بیجنگ:  چند روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے “فینٹانل اسمگلنگ کی جامع روک تھام”سے متعلق ایک ایکٹ پر دستخط کیے ۔امریکی انسداد امراض مراکز کے مطابق، 2023 میں تقریباً 70،000 افراد فینٹانل اور اس سے متعلقہ اوپیوئڈز سے ہلاک ہوئے ہیں. یہ فینٹانل سے متاثرہ امریکی خاندانوں کو ایک تسلی دینے والی بات ہے ۔ لیکن موقع پر ٹرمپ نے ایک بار پھر چین کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ‘مجھے یقین ہے کہ چین ان لوگوں (منشیات کے اسمگلرز) کو سزائے موت دے گا۔”ایک بار پھر،امریکی معاشرے میں گہرے بحران سے جنم لینے والا صحت عامہ کا مسئلہ دوسرے ممالک پر الزام تراشی کے سیاسی شو کا ایک بہانہ بن گیا ہے۔یہ نہ صرف منشیات کے خلاف بین الاقوامی تعاون کو متاثر کرتا ہے، بلکہ ان ٹوٹے ہوئے خاندانوں کے لیے بھی مزید دکھ کا باعث ہے۔ چین منشیات کے خلاف سخت ترین پالیسیوں پر عمل درآمد کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے، اور ملک میں فینٹانل کے غلط استعمال کا کوئی مسئلہ موجود نہیں ہے.

مئی 2019 میں ، چین فینٹانل مادوں کی مکمل درجہ بندی کو نافذ کرنے والا دنیا کا پہلا ملک ہے اور اس نے قومی ڈرگ لیبارٹری کی سربراہی میں “1 + 5 + این” ڈرگ لیبارٹری سسٹم قائم کیا ، جس میں ایک قومی ڈرگ لیبارٹری کی قیادت سے پانچ علاقائی ذیلی مراکز اور دیگرصوبائی اور میونسپل ڈرگ لیبارٹریاں شامل ہیں ۔پھر رواں سال 4 مارچ کو چین نے وائٹ پیپر “چین کا فینٹانل مادہ کنٹرول” جاری کیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ ، چین فعال طور پر متعلقہ بین الاقوامی تعاون کو فروغ دے رہا ہے ، بہت سے ممالک کے ساتھ معیاری سپیکٹرل لائبریریوں کا اشتراک کررہا ہے ، اور فینٹانل خطرے کی تشخیص کے عالمی معیارات کے قیام کو فروغ دے رہا ہے۔یہ تمام اقدامات فینٹانل جیسے مادوں کو کنٹرول کرنے کے چین کے عزم کی عکاسی کرتے ہیں اور لوگوں کی صحت اور فلاح و بہبود کے لئے چینی حکومت کے احساس ذمہ داری کو اجاگر کرتے ہیں۔ فینٹانل اینستھیزیا کے لئے استعمال ہونے والی دوا ہے ۔ چین میں ایک مشہور کہاوت ہے کہ” ہر دوا تیس فیصد تک زہر بھی ہو سکتی ہے”۔ایک دوا انسان کے لیے مددگار ہے یا زہریلی، استعمال کے طریقے پرمنحصر ہے۔سوشل میڈیا پر ایک چینی نیٹزین نے اپنے سرجری تجربے کو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ سرجری کے بعد درد ناقابل برداشت تھا لیکن نرس نے بے ہوشی کا ایک انجکشن لگانے کے بعد دوسرے انجکشن سے انکار کر دیا۔نرس نے انہیں یہ بتایا کہ زیادہ انجکشن لگانے سے دوا کی لت پڑ جائے گی۔اس نیٹزین نے کہا کہ اب مجھے لگتا ہے کہ مجھے نرس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ لیکن امریکہ میں، درد میں کمی کو ایک اہم انسانی حق کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اور دوا کا غلط استعمال انتہائی عام ہے.فوری کوشش قلیل مدتی درد سے نجات حاصل کرنا ہے ، لیکن منشیات کی طویل مدتی لت پڑ جاتی ہے۔اس سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکہ میں دونوں جماعتوں نے انتخابات میں فینٹانل بحران کو امیگریشن کے مسئلے سے جوڑ دیا ہے، لیکن کسی نے بھی اس کا اصل حل پیش نہیں کیا ہے۔ سرمایہ دار منافع کو انسانی صحت پر ترجیح دیتا ہے اور سیاستدان اپنی ذمہ داری سنبھالنے کے بجائے “قربانی کا بکرا “ڈھونڈ تے” ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ فینٹانل بحران کا اصل ، امریکی معاشرے کے منظم بحرانوں کی ایک جھلک ہے۔ سرمائے کے منافع کے پیچھے اندھے تعاقب کی وجہ سے فینٹانل کا غلط استعمال ہوا ہے، سیاست دانوں نے اس بحران کو سیاسی تماشہ بنایا ہے اور عوام کی صحت اور فلاح و بہبود کو فہرست میں سب سے نیچے رکھا گیا ہے۔تاریخ میں چینی قوم منشیات کی لعنت کا شکار ہوئی تھی اور چینی عوام کو منشیات سے گہری نفرت ہے ۔ تاریخ یہ نہیں بھولے گی کہ جون 1839 میں اس وقت کے چینی وزیر لین زے شو نے صوبہ گوانگ دونگ کے ہومن بیچ پر افیون کو تباہ کرنے کا حکم دیا۔ یہ مہم کل 23 دن تک جاری رہی، جو منشیات کی لعنت کے خلاف چین کی “زیرو ٹالیرینس” کی علامت ہے، اور آج بھی چین منشیات پر سخت کنٹرول اور موثر بین الاقوامی تعاون کے ذریعے ایک بڑے ملک کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا ہے. عالمی منشیات کے کنٹرول میں غفلت برتنے کے بجائے تعاون کی ضرورت ہے. اپنے مسائل کے لئے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے سے شائد آپ کچھ حد تک بہتر محسوس کر سکتے ہیں ، لیکن مسئلے کے حل میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔فینٹانل امریکہ کا مسئلہ ہے ، اور اب وقت آگیا ہے کہ امریکی حکومت تضادات سے جان چھڑائے اور اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرے۔ سیاسی تماشے میں مشغول رہنا صرف مزید خاندانوں کو اس بحران کا شکار بنائے گا۔

