Express News:
2025-11-04@04:39:53 GMT

امریکی ٹیرف اور پاکستان

اشاعت کی تاریخ: 3rd, August 2025 GMT

پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ اس پیش رفت کا تعلق تجارت اور معیشت سے ہے۔ امریکا نے ٹیرف کے معاملے میں پاکستان کا خیال رکھا ہے۔ میڈیا کی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ امریکا نے پاکستانی مصنوعات پر 19فیصد ٹیرف عائد کر دیا ہے جو بھارت اور دیگر ایشیائی ممالک کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔

یوں پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے کم ٹیرف کا حامل ملک بن گیا ہے جو یقینا ایک مثبت پیش رفت ہے۔ امریکا نے جو نئی ٹیرف فہرست جاری کی ہے، اس کے مطابق بھارت پر 25فیصد ٹیرف عائد کیا گیا ہے۔ یوں جنوبی ایشیا میں بھارت پر سب سے زیادہ شرح سے ٹیرف عائد کیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش، سری لنکا، ویتنام، تائیوان پر 20 فیصد ٹیرف عائد کیا گیا ہے۔ امریکا کے ساتھ تجارت میں پاکستان کو جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ترجیحی پوزیشن حاصل ہوگئی ہے۔ جمعے کو وزارت خزانہ کی جانب سے جاری بیان میں اس بات پر خوشی کا اظہارکیا گیا ہے کہ نیا ٹیرف امریکی حکام کی جانب سے ایک متوازن پالیسی کی عکاسی کرتا ہے اور پاکستان کو جنوبی و جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ مسابقتی حیثیت فراہم کرتا ہے۔

ٹیرف کی یہ سطح پاکستان کی برآمدی استعداد بالخصوص ٹیکسٹائل کے شعبے کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہو گی۔ موجودہ ٹیرف معاہدہ امریکی منڈی میں پاکستان کی موجودگی کو وسعت دینے کا ایک اہم موقع فراہم کرے گا۔ پاکستان پر امریکی ٹیرف کم شرح سے عائد ہونے کے سبب امریکا کو پاکستانی برآمدات میں 20فیصد تک اضافے کی توقعات ظاہر کی جا رہی ہیں۔ نئی ٹیرف ڈیل کے باعث امریکا کو نئی سرمایہ کاری کرنے پر ٹیکس رعایتیں بھی حاصل ہوں گی۔

امریکا کے ساتھ ٹریڈ ڈیل فائنل کرنے میں ایس آئی ایف سی کی معاونت کے ساتھ ساتھ یہ چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقاتوں، پاکستان کی مؤثر اور فعال خارجہ پالیسی کا بھی نتیجہ ہے۔ اس اہم پیش رفت میں وزیراعظم شہباز شریف، وزیر خارجہ اسحاق ڈارکے امریکی حکام سے موثر رابطوں اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی کامیاب اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کا بھی اہم کردار ہے۔

یوں دیکھا جائے تو حالیہ عرصے میں پاکستان نے جو سفارت کاری کی ہے اس کے اچھے اثرات ظاہر ہو رہے ہیں اور امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات نئے دور میں داخل ہوئے ہیں۔ امریکی حکومت نے دیگر ممالکت پر ٹیرف کی جو شرح رکھی ہے، اس کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی حکمت عملی کی کامیابی واضح ہوتی ہے۔ امریکی حکومت نے جنوبی افریقہ پر 30 فیصد، سوئٹزرلینڈ 39فیصد، ترکیہ اور اسرائیل 15فیصد،کینیڈا 35فیصد، برطانیہ، برازیل، فاک لینڈ آئی لینڈز 10فیصد، میانمار، لائوس 40فیصد، شام پر41 فیصد ٹیرف لگایا گیا ہے۔ پاکستان انڈونیشیا، ملائیشیا، فلپائن، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا 19 فیصد ٹیرف والے ممالک میں شامل ہیں۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات مزید بہتر ہونے کی توقع ہے اور ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں امریکی حکومت پاکستان پر ٹیرف کی شرح مزید کم کر دے۔

