پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حمایت یافتہ امیدوار مشعال یوسفزئی خیبرپختونخوا اسمبلی میں سینیٹ کی نشست کے لیے ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوچکی ہیں۔

سال 2023 تک پی ٹی آئی میں مشعال اعظم یوسفزئی کو بہت کم لوگ جانتے تھے۔ تاہم صرف 2 برسوں میں وہ پارٹی کی معروف اور بااثر شخصیات میں شامل ہو گئیں۔

نہ صرف وہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں، بلکہ سخت اندرونی مخالفت کے باوجود صوبائی کابینہ میں وزیر بنیں اور اب سینٹ کی رکن بھی منتخب ہو چکی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: خیبر پختونخوا اسمبلی میں سینیٹ کی خالی نشست پر الیکشن، مشال یوسفزئی بھاری اکثریت سے کامیاب

مشعال یوسفزئی نے سینیٹ کے ضمنی الیکشن میں 86 ووٹ حاصل کیے جب کہ ان کے مدمقابل اپوزیشن امیدوار مہتاب ظفر نے 53 اور پی ٹی آئی کی ہی ناراض رہنما صائمہ خالد نے صرف ایک ووٹ حاصل کیا۔

پی ٹی آئی میں انٹری

2023 میں مشعال اعظم یوسفزئی پشاور ہائی کورٹ کی ایک جونیئر وکیل تھیں اور پی ٹی آئی لائرز ونگ کے رہنما معظم بٹ کی شاگرد سمجھی جاتی تھیں۔ 9 مئی کے واقعات کے بعد جب پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت منظر سے غائب ہوئی تو وکلا منظرِ عام پر آئے۔ اسی دوران مشعال کا رابطہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی سے ہوا۔ پارٹی ذرائع کے مطابق یہی تعلق ان کے سیاسی سفر میں تیز ترقی کا باعث بنا۔

یہ بھی پڑھیے: پی ٹی آئی نے سینیٹ ضمنی انتخاب کے لیے مشال یوسفزئی کو ٹکٹ جاری کردیا

مشعال یوسفزئی کون ہیں؟

مشعال اعظم یوسفزئی خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی سے تعلق رکھتی ہیں اور پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں۔ 2023 میں وہ پی ٹی آئی کی سرگرم کارکن کے طور پر سامنے آئیں اور وکلا کے وفود میں نمایاں نظر آنے لگیں۔ 9 مئی کے بعد وہ پارٹی قیادت کی نظر میں آئیں اور خاص طور پر بشریٰ بی بی کے مقدمات میں ان کی موجودگی نے انہیں مزید قریب کر دیا۔

مشعال یوسفزئی بانی پی ٹی آئی عمران خان کے ہمراہ

2024 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تو مشعال کو صوبائی کابینہ میں شامل کر لیا گیا۔ انہیں زکوٰۃ، سماجی بہبود اور خواتین کی ترقی کی وزارت دی گئی۔ تاہم یہ وزارت زیادہ دیر نہ چل سکی اور کچھ عرصے بعد وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے انہیں کابینہ سے فارغ کر دیا۔

اختلافات اور تنقید

پارٹی کے اندر بعض لوگ انہیں ‘پراشوٹر’ یعنی اچانک پارٹی میں نمودار ہونے والی شخصیت قرار دیتے ہیں جب کہ ناقدین کا کہنا ہے کہ انہیں کابینہ میں صرف بشریٰ بی بی کی سفارش پر شامل کیا گیا تھا۔ بعد ازاں، پارٹی میں داخلی اختلافات کے باعث علی امین گنڈاپور نے انہیں کابینہ سے ہٹا دیا۔

سینیٹ کے لیے نامزدگی اور کامیابی

مشعال یوسفزئی نے سینیٹ الیکشن کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروائے اور دعویٰ کیا کہ انہیں پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے ایسا کرنے کی ہدایت ملی ہے۔ اس اعلان پر پارٹی میں شدید اختلافات سامنے آئے۔ اس کے باوجود عمران خان نے انہیں ثانیہ نشتر کی جگہ سینیٹ کا امیدوار نامزد کیا۔ جیل میں خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف سے ملاقات میں عمران خان کی جانب سے مشعال کے نام کی حتمی منظوری دی گئی۔

عمران خان کی حمایت کے باوجود پارٹی کی کئی سینیئر خواتین رہنماؤں نے مشعال مخالفت جاری رکھی۔ خاص طور پر صائمہ خالد جنہوں نے کاغذات واپس لینے سے انکار کرتے ہوئے مشعال کے خلاف الیکشن میں حصہ لیا تاہم انہیں صرف ایک ووٹ مل سکا۔

