Islam Times:
2025-09-22@23:44:47 GMT

غزہ پر اسرائیلی قبضے کا انسانیت دشمن منصوبہ

اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT

غزہ پر اسرائیلی قبضے کا انسانیت دشمن منصوبہ

اسلام ٹائمز: اب اس منصوبے پر بین الاقوامی ردعمل بھی ملاحظہ فرما لیں، تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ دنیا میں انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی۔ حسب سابق اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے اس منصوبے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ پر مکمل فوجی قبضہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا باعث بن سکتا ہے اور خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے۔ امریکی ردعمل تو کیا ہی باکمال ردعمل ہے، کہا "غزہ کا مسئلہ صرف فوجی طاقت سے نہیں، بلکہ سفارتی اور سیاسی حل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔"اس اطلاع رسانی پر بہت شکریہ۔ ہر کوئی پوری قیمت وصول کر رہا ہے۔ ترکیہ کی اسرائیل کے ساتھ تجارت کا تو آپ کو معلوم ہی ہے، اب مصر کا سن لیں۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

جب بھی مغرب کے حکومتی حلقوں میں فلسطینی عوام اور فلسطینی ریاست کے حق میں آوازیں بلند ہونے لگتی ہیں تو دل میں یہ خدشہ جنم لیتا ہے کہ کچھ بڑا ہونے والا ہے۔ آوازیں جس قدر بڑی ہوں گی، فلسطین پر اتنی ہی بڑی مصیبت آتی ہے۔ پچھلے کچھ ہفتوں کی ڈویلپمنٹس کو ملاحظہ کریں تو حیرت سی ہوتی تھی کہ کبھی فرانس، کبھی کینڈا اور کبھی کوئی اور ملک فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کی بات کر رہا ہے۔ یہ وہی ممالک ہیں، جو فلسطینیوں کی نسل کشی میں شریک ہیں، کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ اسلحہ دینے کی وجہ سے شریک ہیں۔ میں ایسا نہیں سمجھتا، یہ لوگ باقاعدہ اسرائیل کے ساتھ فلسطینیوں کے خلاف میدان جنگ میں موجود ہیں اور قتل عام میں حصہ لے رہے ہیں۔ صرف ایک مثال ہی دیکھ لیں، یہ کل کی خبر ہے: برطانیہ نے مجاہدین کی نقل و حمل کی جاسوسی کے مشن میں براہ راست حصہ لیا ہے۔ برطانیہ کے پاس تو اتنا اعلیٰ درجے کا جاسوس طیار نہیں تھا، اس لیے اس نے جاسوسی کے لیے امریکی ریاست نیواڈا میں قائم ایک نجی کمپنی سے یہ جہاز کرائے پر حاصل کیا۔

برطانوی وزارتِ دفاع کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ برطانوی حکومت اس کمپنی کو غزہ میں جاسوسی کے مشن کے لیے ادائیگیاں کر رہی تھی۔ اس دوران برطانوی فضائیہ کا طیارہ، جو حال ہی میں ممکنہ مرمت کے لیے واپس برطانیہ آیا، غزہ میں سینکڑوں گھنٹوں کی فضائی ویڈیو بنا چکا تھا۔ یہ معلومات اسرائیل کے ساتھ شیئر کی گئیں، تاکہ وہ محافظین غزہ کی تلاش میں مددگار ہوں۔ یہ خبر تو منظر عام پر آئی ہے، جس سے ان کے حقیقی چہرے کا پتہ چلتا ہے۔ یورپی ممالک اس قتل میں اسی طرح براہ راست شریک ہیں۔ آپریشن وعدہ الصادق کی تمام کارروائیوں کی رپورٹنگ دیکھ لیں کہ کون کون سے ممالک اسرائیل کے ساتھ ملکر لڑ رہے تھے، اس سے بھی صورتحال واضح ہو جائے گی۔ میں تو خیر کافی عرصے سے اس پر لکھ رہا ہوں کہ جب ٹرمپ نے کہا تھا کہ غزہ کا قبضہ چھوڑنا ہی غلط تھا اور اسرائیل نے ایسا کیوں کیا کہ غزہ کو فلسطینیوں کے حوالے کر دیا۔؟

اسی وقت  سے یہ نوشتہ دیوار تھا کہ اسرائیل کو صرف طاقت کے ذریعے ہی روکا جا سکتا ہے، ورنہ یہ غزہ سمیت پورے فلسطین پر قابض ہو جائے گا۔ اب بین الاقوامی میڈیا پر خبریں آرہی ہیں کہ اسرائیلی کابینہ نے غزہ کی پٹی پر مکمل قبضے کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ فیصلہ بنیامن نیتن یاہو کی سربراہی میں ہونے والے حالیہ سیکورٹی اجلاسوں کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں اسرائیلی فوج کی قیادت اور انٹیلی جنس اداروں کے اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔ نیتن یاہو نے کابینہ کو ایک تفصیلی منصوبہ پیش کیا، جس میں غزہ کی پٹی کے مکمل کنٹرول کی حکمت عملی شامل ہے۔ جس کے تحت غزہ کے تمام علاقوں میں زمینی کارروائی، بحری و فضائی بمباری اور مستقل اسرائیلی موجودگی کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ 4 مراحل پر مشتمل کارروائی میں فوج کے 5 ڈویژنز شامل ہوں گے، نیز بحریہ اور فضائی حملوں کا استعمال بھی متوقع ہے۔ 5 ماہ کے دوران پورا غزہ پر کارپیٹ بمباری کرکے اسے مکمل طور پر خالی کرلیا جائے گا۔

موجودہ صورتحال یہ ہے کہ چار مئی سے جاری فوجی کارروائی، جسے اسرائیلی ذرائع "Operation Gideon’s Chariots" کا نام دے رہے ہیں، کے تحت اب تک غزہ کے تقریباً 75 فیصد علاقے پر قبضے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اہم سرنگی نیٹ ورکس، اسلحہ کے ذخیرے اور عسکری تنصیبات کو تباہ کیا جا چکا ہے۔ تاہم، متعدد ذرائع کے مطابق، شمالی اور وسطی غزہ میں اب بھی شدید جھڑپیں جاری ہیں، جبکہ خان یونس اور رفح کے اطراف بعض علاقوں میں شدید مزاحمت سامنے آرہی ہے۔ یہ کوئی متفقہ منصوبہ نہیں ہے، بہت سی رپورٹس کے مطابق  اسرائیلی سکیورٹی اداروں کے اندر اس منصوبے پر شدید اختلافات پائے جا رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے بعض اعلیٰ افسران نے نیتن یاہو کی مجوزہ پالیسی کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ مکمل قبضے سے قیدیوں کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور بین الاقوامی ردعمل بھی شدید ہوسکتا ہے۔

اب اس منصوبے پر بین الاقوامی ردعمل بھی ملاحظہ فرما لیں، تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ دنیا میں انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی۔ حسب سابق اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے اس منصوبے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ پر مکمل فوجی قبضہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا باعث بن سکتا ہے اور خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے۔ امریکی ردعمل تو کیا ہی باکمال ردعمل ہے، کہا  "غزہ کا مسئلہ صرف فوجی طاقت سے نہیں، بلکہ سفارتی اور سیاسی حل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔"اس اطلاع رسانی پر بہت شکریہ۔ ہر کوئی پوری قیمت وصول کر رہا ہے۔ ترکیہ کی اسرائیل کے ساتھ تجارت کا تو آپ کو معلوم ہی ہے، اب مصر کا سن لیں۔

مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق قابض اسرائیل کی طرف سے مقبوضہ فلسطینی وسائل پر غیر قانونی تسلط اور اس کی معاشی فروخت کے سلسلے میں ایک نیا باب کھل گیا ہے۔ قابض ریاست کی گیس کمپنی "نیو میڈ انرجی” نے اعلان کیا ہے کہ اس نے مصر کو قدرتی گیس کی ترسیل کے لیے 35 ارب ڈالر کی ایک نئی اور بڑی ڈیل پر دستخط کر دیئے ہیں۔ یہ ڈیل قابض اسرائیل کی تاریخ کی سب سے بڑی برآمدی معاہدہ قرار دی جا رہی ہے۔ قابض اسرائیل کی یہ گیس ڈیل بظاہر تجارتی معاہدہ دکھائی دیتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ فلسطینی وسائل کی کھلی لوٹ مار ہے۔ قابض ریاست نے جس گیس کو فروخت کیا ہے، وہ اصل میں فلسطینی سرزمین کے قدرتی وسائل کا حصہ ہے۔ قابض اسرائیل نہ صرف زمین، سمندر اور فضاء پر قبضہ جمائے ہوئے ہے، بلکہ اب قدرتی وسائل کو بھی اپنی معیشت کا ایندھن بنا رہا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسرائیل کے ساتھ بین الاقوامی قابض اسرائیل اقوام متحدہ سکتا ہے گیا ہے کہ غزہ کے لیے رہا ہے کیا ہے

پڑھیں:

گریٹر اسرائیل اور امریکہ کی آنکھ کا کانٹا ایران

اسلام ٹائمز: امریکی تجزیہ کار نے کہا کہ اسرائیل کا پہلا مقصد ایران کو کمزور کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسری چیز جو اسرائیلی چاہتے ہیں وہ فلسطینیوں کو عظیم تر اسرائیل سے نکالنا ہے، وہ فلسطینیوں کو غزہ اور مغربی کنارے سے نکالنا چاہتے ہیں۔ یہ ان کا دوسرا ہدف ہے۔ تیسرا ہدف یہ یقینی بنانا ہے کہ ان کے تمام پڑوسی کمزور ہوں۔ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ لبنان اور شام دوبارہ کبھی متحد ملک نہ بنیں، اس طرح اسرائیل کے لئے پڑوس میں کبھی کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے ایران کے خلاف صیہونی حکومت کے مؤقف کے بارے میں کہا کہ انھوں نے ایران کے ساتھ جو کچھ کیا یا کرنے کی کوشش کی ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایران کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ایران تقسیم اور کمزور ہو، وہ چاہتے ہیں کہ ایران شام جیسا بن جائے۔ میئرشیمر کے مطابق شام، لبنان، ایران، مصر اور اردن جیسے ممالک کو بہت فکر مند ہونا چاہیے کہ اسرائیل انہیں تقسیم کرنے اور کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ خصوصی رپورٹ: 

الجزیرہ کے امریکی میزبان کو انٹرویو دیتے ہوئے جان میرشیمر نے ایران کے خلاف صیہونی حکومت کے اہداف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل بنیادی طور پر دو افراد کی ٹیم کی طرح کام کرتے ہیں۔ امریکی نظریہ ساز کا کہنا ہے کہ "گریٹر اسرائیل" کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا صیہونی حکومت کا بنیادی ہدف ہے لیکن ایران اس سے روک رہا ہے۔ الجزیرہ کے باٹم لائن پروگرام کے امریکی میزبان اسٹیو کلیمنز کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے قطر اور خطے پر حملہ کرنے میں اسرائیل کے اہداف کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔ میرشیمر نے کہا کہ امریکی ورلڈ آرڈر کی موجودہ صورتحال واقعی خوفناک اور واقعی ناقابل یقین ہے، آئیے ایک لمحے کے لیے مشرق وسطیٰ کی طرف رجوع کریں، میری رائے میں، وہاں سب سے اہم مسئلہ جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ غزہ میں نسل کشی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بات پر توجہ دینا بہت ضروری ہے کہ اسرائیلی، امریکہ اور یورپی یونین کی مدد سے، غزہ میں قتل عام کے مرتکب ہو رہے ہیں، دوحہ پر اسرائیلی حملے کا مقصد حماس کے مذاکرات کاروں کو قتل کرنا تھا، حملے کا مقصد یہ یقینی بنانا تھا کہ غزہ کے تنازع کا کوئی مذاکراتی حل نہیں ہے، تاکہ اسرائیلی غزہ میں اپنی نسل کشی جاری رکھ سکیں۔ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر نے مزید کہا کہ دوسرا بہت اہم موضوع یہ ہے کہ اسرائیلی غالباً اس موسم خزاں میں دوسری بار ایران پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، اور اگر آپ یورپ کی طرف توجہ کریں تو آپ کو نظر آئے گا، کہ روسی یوکرینیوں کو پیچھے دھکیل رہے ہیں، یہ تقریباً یقینی ہے کہ میدان جنگ میں روسی ہی جیت جائیں گے، اور یہ سب سے اہم بات ہے، جو یورپ کے لئے خطرہ اس بحران کو بڑھانا ہے، پولینڈ کی طرف جانے والے ڈرونز اس کی مثال ہیں۔

میزبان نے قطر پر اسرائیلی حملے کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے پوچھا، "قطر کو نتن یاہو نے دھوکہ دیا، اور اب خطے میں قطر کے دفاعی تعلقات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، قطر میں 10,000 امریکی فوجی موجود ہیں، اگر آپ قطر یا دیگر خلیجی ممالک میں سے کوئی ہوتے تو آپ اسے کیسے دیکھتے؟۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ اگر میں اسے ان کے نقطہ نظر سے دیکھوں تو میں واقعی پریشان ہو جاؤں گا، اس میں کوئی شک نہیں، بالکل وہی ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ سعودی، اماراتی، قطری جو کچھ ہوا اس سے واقعی پریشان ہیں، وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اسرائیلی جو چاہیں کر سکتے ہیں اور امریکہ ہر قدم پر ان کی حمایت کر رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات کا اسرائیل کے ساتھ ابراہم معاہدہ ہے اور وہ ابراہیم معاہدے کو فوری طور پر ختم کر سکتا ہے۔ اس سے ایک واضح اشارہ ملے گا اور پھر یہ تینوں ممالک اور خطے کے دیگر ممالک اکٹھے ہو سکتے ہیں اور امریکہ پر یہ واضح کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ یہ (قطر پر حملہ) ناقابل قبول ہے (لیکن) ان کو سے کوئی زیادہ فائدہ نہیں ملنے والا۔

اسرائیل کا پہلا مقصد ایران کو کمزور کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسری چیز جو اسرائیلی چاہتے ہیں وہ فلسطینیوں کو عظیم تر اسرائیل سے نکالنا ہے، وہ فلسطینیوں کو غزہ اور مغربی کنارے سے نکالنا چاہتے ہیں۔ یہ ان کا دوسرا ہدف ہے۔ تیسرا ہدف یہ یقینی بنانا ہے کہ ان کے تمام پڑوسی کمزور ہوں۔ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ لبنان اور شام دوبارہ کبھی متحد ملک نہ بنیں، اس طرح اسرائیل کے لئے پڑوس میں کبھی کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے ایران کے خلاف صیہونی حکومت کے مؤقف کے بارے میں کہا کہ انھوں نے ایران کے ساتھ جو کچھ کیا یا کرنے کی کوشش کی ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایران کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ایران تقسیم اور کمزور ہو، وہ چاہتے ہیں کہ ایران شام جیسا بن جائے۔ میئرشیمر کے مطابق شام، لبنان، ایران، مصر اور اردن جیسے ممالک کو بہت فکر مند ہونا چاہیے کہ اسرائیل انہیں تقسیم کرنے اور کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ان کے سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے بارے میں علاقائی عزائم ہیں۔ وہ امریکہ میں اس بات کو یقینی بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ اسرائیل اور خلیجی ریاستوں کے درمیان اچھے تعلقات ہوں، اسرائیلی سعودی عرب سے ابراہم معاہدہ چاہتے ہیں، جیسا کہ وہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ رکھتے ہیں۔ وہ خلیجی ریاستوں کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں، میری رائے میں دوحہ پر حملہ اسرائیل پر حملہ نہیں ہے۔ خلیجی ریاستوں کے لیے براہ راست خطرہ ہے لیکن یہ دوسرے ممالک پر براہ راست حملہ ہیں جن کی فہرست میں نے دی ہے، کیونکہ یہ ایک عظیم تر اسرائیل کے قیام میں رکاوٹ ہیں۔