پاکستان اور چین کے درمیان بھی تعلقات میں بہتری ہو رہی ہے۔ یہ بھی پاکستان کی ایک کامیاب حکمت عملی ہے کہ اس نے امریکا کے ساتھ بھی ایک اچھا تعلق رکھا ہے جب کہ چین کے ساتھ بھی تعلقات کو بہتر سے بہتر بنایا ہے۔ پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے گزشتہ روز کہا ہے کہ پاکستان اور چین کی دوستی مستحکم اور غیر متزلزل ہے، پاک فوج اور پی ایل اے سچے بھائی ہیں، ان کی پائیدار شراکت داری علاقائی استحکام کو فروغ دینے اور مشترکہ اسٹرٹیجک مفادات کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرتی رہے گی۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے قیام کی 98ویں سالگرہ کے موقع پر کیا۔ آئی ایس پی آرکے مطابق چین کی پیپلز لبریشن آرمی  کے قیام کی 98ویں سالگرہ جمعے کو جی ایچ کیو راولپنڈی میں منائی گئی۔ تقریب میں پاکستان میں تعینات چین کے سفیر جیانگ زیڈونگ نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا کہ پاک چین اسٹرٹیجک تعلقات باہمی اعتماد، غیر متزلزل حمایت اور مشترکہ عزم کی مثال ہیں۔

ان کا کہناتھا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات منفرد اور ابھرتے ہوئے علاقائی اور عالمی چیلنجوں کے درمیان غیر معمولی طور پر لچکدار ہیں۔ انھوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج کے ثابت قدم کردار کا اعتراف کیا۔ چینی سفیر نے پاکستان کے ساتھ اپنی اسٹرٹیجک شراکت داری کے لیے چین کی غیر متزلزل حمایت اور عزم کا اعادہ کیا۔ یوں دیکھا جائے تو پاکستان جنوبی ایشیا میں ایک انتہائی اہم ملک کے طور پر ابھرا ہے جب کہ بھارت کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔

بھارت اور امریکا کے درمیان بھی تعلقات سردمہری کا شکار ہیں۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسینٹ نے کہا ہے کہ بھارت روس سے خام تیل خرید کر اسے ریفائن کرکے فروخت کرتا ہے جو عالمی برادری کی توقعات کے برعکس ہے۔ یوں بھارت خود کو ایک ذمے دار عالمی طاقت کے طور پر پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ایک انٹرویو میں امریکی وزیرخزانہ نے کہا بھارت کے رویئے نے امریکا کے ساتھ اس کے تجارتی تعلقات کو غیریقینی بنا دیا ہے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی پوری ٹیم بھارت کے موجودہ فیصلوں سے سخت مایوس ہے، مستقبل میں تجارتی معاہدے کا انحصار بھارت کے رویے پر ہوگا۔

برطانوی خبررساں ایجنسی نے ایک امریکی سینئر اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکا اور انڈیا کے درمیان تجارتی معاہدے پر پہنچنے کے لیے اختلافات کو راتوں رات حل نہیں کیا جا سکتا۔ انڈیا کے ساتھ ہمارے چیلنجز یہ ہیں کہ انڈین مارکیٹ دیگر ممالک کے ساتھ کاروبار کے لیے زیادہ اوپن نہیں ہے۔ برکس کی رکنیت اور دیگر جغرافیائی سیاسی مسائل بھی ہیں۔
بھارت کے ساتھ امریکا کے اختلافات اب ڈھکے چھپے رہے ہیں۔

ادھر ایک اطلاع میں بتایا گیا ہے کہ بھارت نے امریکا سے F-35 لڑاکا طیارے خریدنے میں عدم دلچسپی ظاہر کردی، بلومبرگ رپورٹ کے مطابق بھارت نے باضابطہ طور پر امریکی حکام کو فیصلے سے متعلق مطلع کر دیا ہے۔ نریندر مودی کے وائٹ ہاؤس کے دورے کے دوران ٹرمپ نے بھارت کو جدید F-35 طیارے فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی۔ بھارت کے وزیر تجارت پیوش گوئل نے کہا انڈیا اب نازک معیشت نہیں رہا، وہ دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے کی جانب بڑھ رہا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے عالمی صف بندیاں ایک بار پھر تبدیل ہو رہی ہیں۔ امریکا کے گہرے دوست اور اتحادی بھی صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے مخمصے اور تحفظات کا شکار ہیں۔ برطانیہ اور فرانس صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے حق میں نہیں ہیں۔ یورپی یونین اور برطانیہ نے یوکرین کے ایشو پر صدر ٹرمپ کا ساتھ نہیں دیا تھا اور بھارت کے ساتھ بھی یورپی یونین اچھے تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے بلکہ حال ہی میں بھارت اور برطانیہ کے درمیان بڑا تجارتی معاہدہ ہوا ہے۔

