چیف آف آرمی سٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا قومی خودمختاری اور جغرافیائی سالمیت کے تحفظ کےلئے پاک فوج کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, August 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 02 اگست2025ء) چیف آف آرمی سٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے قومی خودمختاری اور جغرافیائی سالمیت کے تحفظ کےلئے پاک فوج کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ قومی یکجہتی ، سول ملٹری ہم آہنگی اور ہائی بریڈ خطرات کے مقابلے اور معاشرتی ہم آہنگی کے فروغ کےلئے قومی سطح کے اشتراک کی ضرورت ہے۔
ہفتہ کو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے ملتان گیریژن کا دورہ کیا، انہیں کور ہیڈکوارٹرز میں فارمیشن کی آپریشنل تیاریوں اور جاری تربیتی سرگرمیوں پر تفصیلی بریفنگ دی گئی، اعلیٰ معیار کی تیاریوں پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے فیلڈ مارشل نے قومی خودمختاری اور جغرافیائی سالمیت کے تحفظ کےلئے پاک فوج کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا۔(جاری ہے)
بعد ازاں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سے تعارفی نشست میں شرکت کی جہاں انہوں نے قومی یکجہتی ، سول ملٹری ہم آہنگی اور ہائی بریڈ خطرات کے مقابلے اور معاشرتی ہم آہنگی کے فروغ کےلئے قومی سطح کے اشتراک کی اہمیت پر زور دیا۔ دورے کے دوران چیف آف آرمی سٹاف نے پاک فوج کے فضائی شعبے میں جدید زیڈ۔ 10 ایم ای ہیلی کاپٹر کی شمولیت کی تقریب کی صدارت بھی کی۔ یہ جدید ترین ہیلی کاپٹر رات اور دن میں درستگی سے حملے کی صلاحیت رکھتا ہے، جدید راڈار سسٹمز اور جدید ترین الیکٹرانک وار فیئر سوہٹس سے لیس یہ ہیلی کاپٹر پاک فوج کی فضائی اور زمینی خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت کو نمایاں طور پر بڑھاتا ہے۔ بعد ازاں چیف آف آرمی سٹاف نے مظفر گڑھ فیلڈ فائرنگ ریجنز میں نئے شامل کئے گئے زیڈ ۔10 ایم ای ہیلی کاپٹروں کی فائر پاور کا عملی مظاہرہ بھی دیکھا، اس جدید نظام کی شمولیت پاک فوج کے فضائی شعبہ کی جدیدیت کی جانب ایک اہم سنگ میل ہے جو میدان جنگ میں موثر رد عمل اور دشمن پر فیصلہ کن برتری قائم کرنے کی صلاحیت کو مزید مستحکم کرتا ہے۔ جوانوں سے گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف نے ان کے بلند حوصلے ، پیشہ وارانہ مہارت اور جنگی تیاریوں کو سراہا۔ انہوں نے مشترکہ عسکری حربی حکمت عملی کے کامیاب مظاہرے کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ پاک فوج کے اس عزم کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ بدلتی ہوئی جنگی نوعیت میں فیصلہ کن برتری برقرار رکھنے کےلئے پرعزم ہے۔ قبل ازیں ملتان گیریژن آمد پر کور کمانڈر ملتان نے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا پرتپاک استقبال کیا۔\932.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر چیف ا ف ا رمی سٹاف پاک فوج کے ہم ا ہنگی
پڑھیں:
کیا کالعدم پشتون تحفظ موومنٹ ختم ہو گئی؟
