امیدوں کے کچھ دکانداروں اور سوداگروں کا کچھ ذکر تو ہم کرچکے ہیں یہ جنات،جنتر منتر،تعویز گنڈے اور دم شف بیچنے والے۔جو اپنے خیال میں خدائی قوانین کو معطل کرکے اپنے قوانین نافذ کردیتے ہیں۔دراصل انسان بیچارا،حکومتوں کا مارا بلکہ دین و دنیا محل اور مندر کا مارا جب ان دونوں کی’’مار‘‘ سے جاں بلب ہوجاتا ہے۔تو ڈوبنے کو تنکے کا سہارا والی کیفیت ہوجاتی ہے۔توجھوٹی امید کو بھی دل وجان سے قبول کرتا ہے وہ کسی نے کہا بھی ہے کہ
پل بھر کے لیے کوئی ہمیں پیار کرلے
جھوٹا ہی سہی
کیونکہ ہر طرف سے مایوس ہوکر اسے کوئی تسلی کوئی امید چاہیے ہوتی ہے ؎
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے
یا،اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زندان سمجھا۔شمع اور پروانے کا سلسلہ شاعری میں بہت کچھ ذکر ہوتا رہتا ہے، کوئی کہتا ہے کہ پروانہ شمع کا عاشق ہوتا ہے اس لیے اس پر جل مرتا ہے، کوئی کہتا ہے کہ پروانہ دراصل اندھیرے کا عاشق ہوتا ہے اور شمع اس کے محبوب اندھیرے کو ڈسٹرب کرتی ہے اسے بجھانے کی کوشش کرتا ہے، ایک اسطورہ ( داستان) بھی ہے کہ پروانہ کنول کے پھول کی شہزادی کا عاشق ہوگیا تھا اس نے جب شہزادی کو پروپوز کیا تو کنول شہزادی نے شرط رکھی کہ میرے لیے روشنی لاؤ تو میں تمہارا رشتہ منظور کرلوں گی۔ پروانہ بیچارا اس وقت سے روشنی لے جانے کی کوشش میں مرتا رہتا ہے جب کہ کنول کی شہزادی جگنو سے شادی کرچکی ہے لیکن یہ سب مفروضے ہیں سائنسی حقیقت یہ ہے کہ یہ پروانے بلکہ کچھ اور قسم کے پروں والی حشرات جب زندگی کے سارے مراحل گزار کر مرنے کے مرحلے میں داخل ہوتی ہیں تو ان کی بینائی بہت کم ہوجاتی ہے یہ خود کو گھپ اندھیرے میں محسوس کرتے ہیں اور گھپ اندھیرے میں خود کو محبوس دیکھ کر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، روشنی کی’’لو‘‘ کو دروازہ سمجھ کر جھپٹتے ہیں اور بھسم ہوجاتے ہیں
کتنے پروانے جلے راز یہ پانے کے لیے
شمع جلنے کے لیے ہے کہ جلانے کے لیے
یا بہت ہی ناہموار،حددرجہ بے انصاف اور انتہائی ظالمانہ استحصال پر مبنی معاشرے کی اتھا ’’تاریکی‘‘ میں زندہ رہنے والے سادہ لوح عوام بھی یہی کرتے ہیں جہاں کہیں بھی’’امید‘‘ کی کرن دکھائی دیتی ہے جھپٹ پڑتے ہیں اور پھر یہ طرح طرح کے دکاندار ان کو’’امید‘‘ اور’’کل‘‘ بیچتے ہیں، شارٹ کٹ دکھاتے ہیں، کوئی نہیں کہتا کہ
مرے ہم نشین مرے ہم نفس مجھے دوست بن کر دغا نہ دے
میں ’’زندگی‘‘ سے جاں بلب مجھے زندگی کی دعا نہ دے
یا
جو زہر پی چکا ہوں تمہی نے مجھے دیا ہے
اب تم تو زندگی کی دعائیں مجھے نہ دے
لیکن یہ تو اس دکانداری کا پہلو ہے یوں کہیے کہ یہ اس ’’تجارت‘‘ کا پرچون پہلو ہے۔صرف نام بدلے ہوئے ہیں کام دونوں کا ایک ہے بظاہر دونوں الگ الگ دکھائی دیتے ہیں لیکن ہیں ایک ہی چیز کے دکاندار۔کل کے سوداگر امید کے دکاندار۔یوں کہیے کہ طریقہ واردات مختلف ہے لیکن’’واردات‘‘ ایک ہی ہے شکار بھی ایک ہے، نتائج و مقاصد بھی ایک ہیں۔چلیے آپ کے صبر کا زیادہ امتحان نہ لیتے ہوئے بتائے دیتے ہیں کہ ماہرین جنات،جنتر منتر والوں تعویز گنڈے والوں اور دم چف کرنے والوں کے ’’بڑے‘‘ اور سینئر کون ہیں، عرف عام میں یہ عامل کامل ،بابا ہندوستانی پرتگالی، لوگ،لیڈر،رہبر و رہنما کہلاتے ہیں ،یہ تھوک امیدوں کے تاجر بڑے پیمانے پر دکانداری نہیں بلکہ تجارت کرتے ہیں۔
