اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گویر نے سیکڑوں آبادکاروں کی قیادت کرتے ہوئے یروشلم کی مسجد اقصیٰ کے احاطے میں اشتعال انگیز مارچ اور بڑے پیمانے پر دراندازی کی، جو یہودی مذہبی موقع ’تشعہ بے آو‘ کے موقع پر کی گئی۔
میڈیارپورٹس کے مطابق یروشلم کی اسلامی اوقاف نے بتایا کہ صبح کے وقت کم از کم ایک ہزار 251 غیر قانونی اسرائیلی آبادکاروں نے مسجد اقصیٰ کے احاطے میں زبردستی داخل ہو کر تلمودی رسومات ادا کیں، گانے گائے اور رقص کیا، یہ سب کچھ اسرائیلی پولیس کی بھاری سکیورٹی میں ہوا۔
شرکا میں لیکوڈ پارٹی کے رکنِ پارلیمان امیت ہالےوی بھی شامل تھے، جو بن گویر کے ساتھ اس اقدام میں شریک تھے، جسے فلسطینی حکام نے سیاسی و مذہبی اشتعال انگیزی میں غیر معمولی اضافہ قرار دیا ہے۔
یروشلم گورنریٹ نے اس منظم، بڑے پیمانے پر دراندازی کی سنگینی سے خبردار کرتے ہوئے اسے مسجد اقصیٰ کی حرمت اور فلسطینی نمازیوں کے حقوق کی منظم خلاف ورزی قرار دیا۔
اس دراندازی کے دوران مسلمان نمازیوں، صحافیوں اور مسجد اقصیٰ کے محافظوں پر حملے بھی کیے گئے۔
بن گویر نے مسجد اقصیٰ کے احاطے سے دیے گئے ایک بیان میں کہا کہ ہیکل کا پہاڑ یہودیوں کیلئے ہے، اور ہم ہمیشہ یہاں رہیں گے، اس بیان کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی ہے۔
یہ دراندازی بن گویر کی جانب سے آدھی رات کے بعد پرانے یروشلم میں ایک اور غیر قانونی آبادکار مارچ کی قیادت کے چند گھنٹوں بعد ہوئی۔
یہ تمام سرگرمیاں انتہا پسند ٹیمپل ماؤنٹ گروپوں کی طرف سے منظم کی گئی تھیں، جنہوں نے اتوار کے روز ’تشعہ بے آؤ‘ کے موقع پر مسجد اقصیٰ میں بڑے پیمانے پر داخلے کی کال دی تھی، جسے وہ ’ہیکل کی تباہی کی سالگرہ‘ قرار دیتے ہیں۔
یروشلم گورنریٹ نے اس سال کے ’تشعہ بے آؤ‘ کو مسجد اقصیٰ کے لیے سب سے خطرناک دنوں میں سے ایک قرار دیا، کیوں کہ ان گروپوں نے 3 اگست کو سب سے بڑے دراندازی کے دن کے طور پر منانے کی منصوبہ بندی کی تھی۔
بیان میں کہا گیا کہ اسرائیلی حکومت کی غیر قانونی آبادکار گروپوں کے ساتھ مکمل ہم آہنگی ان کوششوں کو مزید جرات دے رہی ہے، جو مسجد اقصیٰ کی مذہبی اور قانونی حیثیت کو تبدیل کرنے کی نیت رکھتی ہیں۔
واضح رہے کہ مسجد اقصیٰ اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے، جب کہ یہودی اسے ٹیمپل ماؤنٹ کہتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہاں ماضی میں ان کے 2 ہیکل واقع تھے۔

