تحریک کی کامیابی کے اثرات سامنے آنا شروع ہو چکے، پی ٹی آئی کا وزرا کے بیانات پر ردعمل
اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف نے مسلم لیگ (ن) کے وزرا کے حالیہ بیانات کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ پارٹی کی تحریک کے اعلان کے ساتھ ہی اس کی کامیابی کے اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔
پی ٹی آئی کے ترجمان شیخ وقاص اکرم نے کہاکہ لیگی وزرا کی جانب سے جاری بیانات اس بات کی علامت ہیں کہ پنجاب اور مرکز میں ’مینڈیٹ چوری‘ کے ذریعے اقتدار پر قابض عناصر میں شدید بےچینی اور خوف پایا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کی رہائی کی تحریک کہاں سے اور کیسے چلے گی؟ عالیہ حمزہ نے پارٹی قیادت کی حکمت عملی پر سوال اٹھا دیا
انہوں نے الزام عائد کیا کہ حکمران جماعت اپنے خوف پر قابو پانے کے لیے کٹھ پتلیوں کے درباریوں اور وفاداروں کو میڈیا پر ’صدا گری‘ کے لیے میدان میں اتار رہی ہے، جب کہ حکومتی مشینری ایک طرف اپنی بقا کے لیے دعائیں مانگ رہی ہے اور دوسری جانب عوام کو گمراہ کرنے کی سازشیں تیار کررہی ہے۔
ترجمان نے مزید کہاکہ جو تباہی ملک اور قوم پر مسلط کی گئی ہے، وہ خود ان کے چہروں سے ان کے مکروہ عزائم کو عیاں کررہی ہے۔ عوام اب جان چکے ہیں کہ یہ گروہ صرف جبر، ظلم اور فسطائیت کے بل بوتے پر اقتدار میں ہے، انہیں عوامی مینڈیٹ حاصل نہیں۔
شیخ وقاص اکرم کا کہنا تھا کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی رہائی نہ صرف آئینی اور قانونی تقاضا ہے بلکہ جمہوریت کی بقا کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ ان کے بقول موجودہ ’غاصب حکومت‘ ہر ممکن حربہ استعمال کررہی ہے تاکہ عمران خان کو قید میں رکھا جا سکے، لیکن قوم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ آئین، عدلیہ اور میڈیا کو یرغمال بنانے کی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی نے 26ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والے 5 اراکین قومی اسمبلی کو پارٹی سے نکال دیا
واضح رہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے گزشتہ رات لاہور میں حکومت مخالف تحریک کا اعلان کرتے ہوئے الٹی میٹم دیا کہ 90 روز میں عمران خان کو رہا کیا جائے ورنہ آر یا پار ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews پاکستان تحریک انصاف پی ٹی آئی ترجمان پی ٹی آئی حکومت مخالف تحریک شیخ وقاص اکرم وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان تحریک انصاف پی ٹی ا ئی ترجمان پی ٹی ا ئی حکومت مخالف تحریک شیخ وقاص اکرم وی نیوز پی ٹی ا ئی کے لیے
پڑھیں:
’’ سیاسی بیانات‘‘
پی ٹی آئی کی طرف سے بنائی گئی تحریک تحفظ آئین کے سربراہ، بلوچستان سے قومی اسمبلی کے رکن اور ماضی میں شریف فیملی سے نہایت قریبی تعلق رکھنے والے سیاستدان محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ ملک میں آئین معطل ہو چکا، ہماری پارلیمنٹ کے اختیارات و بنیادی انسانی حقوق، جلسہ و جلوس، تحریر و تقریر اور احتجاج کرنے کی آزادی سب کچھ چھین لیے گئے ہیں اور ہمیں یہ خوف ہے کہ پاکستان ہماری اپنی غلط کاریوں کی وجہ سے ڈوب رہا ہے اور ملک کے تمام ادارے کرپشن میں مبتلا ہیں، جس کے خلاف ہر پاکستانی کو نکلنا ہوگا اور موجودہ حکومت کا خاتمہ بے حد ضروری ہو چکا ہے۔