اندرونی اختلافات

صائمہ خالد نے الیکشن سے قبل اور بعد میں مشعال کو پارٹی ٹکٹ دیے جانے پر تنقید کی اور کہا کہ وہ گزشتہ 15 سال سے پارٹی سے وابستہ ہیں لیکن آج تک انہیں وہ مقام نہیں ملا جو صرف دو سالوں میں مشعال کو حاصل ہو گیا۔

پی ٹی آئی میں مشعال کے ناقدین کا موقف ہے کہ وہ صرف تعلقات کی بنیاد پر آگے آئیں، نہ کہ پارٹی کے لیے کسی بڑی قربانی یا جدوجہد کے باعث۔ جب کہ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ مشعال نے کم وقت میں پارٹی میں اہم روابط قائم کیے اور یہی وجہ ہے کہ وہ جونیئر وکیل سے صوبائی وزیر اور اب سینیٹر بن گئیں۔

دوسری جانب کئی پرانے کارکن شکوہ کرتے ہیں کہ انہوں نے پوری زندگی پارٹی کو دی لیکن ان کی کوئی پذیرائی نہیں ملی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پی ٹی آئی تحریک انصاف خیبرپختونخوا سینیٹ سینیٹ ٹکٹ ضمنی انتخاب عمران خان مشال یوسفزئی مشعال یوسفزئی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی تحریک انصاف خیبرپختونخوا سینیٹ سینیٹ ٹکٹ مشال یوسفزئی مشعال یوسفزئی مشعال یوسفزئی خیبر پختونخوا پی ٹی آئی میں میں مشعال پارٹی میں پارٹی کی نے انہیں کے لیے

پڑھیں:

پیپلز پارٹی کی سب سے بہتر سیاسی پوزیشن

پیپلز پارٹی ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں اس لیے سب سے بہتر پوزیشن میں ہے کہ اقتدار پر اقتدار اسے حاصل ہو رہا ہے مگر اس کے مطابق وہ وفاقی حکومت میں شامل نہیں، مگر ملک کے دو بڑے اور دو چھوٹے وفاقی عہدے اور دو صوبوں کی حکومتیں اس کے پاس تو تھیں ہی مگر اس نے حصول اقتدار میں اضافے کے لیے 8 ماہ کی بچی ہوئی آزاد کشمیرکی حکومت بھی حاصل کر لی مگر پھر بھی مطمئن نہیں، کیونکہ اسے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے اقتدار میں حصہ نہیں مل رہا۔

صوبہ سندھ میں اس کی واضح اکثریت ہے کہ جہاں اس نے اپنے تمام بڑے لیڈروں کو وزارتوں سے نواز رکھا ہے اور تھوک کے حساب سے سندھ حکومت کے ترجمان مقرر کر رکھے ہیں بلکہ بعض کو کئی کئی عہدوں اور محکموں سے نواز رکھا ہے جس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اس نے سکھر کے میئر کو سندھ حکومت کا ترجمان بھی بنا رکھا ہے۔ سندھ حکومت نے پی پی سے باہر صرف ایک عہدہ مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور کراچی کے سابق ڈپٹی ناظم کو دیا ہے۔ سندھ کی تمام میونسپل کارپوریشنوں کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔ سندھ حکومت نے ان شہروں میں بھی اپنے میئر منتخب کرا رکھے ہیں، جہاں پہلے ایم کیو ایم کے میئر منتخب ہوا کرتے تھے۔

پہلی بار سندھ کابینہ کی تشکیل میں بلاول بھٹو ہی کا اہم کردار ہے مگر نہ جانے کیوں انھوں نے لاڑکانہ ڈویژن کو نظرانداز کیا اور وہاں سے سندھ کابینہ میں کوئی وزیر شامل نہیں کیا۔ مرحوم آغا سراج درانی پیپلز پارٹی کی سندھ کی پانچ حکومتوں میں اہم وزارتوں اور سندھ اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے پر رہے مگر پہلی بار انھیں موجودہ سندھ حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دیا گیا تھا جن کا تعلق شکارپور ضلع سے تھا اور اس بار آغا سراج پہلی بار کسی عہدے سے محروم رہے اور بلاول بھٹو ان کی وفات پر تعزیت کے لیے ان کے آبائی گھر گڑھی یاسین ضرور گئے ہیں۔

بھٹو صاحب سے بے نظیر بھٹو تک سندھ میں پیپلز پارٹی کی مختلف سالوں میں تین حکومتیں رہیں مگر پی پی کی سربراہی آصف زرداری کو ملنے کے بعد 2008 سے 2024 تک سندھ میں مسلسل پیپلز پارٹی کو اقتدار ملتا رہا اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو اتنی بڑی کامیابی بھٹو صاحب اور بے نظیر بھٹو کے دور میں نہیں ملی، جتنی آصف زرداری نے دلوائی اور انھوں نے سندھ کے تمام بڑے سرداروں، پیروں اور وڈیروں کو پیپلز پارٹی میں شامل کرا رکھا ہے۔ سندھ میں مسلم لیگ (ن) کا صفایا ہی ہو چکا ہے اور پیپلز پارٹی اپنے ارکان اسمبلی ان علاقوں سے بھی پہلی بار منتخب کرانے میں کامیاب رہی جہاں سے پہلے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ فنکشنل کامیاب ہوا کرتی تھی۔ اس وقت سندھ کے اقتدار پر پیپلز پارٹی کا مکمل کنٹرول ہے اور اندرون سندھ تو پی پی کا مکمل گڑھ ہے۔

