پانی کی تقسیم کامعاملہ،عالمی ثالثی عدالت نے پاکستان کے حق میں بڑافیصلہ سنادیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
پاکستان نے سندھ طاس معاہدے اور پانی کی تقسیم سے متعلق عالمی ثالثی عدالت کے تازہ فیصلے کو تاریخی اور اپنے مؤقف کے حق میں قرار دیتے ہوئے خوش آمدید کہا ہے۔ یہ فیصلہ، جو 8 اگست 2025 کو جاری ہوا اور آج عالمی ثالثی عدالت کی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا، معاہدے کی تشریح اور مغربی دریاؤں—چناب، جہلم اور سندھ—پر بھارت کے ہائیڈرو پاور منصوبوں کے لیے مقرر معیار کی وضاحت کرتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بھارت مغربی دریاؤں کے پانی کے قدرتی بہاؤ میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتا اور یہ پانی بلا تعطل پاکستان تک پہنچنا چاہیے۔ عدالت نے واضح کیا کہ بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں کے لیے معاہدے میں دی گئی رعایتوں پر عین شرائط کے مطابق عمل ہونا ضروری ہے، نہ کہ بھارت کے اپنے بنائے گئے اصولوں کے تحت۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق، عدالت کی رائے ڈیمز کے آؤٹ لیٹس، گیٹڈ اسپِل ویز، ٹربائنز کے پانی کے انٹیک اور فری بورڈ سے متعلق پاکستان کے موقف کی مکمل تائید کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کو پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت (پونڈیج) کو غیر ضروری حد تک بڑھانے سے بھی روکا گیا ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی دوٹوک کہا کہ ثالثی عدالت کے احکامات حتمی ہیں، دونوں ممالک پر لازمی طور پر لاگو ہوتے ہیں، اور مستقبل میں آنے والے کسی بھی ثالثی یا نیوٹرل ایکسپرٹ کے فیصلوں پر ان کا قانونی غلبہ ہوگا۔
فیصلے میں پاکستان کو ایک نچلے درجے پر واقع ملک کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے کہا گیا کہ سندھ طاس معاہدے کی اصل روح یہ ہے کہ مغربی دریاؤں پر دونوں ممالک کے حقوق اور ذمہ داریاں واضح ہوں، تعاون کو فروغ ملے اور تنازعات کا پائیدار حل نکالا جائے۔
یہ فیصلہ اس وقت آیا ہے جب بھارت حال ہی میں سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کرچکا ہے اور اس سے قبل ثالثی عدالت کی کارروائی کا بائیکاٹ بھی کرچکا ہے۔ پاکستان کے مطابق، یہ عدالتی فیصلہ اس کے دیرینہ اور اصولی موقف کی بھرپور توثیق ہے۔
پاکستان نے ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدے پر مکمل عملدرآمد کے لیے پرعزم ہے اور امید کرتا ہے کہ بھارت فوری طور پر معاہدے کی بحالی اور فیصلے پر ایمانداری سے عملدرآمد کرے گا۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: سندھ طاس معاہدے ثالثی عدالت
پڑھیں:
بھارت: امیروں اور غریبوں کے درمیان فرق میں غیرمعمولی اضافہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) بھارت میں 2000 ء سے 2023 ء کے درمیان بالائی سطح کے ایک فیصد امیر ترین افراد کی دولت میں 62 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ عالمی عدم مساوات پر ایک نئی رپورٹ کے مطابق پچھلی دہائیوں میں بھارت میں امیروں اور غریبوں کے درمیان دولت کا فرق غیرمعمولی حد تک بڑھ گیا ہے۔ جی 20 ٹاسک فورس کی جاری کردہ نئی رپورٹ کے مطابق اس عرصے کے دوران بالائی سطح کے ایک فیصد افراد نے اپنی دولت کے حصے میں 62 فیصد اضافہ کیا۔ جنوبی افریقا کی جی20 صدارت میں بنائی گئی اس کمیٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کی کل آبادی کے امیر ترین ایک فیصد افراد نے 2000ء کے بعد سے بننے والی نئی دولت کا 41 فیصد حصہ حاصل کیا۔ ورلڈ ان ایکویلٹی لیب کے اعداد و شمار پر مبنی رپورٹ میں دنیا کی نچلی 50 فیصد آبادی کی دولت میں صرف ایک فیصد اضافہ ہوا۔رپورٹ میں کہا گیا دوسرے الفاظ میں، امیر ترین ایک فیصد نے نچلے 50 فیصد کی نسبت 2ہزار 655 گنا زیادہ دولت میں اضافہ کیا۔ ٹاسک فورس نے سفارش کی کہ عدم مساوات پر ایک نیا عالمی پینل تشکیل دیا جائے جو انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمٹ چینج کی طرز پر ہو۔ یہ پینل عدم مساوات کے اسباب اور اثرات کی نگرانی کرے گا اور حکومتوں و پالیسی سازوں کو رہنمائی فراہم کرے گا۔ رپورٹ کے مصنفین نے خبردار کیا کہ جن ممالک میں معاشی عدم مساوات زیادہ ہے، وہاں جمہوری نظام زوال پذیر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔نوبیل انعام یافتہ ماہرِ معاشیات جوزف اسٹگلٹز اور عالمی عدم مساوات پر آزاد ماہرین کی غیر معمولی کمیٹی کے سربراہ نے کہا کہ یہ صرف غیرمنصفانہ نہیں بلکہ معاشرتی ہم آہنگی کو بھی کمزور کرتا ہے۔ یہ ہماری معیشت اور سیاست دونوں کے لیے خطرہ ہے۔یہ کمیٹی جنوبی افریقاکے صدر سیرل رامافوسا کی درخواست پر تشکیل دی گئی تھی۔ رامافوسا نومبر 2025 ء تک جی20 گروپ کی صدارت سنبھالے ہوئے ہیں، جس کے بعد یہ ذمہ داری امریکا کو منتقل کی جائے گی۔ رپورٹ کے مصنفین نے مکمل طوفان کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وبا، یوکرین جنگ، اور تجارتی تنازعات جیسے عالمی بحرانوں نے غربت اور عدم مساوات کو مزید بڑھایا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ دنیا میں ہر 4میں سے ایک شخص کو اکثر کھانا چھوڑنا پڑتا ہے، جبکہ ارب پتیوں کی دولت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ 2020ء کے بعد سے عالمی سطح پر غربت میں کمی رک گئی ہے اور کچھ علاقوں میں اضافہ ہوا ہے۔مزید برآں 2.3 ارب افراد کو درمیانی یا شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے، جو کہ 2019 ء کے مقابلے میں 33.5 کروڑ زیادہ ہے۔