Express News:
2025-09-18@19:07:38 GMT

کچھ اور عامل کامل

اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT

امیدوں کے کچھ دکانداروں اور سوداگروں کا کچھ ذکر تو ہم کرچکے ہیں یہ جنات،جنتر منتر،تعویز گنڈے اور دم شف بیچنے والے۔جو اپنے خیال میں خدائی قوانین کو معطل کرکے اپنے قوانین نافذ کردیتے ہیں۔دراصل انسان بیچارا،حکومتوں کا مارا بلکہ دین و دنیا محل اور مندر کا مارا جب ان دونوں کی’’مار‘‘ سے جاں بلب ہوجاتا ہے۔تو ڈوبنے کو تنکے کا سہارا والی کیفیت ہوجاتی ہے۔توجھوٹی امید کو بھی دل وجان سے قبول کرتا ہے وہ کسی نے کہا بھی ہے کہ

پل بھر کے لیے کوئی ہمیں پیار کرلے

جھوٹا ہی سہی

کیونکہ ہر طرف سے مایوس ہوکر اسے کوئی تسلی کوئی امید چاہیے ہوتی ہے ؎

منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید

ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے

یا،اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زندان سمجھا۔شمع اور پروانے کا سلسلہ شاعری میں بہت کچھ ذکر ہوتا رہتا ہے، کوئی کہتا ہے کہ پروانہ شمع کا عاشق ہوتا ہے اس لیے اس پر جل مرتا ہے، کوئی کہتا ہے کہ پروانہ دراصل اندھیرے کا عاشق ہوتا ہے اور شمع اس کے محبوب اندھیرے کو ڈسٹرب کرتی ہے اسے بجھانے کی کوشش کرتا ہے، ایک اسطورہ ( داستان) بھی ہے کہ پروانہ کنول کے پھول کی شہزادی کا عاشق ہوگیا تھا اس نے جب شہزادی کو پروپوز کیا تو کنول شہزادی نے شرط رکھی کہ میرے لیے روشنی لاؤ تو میں تمہارا رشتہ منظور کرلوں گی۔ پروانہ بیچارا اس وقت سے روشنی لے جانے کی کوشش میں مرتا رہتا ہے جب کہ کنول کی شہزادی جگنو سے شادی کرچکی ہے لیکن یہ سب مفروضے ہیں سائنسی حقیقت یہ ہے کہ یہ پروانے بلکہ کچھ اور قسم کے پروں والی حشرات جب زندگی کے سارے مراحل گزار کر مرنے کے مرحلے میں داخل ہوتی ہیں تو ان کی بینائی بہت کم ہوجاتی ہے یہ خود کو گھپ اندھیرے میں محسوس کرتے ہیں اور گھپ اندھیرے میں خود کو محبوس دیکھ کر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، روشنی کی’’لو‘‘ کو دروازہ سمجھ کر جھپٹتے ہیں اور بھسم ہوجاتے ہیں

کتنے پروانے جلے راز یہ پانے کے لیے

شمع جلنے کے لیے ہے کہ جلانے کے لیے

یا بہت ہی ناہموار،حددرجہ بے انصاف اور انتہائی ظالمانہ استحصال پر مبنی معاشرے کی اتھا ’’تاریکی‘‘ میں زندہ رہنے والے سادہ لوح عوام بھی یہی کرتے ہیں جہاں کہیں بھی’’امید‘‘ کی کرن دکھائی دیتی ہے جھپٹ پڑتے ہیں اور پھر یہ طرح طرح کے دکاندار ان کو’’امید‘‘ اور’’کل‘‘ بیچتے ہیں، شارٹ کٹ دکھاتے ہیں، کوئی نہیں کہتا کہ

مرے ہم نشین مرے ہم نفس مجھے دوست بن کر دغا نہ دے

میں ’’زندگی‘‘ سے جاں بلب مجھے زندگی کی دعا نہ دے

یا

جو زہر پی چکا ہوں تمہی نے مجھے دیا ہے

اب تم تو زندگی کی دعائیں مجھے نہ دے

لیکن یہ تو اس دکانداری کا پہلو ہے یوں کہیے کہ یہ اس ’’تجارت‘‘ کا پرچون پہلو ہے۔صرف نام بدلے ہوئے ہیں کام دونوں کا ایک ہے بظاہر دونوں الگ الگ دکھائی دیتے ہیں لیکن ہیں ایک ہی چیز کے دکاندار۔کل کے سوداگر امید کے دکاندار۔یوں کہیے کہ طریقہ واردات مختلف ہے لیکن’’واردات‘‘ ایک ہی ہے شکار بھی ایک ہے، نتائج و مقاصد بھی ایک ہیں۔چلیے آپ کے صبر کا زیادہ امتحان نہ لیتے ہوئے بتائے دیتے ہیں کہ ماہرین جنات،جنتر منتر والوں تعویز گنڈے والوں اور دم چف کرنے والوں کے ’’بڑے‘‘ اور سینئر کون ہیں، عرف عام میں یہ عامل کامل ،بابا ہندوستانی پرتگالی، لوگ،لیڈر،رہبر و رہنما کہلاتے ہیں ،یہ تھوک امیدوں کے تاجر بڑے پیمانے پر دکانداری نہیں بلکہ تجارت کرتے ہیں۔

