Islam Times:
2025-09-21@03:06:07 GMT

کل ہمارے قافلے تفتان کیلئے روانہ ہونگے، کوئٹہ کے زائرین

اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT

کل ہمارے قافلے تفتان کیلئے روانہ ہونگے، کوئٹہ کے زائرین

کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ ولایت حسین جعفری نے کہا کہ زیارات پر مذہبی رسومات ادا کرنا ہمارا آئینی اور بنیادی حق ہے۔ ہمارے راستے کیوں بند کئے جا رہے ہیں، زیارات پر جانا ہمارا قانونی حق ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت المسلمین، شیعہ علماء کونسل، بلوچستان شیعہ کانفرنس اور علمدار بس ایسوسیشن نے کوئٹہ میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے زائرین کے زمینی سفر پر پابندی کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ کوئٹہ سے قافلے تفتان بارڈر کی طرف روانہ ہوں گے۔ ایم ڈبلیو ایم رہنماء علامہ ولایت حسین جعفری و دیگر نے کہا کہ زائرین کا بلوچستان کے راستے سے ایران جانے کا سلسلہ کافی سالوں سے جاری تھا۔ پاکستانی اور ایرانی حکام میں طے پایا تھا کہ ایران کے لئے امیگریشن 24 گھنٹے کھلی رہے گی۔ اس فیصلے کے دس دن بعد وفاقی حکومت کی جانب سے زائرین کے زمینی سفر پر پابندی عائد کر دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ بڑی تعداد میں زائرین نے ایرانی ویزے لگوائے ہیں، سفری اخراجات دے چکے ہیں۔ 2 دن تک زائرین اگر ایران نہ پہنچ سکے تو ان کے اربوں روپے ضائع ہوجائیں گے۔ انکا کہنا تھا کہ زیارات پر مذہبی رسومات ادا کرنا ہمارا آئینی اور بنیادی حق ہے۔ ہمارے راستے کیوں بند کئے جا رہے ہیں، زیارات پر جانا ہمارا قانونی حق ہے۔ ہوائی سفر کافی مہنگا پڑتا ہے، صرف پرواز کا کرایہ 2 لاکھ روپے ہے۔ 60 ہزار افراد نے ویزے لگوائے لیے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ کل ہم اپنے طور پر قافلے روانہ کریں گے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: زیارات پر

پڑھیں:

ہمارا خاندان، ہماری ذمے داری

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ہم میں سے ہر شخص کو ان حالات پر بڑی سنجیدگی اور دل سوزی سے غور کرنا چاہیے اور بحیثیت فرد اور من حیث القوم یکسو ہو جانا چاہیے کہ ہماری منزل کیا ہے؟ کسی فرد اور کسی قوم کے لیے اس سے زیادہ تباہی کا راستہ کیا ہوگا کہ بقول غالب اس کا حال یہ ہوجائے کہ
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں
اگر ہماری منزل اسلام ہے اور یقیناً اسلام ہی ہے، تو پھر دورنگی اور عملی تضاد کو ترک کرنا ہوگا۔ ایمان اور جہل ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اسلام تو علم کی روشنی میں زندگی گزارنے کا راستہ ہے۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ مسلمان معاشرے کی اکثریت کو دین کی بنیادی تعلیمات سے بھی آگہی نہیں۔ نئی نسلوں کو اسلامی آداب اور شعائر سے آشنا نہیں کیا جا رہا۔ میڈیا بالکل دوسری ہی تہذیب اور ثقافت کا پرچارک ہے، جو ذہنوں کو مسلسل مسموم بنا رہا ہے اور اخلاق اور معاشرت کو انتشار کا شکار کر رہا ہے۔