ایک سال قبل، اکتوبر 2024 میں خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع خیبر میں کالعدم پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کا ایک بڑا جرگہ ہوا تھا۔ اس جرگے میں مزید عوامی جرگے اور احتجاجی مظاہرے کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، لیکن اس کے بعد سے پی ٹی ایم اور اس کے رہنما منظرِ عام سے غائب ہو گئے ہیں۔
کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اکتوبر 2024 کا جرگہ کالعدم پی ٹی ایم کے لیے آخری ثابت ہوا، اور اس کے بعد یہ تنظیم، جو پشتونوں کے حقوق کے نام پر بنی تھی، وقت سے پہلے ہی ختم ہو گئی یا اب آخری سانسیں لے رہی ہے۔
دوسری جانب کچھ مبصرین کہتے ہیں کہ پی ٹی ایم کے حامی اب بھی موجود ہیں، تاہم تنظیمی سطح پر کوئی سرگرمی یا منصوبہ بندی نظر نہیں آ رہی۔ یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ پی ٹی ایم معصوم لوگوں کو ریاست اور حکومت کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہی تھی، جو ناکام ثابت ہوئی۔
پشاور کے نوجوان صحافی انور زیب، جو کالعدم پی ٹی ایم کے جرگوں اور جلسوں کی کوریج کرتے رہے ہیں، اس تنظیم پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق پی ٹی ایم چند سال تک فعال رہی اور اپنے پیغام کو عوام تک پہنچانے میں بڑی حد تک کامیاب رہی۔
انور زیب نے کہا، “نقیب اللہ محسود کے قتل سے پہلے تک منظور پشتین اور پی ٹی ایم کا نام کسی کو معلوم نہیں تھا، مگر جب یہ لوگ ڈی آئی خان سے پشاور پہنچے تو راتوں رات ان کی ملک بھر میں مقبولیت بڑھ گئی۔”
ان کے مطابق بعد ازاں پی ٹی ایم نے باقاعدہ جلسے، جلوس اور جرگے شروع کیے، جن میں پشتون علاقوں کے معروف افراد بھی شامل ہو گئے۔
“اگر دیکھا جائے تو کالعدم پی ٹی ایم ابتدا سے ہی متنازع رہی۔ وہ خود کو غیر سیاسی تحریک کہتی تھی، مگر منظور پشتین کے اردگرد زیادہ تر سیاسی لوگ موجود تھے۔”
انور زیب کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم پشتونوں کے خلاف ظلم، زیادتی، آپریشنز اور ناانصافی کے خلاف بنی تھی، اور اس کی شہرت کی بڑی وجہ طاقتور ریاستی اداروں پر تنقید اور نعرے بازی تھی۔ “جہاں بھی کوئی ظلم یا ناانصافی ہوتی، پی ٹی ایم والے وہاں پہنچ جاتے تھے۔ لیکن اکتوبر 2024 کا جرگہ ان کے لیے بھاری ثابت ہوا۔ منظور پشتین اور ان کے ساتھی اب کہیں نظر نہیں آ رہے۔”
ان کے مطابق ایک سال گزر چکا ہے اور پی ٹی ایم کی کوئی سرگرمی نہیں ہوئی۔ “اگر میں کہوں کہ یہ تنظیم ختم ہو گئی ہے تو غلط نہیں ہوگا، کیونکہ کسی بھی تحریک کو زندہ رکھنے کے لیے عوامی رابطہ ضروری ہے۔”
انور زیب نے کہا کہ دنیا بھر میں اکثر تحاریک وقت کے ساتھ ختم ہو جاتی ہیں، اور جب مسائل ختم ہو جائیں تو عوام کی دلچسپی بھی ختم ہو جاتی ہے۔ تاہم، ان کے مطابق پی ٹی ایم شاید وقت سے پہلے ہی ختم ہو گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ پی ٹی ایم پر کئی سنگین الزامات لگے، لیکن اس نے حکومت اور ریاستی اداروں کو قبائلی علاقوں کے مسائل کی طرف متوجہ کیا۔ “آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان لوگوں نے طاقتور حلقوں کو چیلنج کیا اور قبائلی مسائل کو سامنے لایا۔”
پشاور کے ایک اور تحقیقاتی صحافی وسیم سجاد بھی کچھ حد تک انور زیب سے اتفاق کرتے ہیں، تاہم ان کا ماننا ہے کہ اگر کالعدم پی ٹی ایم دوبارہ سرگرم ہوئی تو لوگ اب بھی اس کے ساتھ آئیں گے۔