پرچون فروش بابے انفرادی اور اکادکا شکار کرتے ہیں اور یہ بڑے شکاری باقاعدہ ’’ہانکا‘‘ کرکے ملکوں اور قوموں کو شکار بناتے ہیں، ’’مال‘‘ وہی ہے ’’امید‘‘ اور کل۔کل بیچ کر’’آج‘‘ کو ہڑپنا۔امید بیچ کر لوٹنا۔ کتنے سال ہوگئے کہ اس ملک میں سیاسی عامل کامل اور ماہرین علوم آتے ہیں، وعدوں نعروں اور بیانات کے چف منتر کرتے ہیں اور کل کا جھانسہ دے کر اور لوٹ کر چلے جاتے ہیں۔کوئی مثالی پاکستان کا مژدہ سناتا ہے کوئی روٹی کپڑا مکان چھیننے والوں کو اپنے زانو پہ بٹھا کر روٹی کپڑا دکان کے تعویز دیتا ہے۔کوئی اس ملک کو اسلام کا مرکز بنانے کا منتر پڑھتا ہے ، کوئی قرض اتارو ملک سنوارو کا وظیفہ بتاتا ہے۔اور اب کے آخر میں جو عامل کامل عرف بانی عرف نیا پاکستان عرف نوے دن جنت الفردوس دینے والا ہے۔

 اس نے تو سارے عاملوں کاملوں کے کان کاٹ لیے ہیں۔وہ پہلے والے تو پھر بھی کوئی نسخہ کیمیا لے کر آتے تھے اس کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں تھا نہ کوئی نعرہ۔ لیکن لوگوں کی مایوسی اتنی بڑھ چکی ہے کہ تنکے کے بجائے اگر کنارے پر سانپ بھی ہو تو اس کا بھی سہارا لینے لگتے ہیں۔

اس سے زیادہ اندھی عقیدت کیا ہوگی کہ پوری ریاست مدینہ کو ماضی اور ملک عرب سے لاکر دکھا دیا۔ اس سے زیادہ بڑا مایا جال اور کیا ہوگا کہ اکثر لوگوں کو وہ ریاست مدینہ نظر بھی آنے لگی تھی۔مطلب اس ساری بحث کا یہ ہے کہ جادو جنات جنتر منتر اور تعویز گنڈوں کا کام اس شکل میں بھی جاری ہے۔وہ افراد کو امیدیں بیچتے ہیں اور یہ پوری قوم کو امیدوں کے گٹھر باندھ باندھ کر بیچتے ہیںاور اگر اندھی عقیدتوں کو ایک طرف کرکے دیکھا جائے تو ان سیاسی عاملوں، کاملوں اور پیروں، مرشدوں یا ’’مزارات‘‘ والوں نے ابھی تک اس قوم کو کیا دیا ہے سوائے گا،گے،گی کے ملک کو جنت الفردوس بنایا جائے ’’گا‘‘ ملک کو آسمان پر پہنچائیں ’’گے‘‘ حکومت یہ یہ اور وہ وہ کرے’’گی‘‘

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عامل کامل کرتے ہیں ہیں اور کے لیے

پڑھیں:

جس کے ہاتھ میں موبائل ہے، اس میں ہاتھ میں اسرائیل کا ٹکڑا موجود ہے: نیتن یاہو

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مغربی مقبوضہ بیت المقدس: اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے امریکی کانگریس کے وفد سے ملاقات میں کہا ہے کہ دنیا میں جتنے بھی لوگ موبائل فون رکھتے ہیں، بنیادی طور پر ان کے ہاتھ میں “اسرائیل کا ایک ٹکڑا” ہے۔

انہوں نے اس بیان کے دوران اسرائیل کی ادویات، ہتھیار اور بیٹری/فون بنانے کی صلاحیتوں کو سراہا۔

نیتن یاہو نے کہا کہ بعض ممالک نے ہتھیاروں کے اجزاء کی ترسیل روک دی ہے جس پر تنقید ہو رہی ہے، مگر انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل اس چیلنج پر قابو پانے کے قابل ہے کیونکہ “ہم ہتھیار بنانے میں اچھے ہیں”۔ اُنھوں نے شرکاء سے سوال کیا کہ کیا ان کے پاس موبائل فونز ہیں اور بتاتے ہوئے کہا کہ فونز، زرعی پیداوار اور دیگر اشیاء میں بھی اسرائیل کا حصہ ہوتا ہے۔

وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ امریکا کے ساتھ شیئر کی جانے والی انٹیلی جنس میں بڑا حصہ اسرائیل فراہم کرتا ہے اور دونوں ممالک دفاعی نظاموں میں معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ اُن کے مطابق یہ روابط عالمی سطح پر کئی معاملات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب غزہ میں فوجی کارروائیوں اور ہتھیاروں کی ترسیل پر بین الاقوامی سطح پر سخت تنقید جاری ہے، اور بعض ملکوں نے اسرائیل کے خلاف سفارتی اور تجارتی دباؤ بڑھایا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چین سے 21 جدید بسیں بلوچستان کیلیے روانہ، سفری سہولتوں میں بہتری کی امید
  • امید ہے ایک دن صیہونی حکمران سلاخوں کے پیچھے ہوں گے، انسپکٹر اقوام متحدہ
  • ڈیٹنگ شو ’لازوال عشق‘ پر شدید تنقید کے بعد میزبان عائشہ عمر بھی بول پڑیں
  • پاکستان امت مسلمہ کی واحد امید ہے، اسپیکر قومی اسمبلی
  • عمر بالکل ٹھیک تھا، آخری لمحات میں کیا ہوا؟ معروف چائلڈ اسٹار کے چچا کا ویڈیو بیان وائرل
  • یو این چیف کا عالمی مسائل کے حل میں سنجیدگی اختیار کرنے پر زور
  • مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں
  •  نوجوانوں میں مالیاتی امید بلند مگر مجموعی عوامی اعتماد میں کمی ہوئی، اپسوس کا تازہ سروے
  • کم عمر بچوں کے فیس بک اور ٹک ٹاک استعمال پر پابندی
  • جس کے ہاتھ میں موبائل ہے، اس میں ہاتھ میں اسرائیل کا ٹکڑا موجود ہے: نیتن یاہو