبح تک جاری رہا۔ صیہونی فوج نے اس معرکے میں 5 فوجیوں کی ہلاکت اور 14 فوجیوں کے زخمی ہونے کا اعتراف کیا ہے لیکن یوں دکھائی دیتا ہے کہ جانی نقصان اس سے کہیں زیادہ ہے۔
فوجی طاقت کے بل بوتے پر مقاومت کچل دینے کی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے۔ طوفان الاقصی آپریشن کے بعد صیہونی حکمرانوں نے غزہ میں سرگرم اسلامی مزاحمتی فورسز کو فوجی طاقت کے بل بوتے پر کچل دینے کی حکمت عملی اختیار کی تھی جو پوری طرح ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت اسلامی مزاحمت پر ہر طرف سے شدید دباو ڈالا گیا اور اسے مکمل طور پر ختم کر دینے کی کوشش کی گئی۔ لہذا صیہونی جنگی مشینری نے وسیع سطح پر غزہ میں داخل ہو کر خان یونس اور جبالیا سمیت وسیع علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ دوسری طرف حماس کے ملٹری ونگ شہید عزالدین قسام بٹالینز نے اپنا نقصان کم از کم کرنے کے لیے چھاپہ مار کاروائیوں کی حکمت عملی اختیار کی۔ وہ گھات لگا کر حملے کرتے ہیں اور یوں صیہونی فوج پر کاری ضرب لگاتے ہیں۔
گھات لگا کر حملوں کی کامیابی کا راز محدود پیمانے پر افراد کا استعمال اور دشمن پر اچانک وار کرنے میں پوشیدہ ہے۔ یوں حماس کو غزہ کے تمام علاقوں میں اپنے مجاہدین تعینات کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ فلسطینی مجاہدین موقع پا کر تیزی سے دشمن پر حملہ کرتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہاں سے غائب ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف صیہونی فوجی جب تک سنبھلتے ہیں اس وقت تک فلسطینی مجاہدین اپنی کاروائی مکمل کر کے جا چکے ہوتے ہیں۔ اس طرح صیہونی فوجی گویا بھوتوں کے خلاف لڑ رہے ہیں اور انہیں معلوم نہیں ہوتا مجاہدین کس وقت اور کہاں ان پر حملہ ور ہوں گے۔ اس نے صیہونی فوجیوں کو شدید نفسیاتی دباو کا شکار کر کے ان کے حوصلے پست کر دیے ہیں۔ وہ ہر وقت حملے کے خوف کا شکار ہوتے ہیں اور اس خوف نے انہیں مار ڈالا ہے۔
صیہونی رژیم نے غزہ میں ایک نئی چال چلی ہے اور وہاں اپنے ایجنٹوں کو حماس کے خلاف سرگرم عمل کر دیا ہے۔ غزہ میں بدنام زمانہ اسمگلر یاسر ابوشباب کو اسلحہ فراہم کر کے اس کے گروہ کو "عوامی محاذ" کا نام دے دیا گیا ہے۔ یہ غزہ میں دشمن کا ففتھ کالم ہے جو فلسطینی مجاہدین کے خلاف غداری کا مرتکب ہو رہا ہے۔ یاسر ابوشباب کا تعلق ترابین نامی خانہ بدوش قبیلے سے ہے جو صحرائے نقب اور سینا میں مقیم ہیں۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران حماس کے مجاہدین نے اس گروہ کے خلاف بھی متعدد کاروائیاں کیں ہیں اور اس کے 50 افراد کو واصل جہنم کیا ہے۔ سیکورٹی امور کے تجزیہ کار اینڈریاس کریگ اس بارے میں لکھتے ہیں: "اگرچہ اہل غزہ کی اکثریت کی نظر میں عوامی محاذ نامی گروہ ایک مجرم اور غیرقانونی گروہ ہے لیکن اس گروہ کا اصلی مقصد مزاحمتی فورسز کو نقصان پہنچانا ہے۔"
تل ابیب کے سیکورٹی پالیسی میکرز اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ غزہ میں حماس کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ خود اسرائیل کے قیام سے پہلے صیہونی جتھے جیسے ہاگانا، لحی اور ایرگون چھاپہ مار کاروائیاں انجام دیتے رہے ہیں اور انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ زیر زمین گروہ کا خاتمہ ناممکن ہے۔ لہذا اب وہ حماس کو محدود کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور یہ کہ مکمل خاتمے کی بجائے حماس کو اتنا کمزور کر دیا جائے کہ وہ اسرائیل کے لیے خطرہ نہ بن سکے۔ لہذا اب وہ کوئی بھی ایسی جنگ بندی قبول نہیں کریں گے جس کے نتیجے میں غزہ کی پٹی پر حماس کی حکومت دوبارہ برقرار ہو جائے اور اس کی طاقت بحال ہو جائے۔ اس کام کے لیے وہ خطے کے عرب حکمرانوں سے تعاون حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صیہونی حکمران غزہ میں جاری عربی عبری ٹکراو کو عربی عربی ٹکراو میں تبدیل کرنے کی سازش بنا رہے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فلسطینی مجاہدین صیہونی فوجی رہے ہیں اور صیہونی فوج حکمت عملی چھاپہ مار ہوتے ہیں پر حملہ کا شکار کے خلاف کرنے کی حماس کے حماس کو اور اس کے لیے
