خواجہ آصف کی وزارت سے استعفیٰ بارے چلنے والی خبروں کی تردید
اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 اگست2025ء) وزیر دفاع خواجہ آصف نے وزارت سے استعفیٰ دیئے جانے کے حوالے سے چلنے والی خبروں کی تردید کر دی۔
(جاری ہے)
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر اپنے ایک پیغام میں خواجہ آصف نے لکھا کہ خبر دینے والے نے صرف اپنی خواہشات بیان کی ہیں، میں نے وزارت سے استعفیٰ نہیں دیا۔خواجہ آصف نے اس ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ اگر بکواس کرنے کا کوئی پرائم ٹائم سلاٹ ہوتا تو یوتھیاز اس کی شہ سرخی ہوتے۔واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سیالکوٹ کے اے ڈی سی آر کی گرفتاری کے معاملے پر وزیر دفاع نے اپنا استعفیٰ وزیراعظم شہباز شریف کو بھجوا دیا ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خواجہ ا صف
پڑھیں:
پاک سعودیہ معاہدے سے بھارت کو ہونے والی پریشانی فطری ہے، خواجہ آصف
وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ پاک سعودیہ معاہدے سے بھارت کو ہونے والی پریشانی فطری ہے، بھارت کا چیخیں مارنا کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہمارے کسی کے خلاف کوئی عزائم نہیں، ہم تو برصغیر میں بھی امن چاہتے ہیں، اگر ہمارے خلاف جارحیت ہوتی ہے تو دفاع کرنا ہمارا حق ہو گا۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ دفاعی تعاون کوئی نئی بات نہیں، اس کے ساتھ 40 سے 50 سال سے دفاعی تعاون جاری ہے۔
وزیرِ دفاع کا کہنا ہے کہ کچھ عناصر پاک سعودی عرب معاہدے کا اپنے مقاصد کے لیے غلط مطلب نکال رہے ہیں، اس معاہدے پر بعض عناصر کی جانب سے قیاس آرائیاں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کی جا رہی ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ دفاعی تعاون کبھی بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے کبھی نارمل ہوتا ہے، ضرورت کے مطابق سعودی عرب کے ساتھ دفاعی تعاون کو بڑھاتے ہیں اور معمول کے مطابق بھی لے آتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمارے کوئی جارحانہ عزائم نہیں، یہ اوّل و آخر ایک دفاعی معاہدہ ہے، ہم تو خود جارحیت کا شکار رہے ہیں، پاکستان تو خود بھارتی جارحیت کا شکار رہا ہے، اس معاہدے کے ذریعے تکنیکی و تربیتی تعاون ہو گا۔
وزیر دفاع نے کہا کہ دونوں ممالک میں کسی پر حملہ ہوا تو ایک دوسرے کی مدد کریں گے، اس معاہدے سے کسی کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، ہماری افواج ایک عرصے سے سعودی عرب میں موجود ہیں، اس معاہدے کے تحت ہماری سعودی عرب میں افواج کی موجودگی بڑھ جائے گی تو کسی کو کیا مسئلہ ہو گا؟