قطر پر حملے کے بارے میں انہوں نے پھر کہا کہ سب سے پہلے، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ امریکہ اور اسرائیل بنیادی طور پر ایک دو رکنی ٹیم ہیں۔ وہ مل کر کام کرتے ہیں۔ اسرائیل چاہے کچھ بھی کرے، امریکہ اس کی غیر مشروط حمایت کرتا ہے۔ میرے خیال میں یہاں کیا ہوا کہ اسرائیلیوں نے فیصلہ کیا کہ وہ دوحہ میں حماس کے مذاکرات کاروں کو قتل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اسرائیلیوں کا بنیادی مفاد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ایسے کوئی مذاکرات نہ ہوں جو تنازعہ کو حل کرنے جا رہے ہوں یا غزہ کے تنازع کو حل کرنے کے قریب پہنچیں، اس لیے مذاکرات کاروں کو مارنے سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس حملے میں (دوحہ پر) امریکہ ملوث تھا اور انہوں نے مل کر اس آپریشن کی منصوبہ بندی کی تھی، لیکن میرے لیے یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ اسرائیلیوں نے امریکہ کو اس کے بارے میں نہیں بتایا ہوگا، یا اگر وہ ہمیں نہ بتاتے، تو ہم اس کا اندازہ نہ لگا پاتے۔

مشرق وسطیٰ میں ہماری انٹیلی جنس صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے، وہ یقینی طور پر نہیں جانتے ہوں گے کہ ایسا کوئی حملہ ہونے والا ہے؟ یقینا، میرے خیال میں اسرائیلیوں نے ہمیں بتایا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا صدر ٹرمپ یا انتظامیہ میں کسی اور نے جو اس کا ذمہ دار تھا اسرائیلیوں کو بتایا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے؟ اس کا جواب "نہیں ہے، ہم نے بنیادی طور پر اس حملے کے لیے گرین سگنل دیا تھا اور اب ہم یہ ظاہر کرنے کے لیے ہر طرح کا شور مچا رہے ہیں کہ ہم نے ایسا نہیں کیا، لیکن ہم نے یہ کیا (اسرائیل کو دوحہ پر حملہ کرنے کے لیے گرین سگنل دیا) اور اسرائیلی بخوبی جانتے ہیں کہ وہ دوبارہ ایسا کر سکتے ہیں اور ہم انھیں دوبارہ کرنے دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میرے ذہن میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیلی فیصلے کر رہے ہیں، اور بنجمن نیتن یاہو اور صدر ٹرمپ کے درمیان طاقت کے توازن میں، نیتن یاہو زیادہ مضبوط کھلاڑی ہیں، یقیناً یہ حیران کن نہیں ہے۔ آپ اسٹیون (والٹ) کو جانتے ہیں، اسٹیو اور میں نے کتاب 'دی اسرائیل لابی' لکھی تھی اور ہم نے اس کے بارے میں بہت تفصیل سے بات کی تھی۔ اسرائیل کے ساتھ غیرمعمولی تعلقات کی تاریخ میں ایک خاص بات ہے، اسرائیلیوں کی چھوٹی انگلی پر صدر ٹرمپ ناچ رہے ہیں (ان کا ٹرمپ پر مکمل کنٹرول ہے) اور یہ واقعی حیرت انگیز ہے کہ صدر ٹرمپ باقی دنیا کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں اور انہیں ہفتے میں دنیا والوں کو کم از کم ایک تھپڑ مارتے ہیں، لیکن وہ کبھی بھی اسرائیلیوں پر ایسا یا ویسا کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالتے، وہ اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں، جیسا کہ پچھلے امریکی صدور نے کیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • نیتن یاہو کا برطانیہ سمیت دیگر ممالک کے فلسطینی ریاست کے فیصلے پر شدید ردعمل
  • اسرائیل کا  برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے فلسطینی ریاست کوتسلیم کرنے کے اعلان پر ردعمل
  • حماس ناقابل شکست ہی نہیں گوریلا جنگ میں کامیاب بھی ہے، نیویارک ٹائمز
  • دوحا پر اسرائیلی جارحیت خطے کے ممالک کیلئے مقام عبرت
  • ’آج قطر، کل ترکیہ‘، کیا اسرائیل اگلا ہدف استنبول ہے؟
  • بھارتی اداکاروں کا فلسطین میں نسل کشی کیخلاف احتجاج، اسرائیل، امریکا اور مودی  ذمہ دارقرار
  • صرف اسرائیل نہیں فلسطین پر ہونے والے مظالم میں امریکا اور مودی بھی قصوروارہیں، بھارتی اداکار بھی بول اٹھے
  • گریٹر اسرائیل اور امریکہ کی آنکھ کا کانٹا ایران
  • چین کا اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کے بیان پر ردعمل
  • گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے اور خائن حکومت کی بے حسی پر شامی عوام میں تشویش کی لہر