پڑھیں:
فلسطینی قیدی پر اسرائیلی تشدد؛ ویڈیو لیک کرنے پر 2 اعلیٰ افسران گرفتار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسرائیلی فوجیوں کی فلسطینی قیدی کے ساتھ غیر انسانی سلوک اور بہیمانہ تشدد کی ویڈیو لیک کرنے کے اسکینڈل پر چیف پراسیکیوٹر اور ملٹری لا آفیسر کو حراست میں لے لیا گیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی فوج کے چیف پراسیکیوٹر کرنل ماتن سولوموش پر الزام تھا کہ انھوں نے فوجی قانونی سربراہ میجر جنرل یفعات تومر یروشلمی کا کردار چھپانے میں مدد کی تھی۔
میجر جنرل یفعات تومر یروشلمی نے فلسطینی قیدیوں پر اسرائیلی فوجیوں کے تشدد کی سی سی ٹی وی فوٹیجز کو لیک کرنے کی اجازت دی تھی اور اپنے اس جرم کا اعتراف کرتے ہوئے عہدے سے استعفیٰ بھی دیدیا تھا۔
یہ ویڈیو اسرائیل کے سدے تیمن کے فوجی حراستی مرکز کی تھی جس میں اہلکاروں کو چند قیدیوں پر تشدد کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ویڈیو میڈیا کو فراہم کی گئی تھی۔
اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ چیف پراسیکیوٹر سولوموش کو گزشتہ رات مستعفی ہونے والی تومر یروشلمی کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔
عدالت میں پولیس کے نمائندے نے بتایا کہ چیف پراسیکیوٹر سولوموش کو پہلے سے علم تھا کہ ویڈیو لیک کرنے میں ملٹری لا آفیسر تومر یروشلمی ملوث ہیں لیکن انھوں نے اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی۔
جس پر چیف پراسیکیوٹر سولوموش کے وکیل ناتی سمخونی نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل کو اس بات کا علم اپنا بیان جمع کرانے کے کافی بعد میں ہوا تھا۔
وکیل کا مزید کہنا تھا کہ سولوموش اُس ٹیم کا حصہ بھی نہیں تھے جو تومر یروشلمی نے واقعے کی ابتدائی تحقیقات کے لیے بنائی تھی جس میں بریگیڈیئر جنرل گل اسائل اور ڈپٹی اسٹیٹ پراسیکیوٹر آلون آلٹمین شامل تھے۔
اُن کے بقول اس ٹیم نے 25 ستمبر کو اسرائیلی سپریم کورٹ میں ویڈیو لیک سے متعلق رپورٹ جمع کرائی تھی، جس میں تومر یروشلمی کا نام شامل نہیں کیا گیا تھا۔ اس وقت سولوموش اپنی مدتِ ملازمت مکمل کر کے عہدے سے جا چکے تھے۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ اگر سولوموش کو رہا کیا گیا تو وہ جاری تحقیقات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ عدالت نے ان کی حراست بدھ دوپہر تک بڑھا دی۔
اسی طرح، پولیس نے تومر یروشلمی کی حراست میں پانچ دن کی توسیع کی درخواست کی تھی، تاہم تل ابیب مجسٹریٹ کورٹ کی جج شیلی کوٹین نے اسے تین دن تک محدود کر دیا۔
تومر یروشلمی پر فراڈ، اعتماد شکنی، شواہد میں رکاوٹ ڈالنے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات ہیں۔
تومر یروشلمی کے وکیل ڈوری کلاگسبلاد نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ ان کی موکلہ بے گناہ ہیں اور پولیس کے پاس پہلے ہی دیگر مشتبہ افراد سے حاصل کردہ کافی شواہد موجود ہیں۔
پس منظر:
یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب اسرائیلی میڈیا میں سدے تیمن فوجی حراستی مرکز کی وہ ویڈیو لیک ہوئی جس میں مبینہ طور پر اسرائیلی فوجی غزہ کے قیدی کو تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے۔
ویڈیو کے منظرعام پر آنے کے بعد اسرائیل میں فوجی طرزِ عمل پر سخت تنقید ہوئی، اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے فوجی زیادتیوں کا ثبوت قرار دیا۔
تومر یروشلمی، جو اُس وقت فوجی ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر فائز تھیں، نے بعد ازاں اعتراف کیا کہ ویڈیو انھوں نے خود لیک کی تاکہ فوجی زیادتیوں کو بے نقاب کیا جا سکے۔
جس کے بعد تومر یروشلمی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اب انھیں حراست میں لے لیا گیا ہے۔
پولیس اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا فوج کے دیگر اعلیٰ افسران، خصوصاً سولوموش، نے اس عمل کو چھپانے یا کم کرنے کی کوشش تو نہیں کی۔