اسرائیلی وزیر بن گویر کی قیادت میں سیکڑوں یہودی مسجد اقصیٰ میں داخل
اشاعت کی تاریخ: 3rd, August 2025 GMT
اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گویر نے سیکڑوں آبادکاروں کی قیادت کرتے ہوئے یروشلم کی مسجد اقصیٰ کے احاطے میں اشتعال انگیز مارچ اور بڑے پیمانے پر دراندازی کی، جو یہودی مذہبی موقع ’تشعہ بے آو‘ کے موقع پر کی گئی۔
میڈیارپورٹس کے مطابق یروشلم کی اسلامی اوقاف نے بتایا کہ صبح کے وقت کم از کم ایک ہزار 251 غیر قانونی اسرائیلی آبادکاروں نے مسجد اقصیٰ کے احاطے میں زبردستی داخل ہو کر تلمودی رسومات ادا کیں، گانے گائے اور رقص کیا، یہ سب کچھ اسرائیلی پولیس کی بھاری سکیورٹی میں ہوا۔
شرکا میں لیکوڈ پارٹی کے رکنِ پارلیمان امیت ہالےوی بھی شامل تھے، جو بن گویر کے ساتھ اس اقدام میں شریک تھے، جسے فلسطینی حکام نے سیاسی و مذہبی اشتعال انگیزی میں غیر معمولی اضافہ قرار دیا ہے۔
یروشلم گورنریٹ نے اس منظم، بڑے پیمانے پر دراندازی کی سنگینی سے خبردار کرتے ہوئے اسے مسجد اقصیٰ کی حرمت اور فلسطینی نمازیوں کے حقوق کی منظم خلاف ورزی قرار دیا۔
اس دراندازی کے دوران مسلمان نمازیوں، صحافیوں اور مسجد اقصیٰ کے محافظوں پر حملے بھی کیے گئے۔
بن گویر نے مسجد اقصیٰ کے احاطے سے دیے گئے ایک بیان میں کہا کہ ہیکل کا پہاڑ یہودیوں کیلئے ہے، اور ہم ہمیشہ یہاں رہیں گے، اس بیان کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی ہے۔
یہ دراندازی بن گویر کی جانب سے آدھی رات کے بعد پرانے یروشلم میں ایک اور غیر قانونی آبادکار مارچ کی قیادت کے چند گھنٹوں بعد ہوئی۔
یہ تمام سرگرمیاں انتہا پسند ٹیمپل ماؤنٹ گروپوں کی طرف سے منظم کی گئی تھیں، جنہوں نے اتوار کے روز ’تشعہ بے آؤ‘ کے موقع پر مسجد اقصیٰ میں بڑے پیمانے پر داخلے کی کال دی تھی، جسے وہ ’ہیکل کی تباہی کی سالگرہ‘ قرار دیتے ہیں۔
یروشلم گورنریٹ نے اس سال کے ’تشعہ بے آؤ‘ کو مسجد اقصیٰ کے لیے سب سے خطرناک دنوں میں سے ایک قرار دیا، کیوں کہ ان گروپوں نے 3 اگست کو سب سے بڑے دراندازی کے دن کے طور پر منانے کی منصوبہ بندی کی تھی۔
بیان میں کہا گیا کہ اسرائیلی حکومت کی غیر قانونی آبادکار گروپوں کے ساتھ مکمل ہم آہنگی ان کوششوں کو مزید جرات دے رہی ہے، جو مسجد اقصیٰ کی مذہبی اور قانونی حیثیت کو تبدیل کرنے کی نیت رکھتی ہیں۔
واضح رہے کہ مسجد اقصیٰ اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے، جب کہ یہودی اسے ٹیمپل ماؤنٹ کہتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہاں ماضی میں ان کے 2 ہیکل واقع تھے۔
اسرائیل نے 1967 کی عرب-اسرائیل جنگ کے دوران مشرقی یروشلم، جہاں مسجد اقصیٰ واقع ہے، پر قبضہ کیا، اور 1980 میں پورے شہر کو ضم کر لیا، جسے بین الاقوامی برادری نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔
اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گویر نے ایک بار پھر مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو غزہ پر مکمل خودمختاری کا اعلان کرنا چاہیے اور فلسطینیوں کو اس علاقے سے نکل جانے پر مجبور کرنا چاہیے۔
انہوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ایک واضح پیغام دینا ضروری ہے کہ ہم پورے غزہ پٹی پر قبضہ کریں، مکمل خودمختاری کا اعلان کریں، ہر ایک حماس کے رکن کو ختم کریں، اور رضاکارانہ نقل مکانی کی حوصلہ افزائی کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ صرف اسی طریقے سے ہم یرغمالیوں کو واپس لا سکتے ہیں اور جنگ جیت سکتے ہیں۔
