غیرقانونی بھرتیوں کا الزام؛ چیئرمین پی اے آر سی کی درخواستِ ضمانت مسترد
اشاعت کی تاریخ: 22nd, July 2025 GMT
اسلام آباد:
ایف آئی اے کی عدالت نے غیر قانونی بھرتیوں کے الزام میں گرفتار چیئرمین پی اے آر سی ڈاکٹر غلام محمد علی کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔
اسپیشل جج سینٹرل شاہ رخ ارجمند نے ڈاکٹر غلام محمد علی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سنایا۔
قبل ازیں، درخواست پر سماعت کے دوران وکیل ریاست علی آزاد نے دلائل میں کہا کہ وقوعہ 2022 کا ہے جبکہ یف آئی آر 2025 میں ہوئی، 168 ملازمین بغیر اشتہار بھرتی کا الزام ہے اور آفیشل پوزیشن کے غیر قانونی استعمال کا الزام ہے۔ تین سال کے بعد ڈاکٹر غلام محمد علی اور دیگر ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔
وکیل صفائی نے کہا کہ ڈاکٹر غلام محمد علی چیئرمین پی اے آر سی ہیں، مکمل کیریئر میں کوئی کمپلینٹ ڈاکٹر غلام محمد علی پر نہیں ہے۔ ڈاکٹر غلام محمد علی پر پہلے استعفے کے لیے دباؤ ڈالا گیا، جب وہ نہیں مانے تو ایف آئی درج کروا دی گئی۔ پی اے آر سی کے تمام افیئرز بورڈ آف گورنرز دیکھتا ہے، پراسیکیوشن کی جانب سے کرپشن سے متعلق ایک بھی کاغذ ریکارڈ پر نہیں لایا جا سکا۔
ایف آئی اے کے تفتیشی افسر نے بتایا کہ 164 پوسٹوں کا اشتہار دیا اور 332 افراد بھرتی کیے گئے، 70 لوگوں کا ڈائریکٹ تعلق چیئرمین اور پی اے آر سی اور کونسل کے لوگوں کے ساتھ ہے، 70 لوگوں کی بھرتی گھر سے ہی کر لی گئی۔
وکیل ریاست علی آزاد نے کہا کہ چیئرمین پی اے آر سی ممبر سلیکشن کمیٹی نہیں ہیں، کیا چیئرمین کا رشتہ دار ہے تو کیا وہ بھرتی میں حصہ نہیں لے سکتا؟ کیا جعل سازی چیئرمین پی اے آر سی کے خلاف ثابت ہوئی؟ ڈاکٹر غلام محمد علی کا بھرتیوں سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ عدالت سے استدعا ہے کہ انکوائری کا کیس ہے، ڈاکٹر غلام محمد علی کی ضمانت منظور کی جائے۔
پراسیکیوٹر نے بتایا کہ پی اے سی کی ڈائریکشن پر ایف آئی آر درج ہوئی۔
ایف آئی اے کی عدالت نے دلائل سننے کے بعد درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا، عدالت نے کچھ دیر بعد فیصلہ سناتے ہوئے ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان ڈاکٹر غلام محمد علی چیئرمین پی اے آر سی کی درخواست ایف آئی
پڑھیں:
پاکستان کی سیکیورٹی کی ضامن مسلح افواج، یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، ڈی جی آئی ایس پی آر
اسلام آباد:(نیوز ڈیسک)
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں۔
سینئر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ پاکستان نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا، ہماری طالبان گروپوں کے ساتھ لڑائی ہے، ٹی ٹی پی ،بی ایل اے اور دیگر تنظیموں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی۔