سندھ کے قریب بلوچستان کا صوبہ ہے جہاں کئی بار پیپلز پارٹی کا وزیر اعلیٰ رہا۔ بلوچستان سے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کو ایک جیسی نشستیں ملی تھیں مگر 2024کے (ن) لیگ سے انتخابی معاہدے میں آصف زرداری نے بلوچستان کا وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کا بنوایا اور پنجاب و کے پی کے گورنروں، چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی اسپیکر، قومی اسمبلی کے عہدے جو آئینی ہیں پیپلز پارٹی نے حاصل کر رکھے ہیں۔پیپلز پارٹی کی طرف سے حکومت کی حمایت ترک کرنے اور اپوزیشن میں بیٹھنے کے بیانات اس لیے آئے دن آتے ہیں کہ پی پی چاہے تو حکومت کی حمایت ترک کر کے (ن) لیگی حکومت ختم کرا سکتی ہے مگر (ن) لیگ پیپلز پارٹی کو کوئی نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور نہ ہی کوئی آئینی عہدہ مسلم لیگ (ن) پی پی سے لے سکتی ہے اور پی پی رہنماؤں کے مطابق دونوں پارٹیوں کا اتحاد مجبوری کا اتحاد ہے جو کسی وجہ سے اب تک قائم ہے مگر مسلم لیگ پر پیپلز پارٹی کو سبقت حاصل ہے۔

 اس لیے پی پی دھمکیاں بھی دیتی رہتی ہے مگر (ن) لیگ پی پی کو دھمکی دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے اس لیے پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) سے زیادہ بہتر سیاسی پوزیشن میں ہے۔ پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت کو دھمکیاں دے کر اپنے کئی مطالبے منوائے ہیں جن میں دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کا اہم مسئلہ بھی شامل تھا جو تسلیم نہ کیے جانے سے سندھ میں پی پی کو سیاسی نقصانات پہنچا سکتا تھا۔

پیپلز پارٹی اپنی سیاسی برتری کے باعث اب تک پنجاب میں ہوئے پاور شیئرنگ معاہدے پر (ن) لیگ سے عمل نہیں کرا سکی، کیونکہ (ن) لیگ کو پنجاب اسمبلی میں برتری حاصل ہے اور وہ پی پی کی محتاج تو نہیں مگر دونوں پارٹیوں کے درمیان معاہدے میں پنجاب حکومت میں پی پی رہنماؤں کو شامل کرنے کا معاہدہ موجود ہے جس پر عمل نہیں ہو رہا جس پر پی پی رہنما کہتے ہیں کہ اس سے وفاقی حکومت خطرے میں ڈالی جا رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق وفاق میں مسلم لیگ (ن) کے پاس اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے واضح اکثریت موجود ہے اور وہ اب پیپلز پارٹی کی محتاج نہیں ہے اور بلوچستان حکومت سے الگ ہو کر وہاں پی پی کی حکومت ضرور ختم کرا سکتی ہے مگر 27 ویں ترمیم منظور کرانے کے لیے اسے پی پی کی ضرورت ہے اس لیے بلاول بھٹو مولانا سے ملنے گئے تھے۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ بار کونسل کا الیکشن؛ پیپلز پارٹی کے گڑھ میں صوبائی وزیر ہا گئے
  • پشاور KPK کابینہ کی تشکیل پر عمران خان کی ہدایات نظر انداز؟
  • خیبر پی کے کی 13 رکنی کابینہ نے حلف اٹھا لیا، گورنر کی مبارکباد
  • پیپلز پارٹی کی سب سے بہتر سیاسی پوزیشن
  • خیبرپختونخوا کابینہ کے 10 ارکان نے عہدے کا حلف اٹھا لیا
  • کے پی کی نئی صوبائی کابینہ نے حلف اٹھالیا، وزراء اپنے عہدوں پر فائز
  • خیبر پختونخوا کی نئی کابینہ نے حلف اٹھا لیا
  • گورنر خیبر پختونخوا نے صوبائی وزرا سے حلف لے لیا،10ارکان کابینہ شامل
  • گورنر خیبر پختونخوا نے صوبائی وزراء سے حلف لے لیا
  • خیبر پختونخوا کابینہ کی حلف برداری، گورنر فیصل کریم کنڈی نے اراکین سے حلف لیا