پولیس اہلکار نے میرے گریبان میری عزت پر ہاتھ ڈالا
اشاعت کی تاریخ: 9th, August 2025 GMT
پاکپتن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 08 اگست2025ء) پاکپتن میں پنجاب پولیس کے مرد اہلکار کے تشدد کا نشانہ بننے والی خاتون منظر عام پر آ گئی، اردو پوائنٹ کے تمام معاملے کی حقیقت بتا دی۔ پاکستان کے سب سے بڑے ڈیجیٹل میڈیا گروپ اردو پوائنٹ سے گفتگو کرتے ہوئے خاتون نے ہوشربا انکشافات کیے۔ متاثرہ خاتون نے بتایا کہ پولیس اہلکار نے میرے گریبان میری عزت پر ہاتھ ڈالا، سیڑھیوں سے گھسیٹ کر تھپڑ اور ٹھڈے مارے گئے، وہاں خاتون پولیس اہلکار بھی موجود تھی لیکن اس نے کچھ نہیں کیا۔
واضح رہے کہ پنجاب پولیس کے ہاتھوں خاتون کو تشدد کا نشانہ بنانے کا ایک اور واقعہ سامنے آیا ہے۔ اے آر وائی نیوز کے مطابق پاکپتن میں ایک پولیس اہلکار کی جانب سے گھر میں گھس پر خاتون کو تشدد کا نشانہ بنا دیا گیا۔(جاری ہے)
تشدد کا نشانہ بنانے والے پولیس اہلکار کے ساتھ مزید پولیس اہلکار بھی تھے۔ پنجاب پولیس کے مرد اہلکار نے خاتون کو سرعام تھپڑ مارے، اس تمام واقعے کی ویڈیو ریکارڈ کر لی گئی۔
واقعے کی مزید تفصیلات سے متعلق بتایا گیا ہے کہ پاکپتن کے فرید کوٹ چوکی اِنچارج اسسٹنٹ سب اِنسپکٹر نے نفری کے ہمراہ چک 39 میں ایک پر دھاوا بولا اور وہاں موجود خاتون کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ خاتون کو لاتوں، مکوں سے مارا اور گھسیٹا گیا، بدتمیزی اور گالم گلوچ بھی کی گئی۔ خاتون نے الزام عائد کیا ہے کہ سسرال والوں نے گھر سے بے دخلی کے لیے پولیس سے تشدد کروایا۔ مزید بتایا گیا ہے کہ واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ڈی پی او پاکپتن نے نوٹس لے لیا۔ ڈی پی او پاکپتن کی ہدایت پر خاتون کو تشدد کا نشانہ بنانے والے پولیس اہلکار کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ تاہم پولیس اہلکار کیخلاف کسی قسم کی ایف آئی آر درج کرنے سے متعلق تصدیق نہیں کی جا سکی۔ گرفتار پولیس افسر کی شناخت اے ایس آئی اعجاز کے طور پر ہوئی ہے۔ اے ایس آئی اعجاز فرید کوٹ چوکی میں تعینات ہے اور خاتون سے گھر خالی کرانے کیلئے گیا تھا۔ڈی پی او جاوید اقبال نے کہا کہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیں گے، اختیارات سے تجاوز کرنے والوں کی پولیس میں کوئی جگہ نہیں۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خاتون کو تشدد کا نشانہ پولیس اہلکار
پڑھیں:
افغان طالبان کی ڈھٹائی، ثالثوں نے ہاتھ اٹھا لیے، استنبول مذاکرات بے نتیجہ ختم
استنبول، اسلام آباد (ویب ڈیسک) پاکستان اور افغانستان کے درمیان استنبول میں ہونے والے مذاکرات ناکام ہوگئے جس کے بعد مذاکرت میں شامل پاکستانی وفد واپس روانہ ہوگیا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاک افغان مذاکرات ختم ہوچکے ہیں، مذاکرات کے اگلے دور کا اب کوئی پروگرام نہیں، ہمارا خالی ہاتھ واپس آنا اس بات کی دلیل ہے کہ ثالثوں کو بھی اب افغانستان سے امید نہیں ہے۔
اپنے بیان میں وزیر دفاع نے کہا کہ ترکیے اور قطرکے شکر گزار ہیں، خلوص کے ساتھ ثالثوں کا کردار ادا کیا، ترکیے اور قطرپاکستان کے مؤقف کی حمایت کرتے ہیں۔
وزیر دفاع نےبتایا کہ افغان وفد کہہ رہا تھا کہ ان کی بات کا زبانی اعتبار کیا جائے جس کی کوئی گنجائش نہیں ہے، بین الاقوامی مذاکرات کے دوران کی گئی حتمی بات تحریری طور پر کی جاتی ہے، مذاکرات میں افغان وفد ہمارے موقف سے متفق تھا مگر لکھنے پر راضی نہ تھا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ اس وقت مذاکرات ختم ہوچکے ہیں، اب ثالثوں نے بھی ہاتھ اٹھالیے ہیں ان کو ذرا بھی امید ہوتی تو وہ کہتے کہ آپ ٹھہر جائیں، اگر ثالث ہمیں کہتے کہ انہیں امید ہے اور ہم ٹھہر جائیں تو ہم ٹھہر جاتے۔
وزیر دفاع نے واضح کیا کہ اگرافغان سرزمین سے پاکستان پر حملہ ہوا تو اس حساب سے ردعمل دیں گے، اگرافغان سرزمین سے کوئی کارروائی نہیں ہوتی تو ہمارے لیے سیز فائر قائم ہے، ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر حملہ نہ ہو۔
واضح رہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ افغان طالبان زبانی یقین دہانیاں کروانے کے بجائے کسی تحریری معاہدے کا حصہ بن جائیں تو یہ دونوں ممالک اور پورے خطے کے لیے بہت اچھا ہوگا۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اگر کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگ، افغان طالبان کے قابو میں نہیں ہیں تو پھر پاکستان کو انھیں قابو کرنے دیں اور اگر پاکستان افغانستان میں کارروائی کرتا ہے تو پھر افغانستان کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں مذاکرات کا تیسرا دور شروع ہوا تھا لیکن پاکستان اور افغانستان کے درمیان استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں ڈیڈلاک ہوگیا۔