غزہ پر اسرائیلی قبضے کا انسانیت دشمن منصوبہ
اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اب اس منصوبے پر بین الاقوامی ردعمل بھی ملاحظہ فرما لیں، تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ دنیا میں انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی۔ حسب سابق اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے اس منصوبے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ پر مکمل فوجی قبضہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا باعث بن سکتا ہے اور خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے۔ امریکی ردعمل تو کیا ہی باکمال ردعمل ہے، کہا "غزہ کا مسئلہ صرف فوجی طاقت سے نہیں، بلکہ سفارتی اور سیاسی حل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔"اس اطلاع رسانی پر بہت شکریہ۔ ہر کوئی پوری قیمت وصول کر رہا ہے۔ ترکیہ کی اسرائیل کے ساتھ تجارت کا تو آپ کو معلوم ہی ہے، اب مصر کا سن لیں۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
جب بھی مغرب کے حکومتی حلقوں میں فلسطینی عوام اور فلسطینی ریاست کے حق میں آوازیں بلند ہونے لگتی ہیں تو دل میں یہ خدشہ جنم لیتا ہے کہ کچھ بڑا ہونے والا ہے۔ آوازیں جس قدر بڑی ہوں گی، فلسطین پر اتنی ہی بڑی مصیبت آتی ہے۔ پچھلے کچھ ہفتوں کی ڈویلپمنٹس کو ملاحظہ کریں تو حیرت سی ہوتی تھی کہ کبھی فرانس، کبھی کینڈا اور کبھی کوئی اور ملک فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کی بات کر رہا ہے۔ یہ وہی ممالک ہیں، جو فلسطینیوں کی نسل کشی میں شریک ہیں، کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ اسلحہ دینے کی وجہ سے شریک ہیں۔ میں ایسا نہیں سمجھتا، یہ لوگ باقاعدہ اسرائیل کے ساتھ فلسطینیوں کے خلاف میدان جنگ میں موجود ہیں اور قتل عام میں حصہ لے رہے ہیں۔ صرف ایک مثال ہی دیکھ لیں، یہ کل کی خبر ہے: برطانیہ نے مجاہدین کی نقل و حمل کی جاسوسی کے مشن میں براہ راست حصہ لیا ہے۔ برطانیہ کے پاس تو اتنا اعلیٰ درجے کا جاسوس طیار نہیں تھا، اس لیے اس نے جاسوسی کے لیے امریکی ریاست نیواڈا میں قائم ایک نجی کمپنی سے یہ جہاز کرائے پر حاصل کیا۔
برطانوی وزارتِ دفاع کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ برطانوی حکومت اس کمپنی کو غزہ میں جاسوسی کے مشن کے لیے ادائیگیاں کر رہی تھی۔ اس دوران برطانوی فضائیہ کا طیارہ، جو حال ہی میں ممکنہ مرمت کے لیے واپس برطانیہ آیا، غزہ میں سینکڑوں گھنٹوں کی فضائی ویڈیو بنا چکا تھا۔ یہ معلومات اسرائیل کے ساتھ شیئر کی گئیں، تاکہ وہ محافظین غزہ کی تلاش میں مددگار ہوں۔ یہ خبر تو منظر عام پر آئی ہے، جس سے ان کے حقیقی چہرے کا پتہ چلتا ہے۔ یورپی ممالک اس قتل میں اسی طرح براہ راست شریک ہیں۔ آپریشن وعدہ الصادق کی تمام کارروائیوں کی رپورٹنگ دیکھ لیں کہ کون کون سے ممالک اسرائیل کے ساتھ ملکر لڑ رہے تھے، اس سے بھی صورتحال واضح ہو جائے گی۔ میں تو خیر کافی عرصے سے اس پر لکھ رہا ہوں کہ جب ٹرمپ نے کہا تھا کہ غزہ کا قبضہ چھوڑنا ہی غلط تھا اور اسرائیل نے ایسا کیوں کیا کہ غزہ کو فلسطینیوں کے حوالے کر دیا۔؟
اسی وقت سے یہ نوشتہ دیوار تھا کہ اسرائیل کو صرف طاقت کے ذریعے ہی روکا جا سکتا ہے، ورنہ یہ غزہ سمیت پورے فلسطین پر قابض ہو جائے گا۔ اب بین الاقوامی میڈیا پر خبریں آرہی ہیں کہ اسرائیلی کابینہ نے غزہ کی پٹی پر مکمل قبضے کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ فیصلہ بنیامن نیتن یاہو کی سربراہی میں ہونے والے حالیہ سیکورٹی اجلاسوں کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں اسرائیلی فوج کی قیادت اور انٹیلی جنس اداروں کے اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔ نیتن یاہو نے کابینہ کو ایک تفصیلی منصوبہ پیش کیا، جس میں غزہ کی پٹی کے مکمل کنٹرول کی حکمت عملی شامل ہے۔ جس کے تحت غزہ کے تمام علاقوں میں زمینی کارروائی، بحری و فضائی بمباری اور مستقل اسرائیلی موجودگی کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ 4 مراحل پر مشتمل کارروائی میں فوج کے 5 ڈویژنز شامل ہوں گے، نیز بحریہ اور فضائی حملوں کا استعمال بھی متوقع ہے۔ 