وزیراعلیٰ سندھ نے 646 اساتذہ تدریسی لائسنس تقسیم کردیے
اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT
کراچی:
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کی اسی طرح عزت کرتے ہیں جیسے وہ اپنے والدین کی کرتے ہیں کیونکہ ان اساتذہ نے ان کے مستقبل کو سنوارا اور انہیں اپنے شعبے میں مؤثر انداز میں مقابلہ کرنے کے قابل بنایا۔
یہ بات انہوں ںے منگل کو وزیراعلیٰ ہاؤس میں محکمہ تعلیم کے زیر اہتمام کامیاب امیدواروں کو تدریسی لائسنس دینے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ تقریب میں وزیر تعلیم سید سردار شاہ، وزیر برائے مویشی پروری محمد علی ملکانی، سیکریٹری اسکول ایجوکیشن زاہد عباسی، سفارت کاروں، اراکین صوبائی اسمبلی، ماہرین تعلیم، زندگی ٹرسٹ کے شہزاد رائے اور سول سوسائٹی کے ارکان نے شرکت کی۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سندھ تمام صوبوں میں تعلیم کے لیے سب سے زیادہ بجٹ مختص کرتا ہے، تعلیم پر خرچ دگنا یا اس سے بھی زیادہ بڑھایا جانا چاہیے تاکہ معیاری تعلیم فراہم کی جا سکے، اخراجات میں اضافہ کرنے کے لیے ہمیں مزید وسائل پیدا کرنا ہوں گے بصورت دیگر یہ ممکن نہیں۔
مراد علی شاہ نے یاد دلایا کہ تین سال قبل تدریسی لائسنس جاری کرنے کا خیال سردار شاہ کی جانب سے پیش کیا گیا اور کہا گیا تھا کہ لائسنس ان افراد کو دیے جائیں جو ہمارے مستقبل کو تشکیل دے رہے ہیں۔
تقریب کے دوران وزیر اعلیٰ نے 646 کامیاب امیدواروں کو تدریسی لائسنس دیے جن میں 297 جے ای ایس ٹی (جونیئر ایلیمینٹری اسکول ٹیچر) اور 195 پری سروس لائسنس شامل تھے۔
انہوں نے بتایا کہ تقریباً 4000 امیدواروں میں سے صرف 646 ہی امتحان میں کامیاب ہو سکے جس سے کامیابی کی شرح صرف 16 فیصد ظاہر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیر اعلیٰ نے حکومت کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ سندھ ٹیچر ایجوکیشن ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سٹیڈا) کے ذریعے انتہائی قابل اساتذہ متعارف کرائے جائیں گے۔ انہوں نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ لاکھوں بچے اسکول سے باہر ہیں اور اس بات پر زور دیا کہ جو بچے اسکولوں میں داخل ہیں ان کو دی جانے والی تعلیم کے معیار کا بھی جائزہ لیا جائے۔
اپنے خطاب میں وزیراعلیٰ نے اس دور کو یاد کیا جب پرائمری اسکولز میں معیاری تعلیم فراہم کی جاتی تھی اور اساتذہ کی تقرری میرٹ کی بنیاد پر ہوا کرتی تھی۔ مراد علی شاہ نے تدریسی لائسنس کے دائرہ کار کو نجی تعلیمی اداروں اور ابتدائی بچپن کی تعلیم (ارلی چائلڈ ہوڈ ایجوکیشن) تک بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو یقین دلایا کہ حکومت اس پالیسی کے نفاذ میں درپیش انتظامی رکاوٹوں کو دور کرے گی اور اس کا دائرہ وسیع کرے گی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر تعلیم سردار شاہ نے کہا کہ تدریسی لائسنس کا نفاذ تعلیمی نظام میں نمایاں بہتری لائے گا بعض افراد اس لائسنس کو اساتذہ کے لیے اسلحہ لائسنس سمجھ بیٹھے تھے، آئندہ تمام نئے بھرتی ہونے والے اساتذہ کو لائسنس جاری کرنے سے قبل تربیت دی جائے گی اور صرف لائسنس یافتہ اساتذہ کو ہی آئندہ تعینات کیا جائے گا۔