بااثر افراد کا ایک گروہ بڑے منظم طریقے پر نوجوانوں کو بے راہ روی اور اباحیت پسندی کی طرف لے جا رہا ہے۔ ہمارے علما، دانش ور اور اربابِ سیاست اپنے اپنے ذاتی، گروہی، مسلکی اور سیاسی مفادات کی جنگ میں مصروف ہیں۔ طبقۂ علما اور سیاست دانوں کو فرصت ہی نہیں کہ ان معاشرتی ناسوروں کے علاج کی فکر کریں۔
عدالتیں، اینگلوسیکسن قانونی روایت کی تقلید میں قانون کے الفاظ کو انصاف کے حصول پر فوقیت دے رہی ہیں۔ جن معاملات کو گھر کی چار دیواری اور خاندان کے حصار میں طے ہونا چاہیے ان کو تھانے اور کچہری کی نذر کیا جارہا ہے۔ صحافت اور الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا فواحش کی تشہیر کی خدمات انجام دیتے ہوئے اس گندگی کو ملک کے طول وعرض میں پھیلانے کا کردار ادا کررہے ہیں۔
ان حالات میں ملک کے تمام سوچنے سمجھنے والے عناصر اور جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ ملک و ملّت کے حقیقی مسائل کی طرف توجہ دیں۔ سیاست محض نعروں کی تکرار کا نام نہیں، سیاست تو تدبیرِ منزل سے عبارت ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ایک گروہ اصلاح کے لیے عملاً میدان میں اُتر آئے۔ خیر و شر میں تمیز کے احساس کو بڑے پیمانے پر بیدار کرنا، وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ بلاشبہ حکومت کی ذمے داری سب سے زیادہ ہے، لیکن اگر حکومت اپنی اس ذمے داری کو ادا نہیں کر رہی، تو کیا حالات کو تباہی کی طرف جانے کے لیے چھوڑا جا سکتا ہے؟ اس کشتی میں تو ہم سب ہی بیٹھے ہیں۔ اس کو بچانے کی ذمے داری بھی ہم سب کی ہے۔ اگر دوسرے اس میں چھید کررہے ہیں، تو ہم ان سب کو ڈبونے کا موقع کیسے دے سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمے داری اسلامی فکر سے سرشار اور معاشرے کے سوچنے سمجھنے والے قابلِ قدر افراد کی ہے۔

ہماری پہلی ضرورت منزل کے صحیح تعین اور اس کے حصول کے لیے یکسو ہو کر جدوجہد کرنے کی ہے۔ مغربی ثقافت کی نقالی اور تہذیبِ نو کی یلغار کے آگے ہتھیار ڈالنا ہمارے لیے موت کے مترادف ہے۔ جو کش مکش آج برپا ہے اور جس کا ایک ادنیٰ ساعکس ایک خانگی حادثے پر عدالتی فیصلے اور اس کے تحت رو نما ہونے والی بحثوں میں دیکھا جا سکتا ہے، وہ ہمیں دعوتِ غور وفکر ہی نہیں، دعوتِ عمل و جہاد بھی دیتی ہے۔
آئیے، سب سے پہلے اپنی منزل کے بارے میں یکسو ہو جائیں۔ اگر وہ اسلام ہے، اور اسلام کے سوا کوئی دوسرا راستہ زندگی کا راستہ ہو ہی نہیں سکتا، تو پھر بیک وقت دو مختلف سمتوں میں جانے والی کشتیوں میں سواری کرنے کا احمقانہ ہی نہیں بلکہ خطرناک راستہ بھی ہمیں ترک کرنا ہوگا۔ فرد کی ذاتی تربیت سے لے کر خاندان کے نظام کی تشکیل، معاشرے کا سدھار، معیشت کی تنظیم نو، صحافت، سیاست، قانون اور عدالت کے نظام کی اصلاح اس کا لازمی حصہ ہیں۔
وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے اور مہلت بہت کم ہے۔ ہم ملک کے اہلِ نظر کو دعوت دیتے ہیں کہ ان بنیادی مسائل کے بارے میں عوام کی مؤثر رہنمائی کریں۔ ناخوش گوار واقعات پر سے صرف کبیدہ خاطر ہو کر گزر نہ جائیں، بلکہ اصلاح کے لیے منظم طور پر عملی اقدام کریں۔

متعلقہ مضامین

  • ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، کھلاڑیوں کو مواقع فراہم کرنا ہونگے،مریم کیریو
  • جدہ سے واپس لاہور آنے کے منتظر عمرہ زائرین مشکلات کا شکار
  • سکھر اونٹنی تشدد معاملہ: ایک ملزم گرفتار، متاثرہ اونٹنی علاج کیلئے کراچی روانہ
  • بی آئی ایس پی صارفین کو رقم نکلوانے پر کتنے روپے بینک چارجز ادا کرنا ہونگے؟
  • پاک سعودیہ دفاعی معاہدہ: پاک فوج کا خصوصی دستہ حرمین شریفین کی حفاظت کیلئے روانہ
  • عراق اور ایران کی ائیر لائنز کو پاکستان آنے کی اجازت دی جائے، قائمہ کمیٹی مذہبی امور
  • ہمارا خاندان، ہماری ذمے داری
  • مودی کیلئے نئی مشکل؛ ٹرمپ نے بھارت کو ایرانی بندرگاہ پر دی گئی چھوٹ واپس لے لی
  • کیچ میں سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر خودکش حملہ، 8 اہلکار زخمی
  • عراق کا نیا فیصلہ: 50 سال سے کم عمر اکیلے مردوں کے لیے زیارت پر پابندی