مفرور ارکان پارلیمنٹ احتجاج کیلئے اڈیالہ جیل نہیں آئیں گے؛ اندر کی کہانی
اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT
سٹی42: پی ٹی آئی کی قیادت کی ہدایت پر ارکان اسمبلی کا اڈیالہ جیل کے باہر احتجاج کے لئے جمع ہونا بظاہر ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
پی ٹی آئی کے کئی ارکان پارلیمنٹ نو مئی کو ریاست کے اداروں پر حملوں کے مقدمات میں مجرم قرار پا چکے ہیں اور انہیں دس دس سال قید کی سزا ہو چکی ہے۔ یہ سب ارکان پارلیمنٹ اس وقت مفرور ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے انہیں تلاش کر رہے ہیں اور ان کے کسی جگہ سامنے آنے کا بھی انتظار کر رہے ہیں۔ آج قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی یہ سزا یافتہ ارکان سامنے نہیں آئے۔
ٹی ٹونٹی سیریز ؛پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم کی ڈبلن میں بھرپور پریکٹس
پی ٹی آئی کے ذرائع بتا رہے ہیں کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، سنی اتحاد کونسل کا چیئرمین حامد رضا، پارلیمانی پارٹی کی سربراہ اور کئی سرکردہ ارکان کو پولیس ڈھونڈ رہی ہے، وہ پارلیمنٹ اور اڈیالہ جیل دونوں کے قریب بھٹکنے کی جرآت نہیں کر پائیں گے۔
تحریک انصاف کی جانب سے ہنگامے، احتجاج اور مزاحمت کے بلند بانگ نعروں کے درمیان قومی اسمبلی کا اجلاس آج (پیر) پارلیمنٹ ہاؤس میں شروع ہوا تو اس کے دعووں کے برعکس کوئی لیدر احتجاج کرنے کے لئے نہیں آیا۔پی ٹی آئی اپنی دیرینہ روایت کے برعکس آج قومی اسمبلی کے اجلاس کی پہلے دن کی کارروائی میں کوئی شورشرابہ تک نہیں کروا سکی۔
تحریک انصاف نے اسلام آباد میں احتجاج اور جلسہ منسوخ کردیا
یہ قومی اسمبلی کا 18 واں اجلاس تھا جس کے افتتاحی دن کے لیے قومی اسمبلی کے سیکرٹری جنرل سید طاہر حسین نے 32 نکات پر مشتمل تفصیلی یجنڈا جاری کیا تھا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران احتجاج تحریک تحفظ آئین پاکستان کے پلیٹ فارم سے ہونا تھا جو نہیں ہو سکا، اب آج پانچ اگست کو اڈیالہ جیل کے باہر احتجاج بھی اس سیاسی اتحاد کی حمایت سے ہونا ہے لیکن راوپلنڈی کی انتظامیہ نے دفعہ 144 لگا کر پولیس کو نامطلوب ارکان پارلیمنٹ کے بھی اڈیالہ جیل تک آنے کا راستہ بند کر دیا ہے۔
راولپنڈی میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی
پی ٹی آئی نے اڈیالہ جیل کے باہر احتجاج کے لئے اپنے کارکنوں اور وکیلوں کو اڈایلہ جیل جانے کی کوئی ہدایت اب تک جاری نہیں کی، صرف ارکان پارلیمنٹ کو بلایا ہے۔ اڈیالہ جیل کی سکیورٹی کے لئے اس جیل کے دروازوں کی طرف جانے والے راستے پر دونوں اطراف سے چیک پوسٹیں بنی ہوئی ہیں، پولیس اہلکار کسی غیر متعلقہ شخص کو جیل کے دروازوں کے قریب نہیں جانے دیتے، جب پی ٹی آئی کے کسی احتجاج کا دن ہوتا ہے تو یہاں پولیس کے اہلکاروں کی تعداد بڑھ جاتی ہے جب کہ پی ٹی آئی کے کارکن ہمیشہ قلیل تعداد میں ہی نظر آتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت نے سب مفروروں سمیت تمام ارکان پارلیمنت کو اڈیالہ جیل طلب کر لیا
پانچ اگست کے پی ٹی آئی کے احتجاج کے حوالے سے پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ جیل کی سکیورٹی اور امن عامہ کو یقینی بنانے کے لئے تمام ضروری اقدامات کرین گے جن میں گرفتاریاں بھی شامل ہوں گی۔
Waseem Azmet.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: ارکان پارلیمنٹ قومی اسمبلی کے پی ٹی ا ئی کے اڈیالہ جیل جیل کے کے لئے
پڑھیں:
پنجاب اسمبلی: ایک سال کے اندر 17 پرائیویٹ یونیوسٹیز کے بل کیسے منظور ہوئے؟
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں اس وقت پبلک سیکٹر کی 160 یو نیورسٹیز بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہی ہیں۔ پنجاب میں 109 پرائیویٹ یونیورسٹیز الگ سے تعلیم کے میدان میں کام کر رہی ہیں۔
پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیز بنانے کے لیے پنجاب حکومت نے رولز میں بھی نرمی کر رکھی ہے، پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹی کے لیے سب سے اہم شرط تھی کہ جہاں بھی یونیورسٹی بنے گی اس کی کم سے کم جگہ 10 ایکڑ مختص کی جائے گئی۔ اور وہ 10 ایکڑ جگہ ایک ہی جگہ پر ہو، مگر اب رولز کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں اگر 3 ایکڑ زمین شہر میں موجود ہے اور 70 ایکٹر زمین کسی اور جگہ پر یو نیورسٹی کے نام پر رکھی ہوئی ہے تو نئی یونیورسٹی بن سکتی ہے۔ ایک ہی جگہ پر 10 ایکڑ زمین ہونا لازمی شرط اب نہیں رہی۔ اگر کسی کے پاس اپنی زمین نہیں ہے تو وہ لیز پر زمین لے کر بھی یونیورسٹی بنا سکتا ہے۔ جس کے بعد پنجاب اسمبلی میں 2024 سے لے کر جولائی 2025 تک 17 پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے بل ایوان سے منظور کروائے گئے ہیں۔ 2024 میں 3 پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیز کے ترمیمی چارٹر منظور کیے گئے مگر 2025 میں 7 ماہ کے اندر 14 نئی یونیورسٹیوں کے قیام اور بعض ترمیمی بل منظور کیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے پنجاب اسمبلی: لیگی ایم پی اے نے اپنے ہی وزیر کیخلاف تحریک استحقاق جمع کردی، وجہ کیا بنی؟