ادھر چین بھی امریکا کی پالیسیوں سے خوش نہیں ہے۔ ادھر امریکا کی طرف سے درجنوں ممالک پر بھاری ٹیکس عائد کرنے سے عالمی اسٹاک مارکیٹیں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ گزشتہ روز بیشتر مارکیٹیں گری ہیں جب کہ تیل کی قیمتوں میں بھی کمی کا رجحان ہے۔ دوسری جانب کموڈیٹی مارکیٹس میں بھی مندی کا رجحان رہا، جہاں جمعرات کو ایک فیصد کمی کے بعد تیل کی قیمتوں میں مزید گراوٹ دیکھی گئی۔کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی نے امریکی صدر کی طرف سے ٹیرف عائد کرنے کے بعد اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ٹرمپ کے فیصلے پر سخت مایوسی ہوئی ہے۔

امریکی فیصلے سے لکڑی،اسٹیل، ایلومینیم، اور گاڑیوں کے شعبے شدید متاثر ہوں گے۔ برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کی نئی تجارتی پالیسی یورپ کی صنعتوں کے لیے بھی کڑا امتحان ہے۔ صدرٹرمپ کی طرف سے اعلان کردہ ٹیرف1930 کی دہائی کے بعد بلند ترین ٹیرف ہیں۔ انٹرنیشنل چیمبر آف کامرس کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل اینڈریو ولسن نے کہا ہے کہ امریکا سے تجارت کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے، یہ صورت حال شاید اسی وقت بدلے گی جب امریکی معیشت پر اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں۔ اس عالمی منظرنامے کو دیکھا جائے تو دنیا ایک نئی تجارتی چپقلش کی طرف بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔

اس کے اثرات وسیع پیمانے پر بے روزگاری اور غربت میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہوں گے۔ یہ بھی لازم ہے کہ کچھ عرصے کے بعد امریکی معیشت بھی اس تجارتی چپقلش کی لپیٹ میں آ جائے گی اور اس کے اثرات بھی امریکی عوام پر خصوصاً امریکا کی مڈل کلاس پر پڑیں گے۔ 
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جنوبی ایشیا میں امریکا کے ساتھ صدر ڈونلڈ ٹرمپ میں پاکستان کی پالیسیوں پاکستان کی کیا گیا ہے ٹیرف عائد فیصد ٹیرف کے درمیان کہا ہے کہ کے مطابق بھارت کے ممالک کے پیش رفت ٹرمپ کی جائے تو ہے کہ ا کے لیے نے کہا کے بعد کی طرف چین کی

پڑھیں:

امریکا اور بھارت کے دفاعی معاہدے کی کیا اہمیت ہے؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251104-03-6

 

وجیہ احمد صدیقی

امریکا اور بھارت نے 31 اکتوبر 2025 کو ایک اہم 10 سالہ دفاعی معاہدے پر دستاویزی شکل میں دستخط کیے ہیں، جو کہ ان کے درمیان دفاعی تعاون کی نئی دہائی کی شروعات کا اعلان ہے۔ یہ معاہدہ ملائیشیا کے شہر کوالالمپور میں ASEAN Defense Ministers Meeting-Plus کے دوران بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیٹ کے مابین ہوا۔ اس دفاعی فریم ورک کا مقصد اگلے دس سال میں فوجی تعاون کو بڑھانا، ٹیکنالوجی کے تبادلے کو فروغ دینا، اور مشترکہ فوجی مشقوں کو وسعت دینا ہے۔ معاہدے میں خصوصاً ’’Make in India, Make for the World‘‘ کے لیے دفاعی صنعتوں کی مشترکہ پیداوار اور ترقی پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، اطلاعات اور انٹیلی جنس کے تبادلے کو مضبوط بنانے، سائبر اور بحری تحفظ جیسے عسکری چیلنجز سے نمٹنے، اور علاقائی استحکام کے لیے ایک آزاد اور قوانین پر مبنی انڈو- پیسفک خطے کو قائم رکھنے کی ذمے داریوں کو تسلیم کیا گیا ہے۔ بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اسے ’’دوسری دہائی کے لیے ایک متحد دفاعی حکمت عملی‘‘ قرار دیا جس سے دونوں ملکوں کے درمیان اسٹرٹیجک شراکت مضبوط ہوگی۔ امریکی وزیر دفاع نے بھی اس کو دونوں ممالک کے درمیان ایک ادارہ جاتی اور وسیع تعاون کا اہم سنگ میل قرار دیا، جو خاص طور پر چین کی بڑھتی ہوئی عسکری سرگرمیوں کے پیش نظر انڈو- پیسفک خطے میں امریکا کے حق میں توازن قائم رکھنے کی کوشش ہے۔