تقریب سے سیکریٹری تعلیم زاہد عباسی، آغا خان یونیورسٹی کے ڈاکٹر ساجد علی، شہزاد رائے اور سندھ ٹیچر ایجوکیشن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر رسول بخش شاہ نے بھی خطاب کیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تدریسی لائسنس انہوں نے شاہ نے نے کہا کے لیے
پڑھیں:
سندھ میں وزیراعلیٰ ہاؤس سے لے کر نیچے تک لوٹ مار جاری،حافظ نعیم
یہ کیا ڈرامہ ہے سڑکیں ٹھیک نہیں،مہنگے ای چالان کئے جارہے ہیں، ٹرانسپورٹ ہے نہیں،امیر جماعت اسلامی
ای چالان ہزاروں میں آرہے ہیں،لاہور میں جو چالان 200 کا ہے سندھ میں 5 ہزار کا ہے، تقریب سے خطاب
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ یہ کیا ڈرامہ ہے سڑکیں ٹھیک نہیں اور مہنگے ای چالان کئے جارہے ہیں، ٹرانسپورٹ ہے نہیں اور ای چالان ہزاروں میں آرہے ہیں، لاہور میں جو چالان 200 روپے کا ہے سندھ میں 5 ہزار روپے کا ہے۔سندھ میں وزیراعلیٰ ہاؤس سے لے کر نیچے تک لوٹ مار جاری ہے ۔کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حافظ نعیم نے کہا کہ ایک مرتبہ پھر 9 ٹاؤنز میں ترقیاتی کاموں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے، ہم اپنی بساط سے زیادہ کام کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے، مرتضیٰ وہاب کے کام بھی ہم کو دیکھنے پڑتے ہیں، ایس تھری منصوبہ کہاں چلا گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ کراچی سرکلر ریلوے نہیں بن رہا، جبکہ ریڈ لائن نے یونیورسٹی روڈ کا برا حال کردیا ہے، اورنج لائن میں بھی پورے اورنگی کو کور نہیں کیا گیا، 400 بسیں لا کر لوگوں کو بے وقوف بنایا جارہا ہے، لوٹ مار اور قبضے کے نظام سے شہر کو آزادی دلائیں گے۔امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات جیت کر لوگ کہتے تھے اختیارات ملیں گے نہیں تو کام کیسے کریں گے، پیپلز پارٹی کی سیٹوں میں من پسند حلقہ بندیوں کی وجہ سے اضافہ ہوا، پیپلز پارٹی نے دھاندلی کر کے اپنا میٔر بنایا اور ابھی تک ٹاؤن کو اختیارات منتقل نہیں کیے۔انہوں نے کہا کہ کچرا اٹھانے کا اختیار بھی سندھ حکومت کے پاس ہے، گھر سے جو کچرا اٹھایا جاتا ہے اس کے پیسے لوگ خود ادا کرتے ہیں، سالڈ ویسٹ منیجمنٹ کے پاس گھر سے کچرا اٹھا کر لینڈ فیلڈ سائٹ تک پہنچانے کا پورا میکنزم موجود ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ٹاؤن کو کام کرنے سے روکا جارہا ہے، سٹی وارڈن کو استعمال کر کے کام میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں، جماعت اسلامی اپنے ٹاؤنز میں اختیارات سے بڑھ کر کام کر رہی ہے، سیوریج اور کچرے کا کام بھی ٹاؤن کر رہا ہے، 12 سے 15 سال سے کراچی کے بڑے منصوبے تاخیر کا شکار ہیں، جماعت اسلامی کے تحت تعمیر و ترقی کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ سیوریج کا کام کر کے سڑکیں بنانی پڑتی ہیں اور سیوریج کا نظام بھی ٹاؤن کو خود دیکھنا پڑ رہا ہے، 15 سالوں میں پیپلز پارٹی نے کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا، صرف قبضے کی سیاست جاری ہے، گاؤں اور دیہات پر قبضے کے بعد شہروں پر قبضہ کرلیا ہے، تعلیم خیرات نہیں یہ ہمارے بچوں کا حق ہے۔