آسٹریلوی حکومت نے یوٹیوب کو بھی اُن سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی فہرست میں شامل کر لیا ہے جن پر 16 سال سے کم عمر بچوں کے اکاؤنٹ بنانے پر پابندی عائد ہو گی۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ فیصلہ دسمبر 2025 سے نافذ العمل ہوگا اور اس کا مقصد بچوں کی آن لائن حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔

یاد رہے کہ یوٹیوب کو گزشتہ سال نومبر میں اس قانون سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا جب پارلیمنٹ نے فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک، سنیپ چیٹ اور ایکس جیسے پلیٹ فارم پر کم عمر بچوں کے اکاؤنٹس پر پابندی لگائی تھی۔

تاہم اب حکومت نے اپنے مؤقف میں تبدیلی کرتے ہوئے یوٹیوب پر بھی یہی اصول لاگو کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیر مواصلات انیکا ویلز کا کہنا ہے کہ یوٹیوب کو اب ان پلیٹ فارمز کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے جنہیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ان کے صارفین کی عمر کم از کم 16 سال ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ اس قانون کی خلاف ورزی پر متعلقہ کمپنی کو 50 ملین آسٹریلوی ڈالر تک جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ حکومت کسی دباؤ میں نہیں آئے گی۔

البتہ یہ واضح نہیں کیا کہ اس قانون پر عمل درآمد کے لیے کمپنیوں کو کون سے اقدامات کرنا ہوں گے۔

زیر مواصلات نے دعویٰ کیا کہ یوٹیوب کے استعمال سے متعلق حکومتی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہر 10 میں سے 4 آسٹریلوی بچوں نے نقصان دہ تجربات سے گزرنا پڑا۔

انھوں نے کہا کہ بچوں کو یوٹیوب تک رسائی تو حاصل ہو گی لیکن وہ خود اپنا اکاؤنٹ نہیں رکھ سکیں گے۔ والدین کا استعمال کرسکتے ہیں۔

دوسری جانب یوٹیوب انتظامیہ نے ردعمل میں کہا کہ وہ بھی آن لائن نقصانات سے بچاؤ کے حامی ہیں لیکن ہمارا پلیٹ فارم سوشل میڈیا نہیں بلکہ ایک ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم ہے جو زیادہ تر ٹی وی اسکرینوں پر استعمال ہوتا ہے۔

ادھر آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیز نے اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت اقوام متحدہ کے آئندہ اجلاس میں بچوں کے سوشل میڈیا استعمال پر پابندی کے لیے عالمی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔

اس قانون سے گیمنگ، پیغام رسانی، تعلیم اور صحت سے متعلق ایپس کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے کیونکہ انہیں بچوں کے لیے نسبتاً کم نقصان دہ سمجھا جاتا ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد بچوں کو سوشل میڈیا کے منفی اثرات جیسے نشہ، ذہنی مسائل، نیند میں خلل اور نامناسب مواد سے بچانا ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا پر پابندی بچوں کے

پڑھیں:

پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی: جماعتِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے جماعت اسلامی کو خودبخود تقویت نہیں ملے گی،  اگر جماعت اسلامی اپنے بیانیے کو طالبان حکومت کے ساتھ ہم آہنگ کرے تو اس سے فکری اور نظریاتی سطح پر ضرور فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔

جسارت کے اجتماعِ عام کے موقع پر شائع ہونے والے مجلے کے لیے اے اے سید کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ طالبان کا پہلا دورِ حکومت 1996ء سے 2001ء اور دوسرا دور 2021ء سے اب تک جاری ہے،  پہلے دور میں طالبان کی جماعتِ اسلامی کے ساتھ سخت مخالفت تھی لیکن اب ان کے رویّے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، پہلے وہ بہت تنگ نظر تھے مگر اب وہ افغانستان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ امیرالمؤمنین ملا ہبت اللہ اور ان کے قریبی حلقے میں اب بھی ماضی کی کچھ سختیاں موجود ہیں، جس کی مثال انہوں نے انٹرنیٹ کی دو روزہ بندش کو قرار دیا، ستمبر کے آخر میں طالبان حکومت نے انٹرنیٹ اس بنیاد پر بند کیا کہ اس سے بے حیائی پھیل رہی ہےمگر دو دن بعد خود ہی فیصلہ واپس لے لیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں۔

پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ موجودہ طالبان حکومت ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے، اور جماعت اسلامی کو اس سے فکری و نظریاتی سطح پر فائدہ پہنچ سکتا ہے، گزشتہ  دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی نے گہرے منفی اثرات چھوڑے ہیں،

آج بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری ہے، اور ہمارے کچھ وفاقی وزراء اپنے بیانات سے حالات مزید خراب کر رہے ہیں ۔

انہوں نے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیانات کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی زبان کسی باشعور انسان کی نہیں لگتی،  وزیرِ دفاع کا یہ کہنا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی بے وقوفی کی انتہا ہے،  خواجہ آصف ماضی میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ  افغانستان ہمارا دشمن ہے  اور محمود غزنوی کو  لٹیرا  قرار دے چکے ہیں جو تاریخ سے ناواقفیت کی علامت ہے۔

پروفیسر محمد ابراہیم نے مطالبہ کیا کہ حکومت وزیر دفاع کو فوری طور پر تبدیل کرے اور استنبول مذاکرات کے لیے کسی سمجھدار اور بردبار شخصیت کو مقرر کرے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے لازم ہے کہ پشتون وزراء کو مذاکرات میں شامل کیا جائے جو افغانوں کی نفسیات اور روایات کو سمجھتے ہیں۔

انہوں نے وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیان پر بھی ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ  یہ کہنا کہ  ہم ان پر تورا بورا قائم کر دیں گے انتہائی ناسمجھی ہے،  تورا بورا امریکی ظلم کی علامت تھا، اور طالبان آج اسی کے بعد دوبارہ اقتدار میں ہیں۔ ایسی باتیں بہادری نہیں، بلکہ نادانی ہیں۔

پروفیسر محمد ابراہیم نے زور دیا کہ پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ احترام، بات چیت اور باہمی اعتماد کے ذریعے افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے ہوں گے کیونکہ یہی خطے کے امن و استحکام کی واحد ضمانت ہے۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی، اسرائیلی فضائی حملے میں جنوبی لبنان میں 4 افراد ہلاک، 3 زخمی
  • تین سال سے کم عمر بچوں کو فلورائیڈ گولیاں دینا خطرناک، امریکی ایف ڈی اے کی سخت وارننگ
  • پنجاب میں اسکول ٹائمنگز کی خلاف ورزی پر دس لاکھ تک جرمانہ، نیا شیڈول فوری نافذ
  • سموگ کے باعث پنجاب بھر کے سکولوں کے اوقات کار تبدیل
  • ’لاہور میں جرمانہ 200، کراچی میں 5000‘، شہری ای چالان کیخلاف سندھ ہائیکورٹ پہنچ گیا
  • بھارتی بیٹر شریاس ایئر کو اسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا
  • افغان طالبان نے جو لکھ کر دیا ہے ، اگر اس کی خلاف ورزی ہوئی تو ان کے پاس کوئی بہانہ نہیں بچے گا: طلال چوہدری
  • موبائل فون کا استعمال بچوں میں نظر کی کمزوری کا بڑا سبب قرار
  • پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم
  • 17 بچوں کو یرغمال بنانے والا ہلاک، روہت آریہ کے مطالبات کیا تھے؟