حکومت مخالف سیاستدانوں کے ایسے بیانات آتے رہے ہیں تاہم جناب محمود اچکزئی نے نیا انکشاف یہ کیا ہے کہ ملک کا آئین معطل ہو چکا ہے لیکن دوسری طرف وہ اسی آئین کے تحت قائم قومی اسمبلی کے رکن ہیں اور ایوان میں جا کر دھواں دھار تقریرکرتے اور موجودہ حکومت کے خاتمے کی بات کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے عوام کو نظرانداز کر کے ارکان پارلیمنٹ کی بہت زیادہ تنخواہ اور مراعات بڑھائی ہیں جو تمام ارکان پارلیمنٹ باقاعدگی سے وصول کر رہے ہیں، ان ارکان میں وہ بھی شامل ہیں جو ایوان میں موجود رہنا گوارا نہیں کرتے۔ اگر آتے ہیں تو حاضری لگا کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔
سبسڈائز کیفے ٹیریا انجوائے کرتے ہیں، پارلیمنٹ لاجز میں رہنا پسند کرتے ہیں لیکن اسمبلی میں کورم پورا کرنا اپنی آئینی ذمے داری نہیں سمجھتے ہیں۔ ایسے ارکان پارلیمنت کی آمد کا واحد مقصد حاضری لگا کر تنخواہ اور مراعات وصول کرنا اور اسلام آباد کے آرام دہ ایم این اے ہاسٹلز میں رہنا اور ذاتی کام نمٹانا رہ گیا ہے اور اس ایوان میں بعض ایسے ارکان پارلیمنٹ بھی ہیں جنھوں نے اسمبلی میں کبھی ایک لفظ بھی نہیں بولا مگر ضرورت پر انھیں ڈیسک بجاتے ضرور دیکھا گیا ہے اور وہ کسی احتجاج کا حصہ بھی نہیں بنتے مگر آئین کے تحت وہ رکن پارلیمنٹ ہیں اور حکومت کی فراہم کردہ مراعات بھی حاصل کر رہے ہیں۔
محمود اچکزئی آجکل پی ٹی آئی کے حامی ہیں اورموجودہ حکومت کو پی ٹی آئی کے بیانیے کی طرح خود بھی غیر قانونی اور فارم 47 کی پیداوار قرار دیتے ہیں۔ لیکن جہاں استحقاق اور مراعات وغیرہ کا معاملہ ہو تو سب ایک ہوتے ہیں اور یہی اسمبلیاں آئینی بھی ہوتی ہیں۔ تمام ارکان موجودہ حکومت کی بڑھائی گئی تمام مراعات سے مستفید بھی ہو رہے ہیں اور کسی ایک نے بھی مراعات لینے سے انکار نہیں کیا۔
سیاست میں دوستی اور دشمنی وقت کے ساتھ تبدیل ہوجاتی ہے۔ ویسے بھی محمود خان اچکزئی پاکستان کے کوئی قومی لیڈر نہیں بلکہ اپنے بلوچستان کے بھی مسلمہ لیڈر نہیں ہیں، وہ بلوچستان میں بسنے والے پشتو بولنے والوں کی نمایندگی کرتے ہیں،، بلوچستان کے سارے پختون بھی ان کے ووٹر نہیں ہیں۔وہ بلوچستان کے ضلع پشین میں زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والے پختون لیڈر شمار ہوتے ہیں مگر اپنا اظہار خیال وہ خود کو قومی رہنما سمجھ کر کرتے ہیں کیونکہ آئین نے انھیں ہر قسم کی تقریر کا حق دیا ہوا ہے۔
ملک کے 1973 کے متفقہ آئین نے پاکستان کے ہر شہری کو اظہار رائے کی آزادی دے رکھی ہے۔ کیا کسی اور ملک میں اپنے ہی ملک کے بارے میں متنازع اور غیر محتاط تقریریں ہوتی ہیں؟ بلوچستان میں ہے جہاں آئے دن دہشت گردی کی وارداتیں ہوتی ہیں، مگرقوم پرست لیڈر بولیں گے تو وفاق کے خلاف یا بھی پنجاب کے بارے میں اشتعال تقاریر کریں گے۔سیکیورٹی اداروں کو برا بھلا کہیں گے لیکن دہشت گردوں کے خلاف بات نہیں کریں اور نہ ان کے سہولت کاروں کا کوئی ذکر ہوگا، اگر کوئی بات ہوگی تو وہ اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کے انداز میں ہوگی۔ بلوچستان کے سماجی نظام میں اصلاحات لانے کا مطالبہ نہیں کریں گے بلکہ اس کے تحفظ کی بات کریں گے۔
صوبہ سندھ میں پاکستان کھپے کا نعرہ بھی لگا ، سندھ میں پی پی کی 17 سال سے حکومت ہے لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت بھی قوم پرستوں کو نہ سمجھا پائی ہو کہ اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں۔ سندھ کا امن برقرار رکھیں۔ سیاستدان حکومتی مراعات کا بھرپور فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں اور حکومت کے خاتمے کو ضروری سمجھتے ہوں۔ ملک کی عدالتوں سے حکومت مخالفین کو آئین کے مطابق سہولیات بھی مل رہیہیں لیکن وہ کھلے عام کہتے پھرتے ہیں کہ آئین معطل ہو چکا ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ یہ کس قسم کی سیاست ہے اور کس نظریے کی نمایندگی کرتی ہے؟