Post Views: 6

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: منشیات کے

پڑھیں:

ایران میں امریکی سفارتخانے پر قبضے کے گہرے اثرات

اسلام ٹائمز: 1979 میں انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے فوراً بعد عوامی توقع یہ تھی کہ امریکہ، جو شاہِ ایران (محمد رضا پہلوی) کا قریبی حامی تھا، اب نئے ایران کے ساتھ تعلقات میں احترام اور عدم مداخلت کی پالیسی اپنائے گا۔ لیکن چند مہینوں میں واضح ہو گیا کہ امریکہ اب بھی ایران کے اندرونی معاملات میں اثراندازی کر رہا ہے۔ وہ شاہ کے مجرم ہونے کے باوجود اُسے پناہ دینے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایران میں امریکی سفارتخانہ بدستور خفیہ سرگرمیوں (جاسوسی) کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ان عوامل نے انقلابی نوجوانوں، خصوصاً دانشجویانِ پیرو خطِ امام (طلبۂ پیروانِ خط امام) کو شدید طور پر مشتعل کر دیا۔ خصوصی رپورٹ

امریکی سفارتخانے پر قبضے کے واقعے میں متعدد عوامل کارفرما تھے، جن میں سب کا تعلق کسی نہ کسی شکل میں انقلابِ اسلامی ایران کے خلاف امریکی حکومت کی پالیسیوں سے تھا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے باوجود ایران کے داخلی معاملات میں مداخلت سے ہاتھ نہیں کھینچا۔ امام خمینیؒ کی طرف سے ۱۰ آبان ۱۳۵۸ (نومبر 1979) کو قوم کے نام ایک اہم پیغام نشر ہوا، جو مسلمان طلبہ کے لیے ایک نئی انقلابی تحریک کا محرک بنا۔ 

امامؒ نے اس پیغام میں فرمایا کہ طلبہ، جامعات اور دینی علوم کے طلبہ پر لازم ہے کہ وہ پوری قوت کے ساتھ اپنی جدوجہد کو امریکہ اور اسرائیل کے خلاف وسعت دیں، امریکہ کو مجبور کریں کہ وہ اس معزول اور جنایتکار شاہ کو واپس ایران کے حوالے کرے، اور اس بڑی سازش کی شدید مذمت کریں۔ یہ پیغام اُس وقت جاری ہوا جب عبوری حکومت کے سربراہ مہدی بازرگان نے امریکی صدر کارٹر کے مشیرِ قومی سلامتی زبیگنیو برژینسکی سے ملاقات کی تھی۔ انقلابی حلقوں نے اس ملاقات اور امامؒ کے پیغام کو ایک واضح اشارہ سمجھا کہ اب ایک فیصلہ کن انقلابی اقدام کیا جائے۔ ۱۰ آبان کے روز، جو عید قربان کا دن تھا، امامؒ کا یہ بیان امریکہ کے خلاف ایک نیا موڑ ثابت ہوا۔ 

