پاکستان اور چین کی افواج حقیقی معنوں میں برادر فوجیں ہیں: فیلڈ مارشل عاصم منیر
اشاعت کی تاریخ: 1st, August 2025 GMT
راولپنڈی ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان اور چین کی افواج حقیقی معنوں میں برادر فوجیں ہیں، پاک چین شراکت داری مشترکہ سٹریٹجک مفادات کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
جی ایچ کیو راولپنڈی میں پیپلز لبریشن آرمی کے یوم تاسیس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کہا کہ پاک چین سٹریٹجک تعلقات باہمی اعتماد کی عمدہ مثال ہیں۔ پاکستان اور چین کے تذویراتی تعلقات باہمی اعتماد کی عمدہ مثال ہیں، پاک چین تعلقات غیر متزلزل حمایت اور مشترکہ عزم کی عمدہ مثال ہیں، بدلتے تذویراتی ماحول کے باوجود پاک چین دوستی ہمیشہ مضبوط اور ناقابل شکست رہی ہے۔
بھارت کا گنڈاپور کے بیان کو فیٹف میں استعمال کرنا پی ٹی آئی کیلیے شرمناک ہے:عظمیٰ بخاری
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے چین کے دفاع، سیکیورٹی اور قومی تعمیر و ترقی میں پی ایل اے کے کلیدی کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور چین کے درمیان رشتہ منفرد ہے، دونوں ملکوں کے درمیان رشتہ آزمودہ اور ہر بدلتے علاقائی و عالمی چیلنج کے باوجود انتہائی مضبوط ہے۔
اس موقع پر چینی سفیر جیانگ زائیڈونگ نے فیلڈ مارشل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی افواج کا کردار اہم ہے۔
کراچی؛ڈی ایچ اے میں فائرنگ سے زخمی سینئر وکیل خواجہ شمس الاسلام جاں بحق ہو گئے
انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے مطابق چینی سفیر نے پاک چین تذویراتی شراکت داری کے لیے بھرپور حمایت اور عزم کا اعادہ کیا۔ فیلڈ مارشل نے پاکستان اور چین کے تعلقات کی مضبوطی اور تذویراتی اہمیت پر زور دیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق دفاعی اتاشی میجر جنرل وانگ ژونگ اور چینی سفارتخانے کے افسران نے تقریب میں شرکت کی۔ تقریب میں پاکستان کی تینوں مسلح افواج کے سینئر افسران بھی موجود تھے۔
سرآپ کو جویہ تکلیف ہورہی ہے شایدان بے گناہوں کی آہ ہو سکتی ہے،تھانہ شادمان کیس میں دوران سماعت ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کو دل کی تکلیف پر وکلا کی گفتگو
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے چینی مہمانوں کا پُرتپاک خیرمقدم کیا اور پیپلز لبریشن آرمی کو 98ویں سالگرہ پر مبارک باد پیش کی۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: پاکستان اور چین فیلڈ مارشل پاکستان ا پاک چین چین کے
پڑھیں:
پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-3
پاکستان اور افغانستان، تاریخ، ثقافت، مذہب اور جغرافیہ کے ایسے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں کہ ایک کا استحکام دوسرے کے بغیر ممکن نہیں۔ دونوں ممالک کی سرحدیں نہ صرف زمین کے ٹکڑوں کو جوڑتی ہیں بلکہ صدیوں پر محیط مشترکہ تہذیبی اور دینی رشتے کو بھی، اس پس منظر میں دفتر ِ خارجہ کے ترجمان طاہر اندرابی کا یہ بیان کہ ’’پاکستان کو امید ہے کہ 6 نومبر کو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا نتیجہ مثبت نکلے گا‘‘، ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ تاہم یہ امید اسی وقت نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہے جب دونوں ممالک باہمی احترام، ذمے داری اور تحمل کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ترجمان دفتر ِ خارجہ کے مطابق پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں ہوا، جو چار دن جاری رہا۔ پاکستان نے مثبت نیت کے ساتھ مذاکرات میں حصہ لیا اور اپنی اس واضح پوزیشن پر قائم رہا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان کی جانب سے ’’فتنہ الخوارج‘‘’’ اور ’’فتنہ الہندوستان‘‘ جیسی دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی پر جو تشویش ظاہر کی گئی، وہ قومی سلامتی سے جڑی ہوئی ہے۔ افغانستان کی موجودہ حکومت اگر واقعی خطے میں امن چاہتی ہے تو اسے ان گروہوں کے خلاف عملی، شفاف اور قابل ِ تصدیق کارروائی کرنا ہوگی۔ لیکن دوسری طرف افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض وزراء کے غیر ذمے دارانہ بیانات سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جماعت ِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے بجا طور پر تنبیہ کی ہے کہ ’’پاکستانی وزراء کے غیر ذمے دارانہ بیانات صورتحال کو مزید بگاڑ رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے اشتعال انگیز جملوں کو غیر سنجیدہ اور قومی مفاد کے منافی قرار دیا۔ ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ’’وزیر ِ دفاع کا یہ کہنا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی، بے وقوفی کی انتہا ہے‘‘۔ ایسے بیانات نہ صرف امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرتے ہیں بلکہ دشمن عناصر کو تقویت دیتے ہیں۔ پروفیسر ابراہیم نے اس نکتہ پر بھی زور دیا کہ اگر پاکستان واقعی امن چاہتا ہے تو اسے پشتون نمائندوں کو مذاکراتی ٹیم میں شامل کرنا چاہیے، جو افغان سماج اور ان کی روایات کو بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ ایک نہایت اہم تجویز ہے، کیونکہ افغانستان کے ساتھ مکالمے میں لسانی و ثقافتی حساسیت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ طالبان حکومت کے رویے میں ماضی کے مقابلے میں تبدیلی آئی ہے، اور اب وہ اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں، یہی وہ لمحہ ہے جسے پاکستان کو مثبت مکالمے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ یہ ادراک بھی ضروری ہے کہ طالبان حکومت نے اپنی سرزمین پر دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کو تسلیم کیا ہے، لیکن عملی اقدامات کے بجائے مختلف جواز پیش کیے جا رہے ہیں۔ اس طرزِ عمل سے نہ صرف پاکستان کے سلامتی خدشات بڑھتے ہیں بلکہ افغانستان کے عالمی تشخص کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ اگر طالبان قیادت خطے میں پائیدار امن کی خواہاں ہے تو اسے اب بین الاقوامی وعدوں کی پاسداری اور دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے لیے واضح روڈ میپ دینا ہوگا۔ پاکستان کی جانب سے قطر اور ترکیہ کے تعمیری کردار کو سراہنا قابل ِ تحسین ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ ہمیں داخلی سطح پر بھی سنجیدگی، تدبر اور وحدت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ وزارتِ دفاع اور وزارتِ اطلاعات کے ذمے داران کو سمجھنا چاہیے کہ ان کے الفاظ صرف ذاتی رائے نہیں بلکہ ریاستی مؤقف کا عکس سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کشیدگی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ دونوں ممالک کی سلامتی، معیشت اور سیاسی استحکام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کابل اور اسلام آباد نے مکالمے، تعاون اور بھائی چارے کا راستہ اپنایا، پورا خطہ مستحکم ہوا۔ اسی لیے اب وقت آگیا ہے کہ جنگ کی زبان نہیں بلکہ اعتماد، احترام اور شراکت داری کی زبان بولی جائے۔ آخرکار، حقیقت یہی ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں امن ہی دونوں ممالک کی بقا کا راز ہے۔ یہی امن اس خطے کے عوام کے لیے ترقی، تعلیم، روزگار اور امید کا دروازہ کھول سکتا ہے۔ اب فیصلہ دونوں حکومتوں کے ہاتھ میں ہے، وہ چاہیں تو دشمنی کی دیوار اونچی کر لیں، یا پھر اعتماد کی ایک ایسی مضبوط بنیاد رکھ دیں جس پر آنے والی نسلیں فخر کر سکیں۔