’’ ہوش میں لائے مرا ہوش اڑانے والے‘‘
اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT
ایک زمانے میں اچانک ہمیں احساس ہوا کہ ہمارے اندر تو بے شمار سقراط، بقراط، ارسطو اور افلاطون بیٹھے ہوئے ہیں۔ کیوں نہ ان کوکام پر لگادیں، سو ہم نے’’مشر‘‘ یعنی جرگہ مار اور اصلاح کار کا دھندہ شروع کردیا جہاں کچھ تو تو میں میں ہو جاتی، کوئی تنازعہ پیدا ہوجاتا، لڑائی جھگڑے کے امکانات نظر آتے، ہم بیچ میں کود کر فریقین کو شانت کردیتے اور کافی مغزکھپائی کے بعد ان کے درمیان صلح کروا کر گلے ملوا دیتے۔ اس طرح کوئی آٹھ دس کارنامے کر کے ہم مونچھوں کو تاؤ دینے لگے ’’کہ ہمو دیگرہست‘‘ ہمارا خیال تھا کہ گاؤں میں ہماری نیک شہرت ہوگئی۔
نام حافظ رقم نیک پزیرفت ولے
پیش رنداں رقم سود وزیاں ایں ہمہ نیست
ترجمہ: (حافظ کا نام نیک شہرت میں مشہور ہوگیا ہے لیکن رندوں کی نظر میں نیکی کچھ اور ہے۔) ہمارا خیال تھا کہ جن لوگوں کو ہم نے جھگڑے، لڑائی اور تباہی سے بچایا ہے، وہ ہمارے ممنون احسان ہوں گے لیکن آہستہ آہستہ معلوم ہوا کہ وہ تو الٹا ہم پر احسان لادے ہوئے ہیں، جیسے آپ نے بیچ میں پڑ کر ہمارے مخالفین کو بچایا ورنہ ہم تو ان کے کشتوں کے پشتے لگانے والے تھے۔
یہ تو آپ کی خاطر تھا ورنہ ہم تو مخالفین کو توپ دم کرنے والے تھے، ملیا میٹ کرنے والے تھے، نام ونشان مٹانے والے تھے، آپ کی خاطر، آپ کی وجہ سے، آپ کی لاج کے لیے، آپ کا لحاظ کرکے مطلب سب کا یہی جواب تھا کہ ہم نے بیچ میں کود کر ان کو روک دیا ورنہ وہ فریق ثانی کا حشرنشر کرنے والے تھے اور ان لوگوں نے ہماری عزت کے لیے، ہمارے احترام کی خاطر، ہمارا منہ دیکھ کر بڑی قربانی دی ہے۔
سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ ماجرا کیا ہے۔ اگر ہم بیچ بچاؤ نہ کراتے تو یہ لوگ آج ایک لمبی دشمنی میں پڑ کر تباہ و برباد ہوچکے ہوتے لیکن یہ ہمارا احسان ماننے کے بجائے الٹے ہم پر سوار ہورہے ہیں حالانکہ ہر تنازع چکانے میں ہمیں دانتوں پسینے آجاتے تھے۔ کئی دنوں تک دونوں فریقوں کے ساتھ مغزکھپائی، منت سماجت اور پھر اپنے ڈیرے پر صلح کے وقت کھانے پینے کے انتظامات اور نتیجہ یہ؟ جسے سمجھے تھے، انناس وہ عورت نکلی۔
آخر ہم نے گاؤں کے ایک سینئر’’مشر‘‘ اور جرگہ مار بزرگ سے رجوع کیا جو نہ صرف گاؤں بلکہ آس پاس کے علاقے میں بھی مشہور تھے۔ ہم نے سنا تھا کہ وہ جرگوں میں کچھ نہیں بھی کرتے، جو فریق اسے اپنا وکیل اور نمایندہ چنتا اسی کو چونا لگا دیتا تھا کیونکہ درپردہ دوسرے فریق سے کچھ ’’طے پا‘‘ کردیتا تھا، پھر تھانہ کچہری میں بھی اپنی جیب گرم کرتا تھا اور آخر میں تحفے تحائف بھی وصول کرتا۔ کسی سے چارہ، کسی سے غلہ، کسی سے ایندھن، کسی سے دُنبہ یا بھیڑ بکری یا بچھڑا، کٹٹرا وغیرہ خود ہی کھینچ لیتا تھا۔
ہم نے اپنا مسئلہ بتایا تو خوب ہنسا۔ چارپائی پر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا اور تکیے کو اپنے رانوں اور سینے کے درمیان دباتے ہوئے بولا، بیٹھو، میں تمہیں سمجھاتا ہوں۔ پھر بولے، تمہارا سب کچھ ٹھیک ہے لیکن ٹائمنگ غلط ہے۔ تفصیل چاہی تو بولا، تم جب کسی کو دیکھتے ہو کہ وہ آگے چل کر کنوئیں میں گرنے والا ہے تو دوڑ کر گرنے بلکہ کنوئیں سے بھی اکثر دور اسے پکڑ کر بچالیتے ہو۔ وہ کہتا ہے میں کب کنوئیں میں گرنے والا تھا، میں کوئی اندھا تو نہیں جو کنوئیں کو دیکھ نہ لیتا، میں کنوئیں کو دیکھ رہا تھا اور اس سے بچ کر چلا جاتا، آپ نے خوامخوا مجھے پکڑ لیا، میں کوئی بے وقوف ہوں جو کنوئیں میں گرجاتا۔
بلکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ تم پر یہ الزام لگائے کہ تم مجھے کنوئیں میں گرانا چاہتے تھے۔ تھوڑا رک کر اس نے کہا۔ لیکن ہم ایسا نہیں کرتے، ہم اچھی طرح دیکھتے ہیں کہ وہ کنوئیں میں گر رہا ہے، اسے گرنے دیتے ہیں بلکہ اگر ممکن ہو تو ہلکا سا دھکا بھی دے دیتے ہیں۔ جب وہ کنوئیں میں گرجاتا ہے، چند غوطے لگتے ہیں اور وہ بچاؤ بچاؤ چلانے لگتا ہے تو ہم اوپر سے جھانک کر کہتے ہیں، تیرتے رہو، ہم ابھی رسی لاتے ہیں یا لوگوں کو بلاتے ہیں، تم تیرتے رہنا، ہاں ڈوبنا مت، لگے رہو، ہمت رکھو، تیرو، تیرتے رہو۔
پھر کنوئیں سے ہٹ کر انتظار کرتے ہیں کہ وہ خوب خوب غوطیکھائے ، تیر کر تھک جائے، پانی پیٹ کے اندر چلا جائے، تب ہم رسی لٹکا کر اس کو کھینچ کر باہر لے آتے ہیں۔ موت اور ڈوبنے کے قریب ہونے اور پھر بچائے جانے کی وجہ سے وہ ہمارا غلام ہوجاتا ہے، ہمیشہ احسان مانتا ہے اور کہتا پھرتا ہے کہ آپ نے بچا لیا نہ ہوتا تو آج… تھوڑا رک کر وہ بولے، سمجھ گئے نا آپ… وقت دیکھ کر تنازعہ میں کودو۔ اور میں سمجھ گیا۔
نہ صرف وہ بلکہ یہ بھی کہ لوگ امریکا وغیرہ کے اتنے گن کیوں گاتے ہیں کیونکہ وہ بھی اس بزرگ کی طرح پہلے گراتا ہے یا گرتے ہوئے دیکھتا ہے اور صحیح موقع پر مددگار بنتا ہے لیکن تھوڑا یہ فرق ہے کہ وہ بزرگ تو پھر بھی ’’بچا‘‘ لیتا تھا۔ دیکھتے ہیں کہ کشمیر کے کنوئیں میں گرائے جانے والوں کے ساتھ وہ اب کیا کرتا ہے، کیسے بچاتا ہے اور کس لیے بچاتا ہے یا کس حد تک بچاتا ہے اور کتنی قیمت وصول کرکے بچاتا ہے یا پھر بچاتا بھی ہے یا نہیں۔ کہیں ایک کنوئیں سے نکال کر کسی دوسرے… اس سے بھی گہرے کنوئیں میں تو نہیں پھینکنے والا۔ بہرحال یہ تو طے ہے کہ دنیا میں کوئی خدا واسطے کچھ بھی نہیں کرتا، جو کچھ بھی کرتا ہے، ترازو میں تول کر کرتا ہے:
ہوش میں لائے مرا ہوش اڑانے والے
اب بچائیں گے مجھے زہر پلانے والے
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بچاتا ہے والے تھے تھا کہ ہے اور
پڑھیں:
ژوب واقعے کا مقدمہ مقامی تھانے میں درج، فضا سوگوار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور(آن لائن) بلوچستان کے ضلع ژوب میں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے 9 پنجابی مسافر سپرد خاک کر دیے گئے، مقتولین کا مقدمہ ژوب کے تھانے میں درج کر دیا گیا۔ بلوچستان میں دہشت گردوں نے بسوں سے اتار کر پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو شہریوں کو بے دردی سے
قتل کر دیا تھا، شہداء کی میتیں سخت سیکورٹی میں ان کے آبائی علاقوں کو منتقل کی گئیں، جہاں انہیں لواحقین کے حوالے کیا گیا، دنیاپور میں جب دو بھائیوں عثمان اور جابر کے جنازے ایک ساتھ اٹھے تو علاقے میں کہرام مچ گیا، نماز جنازہ میں اہل علاقہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ سانحہ نے اہل علاقہ کو غم سے نڈھال کر دیا جنہوں نے حکومت سے فوری انصاف کا مطالبہ کیا۔
ژوب