وسیم سجاد کے مطابق، “گزشتہ سال اکتوبر میں خیبر جرگہ بہت متنازع ثابت ہوا۔ مختلف سیاسی رہنماؤں کے اختلافات، حتمی اعلامیے پر اتفاقِ رائے نہ ہونا، اور اس کے فوراً بعد حکومتی کریک ڈاؤن نے پی ٹی ایم کو شدید نقصان پہنچایا۔ حکومت نے تنظیم پر پابندی لگائی اور منظور پشتین سمیت دیگر رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کیے، جس کے بعد وہ سب روپوش ہو گئے۔”
وسیم نے بتایا کہ کالعدم پی ٹی ایم پر پہلے سے ہی مختلف الزامات موجود تھے، جیسے بیرونی ممالک سے تعلق اور مبینہ فنڈنگ۔ “حکومتی اداروں کا موقف ہے کہ پی ٹی ایم بیرونِ ملک سے آپریٹ ہو رہی تھی۔”
ان کے مطابق فی الحال یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پی ٹی ایم مکمل طور پر ختم ہو گئی ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ تنظیم منظرِ عام سے غائب ہے اور عوام سے اس کا رابطہ ختم ہو چکا ہے۔
“پہلے جہاں بھی ناانصافی ہوتی، یہ لوگ وہاں پہنچ جاتے تھے، اب لوگ ان کی طرف دیکھتے ہیں مگر وہ خاموش ہیں۔”
معصوم لوگوں کی ریاستی اداروں کے خلاف ذہن سازی کے سوال پر وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ ایسے الزامات کالعدم پی ٹی ایم پر ضرور لگے، لیکن یہ بات قابلِ بحث ہے کہ آیا وہ واقعی لوگوں کو اکساتے تھے یا حقیقی مسائل پر بات کرتے تھے۔
“آپ منظور پشتین کے اندازِ بیان سے اختلاف کر سکتے ہیں، مگر بہت سے لوگوں کے نزدیک وہ ان کے ترجمان تھے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ پابندی کے بعد پی ٹی ایم کے رہنماؤں کا عوام سے رابطہ تقریباً ختم ہو چکا ہے اور اب یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ کہاں ہیں۔
کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی ایم پر اچانک پابندی اور اس کے بعد منظرِ عام سے غائب ہونا اس کی ناکامی کی علامت ہے۔ تاہم، تنظیم کے قریبی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ رہنما اب بھی آپس میں رابطے میں ہیں اور حکومتی کریک ڈاؤن سے بچنے کے لیے عارضی طور پر روپوش ہیں۔
پی ٹی ایم کا مختصر پس منظر
کالعدم پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کی بنیاد 2014 میں جنوبی وزیرستان کے نوجوان منظور پشتین نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر رکھی۔ ابتدا میں اس کا نام محسود تحفظ موومنٹ تھا، جس کا مقصد قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز کے بعد بے گھر افراد، بارودی سرنگوں اور لاپتہ افراد کے مسائل کو اجاگر کرنا تھا۔
جنوری 2018 میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کے کراچی میں جعلی پولیس مقابلے میں قتل نے اس تحریک کو ملک گیر شہرت دی۔ منظور پشتین اور ان کے ساتھیوں نے ’پشتون لانگ مارچ‘ شروع کیا، جو اسلام آباد پہنچ کر ایک بڑی عوامی تحریک میں بدل گیا۔
اس مارچ میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، سماجی شخصیات اور صحافیوں نے بھی شرکت کی۔ اسی دوران تنظیم کا نام بدل کر پشتون تحفظ موومنٹ رکھا گیا۔
بعد ازاں، ریاست اور پی ٹی ایم کے تعلقات کشیدہ ہوتے گئے، اور بالآخر وفاقی حکومت نے 6 اکتوبر 2024 کو پی ٹی ایم پر پابندی عائد کر دی۔ وزارتِ داخلہ کے مطابق، تنظیم “ملک دشمن بیانیہ اور انارکی پھیلانے” میں ملوث تھی۔ختم
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں