قدرت جابر و سفاک نہیں بلکہ غفلت میں ہم ڈوبے ہیں
اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 اگست 2025ء) ہر سال چند گھنٹوں کی بارش بڑے شہروں کا نظام زندگی مفلوج کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ حکومت سب سے پہلے کٹہرے میں کھڑی نظر آتی ہے کیونکہ نکاسیِ آب کے نظام کی بہتری کے دعوے صرف کاغذوں تک محدود رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بااثر مافیا کی حمایت سے بننے والی کمرشل عمارتیں، مارکیٹیں، اور ہاؤسنگ سوسائٹیز کے تحت جب پانی کے راستے بند کر دیے جاتے ہیں تو پھر نتیجتاً پانی اکثر گلیوں، گھروں اور سڑکوں کی جانب رخ کرتا ہے۔
یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ عوام بھی کسی حد تک اس تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ کچرا نالوں میں پھینکنے کی عادت، تجاوزات کو سہولت سمجھ کر قبول کر لینا اس تباہی کے عوامل میں شامل ہیں۔مون سون بارشوں کے سیزن میں سوشل میڈیا پرتصاویر ، ویڈیوز وائرل ہوتی ہیں کہ فلاں شہر سے فلاں خاندان سفاک سیلابی ریلے کی نذر ہوگیا۔
(جاری ہے)
یوں ہر طرف ایک ہی سوال زبان زد عام ہوتا ہے کہ آخر سیلاب کی تباہ کاریوں کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا قدرت جابر ہوگئی ہے یا انسانی غفلت کا نتیجہ ہے؟
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قدرت کا نظام تو نہایت متوازن اور منصف ہے۔
قدرت کسی خاص بستی یا شہر سے دشمنی نہیں رکھتی، نہ ہی اسے کسی انسان سے ذاتی عناد ہے۔ مگر جب ہم ندی نالوں پر ناجائز قبضے کرتے ہیں، دریاؤں کے قدرتی بہاؤ میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں، جنگلات کا صفایا کرتے ہیں، نکاسی آب کے نظام کو تباہ کر دیتے ہیں، تو نتیجتاً پانی بہتا نہیں ،چڑھتا ہے اور جب پانی چڑھتا ہے، تو بستیاں بہا لے جاتا ہے۔ راولپنڈی کے علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ، ''ہم نے اپنی زندگی میں اتنا پانی کبھی رہائشی علاقوں یا ہاؤسنگ سوسائیٹیز میں داخل ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ماورائے عقل ہے کہ یہ سیلابی ریلا نہیں تھا اور نہ ہی بارش کا پانی۔ کیا یہ آفت تھی یا عذاب تھا جو ہم پر مسلط ہوا ورنہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ سیلاب کا پانی دوسری یا تیسری منزل تک پہنچے۔‘‘ماہرین کے مطابق اس سال موسمِ بہار گویا آیا ہی نہیں۔ سردیوں کے اختتام کے فوراً بعد درجہ حرارت میں غیر معمولی اور تیز رفتار اضافہ دیکھنے میں آیا، جس نے بہار کے خوشگوار موسم کو پچھاڑ کر رکھ دیا۔
حدت کے باعث گلیشئرز بڑی سرعت سے پگھلے۔ گلیشئرز کا پگھلنا کوئی نئی چیز نہیں۔ ماہرین بڑے عرصے سے خبردار کرتے آئے ہیں۔ یہ موسمیاتی بے ترتیبی ایک واضح اشارہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی اب محض ایک انتباہ نہیں بلکہ ایک کڑوی حقیقت بن چکی ہے۔اب یہ کہا جائے کہ پاکستان کی ٹورازم انڈسٹری خطرے میں ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ معاملات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ انتظامیہ ہوش کے ناخن لے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی حالات حاضرہ کے تناظر میں حقیقت بن کر سامنے کھڑی ہے۔
