دنیا کا طاقتور ترین پاسپورٹ، تین ایشیائی ممالک بازی لے گے
اشاعت کی تاریخ: 23rd, July 2025 GMT
 دنیا کا طاقتور ترین پاسپورٹ  سنگاپور کا ہے اور کمزور ترین پاسپورٹ میں پاکستان چوتھے نمبر پر ہے جب کہ ہیلنے اینڈ پارٹنر ز کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق طاقت ور ترین پاسپورٹ رکھنے والے  تین ایشیائی ممالک بازی لے گئے۔
ہینلے اینڈ پارٹنرز کی جولائی سے دسمبر 2025 کے لیے جاری کی گئی فہرست میں ایشیائی ملک سنگاپور کے پاسپورٹ کو ایک بار پھر طاقتور ترین قرار دیا گیا ہے۔
22 جولائی کی شب جاری کی گئی فہرست میں بتایا گیا کہ سنگاپور کے پاسپورٹ رکھنے والے افراد 193 ممالک میں ویزا کے بغیر سفر کرسکتے ہیں۔
دوسرے نمبر پر بھی 2 ایشیائی ممالک موجود ہیں۔ جاپان اور جنوبی کوریا مشترکہ طور پردوسرے نمبر پر موجود ہیں جن کے حامل افراد کو 190 ممالک میں ویزا فری رسائی حاصل ہوجاتی ہے۔
تیسرا نمبر مشترکہ طور پر 6 ممالک کے نام رہا جن کے پاسپورٹس پر 189 ممالک میں ویزا فری سہولت موجود ہے۔ یہ ممالک ڈنمارک، فن لینڈ، فرانس، جرمنی، آئرلینڈ، اٹلی اور اسپین ہیں۔
بیلجیئم، آسٹریا، لگسمبرگ، ناروے، پرتگال اور سویڈن کے حصے میں چوتھا نمبر آیا اور ان ممالک کے پاسپورٹس سے 188 ممالک میں ویزا فری رسائی مل سکتی ہے۔
187 ممالک میں ویزا فری داخلے کے ساتھ یونان، نیوزی لینڈ اور سوئٹزر لینڈ کے پاسپورٹس مشترکہ طور پر 5 ویں نمبر پر رہے۔
اس فہرست میں سفر کی آسانی پر توجہ مرکوز کرکے ممالک کی درجہ بندی کی جاتی ہے اور امریکی پاسپورٹ 10 ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے، جو کسی زمانے میں دنیا کا طاقتور ترین پاسپورٹ سمجھا جاتا تھا۔
کمپنی کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ امریکا ٹاپ 10 سے باہر نکلنے کے قریب ہے اور ایسا اس انڈیکس کی 20 سالہ تاریخ میں پہلی بار ہوگا کمپنی کے مطابق متحدہ عرب امارات کا پاسپورٹ گزشتہ ایک دہائی میں تیزی سے اوپر آنے والا پاسپورٹ ہے۔
اس پاسپورٹ کی رینکنگ میں ایک دہائی کے دوران 34 درجے بہتری آئی اور اب یہ 8 ویں نمبر پر ہے۔ اسی طرح چین کی رینکنگ میں بھی 10 سال کے دوران 34 درجے کی بہتری آئی ہے اور وہ ابھی 60 ویں نمبر پر ہے۔جبکہ دنیا کے کمزور ترین پاسپورٹس کی فہرست میں
پاکستان کمزور ترین پاسپورٹ رکھنے والا چوتھا ملک قرار پایا ہے۔مجموعی طور پر پاکستانی پاسپورٹ کے حصے میں صومالیہ اور یمن کے ساتھ مشترکہ طور پر 96 واں نمبر آیا اور اس پر 32 ممالک میں ویزا فری داخلہ ممکن ہے پاکستان سے نیچے عراق (97)، شام (98) اور افغانستان (99) رہے۔ پاکستان سے اوپر نیپال اور لیبیا 95 ویں، فلسطین، اریٹیریا اور بنگلا دیش 94 ویں، شمالی کوریا 93 ویں، سوڈان 92 ویں، سری لنکا اور ایران 91 ویں نمبر پر موجود ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ممالک میں ویزا فری مشترکہ طور پر ترین پاسپورٹ طاقتور ترین ویں نمبر پر کے پاسپورٹ فہرست میں ہے اور
پڑھیں:
سائنس دانوں کی حیران کن دریافت: نظروں سے اوجھل نئی طاقتور اینٹی بائیوٹک ڈھونڈ لی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ویانا: سائنس دانوں نے ایک حیران کن دریافت کی ہے، ایک نیا اینٹی بائیوٹک جو پچاس سال سے موجود تھا لیکن ہر کسی کی نظروں سے اوجھل تھا۔
یہ نیا مرکب ”پری میتھلینومائسن سی لیکٹون“ (Pre-methylenomycin C lactone) کہلاتا ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ یہ مشہور اینٹی بایوٹک ”میتھلینومائسن اے“ بننے کے عمل کے دوران قدرتی طور پر بنتا ہے، مگر اب تک اسے نظرانداز کیا جاتا رہا۔
یہ تحقیق یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے مشترکہ طور پر کی اور اسے جرنل آف دی امریکن کیمیکل سوسائٹی (جے اےسی ایس) میں شائع کیا گیا ہے۔
یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر گریگ چالس کے مطابق، ’میتھلینومائسن اے کو 50 سال قبل دریافت کیا گیا تھا۔ اگرچہ اسے کئی بار مصنوعی طور پر تیار کیا گیا، لیکن کسی نے اس کے درمیانی کیمیائی مراحل کو جانچنے کی زحمت نہیں کی۔ حیرت انگیز طور پر ہم نے دو ایسے درمیانی مرکبات شناخت کیے، جو اصل اینٹی بایوٹک سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ یہ واقعی حیرت انگیز دریافت ہے۔‘
اس تحقیق کی شریک مصنفہ اور یونیورسٹی آف واراِک کی اسسٹنٹ پروفیسر،ڈاکٹر لونا الخلف نے کہا، ’سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نیا اینٹی بایوٹک اسی بیکٹیریا میں پایا گیا ہے جسے سائنس دان 1950 کی دہائی سے بطور ماڈل جاندار استعمال کرتے آرہے ہیں۔ اس جانی پہچانی مخلوق میں ایک بالکل نیا طاقتور مرکب ملنا کسی معجزے سے کم نہیں۔‘
تحقیق سے پتا چلا ہے کہ شروع میں S. coelicolor نامی بیکٹیریا ایک بہت طاقتور اینٹی بایوٹک بناتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ اس نے اسے بدل کر ایک کمزور دوائی، میتھلینومائسن اے، میں تبدیل کر دیا، جو شاید اب بیکٹیریا کے جسم میں کسی اور کام کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ دریافت نہ صرف نئے اینٹی بایوٹکس کی تلاش میں ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ اس بات کی یاد دہانی بھی کراتی ہے کہ پرانے تحقیقی راستوں اور نظرانداز شدہ مرکبات کا دوبارہ جائزہ لینا نئی دواؤں کے لیے نیا دروازہ کھول سکتا ہے۔