خیبر پختونخوا: جرگے کی ناکامی کے بعد باجوڑ میں آپریشن شروع، لیکن جرگہ ناکام کیوں ہوا؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ میں قومی جرگے اور طالبان کے درمیان قیامِ امن کے لیے ہونے والے مذاکرات ناکام ہونے کے بعد باقاعدہ ملٹری آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔
باجوڑ قومی جرگے اور طالبان کے درمیان 10 روز سے زائد مذاکرات جاری رہے، اس دوران مکمل فائر بندی رہی۔ جرگے نے طالبان کو قیامِ امن کے لیے علاقہ چھوڑنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ صوبائی حکومت نے بھی عسکری آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے جرگے کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کا مطالبہ کیا تھا، اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے واضح طور پر آپریشن کی اجازت نہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنرز سے کرفیو اور دفعہ 144 نافذ کرنے کے اختیارات بھی واپس لے کر محکمہ داخلہ کی اجازت سے مشروط کر دیا تھا۔
باجوڑ آپریشن کی اجازتضلعی انتظامیہ باجوڑ نے محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کی اجازت سے دہشتگردوں کے خلاف 27 دیہات میں 3 روز کے لیے کرفیو نافذ کیا ہے، جس دوران ٹارگٹڈ آپریشن جاری ہے۔ کرفیو لگائے گئے دیہات میں لغرئی، گواٹی، غنم شاہ، بادسیاہ، کمر، امانتا، زگئی، گٹ، غنڈے، گڑیگال، نیاگ کلی، رئیگئی، ڈاگ، ڈماڈولا، سلطان بیگ، چوترا، شین کوٹ، گنگ، جیوار، انعام خورو، چینگئی، انگا، سفری، بر گٹکی، خرکی، شکرو اور بکرو شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا: باجوڑ قومی جرگے اور طالبان میں مذاکرات ناکام، آپریشن شروع
ضلعی انتظامیہ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ صوبائی حکومت کی منظوری کے بعد ان دیہات میں کرفیو لگایا گیا ہے، جہاں اطلاعات کے مطابق بڑی تعداد میں دہشتگرد موجود ہیں۔ ان کے مطابق صوبائی حکومت کے مطالبے پر جولائی کے آخر میں ہونا والا آپریشن مؤخر کرکے جرگے کے ذریعے مذاکرات کا راستہ اپنایا گیا، جس میں پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے شامل تھے۔ 10 روز تک ملاقاتیں ہوئیں مگر نتیجہ خیز پیشرفت نہ ہوسکی کیونکہ طالبان کسی شرط پر راضی نہ ہوئے۔ جرگے کو پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو آپریشن ہر صورت کیا جائے گا۔
باجوڑ میں آپریشن کا آغازسرکاری افسر کے مطابق باجوڑ میں آپریشن ’سربکف‘ کا آغاز گزشتہ روز کر دیا گیا ہے اور دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو کامیابی سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ علاقوں میں ابھی بھی مقامی لوگ موجود ہیں جبکہ کچھ دیہات سے نقل مکانی ہو چکی ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ آپریشن کے دوران عام شہریوں اور ان کے گھروں کو نقصان نہ پہنچے اور صرف دہشتگردوں کو نشانہ بنایا جائے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دہشتگرد مقامی آبادی میں گھل مل کر رہتے ہیں اور بے گناہ شہریوں کو ڈھال بنا کر حکومت پر دباؤ ڈالتے ہیں۔
باجوڑ سے منتخب عوامی نیشنل پارٹی کے رکن خیبر پختونخوا اسمبلی نثار باز پیر نے اسمبلی اجلاس میں شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت نے آپریشن کی اجازت تو دے دی ہے مگر نقل مکانی کرنے والوں کے لیے انتظامات نہیں کیے گئے، جس سے لاکھوں افراد مشکلات کا شکار ہیں۔ ان کے مطابق حکومت نے ٹارگٹڈ آپریشن کا اعلان کیا لیکن تیاری بڑے پیمانے کے آپریشن کی گئی ہے، جس کے نتیجے میں قریباً 4 لاکھ لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ 23 اگست کو اسلام آباد میں امن مارچ کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: باجوڑ میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن، علی امین گنڈاپور کی مخالفت، ڈی سیز سے کرفیو کا اختیار واپس