یہ معاہدہ گزشتہ برسوں کے دفاعی تعاون کو مزید مضبوط کرتا ہے، جس میں بھارت کو امریکا سے جدید ہتھیاروں اور تکنیکی معاونت حاصل کرنے، اور مشترکہ دفاعی پیداوار کو فروغ دینے کے مواقع شامل ہیں۔ خلاصہ کے طور پر، امریکا اور بھارت کے درمیان ہونے والا یہ 10 سالہ دفاعی معاہدہ علاقائی سلامتی، دفاعی صنعتوں کی ترقی، اور فوجی تعاون کو نئی بلندیوں تک لے جانے والا ایک کلیدی اقدام ہے، جو دونوں ملکوں کے تعلقات کی گہرائی اور اسٹرٹیجک مفادات کا عکاس ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس معاہدے کا علم ہونے کے باوجود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے آسیان اجلاس میں شرکت نہیں کی اور صدر ٹرمپ سے ملاقات کا موقع کھو دیا۔

امریکا نے دنیا کے کئی ممالک کے ساتھ دفاعی معاہدے کیے ہیں جن میں جاپان، جرمنی، برطانیہ، اسرائیل، ترکیہ، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، سعودی عرب، قطر اور پاکستان بھی شامل ہیں۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان کئی دفاعی معاہدے ہوئے ہیں، جن میں جدید میزائل پروگرام میں پاکستان کی شمولیت بھی شامل ہے۔ پاکستان امریکا کے اس عالمی میزائل پروگرام میں 30 ممالک کی فہرست میں شامل ہوا ہے جہاں جدید میزائل خریدے جاتے ہیں، اور پاکستان نے اپنے ایف-16 طیاروں کی اپ گریڈیشن کے لیے امریکی تعاون حاصل کیا ہے۔ یہ معاہدے پاکستان کے ساتھ بڑھتے ہوئے فوجی اور اقتصادی تعلقات کی عکاسی کرتے ہیں۔

امریکا نے بھارت کے ساتھ کسی جنگ میں ساتھ دینے کا کوئی معاہدہ نہیں کیا، تاہم دفاعی معاہدوں کے ذریعے علاقائی سیکورٹی تعاون کو فروغ دیا جارہا ہے۔ پاکستان کے ساتھ امریکا نے متعدد دفاعی معاہدے کیے ہیں جن کے تحت جدید ہتھیاروں اور میزائلوں کی فراہمی، فوجی تربیت اور اسٹرٹیجک تعاون شامل ہیں، لیکن پاکستان اور امریکا کے درمیان جنگ کی صورت میں براہ راست حمایت کا کوئی معاہدہ نہیں۔

یہ معاہدے علاقائی سیکورٹی کے تناظر میں امریکا کی عسکری اور سفارتی پالیسیوں کی عکاسی کرتے ہیں جو پاکستان اور بھارت دونوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مختلف انداز میں سنوارتے ہیں۔ مزید تفصیلات معاہدوں کی نوعیت، تاریخ اور اثرات پر مزید تحقیق اور دستاویزی مواد کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس طرح امریکا نے دفاعی معاہدات کے ذریعے خطے میں اپنی سیاسی اور فوجی حکمت عملی کو بروئے کار لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

امریکا کے بین الاقوامی دفاعی معاہدوں کی مکمل فہرست تیار کرنا ایک وسیع موضوع ہے کیونکہ امریکا نے دنیا کے کئی ممالک کے ساتھ مختلف دوروں میں متعدد دفاعی معاہدے کیے ہیں۔ تاہم، موجودہ معتبر ذرائع کی بنیاد پر امریکا کے چند نمایاں اور اہم بین الاقوامی دفاعی معاہدات سال وار ترتیب میں یہ ہیں۔

2017: جوہری ہتھیاروں کی ممانعت کا معاہدہ؛ جو نیوکلیئر ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے قانونی اور بین الاقوامی معاہدہ ہے۔

2020: دوحا امن معاہدہ؛ امریکا اور طالبان کے درمیان افغانستان میں جنگ بندی کے لیے۔

2020: نگورنو کاراباخ جنگ بندی معاہدہ؛ جس نے 2020 کی ناگورنو کاراباخ جنگ ختم کی۔

2025: امریکا نے پاکستان کو جدید درمیانی فاصلے کے میزائل پروگرام میں شامل کیا، جس میں ایف-16 طیاروں کی اپ گریڈیشن بھی شامل ہے۔