طلبہ نے اسے ایک اصولی بنیاد کے طور پر لیا اور فیصلہ کیا کہ امریکہ کے خلاف احتجاج کو عملی شکل دی جائے۔ ان کا مقصد یہ بھی تھا کہ وہ دنیا کے سامنے ایرانی عوام کی مظلومیت کو اجاگر کریں، خاص طور پر اُن بین الاقوامی صحافیوں کے ذریعے جو امریکی سفارتخانے میں موجود تھے۔ چنانچہ طلبہ نے امریکی سفارتخانے میں داخل ہو کر احتجاج کیا کہ امریکہ نے اُس مفرور شاہ کو اپنے ملک میں پناہ کیوں دی ہے اور اُسے ایران واپس کیوں نہیں کیا جا رہا؟ یہی عمل بعد میں تسخیرِ لانۂ جاسوسی (امریکی جاسوسی کے اڈے پر قبضہ) کے نام سے تاریخ میں ثبت ہوا، جو انقلابِ اسلامی کے بعد ایران کی داخلی و خارجی سیاست میں ایک اہم موڑ بن گیا۔

 پس منظر: 
1979 میں انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے فوراً بعد عوامی توقع یہ تھی کہ امریکہ، جو شاہِ ایران (محمد رضا پہلوی) کا قریبی حامی تھا، اب نئے ایران کے ساتھ تعلقات میں احترام اور عدم مداخلت کی پالیسی اپنائے گا۔ لیکن چند مہینوں میں واضح ہو گیا کہ امریکہ اب بھی ایران کے اندرونی معاملات میں اثراندازی کر رہا ہے۔ وہ شاہ کے مجرم ہونے کے باوجود اُسے پناہ دینے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایران میں امریکی سفارتخانہ بدستور خفیہ سرگرمیوں (جاسوسی) کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ان عوامل نے انقلابی نوجوانوں، خصوصاً دانشجویانِ پیرو خطِ امام (طلبۂ پیروانِ خط امام) کو شدید طور پر مشتعل کر دیا۔

امام خمینیؒ کا پیغام اور نیا موڑ
10 آبان 1358 (عید قربان) کے موقع پر امام خمینیؒ نے قوم کے نام ایک پیغام میں فرمایا کہ یونیورسٹی و مدارسِ دینیہ کے طلبہ اپنی تمام تر قوت امریکہ اور اسرائیل کے خلاف جدوجہد میں صرف کریں، اور امریکہ کو مجبور کریں کہ وہ اس مخلوع و جنایتکار شاہ کو واپس ایران کے حوالے کرے۔ یہ پیغام اُس وقت آیا جب عبوری حکومت کے سربراہ مہدی بازرگان نے الجزائر میں برژینسکی (امریکی مشیرِ قومی سلامتی) سے ملاقات کی، اور یہ ملاقات انقلابی حلقوں کے نزدیک "امریکی مفاہمت" کی علامت سمجھی گئی۔ یوں امامؒ کا پیغام طلبہ کے لیے ایک انقلابی اشارہ بن گیا۔

طلبہ کا فیصلہ اور منصوبہ بندی
امام کے پیغام کے بعد مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ نے دانشجویان پیرو خط امام (امام کی رہ لائن کے پیروکار طلبہ) کے نام سے ایک خفیہ اتحاد تشکیل دیا۔ ان طلبہ نے چند روزہ مشاورت اور خفیہ میٹنگز کے بعد امریکی سفارتخانے پر قبضے کا منصوبہ بنایا۔ مقصد یہ تھا کہ شاہ کو واپس لانے کا مطالبہ عالمی سطح پر بلند کیا جائے اور ایران کے خلاف امریکی سازشوں کو بے نقاب کیا جائے۔ اس تحریک کی قیادت میں تہران یونیورسٹی، شریف ٹیکنالوجی یونیورسٹی، اور چند مذہبی مدارس کے طلبہ شامل تھے۔

4 نومبر 1979، قبضے کا دن 
صبح تقریباً 10 بجے سیکڑوں طلبہ نے تہران میں امریکی سفارتخانے کے گرد جمع ہو کر نعرے لگائے: مرگ بر آمریکا (امریکہ مردہ باد)، کچھ دیر بعد وہ دیواریں پھلانگ کر اندر داخل ہو گئے۔ امریکی عملے کو قابو میں کر لیا گیا اور سفارتخانے کی عمارت پر ایران کا پرچم لہرایا گیا۔ 52 امریکی سفارتکار 444 دن تک یرغمال رہے۔

امام خمینیؒ کا ردِعمل
امام خمینیؒ نے طلبہ کے اقدام کو فوراً انقلابِ دوم (دوسرا انقلاب) قرار دیا، فرمایا: یہ عمل اس انقلاب سے بھی عظیم تر ہے جو شاہ کے خلاف ہوا تھا۔ عبوری حکومت کے وزیراعظم مہدی بازرگان نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ یوں عبوری حکومت کا دور ختم ہوا اور انقلابی اداروں نے عملاً ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔

نتائج اور اثرات: 
1۔ ایران میں امریکی اثر و رسوخ مکمل طور پر ختم ہو گیا۔ انقلابی قوتوں کو مضبوط عوامی جواز حاصل ہوا۔ ایران میں ضدِ استکبار (Anti-Imperialism) کی سوچ مرکزی نعرہ بن گئی۔
2۔ بین الاقوامی سطح پر ایران امریکہ تعلقات منقطع ہو گئے۔ امریکہ نے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں۔ اقوامِ متحدہ میں ایران کے خلاف سفارتی دباؤ بڑھا۔
3۔ نظریاتی سطح پر یہ تحریک ایک "عالمی انقلاب" کے نظریے کی بنیاد بنی۔ خطِ امام کے پیروکاروں نے اس کو عالمی استکبار کے خلاف نمونۂ عمل قرار دیا۔

ردِعمل
امریکی حکومت نے اس واقعے کو “Hostage Crisis” (یرغمال بحران) قرار دیا۔ صدر جمی کارٹر (Jimmy Carter) نے اسے امریکی خودمختاری اور بین الاقوامی قانون پر حملہ کہا۔ ایران سے تمام سفارتی تعلقات منقطع کر دیے گئے۔ ایران کے تمام اثاثے (تقریباً 8 بلین ڈالر) منجمد (Freeze) کر دیے گئے۔ 7 اپریل 1980 کو امریکہ نے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں۔ یہ بحران کارٹر حکومت کے لیے سیاسی زوال کا باعث بنا۔ عوام نے اسے امریکہ کی "ذلت" کے طور پر دیکھا۔ یہی مسئلہ بعد میں رونالڈ ریگن کی فتح (1980 کے انتخابات) میں اہم عنصر ثابت ہوا۔

اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی قانون کا ردِعمل: اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے فوری طور پر ایران سے یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ بین الاقوامی عدالتِ انصاف (ICJ) نے بھی ایران کے خلاف فیصلہ سنایا کہ “سفارتی تحفظ بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔ تاہم ایران نے مؤقف اختیار کیا کہ: “یہ واقعہ عوامی انقلاب کا عمل تھا، نہ کہ سرکاری پالیسی کا۔ نتیجتاً، اقوامِ متحدہ ایران پر عملی دباؤ نہ ڈال سکی یہ انقلابی خودمختاری کی ایک مثال بن گئی۔

امریکی فوجی کارروائی کی ناکامی اور اثرات: اپریل 1980 میں آپریشن ایگل کلا (Operation Eagle Claw) کے نام سے یرغمالیوں کو چھڑانے کی خفیہ فوجی کوشش کی گئی۔ 8 ہیلی کاپٹر اور 6 طیارے ایران کے صحرائے طبس میں اتارے گئے۔ ریت کے طوفان اور تکنیکی خرابی کے باعث آپریشن ناکام ہوا۔ 8 امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ امام خمینیؒ نے فرمایا کہ خدا نے شن‌های طبس (طبس کی ریت) سے انقلاب کی مدد کی۔ یہ واقعہ ایرانی عوام کے لیے معجزاتی فتح کی علامت بن گیا۔ 