پرچون فروش بابے انفرادی اور اکادکا شکار کرتے ہیں اور یہ بڑے شکاری باقاعدہ ’’ہانکا‘‘ کرکے ملکوں اور قوموں کو شکار بناتے ہیں، ’’مال‘‘ وہی ہے ’’امید‘‘ اور کل۔کل بیچ کر’’آج‘‘ کو ہڑپنا۔امید بیچ کر لوٹنا۔ کتنے سال ہوگئے کہ اس ملک میں سیاسی عامل کامل اور ماہرین علوم آتے ہیں، وعدوں نعروں اور بیانات کے چف منتر کرتے ہیں اور کل کا جھانسہ دے کر اور لوٹ کر چلے جاتے ہیں۔کوئی مثالی پاکستان کا مژدہ سناتا ہے کوئی روٹی کپڑا مکان چھیننے والوں کو اپنے زانو پہ بٹھا کر روٹی کپڑا دکان کے تعویز دیتا ہے۔کوئی اس ملک کو اسلام کا مرکز بنانے کا منتر پڑھتا ہے ، کوئی قرض اتارو ملک سنوارو کا وظیفہ بتاتا ہے۔اور اب کے آخر میں جو عامل کامل عرف بانی عرف نیا پاکستان عرف نوے دن جنت الفردوس دینے والا ہے۔
اس نے تو سارے عاملوں کاملوں کے کان کاٹ لیے ہیں۔وہ پہلے والے تو پھر بھی کوئی نسخہ کیمیا لے کر آتے تھے اس کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں تھا نہ کوئی نعرہ۔ لیکن لوگوں کی مایوسی اتنی بڑھ چکی ہے کہ تنکے کے بجائے اگر کنارے پر سانپ بھی ہو تو اس کا بھی سہارا لینے لگتے ہیں۔
اس سے زیادہ اندھی عقیدت کیا ہوگی کہ پوری ریاست مدینہ کو ماضی اور ملک عرب سے لاکر دکھا دیا۔ اس سے زیادہ بڑا مایا جال اور کیا ہوگا کہ اکثر لوگوں کو وہ ریاست مدینہ نظر بھی آنے لگی تھی۔مطلب اس ساری بحث کا یہ ہے کہ جادو جنات جنتر منتر اور تعویز گنڈوں کا کام اس شکل میں بھی جاری ہے۔وہ افراد کو امیدیں بیچتے ہیں اور یہ پوری قوم کو امیدوں کے گٹھر باندھ باندھ کر بیچتے ہیںاور اگر اندھی عقیدتوں کو ایک طرف کرکے دیکھا جائے تو ان سیاسی عاملوں، کاملوں اور پیروں، مرشدوں یا ’’مزارات‘‘ والوں نے ابھی تک اس قوم کو کیا دیا ہے سوائے گا،گے،گی کے ملک کو جنت الفردوس بنایا جائے ’’گا‘‘ ملک کو آسمان پر پہنچائیں ’’گے‘‘ حکومت یہ یہ اور وہ وہ کرے’’گی‘‘
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عامل کامل کرتے ہیں ہیں اور کے لیے
پڑھیں:
اعظم خان کی جسمانی تبدیلی کی وائرل تصویر پر حقیقت سامنے آگئی
سوشل میڈیا پر حالیہ دنوں ایک تصویر نے مداحوں کو حیران کر دیا، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستانی کرکٹر اعظم خان نے صرف دو ماہ میں 69 کلو وزن کم کر لیا ہے۔ تصویر دیکھتے ہی سوشل میڈیا صارفین داد دیتے اور حیرت کا اظہار کرتے دکھائی دیے، لیکن کئی لوگ اس دعوے پر شکوک کا شکار بھی نظر آئے۔
تاہم، خود اعظم خان نے اس تصویر کی حقیقت واضح کرتے ہوئے تمام افواہوں کو ختم کر دیا ہے۔ انہوں نے انسٹاگرام پر وہی تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا، ’کام جاری ہے، مگر یہ تصویر 2020ء کی ہے‘۔
صحت کے ماہرین کے مطابق 69 کلو وزن صرف 8 ہفتوں میں کم کرنا نہ صرف جسمانی طور پر غیر حقیقی ہے بلکہ خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ اعظم خان ماضی میں بھی فٹنس بہتر بنانے کے سفر پر گامزن رہے ہیں۔ 2021ء میں رپورٹس کے مطابق وہ پہلے ہی 30 کلو وزن کم کر چکے تھے تاکہ قومی ٹیم کے معیار پر پورا اتر سکیں۔
ایک انٹرویو میں وہ کہہ چکے ہیں، ’میں اپنی جسمانی ساخت نہیں بدل سکتا، مگر میری پوری توجہ فٹنس قائم رکھنے اور بہتر کارکردگی دکھانے پر ہے‘۔
Post Views: 4