2025: امریکا اور بھارت نے 10 سالہ دفاعی فریم ورک معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت دفاعی تعاون، حساس ڈیٹا کا تبادلہ، اور تکنیکی شراکت داری کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اس معاہدے میں بھارت کو امریکی فوجی سیٹلائٹ سے حساس معلومات کی رسائی بھی دی گئی ہے۔ امریکا کے ساتھ دیگر ممالک کے بھی دفاعی معاہدات ہیں جن میں مختلف فوجی مشقیں، ہتھیاروں کی فراہمی، اور اسٹرٹیجک تعاون شامل ہیں۔ یہ فہرست جامع تو نہیں لیکن اہم اور تازہ ترین معاہدات کی نمائندگی کرتی ہے جو امریکا کی عالمی دفاعی حکمت عملی کے بنیادی ستون ہیں۔ تفصیلی معاہدات کی مکمل فہرست عالمی دفاعی اور سفارتی اداروں کی دستاویزات میں دستیاب ہوتی ہے۔ امریکی بین الاقوامی دفاعی معاہدوں کے کلیدی شرائط اور فریقین درج ذیل ہیں، جن کا خلاصہ اہم معاہدوں کی بنیاد پر پیش کیا جا رہا ہے۔

امریکا، بھارت 10 سالہ دفاعی فریم ورک معاہدہ (2025) فریقین: امریکا اور بھارت۔ کلیدی شرائط: دفاعی تعاون، حساس فوجی معلومات کی باہمی فراہمی، مشترکہ فوجی مشقیں، دفاعی ٹیکنالوجی کی منتقلی، دہشت گردی کے خلاف اشتراک عمل۔ مقصد: علاقائی استحکام اور دفاعی شراکت داری کو مضبوط کرنا۔

امریکا، پاکستان جدید میزائل پروگرام میں شمولیت (2025): فریقین: امریکا اور پاکستان۔ کلیدی شرائط: پاکستان کے جدید درمیانی فاصلے کے میزائل پروگرام میں شمولیت، ایف-16 طیاروں کی اپ گریڈیشن، فوجی ہتھیاروں کی فراہمی، مشترکہ دفاعی تربیت۔ مقصد: پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو جدید بنانا اور دو طرفہ تعلقات کو تقویت دینا۔

دوحا امن معاہدہ (2020): فریقین: امریکا اور طالبان۔ کلیدی شرائط: لڑائی بند کرنا، افغان حکومت سے بات چیت شروع کرنا، غیر ملکی افواج کا انخلا، طالبان کی طرف سے دہشت گردی کی حمایت ختم کرنا۔ مقصد: افغانستان میں پائیدار امن قائم کرنا۔

جوہری ہتھیاروں کی ممانعت کے معاہدات (متعدد برسوں میں) فریقین: امریکا اور دیگر عالمی ممالک۔ کلیدی شرائط: نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری، جانچ اور استعمال کی روک تھام، نیوکلیئر تکنیکی معلومات کی از سر نو جانچ اور کنٹرول۔ مقصد: عالمی نیوکلیئر استحکام اور ہتھیاروں کی دوڑ کو روکنا۔ یہ معاہدے تمام شرائط میں قانونی، فنی اور سیاسی پہلوؤں پر مبنی ہوتے ہیں، جن میں فریقین کی ذمے داریوں، تعاون کی حدود، مدت، سیکورٹی تصدیق، اور تنازعات کے حل کے طریقہ کار کی تفصیلات شامل ہوتی ہیں۔ یہ فریقین کے درمیان اعتماد قائم کرنے، دفاعی تعاون مضبوط بنانے، اور علاقائی اور عالمی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہیں۔ مزید تفصیلی شرائط ہر معاہدے کی سرکاری دستاویزات یا متعلقہ حکومتی و عالمی اداروں کے مواد میں موجود ہوتی ہیں۔

 

وجیہ احمد صدیقی

متعلقہ مضامین

  • امریکا اور بھارت کے دفاعی معاہدے کی کیا اہمیت ہے؟
  • حماس کیجانب سے 3 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرنے پر خوشی ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • پاکستان سے امریکا کیلئے براہ راست پروازوں کی بحالی کے سلسلے میں بڑی پیشرفت
  • امریکا کیلئے براہ راست پروازوں کی بحالی قریب، ایف اے اے کا نیا آڈٹ جنوری میں متوقع
  • امریکا میں سفیر پاکستان کا پاک-امریکا بزنس کانفرنس اینڈ ایکسپو 2025 کا افتتاح 
  • ٹیرف مخالف اشتہار پر امریکی صدر سے معافی مانگی ہے: کینیڈین وزیر اعظم
  • امریکا کیلئے براہ راست پروازوں کی بحالی میں بڑی پیشرفت
  • چین کی معدنی بالادستی: امریکا کو تشویش، توازن کے لیے پاکستان سے مدد طلب
  • پاکستان سے امریکا کیلئے براہ راست پروازوں کی بحالی پر اہم پیشرفت
  • امریکا نے چین کی معدنی بالادستی کے توازن کیلئے پاکستان سے مدد طلب کرلی