2024 میں پرائیویٹ سیکٹر کی لاہور لیڈز یونیورسٹی (ترمیمی) بل، سینیٹ ہل یونیورسٹی بل۔ انسٹی ٹیوٹ آف سدرن پنجاب ملتان (ترمیمی) بل۔ 2025 میں اے جی این یونیورسٹی بل، ایشین یونیورسٹی فار ریسرچ اینڈ اڈوانسمنٹ بل ، مصرت انسٹیوٹ آف ٹیکنالوجی بل، دی ٹائمز انسٹیوٹ ملتان بل، مکبر یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، گجرات بل، رائت بہرہ پروفیشنل یونیورسٹی، ہوشیارپور بل، گلوبس یونیورسٹی کمالیہ بل سمیت دیگر یونیورسٹیوں کے بل منظور کیے گئے۔
یہ تمام بلز پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں پرائیویٹ ممبرز ڈے پر پیش ہوئے اور ان کو منظور کر لیا گیا۔
پنجاب میں تعلیم نعروں کی حدد تک نظر آتی ہےماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر امجد مگسی کا وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کی طرف سے پہلے ہی پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیز کو مالی مشکلات کا سامنا ہے، ان کی فنڈنگ کم کر دی گئی ہیں جبکہ بعض یونیورسٹیوں کے فنڈز روک دئیے گئے ہیں۔ پہلے اضلاع کی سطح پر یونیورسٹیز بنائی گئیں۔ اب تحصیل لیول تک یونیورسٹیز بنائی جارہی ہیں۔ اور پرائیویٹ یونیورسٹیز کے چارٹر بڑی تعداد میں منظور کروائے جارہے ہیں۔ پیسے والے لوگ اسمبلیوں سے چارٹر منظور کروا لیتے ہیں اور یونیورسٹیز بناتے نہیں ہیں۔ پھر وہ چارٹر کسی کو بیچ دیتے ہیں۔ حکومت کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ پنجاب میں تعلیم کے فروغ سے زیادہ یونیورسٹیوں کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ معیار تعلیم کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
محکمہ تعلیم کا موقف کیا ہے؟وی نیوز نے اس حوالے سے صوبائی وزیر تعلیم پنجاب رانا سکندر حیات سے رابط کیا، انہیں سوالنامہ بھیجا گیا مگر ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا، مگر کچھ عرصہ قبل ہائر ایجوکیشن کی اسٹیڈنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ دوران اجلاس صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر نے اسٹینڈنگ کمیٹی کے عہدیداروں سے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں ایک ماہ میں 25، 25 پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے بل پاس ہوتے ہیں۔ یہ دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔ اب تو صوبہ کے لوگ چوک چوراہوں میں باتیں کر رہے ہیں کہ اسمبلی میں 2، 2 کروڑ روپے لے کر یونیورسٹیوں کے بل پاس کروائے جاتے ہیں۔ بل آنے سے قبل طے ہوتا ہے کہ بل آئے گا اور پاس ہو جائے گا۔
وزیر تعلیم نے کہا کہ پرائیویٹ ممبر بل کا روٹ کیوں لیا جارہا ہے۔ ہم یونیورسٹی مالکان سے رابطے میں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ بل کہاں سے آ رہے ہیں۔ 32 پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں کے بل 3 ہفتوں میں منظور کروائے گئے۔ پاکستان کو بنے 77 سال ہو گئے ہیں اتنے بل تاریخ میں کبھی منظور نہیں ہوئے جتنے 3 ہفتوں میں ہوئے ہیں۔
صوبائی وزیر تعلیم کے اس بیان کے بعد اراکین نے پنجاب اسمبلی میں اپنے ہی وزیر کے خلاف تحریک استحقاق جمع کروا دی۔
یہ بھی پڑھیے فروغ تعلیم کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب نے کیا انقلابی فیصلے کیے ہیں؟
صوبائی وزیر تعلیم کے اس خطاب کے خلاف مسلم لیگ ن کے ایم پی اے امجد علی جاوید نے تحریک استحقاق جمع کروا رکھی ہے جس میں کہا گیا ہے پنجاب اسمبلی کے معزز اراکین کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے اور ان کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ یہ خطاب ایوان کی حرمت، وقار اور استحقاق کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ اراکین اسمبلی پر بدعنوانی کا عمومی الزام لگایا ہے اور الزام لگانے سے پہلے کوئی ثبوت بھی نہیں دیا گیا۔ اس خطاب سے ہمارا عوامی اعتماد مجروح ہوا اور ایوان کی ساکھ کو دھچکا پہنچا ہے۔
ذرائع کے مطابق تحریک استحقاق آنے کے بعد صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز کے بل منظور ہونے پر خاموش ہوگئے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پنجاب اسمبلی صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات