Express News:
2025-08-07@23:26:44 GMT

روس، بھارت اور امریکا

اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT

بھارت اور امریکا کے درمیان اس وقت ایک سرد جنگ نظر آرہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت میں ٹیرف لگانے کا ابتدائی حکم بھی جاری کر دیا ہے۔ بھارت اور امریکا کے درمیان ٹریڈ ڈیل ابھی تک طے نہیں ہو سکی ہے۔ اس لیے پہلے مرحلہ میں بھارتی مصنوعات پر جو پچیس فیصد ٹیرف لگایا گیا تھا، وہ نافذ العمل ہو گیا ہے۔

تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی تیل خریدنے کے جرم پر بھارت پر اضافی پچیس فیصد ٹیرف لگانے کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح بھارتی مصنوعات پر کل پچاس فیصد ٹیرف ہو جائے گا۔ لیکن اضافی پچیس فیصد ٹیرف 27 اگست سے نافذ العمل ہوگا لیکن اس کا اعلان ہوگیا ہے۔ اس کے ساتھ روسی تیل خریدنے پر جرمانے لگانے کی بھی بات ہو رہی ہے۔ بھارت پر پابندیاں لگانے کی بھی بات ہو رہی ہے۔ 

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارت روسی تیل کا ایک بڑا خریدار ہے۔ ویسے تو چین بھی روسی تیل بڑے پیمانے پر خریدتا ہے لیکن بھارت کی صورتحال قدرے مختلف ہے۔ پابندیوں کی وجہ سے روس اپنا تیل سستا بیچنے پر مجبور ہے۔ بھارت روس سے سستا تیل خریدتا ہے۔

اس کے بعد اس کو دوبارہ عالمی منڈی میں بھی بیچتا ہے۔ اس طرح بھارت جہاں سے کوئی تیل نہیں نکلتا تیل بیچنے والا ایک بڑا ملک بن گیا ہے۔بھارت نے صرف 2024میں 17بلین ڈالر سے زائد کا تیل عالمی منڈی میں فروخت کیا ہے۔ اس نے روسی تیل خریدا، اپنی ریفائنری میں اس کو ریفائن کیا اور دنیا کو بیچ دیا۔ آج امریکا کو بھارت کی جانب سے نہ صرف روسی تیل خریدنے پر اعتراض ہے بلکہ اس کو دوبارہ عالمی منڈی میں بیچنے پر بھی اعتراض ہے۔ 

اس جرم میں بھارتی ریفائنریوں اور شپنگ کمپنیوں پر پابندیاں لگانے کاآغاز ہو گیا ہے۔ یورپ نے روسی تیل کی شپنگ اور ریفائن کرنے پر بھارت کی ایک بڑی ریفائنری اور شپنگ کمپنی پر پابندی لگا دی ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ جلد امریکا اور یورپ مل کر مزید ایسی پابندیاں لگائیں گے۔

یہ ایک نئی مشکل صورتحال ہے۔ میری رائے میں بھارت کا روسی تیل خریدنا اتنا بڑا جرم نہیں جتنا اس کو بیچنا بڑا جرم ہے۔ امریکا میں بھارتی لابی بھارت کو پابندیوں اور ٹیرف سے بچانے کے لیے یہی دلیل دے رہی ہے کہ چین بھی تو روسی تیل خرید رہا ہے۔ چین پر تو ٹیرف نوے دن کے لیے معطل کر دیے گئے ہیں جب کہ بھارت پر نافذ کیے جا رہے ہیں۔ لیکن فرق نہیں بیان کیا جا رہاہے کہ چین آگے فروخت نہیں کرتا۔ بھارت نے سستے روسی تیل کو کاروبار بنا لیا ہے۔ 

لیکن آج بھارت ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ بھارت اپنی دفاعی ضروریات کے لیے روس پر بہت انحصار کرتا ہے۔ جب کہ معاشی خوشحالی کے لیے امریکا اور یورپ پر انحصار کرتا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے اس کو دونوں طرف سے بہت تعاون حاصل تھا۔ مغرب اور امریکا معاشی تعاون بڑھا رہے تھے کہ بھارت کو چین کے مقابلے میں مضبوط کر رہے تھے۔ روس کا ذکر ہی نہیں تھا۔ بھارت کو چین سے مقابلے کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔ ساری مراعات چین سے مقابلے کے لیے مل رہی تھیں۔ 

اگر روس یوکرین جنگ اگلے ایک ماہ میں بند نہیں ہوتی تو بھارت مزید مشکل میں پھنس جائے گا۔ روس کا غصہ بھارت پر نکلے گا۔یورپ اور امریکا مل کر بھارت پر دبائو ڈالیں گے کہ روس سے تعلقات اور تعاون ختم کرے۔ روسی تیل کی خریداری ختم کرے۔ بھارت اپنے دفاع میں روس پر بہت انحصار کرتا ہے۔

لیکن اگر روس یوکرین تنازعہ جاری رہتا ہے تو پھر بھارت اور روس کا دفاعی تعاون بھی بھارت کے لیے مسائل بڑھائے گا۔ آج مودی اگر روس سے تعاون ختم کرتے ہیں تو بھارت کو شدید نقصان ہے۔ لیکن بھارت میں مودی پر تنقید ہوگی کہ مودی امریکا سے ڈر گیا ہے، مودی نے امریکا کے سامنے سرنڈر کر دیا۔

مودی کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ لیکن اگر بھارت روس کے ساتھ کھڑا رہتا ہے تو بھی مودی کے لیے مشکلات ہوں گی۔بھارت نہ امریکا کو اور نہ یورپ کو ناراض کر سکتا ہے۔ لیکن اب دونوں کو ساتھ لے کر چلنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت کی مدد تب ہی ہو سکتی ہے کہ اگر روس اور امریکا کے درمیان ڈیل ہوجائے تو اس میں بھارت کا فائدہ ہو جائے گا۔

بھارت کی خفیہ ایجنسی راء کے چیف اجیت دول روس میں ہیں۔ امریکا کے خصوصی نمائندے بھی روس میں ہیں۔ ایسے میں مودی کو اپنی سیاست بچانی ہے۔ مودی کو یہ حالات نظر آرہے تھے۔ اسی لیے اس نے پاکستان کے ساتھ جنگ کی پلاننگ کی تھی۔ مودی کی کوشش تھی کہ پاکستان کی فتح کو لے کر روس اور امریکا والی صورتحال کا ملک کے اندر مقابلہ کیا جائے گا۔

ساری توجہ پاکستان پر رکھی جائے اور عالمی مسائل پر توجہ نہ آنے دی جائے۔ لیکن معاملہ الٹ ہوگیا ہے۔ پاکستان سے بھی شکست ہو گئی ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ کے حالیہ مون سون سیزن میں مودی کی مشکلات کھل کر سامنے آگئی ہیں۔ 

ایک اور بات جس کا بھارت میں بہت شور ہے، وہ مودی کے دوست بزنس مین ایڈانی کے بارے میں امریکا میں تحقیقات ہیں۔ بھارت کے اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی بھارت میں یہ بیانیہ بنا رہے ہیںکہ چونکہ ایڈانی کے خلاف امریکا میں منی لانڈرنگ اور دیگر فنانشل جرائم میں تحقیقات چل رہی ہیں، اس لیے مودی ٹرمپ کو جواب نہیں دے رہے۔

حالانکہ میں سمجھتا ہوں مودی امریکا کے ساتھ محاذ آرائی سے بچنا چاہتے ہیں۔ انھیں اندازہ ہے کہ ٹرمپ کو جواب دینے سے بھارت کو معاشی نقصان ہو گا۔ اس لیے وہ ٹرمپ کے بیانات کے جواب میں خاموش ہیں۔ ٹیرف کا معاملہ بھی بیک چینل سفارتکاری سے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جواب نہیں دے رہے۔ بھارتی دفتر خارجہ نے جو پریس ریلیز بھی جاری کی ہے، وہ بہت محتاط اور نرم ہے۔ امریکا کے خلاف ٹیرف لگانے پر کوئی بات نہیں۔ اس لیے بھارت کی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ پاکستان سے جنگ مودی کو بچا سکتی تھی، اب بھی بچا سکتی ہے۔

لیکن شائد اب یہ آپشن بھی مودی کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ اب ڈر ہے کہ اگر بھارت کا زیادہ نقصان ہوگیا تو پوری بی جے پی کی سیاست ختم ہوجائے گی۔ ابھی صرف مودی نشانہ ہے۔ اس لیے مودی کو بدلنے سے شائد مسائل حل ہو جائیں گے۔ 
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور امریکا امریکا کے بھارت میں فیصد ٹیرف میں بھارت بھارت اور بھارت پر بھارت کی روسی تیل بھارت کو جائے گا کے ساتھ مودی کو اگر روس لیکن ا کے لیے گیا ہے اس لیے رہی ہے

پڑھیں:

اضافی امریکی ٹیرف کے نفاذپر بھارت کا ردعمل سامنے آگیا

بھارت نے امریکا کی جانب سے روس سے تیل کی درآمدات پر اضافی 25 فیصد ٹیرف عائد کرنے کے فیصلے پر سخت اعتراض کیا ہے۔ بھارتی حکام نے اس اقدام کو غیر منصفانہ اور غیر معقول قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی تیل کی درآمدات مارکیٹ کے اصولوں پر مبنی ہیں اور ان کا مقصد ملک کی 1.4 ارب کی آبادی کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔

بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکا کا یہ اقدام انتہائی افسوسناک ہے، خاص طور پر اس وقت جب کئی دوسرے ممالک بھی اپنے قومی مفادات کے تحت ایسے اقدامات کر رہے ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ بھارت اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گا۔ ان کارروائیوں کو نہ صرف غیر منصفانہ سمجھا گیا بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ یہ کسی بھی لحاظ سے جائز نہیں ہیں۔ بھارتی حکام نے اس بات پر زور دیا کہ امریکا کے فیصلے سے بھارت کے تجارتی تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں اور بھارت عالمی سطح پر اپنے مفادات کے دفاع کے لیے اقدامات جاری رکھے گا۔

یہ فیصلہ امریکی صدر کی جانب سے 30 جولائی کو باضابطہ طور پر اعلان کیا گیا تھا، جس میں بھارت پر 25 فیصد اضافی ٹیرف عائد کرنے کے ساتھ ساتھ روس سے مسلسل فوجی ساز و سامان اور تیل کی خریداری پر جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا۔

بھارت نے اس پر وزارت خارجہ کے ذریعے سخت ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اور یورپی یونین نے 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد بھارت کو روسی تیل خریدنے کی ترغیب دی تھی تاکہ عالمی توانائی کی مارکیٹ میں استحکام قائم رکھا جا سکے۔

بھارت نے یہ مؤقف اپنایا کہ امریکا خود بھی روس سے مختلف اشیاء درآمد کرتا ہے، لہذا بھارت پر تنقید غیر منصفانہ ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق، امریکا آج بھی روس سے جوہری صنعت کے لیے یورینیم ہیگزا فلورائیڈ، الیکٹرک گاڑیوں کے لیے پیلڈیم، کھاد، اور دیگر کیمیکلز درآمد کر رہا ہے۔

بھارتی حکام کا کہنا تھا کہ بھارت کے توانائی کے فیصلے صرف معیشت، صارفین کے مفادات، اور داخلی ضروریات کے تحت کیے جاتے ہیں، نہ کہ بیرونی دباؤ کے تحت۔ بھارت کا موقف بالکل واضح ہے۔

Post Views: 10

متعلقہ مضامین

  • امریکا اور بھارت کی نئی تجارتی کشیدگی
  • مودی سات سال کے طویل وقفے کے بعد پہلی بار چین کا دورہ کریں گے
  • بھارت اور امریکا کے درمیان تجارتی معاہدہ کیوں ناکام ہوا؟ تفصیلات سامنے آگئی
  • امریکا بھارت کشیدگی: نریندر مودی کا 7 برس بعد چین کا دورہ کرنے کا فیصلہ
  • اضافی امریکی ٹیرف کے نفاذپر بھارت کا ردعمل سامنے آگیا
  • امریکا کیساتھ کشیدگی میں اضافہ، مودی 7سال بعد چین کا دورہ کریں گے
  • ہوڈی مودی کی منجی ٹھک گئی!
  • اچھی خبریں
  • عالمی سطح پر بھارت کی دوغلی پالیسی