پاکستانی کرکٹرز ایک دوسرے کو کن مزاحیہ ناموں سے پکارتے ہیں؟ رازفاش
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
سلمان علی آغا نے پی سی بی کے جاری کردہ ایک دلچسپ انٹرویو میں بتایا کہ پاکستانی کرکٹرز ایک دوسرے کو کس کس مزاحیہ نام سے پکارتے ہیں۔
سلمان نے کہا کہ صائم ایوب کو “نولک شاٹ” کہا جاتا ہے، جبکہ سعود شکیل کا نک نیم “چوڑا” ہے کیونکہ اس کا ایٹی ٹیوڈ بہت منفرد اور نیکسٹ لیول ہے۔ بابر اعظم نے سعود کا نام “چھوٹا ڈان” رکھا تھا۔
فخر زمان کو کرکٹرز “فوجی” کہہ کر پکارتے ہیں، جبکہ شاداب خان کا مزاحیہ نام “شیدی” ہے اور بابر اعظم کو سب “بوبی” کہتے ہیں۔ محمد نواز کا ایک الگ ہی انداز ہے، وہ سلمان علی آغا کو “سولمن” کہہ کر بلاتے ہیں۔
سلمان علی آغا نے یہ بھی بتایا کہ اگر آخری اوور میں چھ رنز درکار ہوں، تو وہ حسن نواز کو بیٹنگ کے لیے بھیجیں گے، کیونکہ اس نے پی ایس ایل میں ایسا کرکے دکھایا تھا۔
Post Views: 9.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
گندم اسکینڈل: ن لیگ و پی ٹی آئی کے ایک دوسرے پر الزامات
عظمیٰ بخاری اور بیرسٹر سیف—فائل فوٹوزگندم اسکینڈ ل پر مسلم لیگ ن اور تحریکِ انصاف ( پی ٹی آئی) نے ایک دوسرے پر الزامات لگا دیے۔
مشیرِ اطلاعات خیبر پختون خوا بیرسٹر محمد علی سیف اور وزیرِ اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے گندم اسکینڈل پر ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری کی ہے۔
بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ آڈٹ رپورٹ پر خاموشی پنجاب میں لوٹ مار اور کرپشن کا واضح ثبوت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت 10 کھرب روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا جواب دینے سے قاصر ہے۔
عظمیٰ بخاری نے جوابی وار کیا اور کہا کہ بیرسٹر سیف آڈٹ رپورٹ غور سے پڑھیں اس میں آپ کی قیادت کا کچا چٹھا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ بیرسٹر سیف جس آڈٹ رپورٹ کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں، وہ رپورٹ عثمان بزدار اور پرویز الہٰی کے دور کی ہے۔
وزیرِ اطلاعات پنجاب نے کہا کہ جس 10 کھرب کا آپ واویلا کر رہے وہ 2018ء سے 2023ء کی گندم خریداری اور سبسڈی کا ہے، اُس وقت پنجاب میں کسی کی حکومت تھی قوم جانتی ہے۔
یاد رہے کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں تصدیق کی گئی ہے کہ وفاقی حکومت کا 300 ارب روپے کی گندم امپورٹ کرنے کا فیصلہ بدنیتی پر مبنی تھا، جو ناقابلِ اعتماد ڈیٹا کی بنیاد پر کیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مالی سال 24-2023ء میں گندم امپورٹ کرنے کا فیصلہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ان دانستہ تاخیری اقدامات کا نتیجہ ہے، جس سے نجی شعبے کو فائدہ جبکہ گندم کے کاشت کاروں اور قومی خزانے کو نقصان پہنچا۔
رپورٹ کے مطابق جس سال یہ گندم امپورٹ کی گئی اس سال ملکی تاریخ میں گندم کی سب سے زیادہ پیداوار ہوئی تھی، وافر اسٹاک ہونے کے باوجود قومی طلب کے اندازے کو جان بوجھ کر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق حکومت نے منظوری 24 لاکھ میٹرک ٹن امپورٹ کی دی، امپورٹ 35 لاکھ ٹن سے زائد کر لی۔
آڈیٹر جنرل کی یہ رپورٹ بدنامِ زمانہ گندم اسکینڈل کی سنگینی کی سرکاری طور پر تصدیق ہے۔
پنجاب اور سندھ نے کم گندم جاری کر کے مصنوعی قلت اور قیمتوں میں اضافے کے اسباب پیدا کیے۔