حکومت کا پہلا فرض ہوتا ہے کہ وہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے پیشگی منصوبہ بندی کرے۔ لیکن ہمارے ہاں منصوبے فائلوں سے باہر ہی نہیں نکلتے۔ نالوں کی صفائی کے بجٹ ہر سال مختص ہوتے ہیں، لیکن سیلاب کے دنوں میں وہ نالے گند اور کچرے سے بھرے ملتے ہیں۔ ڈرینیج سسٹم کئی دہائیوں پرانا ہے۔ ڈیمز کی تعمیر سیاسی چپقلش کی نذر ہو جاتی ہے اور سیلاب سے بچاؤ کا کوئی پائیدار منصوبہ دکھائی نہیں دیتا۔
عوام کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ادارے اکثر بارش کے ساتھ خود بہہ جاتے ہیں۔ ایسا گمان ہوتا ہے کہ ہمارا پورا سسٹم ہی غفلت میں ڈوبا ہوا ہے۔ایک تلخ بات یہ ہے کہ پورے ملک میں کوئی ایک ایسا شہر اور علاقہ نہیں ہے جہاں پر نکاسی آب کے راستوں اور نالوں پر قبضہ نہ کیا گیا ہو، ہر شہر اور علاقے میں بے ہنگم تعمیرات قائم نہ کی گئی ہوں۔ انسانوں کی گزر گاہوں پر مافیاز نے ڈیرے جما لیے ہیں اور انکے راستوں کے حقوق کو یکسر فراموش کر دیا گیا ہے وہاں پر پانی کے راستوں کا خیال کون رکھے؟ لاکھوں کیوسک پانی کا ریلا بستیوں کے نام و نشان مٹاتا سمندر برد ہو رہا ہے لیکن ہماری انتظامی اہلیت کنارے کھڑی بے بسی سے تماشا دیکھ رہی ہے۔
سیلاب اور اس سے ملحقہ وبائیں کیا قہر ڈھانے کو ہیں، معلوم نہیں۔ لیکن اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ قدرتی آفات سے نبرد آزما ہونے کے لیے ٹیکنالوجی، فرسٹ ایڈ، مربوط انتظامی ڈھانچوں پر فوری کام کرنا وقت کی پکار بن چکا ہے۔ ابتدائی طبی امداد کی بروقت فراہمی 59 فیصد جانیں بچانے میں مدد دے سکتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی انتظامیہ آفات میں ریسکیو کرنے کے لیے ہیلی کاپٹرز تیار رکھتی ہے، یہاں عوام یہ خواہش رکھتے ہیں کہ کاش ہماری جانوں کی بھی قدروقیمت ہو۔مزید برآں یہ کہ سیلاب کی جاری تباہی کے ہم خود بھی تو ذمہ دار ہیں۔ ندی نالوں پر گھر بناتے ہیں، اور کوڑا کرکٹ انہی میں پھینکتے ہیں، قانونی ضوابط کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم اپنے اردگرد کا ماحول کتنا آلودہ کر رہے ہیں؟ سیلاب کا پانی صرف بارش کا نہیں ہوتا، یہ ہمارے اپنے اعمال کا آئینہ بھی ہوتا ہے۔
اگر انسان نے اب بھی قدرت کے ساتھ ہم آہنگی نہ سیکھی، تو وہ دن دور نہیں جب نہ صرف قدرتی آفات مزید شدید ہوں گی، بلکہ نسلِ انسانی کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ جائے گا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ہوتا ہے کے لیے ہیں کہ
پڑھیں:
سیلاب سے نقصانات، پاکستان پانی کے ریکارڈ ذخائر کے ساتھ ربیع سیزن کا آغاز کرے گا
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 ستمبر ۔2025 )پاکستان کئی برس بعد رواں سال ربیع کے سیزن کا آغاز ایک کروڑ 30لاکھ ملین ایکڑ فٹ پانی کے وافر ذخیرے کے ساتھ کرے گا، جس کے نتیجے میں سیلاب کے باعث ہونے والے زرعی نقصانات کو جزوی طور پر پورا کرنے میں مدد مل سکے گی.(جاری ہے)
رپورٹ کے مطابق ایک سرکاری اہلکار نے کہا کہ ہمیں کئی سال بعد ربیع کے سیزن میں پانی کی صورتحال معمول کے مطابق رہنے کی امید ہے، کمی اگر ہوئی تو وہ نہ صرف کم بلکہ قابلِ برداشت اور سنبھالنے کے قابل ہوگی انہوں نے کہا کہ ہم کئی برس بعد اگلے خریف سیزن میں بھی مناسب ذخیرہ منتقل ہونے کے بارے میں پرامید ہیں گزشتہ ماہ تربیلا ڈیم نے اپنی زیادہ سے زیادہ گنجائش 1550 فٹ تک رسائی حاصل کر لی تھی اور تاحال وہیں برقرار ہے جبکہ منگلا ڈ یم میں پانی 1239.6 فٹ پر موجود ہے جو اس کی زیادہ سے زیادہ سطح 1,242 فٹ سے کچھ کم ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پورے خریف سیزن میں دریائے جہلم کا بہا ﺅکم رہا.