اسرائیل نے 1967 کی عرب-اسرائیل جنگ کے دوران مشرقی یروشلم، جہاں مسجد اقصیٰ واقع ہے، پر قبضہ کیا، اور 1980 میں پورے شہر کو ضم کر لیا، جسے بین الاقوامی برادری نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔
اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گویر نے ایک بار پھر مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو غزہ پر مکمل خودمختاری کا اعلان کرنا چاہیے اور فلسطینیوں کو اس علاقے سے نکل جانے پر مجبور کرنا چاہیے۔
انہوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ایک واضح پیغام دینا ضروری ہے کہ ہم پورے غزہ پٹی پر قبضہ کریں، مکمل خودمختاری کا اعلان کریں، ہر ایک حماس کے رکن کو ختم کریں، اور رضاکارانہ نقل مکانی کی حوصلہ افزائی کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ صرف اسی طریقے سے ہم یرغمالیوں کو واپس لا سکتے ہیں اور جنگ جیت سکتے ہیں۔
سعودی وزارت خارجہ نے اتوار کے روز اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گویر کے مسجد اقصیٰ میں اشتعال انگیز اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے اقدامات خطے میں تنازع کو ہوا دیتے ہیں۔ سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ سعودی مملکت بین الاقوامی برادری سے مسلسل مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اسرائیلی قابض اہلکاروں کے ان اقدامات کو روکے جو بین الاقوامی قوانین اور اقدار کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور خطے میں امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرتے ہیں۔

Post Views: 5.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

حماس کی جانب سے واپس کیے گئے اجسام یرغمالیوں کے نہیں،اسرائیل کا دعویٰ

 اسرائیلی حکام نے کہا ہے کہ حماس کی جانب سے واپس کیے گئے تین افراد کے اجسام کسی بھی لاپتہ اسرائیلی یرغمالی سے مطابقت نہیں رکھتے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے یو پی آئی کے مطابق یہ باقیات جمعے کی شب بین الاقوامی ریڈ کراس کے ذریعے غزہ سے اسرائیل منتقل کی گئیں، جس کے بعد تل ابیب میں فرانزک ٹیسٹ کیے گئے۔

اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ یہ اجسام ان 11 یرغمالیوں میں سے کسی کے نہیں جنہیں اب بھی غزہ میں قید رکھا گیا ہے۔

القصام بریگیڈز نے اپنے بیان میں کہا کہ “دشمن نے نمونے وصول کرنے سے انکار کیا اور مکمل لاشوں کے حوالے کا مطالبہ کیا۔” گروپ کے مطابق وہ اسرائیلی زیرِ قبضہ علاقے، جسے “یلّو لائن” کہا جاتا ہے، میں موجود یرغمالیوں کی لاشوں کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں اور ریڈ کراس سے اس سلسلے میں مزید سہولیات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (ICRC) نے واضح کیا ہے کہ وہ لاشوں کی تلاش میں حصہ نہیں لیتی بلکہ بین الاقوامی انسانی قانون کے مطابق فریقین ہی مردہ افراد کی تلاش، جمع آوری اور واپسی کے ذمہ دار ہیں۔

سیزفائر معاہدے کے بعد سے حماس اب تک 17 یرغمالیوں کی لاشیں واپس کر چکی ہے۔ معاہدے کے تحت تمام ہلاک شدہ یرغمالیوں کی واپسی 72 گھنٹوں کے اندر ہونی تھی، تاہم اب تک صرف چار لاشیں واپس کی گئی ہیں، جب کہ بیس زندہ یرغمالیوں کو رہائی دی جا چکی ہے۔

دوسری جانب اسرائیل نے جمعے کے روز جنگ بندی کے معاہدے کے تحت 30 فلسطینی قیدیوں کی لاشیں واپس کر دیں۔

 

(ذرائع: یو پی آئی، ٹائمز آف اسرائیل، فوکس نیوز، جیرُوسلم پوسٹ)

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں ہمارے زیرِ قبضہ علاقوں میں حماس اب بھی موجود ہے: نیتن یاہو
  • اسرائیل کی جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف حملے تیز کرنے کی دھمکی
  • اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • غزہ سے موصول لاشیں قیدیوں کی نہیں ہیں، اسرائیل کا دعویٰ اور غزہ پر تازہ حملے
  • حماس کی جانب سے واپس کیے گئے اجسام یرغمالیوں کے نہیں،اسرائیل کا دعویٰ
  • اسرائیلی وزیر کی ہاتھ بندھے، اوندھے منہ لیٹے فلسطینی قیدیوں کو قتل کی دھمکی؛ ویڈیو وائرل
  • جب اسرائیل نے ایک ساتھ چونتیس امریکی مار ڈالے
  • قیدیوں کیساتھ صیہونی وزیر داخلہ کے نسل پرستانہ برتاو پر حماس اور جہاد اسلامی کا ردعمل
  • اجازت نہیں دیں گے کہ کوئی مجرم ہمیں دھمکائے، انصار اللّہ