مغربی میڈیا اور رائے عامہ: مغربی میڈیا نے اسے “Iranian Hostage Crisis” کے عنوان سے روزانہ نشر کیا۔ امریکی ٹی وی چینلز (خصوصاً ABC News) نے خصوصی پروگرام “America Held Hostage” شروع کیا — جو بعد میں “Nightline” کے نام سے مشہور ہوا۔ مغربی عوام میں ایران مخالف جذبات بڑھے، لیکن تیسری دنیا اور مسلم ممالک میں ایران کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ بہت سے ماہرین نے لکھا کہ یہ پہلا موقع تھا جب ایک مسلمان قوم نے مغرب کے سامنے مزاحمت کے ساتھ اپنی سیاسی خودمختاری کا اعلان کیا۔

مسلم دنیا اور غیر جانب دار ممالک کا ردِعمل: کئی عرب ممالک (خصوصاً سعودی عرب اور مصر) نے اس اقدام کی مخالفت کی، جبکہ لیبیا، شام، یمن، اور فلسطینی تنظیمیں ایران کے حق میں بولیں۔ پاکستان میں عوامی سطح پر امریکہ مخالف مظاہرے ہوئے۔ بھارت اور الجزائر نے ثالثی کی پیشکش کی۔ سوویت یونین (USSR) نے رسمی طور پر غیر جانب دار رہنے کا اعلان کیا لیکن پسِ پردہ ایران کے موقف کو مغرب کے خلاف ایک مفید دباؤ کے طور پر دیکھا۔ بحران کا اختتام
الجزائر معاہدہ (Algiers Accord): 20 جنوری 1981 کو، رونالڈ ریگن کے حلف برداری کے دن، ایران اور امریکہ کے درمیان الجزائر معاہدے کے تحت یرغمالیوں کو رہا کیا گیا۔ ایران نے اس کے بدلے میں اپنے منجمد اثاثے واپس لینے کا حق حاصل کیا۔ یہ سمجھوتہ ایران کے اصولی مؤقف کی سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا گیا۔ امریکی سفارتخانے پر قبضہ ایک وقتی احتجاج نہیں بلکہ ایران کے فکری استقلال، سیاسی خوداعتمادی اور عالمی استعمار کے خلاف اعلانِ مزاحمت تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب اسلامی انقلاب عالمی سطح پر ایک نظریاتی چیلنج کے طور پر ابھرا جو آج بھی ایران کی خارجہ پالیسی اور فکری بیانیے کی بنیاد ہے۔

عالمی سطح پر طویل المدت اثرات
یہ واقعہ ایک ایسے عالمی دور کی ابتدا تھا، جس میں طاقت اور خودمختاری کے بیانیے ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑے ہو گئے۔ ایران نے فکر، ایمان، اور مزاحمت کو اپنی طاقت بنایا، جبکہ امریکہ نے طاقت کو اخلاقی برتری کا نام دے کر نیا عالمی نظم تشکیل دینے کی کوشش کی۔ تسخیرِ لانۂ جاسوسی کے اثرات آج بھی واضح ہیں، ایران اپنی انقلابی شناخت پر قائم ہے، امریکہ اب بھی اسے نظمِ عالم کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، اور عالمِ اسلام کے کئی حصے اب بھی اس واقعے سے خودمختاری، مزاحمت، اور فکری بیداری کا استعارہ اخذ کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • امریکہ نے فیلڈ مارشل کی تعریفیں بہت کیں لیکن دفاعی معاہدہ ہندوستان کیساتھ کرلیا، پروفیسر ابراہیم
  • سیاسی درجہ کم کرنے کے لیے مذاکرات ہونے چاہییں: عطااللہ تارڑ نے پی ٹی آئی سے بات چیت کا عندیہ دے دیا
  • امریکی صدر کے حکم پر کیریبین میں منشیات بردار کشتی پر حملہ، 3 افراد ہلاک
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • کیریبین میں مبینہ منشیات سے بھری کشتی پر امریکا کا حملہ، 3 افراد ہلاک
  • امریکی عدالت نے ٹرمپ کا وفاقی انتخابات سے متعلق اہم حکم نامہ کالعدم قرار دے دیا
  • پاک افغان تعلقات اورمذاکرات کا پتلی تماشہ
  • اقوامِ متحدہ نے امریکی سمندری حملوں کو غیرقانونی قرار دے دیا
  • ایران میں امریکی سفارتخانے پر قبضے کے گہرے اثرات
  • امریکہ، حکومتی شٹ ڈاؤن کا سنگین اثر