جرمنی میں شہریوں کی جسمانی سرگرمی میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے اور ایک تازہ تحقیق کے مطابق ہر جرمن شہری ایک عام ورکنگ ڈے میں اوسطاً 10 گھنٹے 13 منٹ بیٹھ کر گزارتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جرمن اولمپیئن لارا ڈاہل مائر پاکستان میں کوہ پیمائی کے دوران جان گنوا بیٹھیں، انوکھی وصیت کیا تھی؟

ڈی ڈبلیو کے مطابق یہ شرح گزشتہ 10 برسوں کے مقابلے میں تقریباً 2 گھنٹے زیادہ ہے۔ نجی ہیلتھ انشورنس کمپنی ’ڈی کے وی‘ کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ میں اس صورتحال کو ایک ’تشویشناک ریکارڈ‘ قرار دیا گیا ہے۔

یہ تحقیق کولون کے ادارے ’ڈوئچے اشپورٹ ہوخ شولے‘ اور ’یونیورسٹی آف وُرسبرگ‘ کے اشتراک سے 2025 میں تیار کی گئی، جس میں جرمن شہریوں کی صحت سے متعلق عادات کا 8 ویں بار جائزہ لیا گیا۔ سروے 11 فروری سے 17 مارچ کے درمیان کیا گیا، جس میں 2800 سے زائد افراد سے ان کی خوراک، جسمانی سرگرمی، شراب نوشی، تمباکو نوشی، ذہنی دباؤ اور بیٹھنے کے وقت سے متعلق سوالات کیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق شہری اوسطاً ساڑھے 3 گھنٹے کام کی جگہ پر، ڈھائی گھنٹے ٹیلی ویژن کے سامنے اور ڈیڑھ گھنٹہ کمپیوٹر یا ٹیبلٹ استعمال کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔ صرف 30 فیصد افراد ایسے ہیں جو زیادہ بیٹھنے کے اثرات کو مناسب جسمانی سرگرمی سے متوازن کرتے ہیں جبکہ مجموعی طور پر 68 فیصد لوگ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی تجویز کردہ بنیادی جسمانی سرگرمیوں پر عمل کرتے ہیں۔

تاہم، ہفتے میں 2 بار پٹھوں کی مشق صرف 34 فیصد افراد کرتے ہیں اور برداشت و پٹھوں کی مشترکہ سرگرمیاں صرف 32 فیصد افراد کے معمولات میں شامل ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 80 فیصد جرمن شہری تمباکو اور ای-سگریٹ سے مکمل پرہیز کرتے ہیں جبکہ 29 فیصد افراد شراب نوشی سے مکمل اجتناب کرتے ہیں۔ غذائی اصولوں پر پوری طرح عمل کرنے والوں کی شرح صرف 34 فیصد ہے جن میں وہ افراد شامل ہیں جو پھل، سبزیاں، اناج، گری دار میوے اور کم گوشت والی غذا کو ترجیح دیتے ہیں۔

مزید پڑھیے: جرمنی میں اعلیٰ معیاری تعلیم کے 10 پرکشش شعبے کون سے ہیں؟  

تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ نوجوان بالغ افراد شراب نوشی سے دوری میں نسبتاً بہتر کارکردگی دکھا رہے ہیں جبکہ بزرگ افراد غذائیت اور ذہنی دباؤ کو نسبتاً بہتر انداز میں سنبھالتے ہیں۔ تاہم روزمرہ کے اسٹریس سے صحت مند انداز میں نمٹنے والے افراد کی شرح تمام عمر کے گروہوں میں صرف 20 فیصد ہے جو سنہ 2021 کے بعد سے اب تک کی کم ترین سطح ہے۔

مزید پڑھیں: کیا موٹاپا، ذیابیطس اور سگریٹ نوشی ڈیمنشیا کی وجہ بن سکتے ہیں؟

رپورٹ کا سب سے اہم انکشاف یہ ہے کہ مکمل طور پر صحت مند طرزِ زندگی اپنانے والے جرمن شہریوں کی شرح محض 2 فیصد ہے۔ اس میں بھی خواتین 3 فیصد جبکہ مرد صرف ایک فیصد اس معیار پر پورا اترتے ہیں۔ تعلیم بھی ایک اہم عنصر کے طور پر سامنے آئی، جہاں یونیورسٹی ڈگری رکھنے والے افراد میں 5 فیصد مکمل صحت مند طرز زندگی اپناتے ہیں جبکہ صرف ہائی اسکول مکمل کرنے والے افراد میں یہ شرح صفر اور کالج جانے والوں میں صرف ایک فیصد رہی۔

یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ جرمنی جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی صحت مند طرز زندگی اپنانا ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: فیصد افراد کرتے ہیں ہیں جبکہ

پڑھیں:

سوڈان کے شہر الفاشر میں قتل و غارت کی انتہا، اقوام متحدہ کا اظہارِ تشویش

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

خرطوم: اقوام متحدہ کے دفترِ برائے انسانی حقوق نے خبردار کیا ہے کہ سوڈان کا شمالی دارفور کا شہر الفاشر اب  غم کا شہر  بن چکا ہے، جہاں پچھلے دس دنوں کے دوران ظلم وجبر پر مبنی حملوں میں خوفناک اضافہ ہوا ہے اور شہری ناقابلِ تصور مظالم کا سامنا کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی نمائندہ برائے انسانی حقوق لی فانگ نے کہا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے محصور اور تشدد کا سامنا کرنے والے الفاشر کے شہری اب ایسی ہولناک ظلم وجبر جھیل رہے ہیں جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا، سیکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں خواتین، بچے اور زخمی شہری بھی شامل ہیں جو اسپتالوں اور اسکولوں میں پناہ لینے کی کوشش کر رہے تھے۔

انہوں نے مزید کہاکہ  پورے پورے خاندان فرار کے دوران مارے گئے، جبکہ کئی افراد لاپتہ ہو گئے ہیں، ہزاروں شہری، صحافی اور طبی عملہ حراست میں لیا جا چکا ہے، اور جنسی تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، الفاشر سے نکلنے کا کوئی محفوظ راستہ باقی نہیں رہا، بزرگ، معذور، بیمار اور زخمی افراد شدید خطرات میں گھرے ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ کی نمائندہ نے واضح کیا کہ الفاشر میں پیش آنے والے واقعات کو محض انتشار نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ انسانی زندگی اور وقار پر ایک منظم حملہ ہے، جو اکثر نسلی بنیادوں پر کیے جا رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ کا دفتر مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مظالم کی دستاویز بندی جاری رکھے ہوئے ہے، حالانکہ مواصلات کے نظام میں رکاوٹیں اور زمینی رسائی میں مشکلات درپیش ہیں۔

لی فانگ نے عالمی برادری سے فوری اقدام کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ الفاشر لہولہان ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ دنیا حرکت میں آئے، تشدد بند کیا جائے، شہریوں کو تحفظ دیا جائے، متاثرین کو امداد اور انصاف فراہم کیا جائے۔ ذمہ داروں کا احتساب ہی ان مظالم کے اعادے کو روکنے کا واحد راستہ ہے۔

واضح رہے کہ 26 اکتوبر کو نیم فوجی تنظیم ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF)  نے الفاشر پر قبضہ کر لیا تھا، جس کے دوران مقامی و بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق عام شہریوں کے قتلِ عام کے واقعات پیش آئے۔

یاد رہے کہ 15 اپریل 2023 سے سوڈانی فوج اور RSF کے درمیان جاری جنگ نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، جس میں ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں، جب کہ امن مذاکرات اب تک کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • مریم نواز شریف کی ہدایت پر چیف منسٹر شکایات سیل کا فوری ایکشن، خیبر پختونخوا کے شہری کے 86 لاکھ روپے 48 گھنٹے  میں واپس مل گئے
  • کیا چارجرز پلگ میں لگے رہنے سے بجلی ضائع ہوتی ہے؟
  • وادی کشمیر میں بڑے پیمانے پر بھارتی فورسز کی چھاپہ مار کارروائیاں، 500 سے زائد افراد گرفتار
  • سوڈان کا المیہ
  • امریکا میں شٹ ڈاؤن سے زندگی مفلوج، 1500 سے زائد پروازیں منسوخ
  • سوڈان کے شہر الفاشر میں قتل و غارت کی انتہا، اقوام متحدہ کا اظہارِ تشویش
  • فلپائن میں شدید طوفان کے باعث 1 لاکھ سے زائد افراد نقل مکانی پر مجبور
  • رواں سال کی پہلی سہہ ماہی میں 2119 ارب سے زائد کا بجٹ سرپلس رہا، رپورٹ
  • جیکب آباد میں چوہوں، بلیوں اور کتوں کے کاٹنے کے واقعات میں خطرناک اضافہ، 750 سے زائد افراد متاثر
  • غزہ میں 16 ہزار سے زائد افراد فوری طبی امداد کے منتظر ہیں: عالمی ادارہ صحت