سعودی وزارت خارجہ نے اتوار کے روز اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گویر کے مسجد اقصیٰ میں اشتعال انگیز اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے اقدامات خطے میں تنازع کو ہوا دیتے ہیں۔ سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ سعودی مملکت بین الاقوامی برادری سے مسلسل مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اسرائیلی قابض اہلکاروں کے ان اقدامات کو روکے جو بین الاقوامی قوانین اور اقدار کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور خطے میں امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرتے ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
تل ابیب میں ہزاروں افراد کا احتجاج، یرغمالیوں کی رہائی کے لیے فوری جنگ بندی کا مطالبہ
اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کے 666ویں دن پر تل ابیب سمیت اسرائیل بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے گئے۔ ہزاروں افراد نے تل ابیب کے مرکزی چوک میں جمع ہو کر مطالبہ کیا کہ غزہ میں قید اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے فوری معاہدہ اور جنگ کا خاتمہ کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیے حماس کے قیدی کی دہائی، ’ہم بھوکے ہیں، اپنی قبر خود کھود رہا ہوں‘
’یہ ایک دوسرا ہولوکاسٹ لگ رہا ہے‘اسرائیلی اخبار یدیعوت احرونوت کے مطابق مظاہرے میں موجود یرغمالیوں کے خاندان انتہائی کربناک جذبات کے ساتھ شریک ہوئے۔
ایویاتار ڈیوڈ اور روم براسلاوسکی جیسے یرغمالیوں کے اہل خانہ نے کہا
’میرے بچے کی زندگی لمحہ بہ لمحہ ختم ہو رہی ہے۔ ہمیں جو فوٹیج موصول ہوئی ہے، اس میں وہ لوگ ( یرغمالی) ہڈیوں کے ڈھانچے بن چکے ہیں۔ یہ ایک دوسرا ہولوکاسٹ لگ رہا ہے۔‘
یہ جملہ ایک باپ کی زبان سے نکلا جس کا بیٹا اب بھی غزہ میں قید ہے۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد شروع ہونے والی جنگ کو اب 666 دن مکمل ہو چکے ہیں۔ تخمینے کے مطابق 50 اسرائیلی یرغمالی اب بھی غزہ میں قید ہیں۔
ان میں سے کم از کم 20 کے زندہ ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
BREAKING: In a televised message, imprisoned Israeli soldier Avitar David, currently held in Gaza by Hamas, states:
⭕ “I have not eaten in days. Our scarce food is lentils and beans. Our captors are giving us what they can.”
⭕ “Netanyahu has abandoned us, and everything we… pic.twitter.com/IxVQCB9n5B
— Quds News Network (@QudsNen) August 2, 2025
ہر ہفتہ مظاہرہ، دباؤ میں اضافہاسرائیل میں یہ مظاہرے اب ہر ہفتہ کی شب باقاعدگی سے ہو رہے ہیں، لیکن اسرائیلی اخبار کے مطابق اس ہفتے کی تعداد اور جذبات نے نسبتاً زیادہ شدت اختیار کی۔ مظاہرین کے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز تھے جن پر درج تھا:
’معاہدہ ابھی کرو!‘
’ہر دن تاخیر، موت کے برابر ہے!‘
حکومتی دباؤ میں اضافہان مظاہروں سے اسرائیلی حکومت پر داخلی دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت کو انسانی بنیادوں پر جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے لیے حماس کے ساتھ کسی بھی قیمت پر معاہدہ کرنا ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل تل ابیب جنگ بندی غزہ یرغمالیوں کی رہائی