گزشتہ برس 2023 کے اختتام پر منگلا کی سطح 1233.25 فٹ رہی جبکہ 2024 میں 1224 فٹ ریکارڈ ہوئی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک کا سب سے بڑا ذخیرہ گذشتہ برس صرف 5.9 ملین ایکڑ فٹ تک جا سکا تھا جبکہ اس سال یہ پہلے ہی 7.1 ملین ایکڑ فٹ سے تجاوز کر گیا ہے ادھر تربیلا ڈیم 2023 میں 1548 فٹ اور 2024 میں 1549 فٹ پر پہنچا جبکہ اس سال اس نے 1550 فٹ کی مکمل سطح حاصل کرلی ہے، چشمہ بیراج نے بھی اس سال اپنی زیادہ سے زیادہ سطح 649 فٹ تک رسائی حاصل کی، جو 2023 میں 645 فٹ اور 2024 میں 646 فٹ تھی. اس طرح کل ذخیرہ پہلے ہی 13.1 ملین ایکڑ فٹ سے تجاوز کر چکا ہے جو مجموعی گنجائش 13.3 ملین ایکڑ فٹ کا تقریبا 99 فیصد ہے، پچھلے سال یہ ذخیرہ 11.388 ملین ایکڑ فٹ تک پہنچا تھا دریائے سندھ میں کوٹری بیراج اور دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا کے مقام پر درمیانے درجے کے سیلاب کے سوا تمام دریا معمول کے مطابق بہہ رہے ہیں رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیلاب کے بعد آبپاشی نظام میں اب بھی خاطر خواہ پانی موجود ہونے کی وجہ سے سندھ طاس نظام اتھارٹی (ارسا ) نے اپنی تکنیکی اور مشاورتی کمیٹیوں کے اجلاس ابھی طلب نہیں کیے کیونکہ صوبوں نے پانی کے اخراج کے لیے کوئی نئی درخواست نہیں دی عام طور پر یہ کمیٹیاں ستمبر کے آخری ہفتے میں اجلاس منعقد کرتی ہیں جب صوبے ربیع کے ابتدائی 10 دنوں کے لیے پانی کا مطالبہ کرتے ہیں، تاہم حکام نے خبردار کیا ہے کہ پنجاب کے میدانوں میں طویل عرصے تک کھڑے رہنے والے سیلابی پانی کی وجہ سے کھیتوں میں ریت کے بھاری ذخائر جمع ہو گئے ہیں، جو عام طور پر زرخیز مٹی کے بجائے نقصان دہ ہیں، ان کا کہنا تھا کہ زمینوں کی حالت کا اندازہ لگانے کے لیے پانی کے اترنے کا انتظار کرنا ہوگا. ارسا کی تکنیکی اور مشاورتی کمیٹیوں کے اجلاس تب بلائے جائیں گے جب سیلابی پانی اتر جائے گا، ایک اہلکار نے بتایا کہ عام طور پر سندھ صوبہ ربیع کی فصلوں کے لئے پانی کی درخواست دیتا ہے لیکن اس سال ایسا نہیں ہوا کیونکہ وہ اب بھی سیلابی صورتحال سے دوچار ہے رواں خریف سیزن میں(یکم اپریل سے) اب تک تقریبا 24 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں بہہ چکا ہے جو تربیلا اور منگلا کے مجموعی ذخائر کی دوگنی گنجائش کے برابر ہے 1991 کے پانی کے معاہدے کے تحت ربیع کی فصلوں کے لیے تقریبا 37 تا 38 ملین ایکڑ فٹ پانی درکار ہوتا ہے، خریف سے منتقل شدہ ذخیرے کے ساتھ ربیع کے دوران پانی کی دستیابی 35 تا 36 ملین ایکڑ فٹ کے قریب رہنے کی توقع ہے، جس میں آئندہ 6 ماہ کے دریا کے بہاﺅ شامل ہوں گے 1991 کا معاہدہ ارسا کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ ملک میں پانی کی دستیابی کا تعین کرے اور صوبوں کو ان کے حصے کے مطابق پانی مختص کرے، ربیع کا سیزن یکم اکتوبر سے 31 مارچ تک جاری رہتا ہے، جس میں سب سے بڑی فصل گندم ہے، دیگر ربیع کی فصلوں میں چنا، مسور، تمباکو، سرسوں، جو اور رائی شامل ہیں.