کیا جرگوں کی اہمیت کم ہو گئی؟وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے جولائی کے آخری ہفتے میں وزیراعلیٰ ہاؤس میں اپنی جماعت کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس بلائی، جس کے اعلامیے میں واضح کیا گیا کہ سیاسی جماعتیں آپریشن کے خلاف ہیں اور متاثرہ علاقوں کے عوام کو بھی تشویش ہے۔ انہوں نے طاقت کے بجائے مذاکرات اور قبائلی روایت جرگہ سسٹم اپنانے کا اعلان کیا، جس کے بعد کرفیو اٹھا لیا گیا اور باجوڑ قومی جرگے کے ذریعے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ 10 روز مسلسل مذاکرات ہوئے لیکن طالبان نے شرائط ماننے سے انکار کر دیا، جس کے بعد عسکری آپریشن شروع ہوا۔
وزیراعلیٰ ہاؤس کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ علی امین گنڈاپور امن و امان کے حوالے سے صوبے کا ایک ’گرینڈ جرگہ‘ بلانے جا رہے ہیں، جس میں عوامی رائے لی جائے گی۔ ان کے مطابق اب تک ہونے والے تمام جرگوں میں مذاکرات کا مشورہ دیا گیا، مگر حالات بتا رہے ہیں کہ اس وقت جرگہ سسٹم مؤثر نہیں رہا، کیونکہ طالبان خود کو طاقتور سمجھتے ہیں اور طاقتور گروہ کبھی بھی آسانی سے بات نہیں مانتا۔ ان کا کہنا تھا کہ فی الحال طالبان کے خلاف آپریشن ضروری ہے، اور جب وہ کمزور ہوں گے تو خود بخود شرائط مان لیں گے۔
دوسری جانب باجوڑ سے تعلق رکھنے والے صحافی بلال یاسر کا کہنا ہے کہ جرگے کو وقت اور اختیارات ملنے چاہئیں۔ ان کے مطابق باجوڑ جرگہ بااختیار نہیں تھا اور ذمہ داری لینے کی پوزیشن میں نہیں تھا، اس لیے کامیاب نہ ہو سکا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جرگے کے ذریعے مسائل کا حل ممکن ہے۔ رکن اسمبلی نثار باز پیر نے بھی گرینڈ ڈائیلاگ کا مشورہ دیا اور کہا کہ امن و امان پر متفقہ فیصلہ ہونا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
باجوڑ آپریشن جرگہ خیبر پختونخوا طالبان علی امین گنڈاپور.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: باجوڑ آپریشن جرگہ خیبر پختونخوا طالبان علی امین گنڈاپور علی امین گنڈاپور خیبر پختونخوا جرگے کے ذریعے صوبائی حکومت ان کے مطابق اعلان کیا باجوڑ میں قومی جرگے آپریشن کی کی اجازت کے خلاف دیا گیا کے لیے کر دیا کے بعد
پڑھیں:
پاکستان کا افغان سرزمین سے دہشتگرد کارروائیاں روکنے پر زور
پاکستان اور افغان طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور ترکی اور قطر کی ثالثی میں استنبول میں 7 نومبر 2025 کو مکمل ہوا، مذاکرات میں افغانستان سے پاکستان پر ہونے والے دہشتگرد حملوں، عارضی جنگ بندی اور سکیورٹی تعاون کے امور پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: پاک افغان مذاکرات میں پیشرفت، دفترِ خارجہ نے ڈیڈ لاک کی تردید کر دی
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان برادر ممالک ترکی اور قطر کی مخلصانہ ثالثی کی کوششوں کی قدر کرتا ہے، جنہوں نے دونوں ممالک کے درمیان اختلافات دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا، مذاکرات کا بنیادی مقصد افغان سرزمین سے پاکستان پر ہونے والے دہشتگرد حملوں کے مسئلے کو حل کرنا تھا، جو گزشتہ چار برسوں میں نمایاں طور پر بڑھ گئے ہیں۔
افغان سرزمین سے دہشتگردی میں تیزی، پاکستان کا تحملبیان میں کہا گیا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغان سرزمین سے پاکستان پر حملوں میں تیزی آئی ہے۔ ان برسوں کے دوران پاکستان نے عسکری اور شہری نقصانات کے باوجود زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کیا اور جوابی کارروائی سے گریز کیا، پاکستان کو توقع تھی کہ طالبان حکومت وقت کے ساتھ ان حملوں پر قابو پانے میں کامیاب ہوگی، مگر عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔
دفترِ خارجہ کے مطابق پاکستان نے افغانستان کے ساتھ تعلقات کو مثبت سمت میں لے جانے کے لیے متعدد اقدامات کیے، جن میں تجارتی رعایتیں، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد، تعلیمی و طبی ویزوں کی فراہمی اور عالمی فورمز پر طالبان حکومت سے تعمیری رابطے کی ترغیب شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کی شہ پر افغان طالبان کی ہٹ دھرمی، استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات ناکام
ترجمان کے مطابق افغان حکومت کی طرف سے ان کوششوں کے جواب میں صرف زبانی وعدے اور بے عملی دیکھنے میں آئی۔
پاکستان کا مطالبہ، دہشتگردوں کے خلاف قابلِ تصدیق کارروائیبیان میں کہا گیا کہ پاکستان نے مذاکرات کے ہر مرحلے پر اپنے بنیادی مطالبے افغان سرزمین پر موجود دہشتگرد گروہوں کے خلاف قابلِ تصدیق کارروائی پر زور دیا۔
یہ بھی پڑھیں: چمن بارڈر پر فائرنگ: پاک افغان مذاکرات کا تیسرا دور تعطل کے بعد دوبارہ جاری
ترجمان کے مطابق طالبان وفد نے ہر بار اصل مسئلے کو پسِ پشت ڈال کر غیر متعلقہ یا فرضی معاملات اٹھانے کی کوشش کی تاکہ بنیادی نکتے یعنی دہشتگردی سے توجہ ہٹائی جاسکے۔
طالبان حکومت کے بہانے، مذاکرات میں پیشرفت نہ ہوسکیترجمان کے مطابق، طالبان نمائندوں نے استنبول میں ہونے والے تیسرے دور میں بھی دہشتگردی کے مسئلے پر سنجیدگی نہیں دکھائی اور مذاکرات کو طول دینے کی حکمتِ عملی اپنائی۔ افغان فریق نے مذاکرات کا دائرہ وسیع کر کے غیر حقیقی الزامات اور بے بنیاد دعووں کو شامل کیا۔
دفترِ خارجہ کے مطابق طالبان حکومت صرف عارضی جنگ بندی کو طول دینا چاہتی ہے، مگر دہشتگرد گروہوں کے خلاف عملی اقدامات سے گریزاں ہے۔
دہشتگردی انسان دوست نہیں، سکیورٹی کا مسئلہ ہےترجمان نے واضح کیا کہ طالبان حکومت پاکستانی دہشتگردوں کی موجودگی کو انسانی یا پناہ گزینوں کا مسئلہ بنا کر پیش کررہی ہے، حالانکہ یہ سراسر سکیورٹی کا معاملہ ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ پاکستان ان افراد کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے جو افغانستان میں موجود ہیں، بشرطیکہ انہیں طورخم یا چمن کے سرحدی راستوں سے باضابطہ طور پر حوالے کیا جائے، نہ کہ مسلح حالت میں سرحد پار بھیجا جائے۔
پاکستان کسی دہشتگرد گروہ سے مذاکرات نہیں کرے گادفترِ خارجہ نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان نے کبھی کابل میں کسی حکومت سے بات چیت سے انکار نہیں کیا، مگر کسی دہشتگرد گروہ، جیسے ٹی ٹی پی، ایف اے کے، یا بی ایل اے سے مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: استنبول میں کل پھر پاک افغان مذاکرات: بات چیت ناکام ہوئی تو صورت حال خراب ہو سکتی ہے، خواجہ آصف
ترجمان نے کہا کہ یہ گروہ ریاستِ پاکستان اور عوام کے دشمن ہیں، اور ان کے حامی یا معاون پاکستان کے خیرخواہ نہیں ہو سکتے۔
طالبان حکومت کے اندر اختلافات اور بیرونی اثراتترجمان نے انکشاف کیا کہ طالبان حکومت کے اندر ایسے عناصر موجود ہیں جو پاکستان سے محاذ آرائی نہیں چاہتے، لیکن کچھ گروہ غیر ملکی مالی امداد سے پاکستان کے خلاف بیانیہ مضبوط کر رہے ہیں۔
یہ عناصر پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دے کر داخلی اتحاد پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں، مگر اس طرزِ عمل سے وہ پاکستان میں موجود اپنی ساکھ کھو رہے ہیں۔
پاکستانی قوم اور افواج دہشتگردی کے خلاف متحددفترِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ طالبان حکومت کی پروپیگنڈا مہم کے باوجود پاکستان کی افغان پالیسی پر مکمل اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ عوام اور افواجِ پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ میں یکجان ہیں اور ملک کے اندر یا باہر سے آنے والے کسی خطرے کے مقابلے کے لیے تیار ہیں۔
پشتون قوم پرستی کے بیانیے کی نفیبیان میں طالبان حکومت کی جانب سے پشتون قوم پرستی کو ہوا دینے کی کوششوں کو بھی بے بنیاد قرار دیا گیا۔
ترجمان نے کہا کہ پاکستان میں پشتون قوم ریاست اور معاشرے کا متحرک حصہ ہے، جو اعلیٰ سیاسی و انتظامی عہدوں پر فائز ہے۔ طالبان حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے ملک میں شمولیتی نظام پر توجہ دے۔
پاکستان امن کا حامی مگر دہشتگردی پر زیرو ٹالرنسترجمان نے کہا کہ پاکستان امن اور مذاکرات کا خواہاں ہے، تاہم دہشتگردی کے مسئلے کو اولین ترجیح کے طور پر حل کیے بغیر کوئی پیش رفت ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی سرزمین اور عوام کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا، جبکہ دہشتگردوں اور ان کے مددگاروں کے خلاف کارروائی جاری رہے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news افغان طالبان افغانستان پاکستان دفتر خارجہ دہشتگردی مذاکرات