ڈرون کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارا امریکا سے کوئی معاہدہ نہیں، ڈرون کے حوالے سے طالبان رجیم کی جانب سے کوئی باضابطہ شکایت موصول نہیں ہوئی، امریکا کے کوئی ڈرون پاکستان سے نہیں جاتے، وزارت اطلاعات نے اس کی کئی بار وضاحت بھی کی ہے، ہمارا کسی قسم کا کوئی معاہد ہ نہیں ہے کہ ڈرون پاکستان سے افغانستان جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان رجیم دہشت گردوں کی سہولت کاری کرتی ہے، استنبول میں طالبان کو واضح بتایا ہے کہ دہشت گردی آپ کو کنٹرول کرنی ہے اور یہ کیسے کرنی ہے یہ آپ کا کام ہے، یہ ہمارے لوگ تھے جب یہاں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کیا یہ بھاگ کر افغانستان چلے گئے، ان کو ہمارے حوالے کردیں ہم ان کو آئین اور قانون کے مطابق ڈیل کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ دہشت گردی، جرائم پیشہ افراد اور ٹی ٹی پی کا گٹھ جوڑ ہے، یہ لوگ افیون کاشت کرتے ہیں اور 18 سے 25 لاکھ روپے فی ایکڑ پیداوار حاصل کرتے ہیں، پوری آباد ی ان لوگوں کے ساتھ مل جاتی ہے، وار لارڈز ان کے ساتھ مل جاتے ہیں، یہ حصہ افغان طالبان، ٹی ٹی پی اور وار لارڈز کو جاتا ہے، دہشت گردی، چرس، اسمگلنگ یہ سب کام یہ لوگ مل کر کر کرتے ہیں اور پیسے بناتے ہیں۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ فوج کے اندر کوئی عہدہ کریئیٹ ہونا ہے تو یہ حکومت کا اختیار ہے ہمارا نہیں ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ فوج نے وادی تیرہ میں کوئی آپریشن کیا، اگر ہم آپریشن کریں گے تو بتائیں گے، ہم نے وہاں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے ہیں جن میں 200 کے قریب ہمارے جوان اور افسر شہید ہوئے، ہماری چوکیوں پر جو قافلے رسد لے کرجاتے ہیں ان پر حملے ہوتے ہیں۔
گورنر راج کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ ہماری نہیں وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے، جو لوگ مساجد اور مدارس پر حملے کرتے ہیں ہم ان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ استنبول میں جو کانفرنس ہونی ہے ہمارا موقف بالکل کلیئر ہے، دہشت گردی نہیں ہونی چاہیے، مداخلت نہیں ہونی چاہیے، افغان سرزمین استعمال نہیں ہونی چاہیے، سیزفائر معاہدہ ہماری طاقت سے ہوا، افغان طالبان ہمارے دوست ممالک کے پاس چلے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کوئی اخلاقیات نہ سکھائے اور ہم کسی کی تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر منت سماجت نہیں کررہے، ہم اپنی مسلح افواج اور لوگوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔
غزہ میں فوج بھیجنے کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ ہمارا نہیں حکومت کامعاملہ ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغانستان کی سرحد 26 سو کلومیٹر طویل ہے جس میں پہاڑ اور دریا بھی شامل ہیں، ہر 25 سے 40کلومیٹر پر ایک چوکی بنتی ہے ہر جگہ نہیں بن سکتی، دنیا بھر میں سرحدی گارڈز دونوں طرف ہوتے ہیں یہاں ہمیں صرف یہ اکیلے کرنا پڑتاہے،ان کے گارڈز دہشت گردوں کو سرحد پار کرانے کے لئے ہماری فوج پر فائرنگ کرتے ہیں، ہم تو ان کا جواب دیتے ہیں۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ معرکہ حق میں حکومت پاکستان، کابینہ، فوج اور سیاسی جماعتوں نے مل کر فیصلے کیے، کے پی کے حکومت اگر دہشت گردوں سے بات چیت کا کہتی ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا اس سے کفیوژن پھیلتی ہے، طالبان ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں کے سروں کے فٹ بال بناکر کھیلتے ہیں ان سے مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں؟