5 ماہ کے دوران پورا غزہ پر کارپیٹ بمباری کرکے اسے مکمل طور پر خالی کرلیا جائے گا۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ چار مئی سے جاری فوجی کارروائی، جسے اسرائیلی ذرائع "Operation Gideon’s Chariots" کا نام دے رہے ہیں، کے تحت اب تک غزہ کے تقریباً 75 فیصد علاقے پر قبضے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اہم سرنگی نیٹ ورکس، اسلحہ کے ذخیرے اور عسکری تنصیبات کو تباہ کیا جا چکا ہے۔ تاہم، متعدد ذرائع کے مطابق، شمالی اور وسطی غزہ میں اب بھی شدید جھڑپیں جاری ہیں، جبکہ خان یونس اور رفح کے اطراف بعض علاقوں میں شدید مزاحمت سامنے آرہی ہے۔ یہ کوئی متفقہ منصوبہ نہیں ہے، بہت سی رپورٹس کے مطابق اسرائیلی سکیورٹی اداروں کے اندر اس منصوبے پر شدید اختلافات پائے جا رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے بعض اعلیٰ افسران نے نیتن یاہو کی مجوزہ پالیسی کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ مکمل قبضے سے قیدیوں کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور بین الاقوامی ردعمل بھی شدید ہوسکتا ہے۔
اب اس منصوبے پر بین الاقوامی ردعمل بھی ملاحظہ فرما لیں، تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ دنیا میں انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی۔ حسب سابق اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے اس منصوبے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ پر مکمل فوجی قبضہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا باعث بن سکتا ہے اور خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے۔ امریکی ردعمل تو کیا ہی باکمال ردعمل ہے، کہا "غزہ کا مسئلہ صرف فوجی طاقت سے نہیں، بلکہ سفارتی اور سیاسی حل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔"اس اطلاع رسانی پر بہت شکریہ۔ ہر کوئی پوری قیمت وصول کر رہا ہے۔ ترکیہ کی اسرائیل کے ساتھ تجارت کا تو آپ کو معلوم ہی ہے، اب مصر کا سن لیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق قابض اسرائیل کی طرف سے مقبوضہ فلسطینی وسائل پر غیر قانونی تسلط اور اس کی معاشی فروخت کے سلسلے میں ایک نیا باب کھل گیا ہے۔ قابض ریاست کی گیس کمپنی "نیو میڈ انرجی” نے اعلان کیا ہے کہ اس نے مصر کو قدرتی گیس کی ترسیل کے لیے 35 ارب ڈالر کی ایک نئی اور بڑی ڈیل پر دستخط کر دیئے ہیں۔ یہ ڈیل قابض اسرائیل کی تاریخ کی سب سے بڑی برآمدی معاہدہ قرار دی جا رہی ہے۔ قابض اسرائیل کی یہ گیس ڈیل بظاہر تجارتی معاہدہ دکھائی دیتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ فلسطینی وسائل کی کھلی لوٹ مار ہے۔ قابض ریاست نے جس گیس کو فروخت کیا ہے، وہ اصل میں فلسطینی سرزمین کے قدرتی وسائل کا حصہ ہے۔ قابض اسرائیل نہ صرف زمین، سمندر اور فضاء پر قبضہ جمائے ہوئے ہے، بلکہ اب قدرتی وسائل کو بھی اپنی معیشت کا ایندھن بنا رہا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسرائیل کے ساتھ بین الاقوامی قابض اسرائیل اقوام متحدہ سکتا ہے گیا ہے کہ غزہ کے لیے رہا ہے کیا ہے
پڑھیں:
امریکی صدر ٹرمپ کی غزہ پر مکمل اسرائیلی قبضے کی خاموش حمایت
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ پر اسرائیلی قبضے سے متعلق اہم بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملے پر فیصلہ اسرائیل خود کرے گا، امریکہ صرف انسانی امداد پر توجہ مرکوز رکھے گا۔
صحافی کے سوال پر کہ کیا امریکہ اسرائیل کے غزہ پر مکمل قبضے کے منصوبے کی حمایت کرتا ہے؟ ٹرمپ نے کہا کہ ان کی حکومت کی ترجیح غزہ کے محصور فلسطینیوں تک زیادہ سے زیادہ خوراک پہنچانا ہے۔
انہوں نے کہا، "باقی فیصلے اسرائیل خود کرے گا، ہم صرف انسانی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں۔"
صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ اسرائیل خوراک کی تقسیم میں مدد کرے گا، جب کہ عرب ممالک مالی تعاون فراہم کریں گے تاکہ غزہ کے عوام کو ریلیف دیا جا سکے۔
دوسری جانب اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق، وزیر اعظم نیتن یاہو نے سینیئر سکیورٹی حکام کے ساتھ ملاقات میں غزہ پر مکمل فوجی کنٹرول کی حمایت کی ہے۔
مزید اطلاعات کے مطابق، نیتن یاہو غزہ میں فوجی کارروائیاں بڑھانے پر غور کر رہے ہیں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں یرغمالیوں کی موجودگی کا شبہ ہے۔