آسٹریلیا؛ 16 سال سے کم عمر بچوں پر یوٹیوب اکاؤنٹ بنانے پر پابندی؛ خلاف ورزی پر جرمانہ
اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT
آسٹریلوی حکومت نے یوٹیوب کو بھی اُن سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی فہرست میں شامل کر لیا ہے جن پر 16 سال سے کم عمر بچوں کے اکاؤنٹ بنانے پر پابندی عائد ہو گی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ فیصلہ دسمبر 2025 سے نافذ العمل ہوگا اور اس کا مقصد بچوں کی آن لائن حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔
یاد رہے کہ یوٹیوب کو گزشتہ سال نومبر میں اس قانون سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا جب پارلیمنٹ نے فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک، سنیپ چیٹ اور ایکس جیسے پلیٹ فارم پر کم عمر بچوں کے اکاؤنٹس پر پابندی لگائی تھی۔
تاہم اب حکومت نے اپنے مؤقف میں تبدیلی کرتے ہوئے یوٹیوب پر بھی یہی اصول لاگو کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیر مواصلات انیکا ویلز کا کہنا ہے کہ یوٹیوب کو اب ان پلیٹ فارمز کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے جنہیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ان کے صارفین کی عمر کم از کم 16 سال ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس قانون کی خلاف ورزی پر متعلقہ کمپنی کو 50 ملین آسٹریلوی ڈالر تک جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ حکومت کسی دباؤ میں نہیں آئے گی۔
البتہ یہ واضح نہیں کیا کہ اس قانون پر عمل درآمد کے لیے کمپنیوں کو کون سے اقدامات کرنا ہوں گے۔
زیر مواصلات نے دعویٰ کیا کہ یوٹیوب کے استعمال سے متعلق حکومتی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہر 10 میں سے 4 آسٹریلوی بچوں نے نقصان دہ تجربات سے گزرنا پڑا۔
انھوں نے کہا کہ بچوں کو یوٹیوب تک رسائی تو حاصل ہو گی لیکن وہ خود اپنا اکاؤنٹ نہیں رکھ سکیں گے۔ والدین کا استعمال کرسکتے ہیں۔
دوسری جانب یوٹیوب انتظامیہ نے ردعمل میں کہا کہ وہ بھی آن لائن نقصانات سے بچاؤ کے حامی ہیں لیکن ہمارا پلیٹ فارم سوشل میڈیا نہیں بلکہ ایک ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم ہے جو زیادہ تر ٹی وی اسکرینوں پر استعمال ہوتا ہے۔
ادھر آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیز نے اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت اقوام متحدہ کے آئندہ اجلاس میں بچوں کے سوشل میڈیا استعمال پر پابندی کے لیے عالمی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔
اس قانون سے گیمنگ، پیغام رسانی، تعلیم اور صحت سے متعلق ایپس کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے کیونکہ انہیں بچوں کے لیے نسبتاً کم نقصان دہ سمجھا جاتا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد بچوں کو سوشل میڈیا کے منفی اثرات جیسے نشہ، ذہنی مسائل، نیند میں خلل اور نامناسب مواد سے بچانا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا پر پابندی بچوں کے
پڑھیں:
جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی، اسرائیلی فضائی حملے میں جنوبی لبنان میں 4 افراد ہلاک، 3 زخمی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بیروت: اسرائیل نے جنوبی لبنان کے علاقے نبطیہ میں ڈرون حملہ کر کے چار افراد کو ہلاک اور تین کو زخمی کر دیا، جسے لبنانی حکام نے نومبر 2024 کی جنگ بندی معاہدے کی واضح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
لبنان کی وزارتِ صحت کے مطابق یہ حملہ ہفتے کی رات دوحا۔کفرمان روڈ پر اس وقت کیا گیا جب ایک گاڑی گزر رہی تھی۔ اسرائیلی ڈرون نے براہِ راست گاڑی کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں وہ مکمل طور پر تباہ ہوگئی اور اس میں سوار چار افراد موقع پر جاں بحق ہوگئے۔ حملے کے دوران ایک موٹر سائیکل پر سوار دو شہری بھی زخمی ہوئے جبکہ اطراف کی متعدد رہائشی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق متاثرہ علاقہ دوحا زیادہ تر رہائشی آبادی پر مشتمل ہے، جہاں اچانک حملے نے خوف و ہراس پھیلا دیا۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ نشانہ بنائی گئی گاڑی میں حزب اللہ کے افسران سوار تھے۔
تاہم لبنان یا حزب اللہ کی جانب سے اس دعوے پر تاحال کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔
یاد رہے کہ اگست میں لبنانی حکومت نے ایک منصوبہ منظور کیا تھا جس کے تحت ملک میں تمام اسلحہ صرف ریاستی کنٹرول میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، حزب اللہ نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے ہتھیار اس وقت تک نہیں ڈالے گی جب تک اسرائیل جنوبی لبنان کے پانچ زیرِ قبضہ سرحدی علاقوں سے مکمل انخلا نہیں کرتا۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹس کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی حملوں میں 4 ہزار سے زائد لبنانی شہری ہلاک اور 17 ہزار کے قریب زخمی ہوچکے ہیں۔
جنگ بندی کے تحت اسرائیلی فوج کو جنوری 2025 تک جنوبی لبنان سے مکمل انخلا کرنا تھا، تاہم اسرائیل نے صرف جزوی طور پر انخلا کیا اور اب بھی پانچ سرحدی چوکیوں پر فوجی موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہے۔
خیال رہےکہ حماس کی جانب سے تو جنگ بندی کی مکمل پاسداری کی جارہی ہے لیکن اسرائیل نے اپنی دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے 22 سال سے قید فلسطین کے معروف سیاسی رہنما مروان البرغوثی کو رہا کرنے سے انکاری ظاہر کی ہے اور اسرائیل کے متعدد وزیر اپنی انتہا پسندانہ سوچ کے سبب صبح و شام فلسطینی عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی جارحانہ انداز اپناتے ہوئے مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