حکومت نے بات چیت کرکے امریکی ٹیرف خطے میں کم ترین کرادیا، وزیر تجارت
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان نے کہا ہے کہ پاکستان کے برآمد کنندگان امریکی مارکیٹ میں مسابقتی برتری حاصل کرنے کے لیے تیار ہیں، حکومت کی جانب سے باہمی ٹیرف کو 29 فیصد سے کم کر کے 19 فیصد کرنے کے لیے کامیابی سے بات چیت کی گئی جو خطے میں سب سے کم ہے۔
وزیر تجارت جام کمال خان کی زیر صدارت امریکی ٹیرف سے متعلق اہم اجلاس ہوا، اجلاس میں امریکی ٹیرف میں کمی پر برآمد کنندگان اور صنعتکاروں سے مشاورت کی گی۔
اجلاس میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صنعت و پیداوار ہارون اختر خان، وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے تجارت رانا احسان افضل، سیکرٹری تجارت جواد پال، تجارت ڈویژن اور صنعت و پیداوار ڈویژن کے سینئر افسران اور 30 سے زائد معروف برآمد کنندگان اور ایس ایم ایز سمیت مختلف شعبوں، سالٹائل، ایپس، ٹیکسٹائل، سپورٹس سمیت دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔
جام کمال خان نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر ٹیرف میں کمی کے ذریعے فراہم کردہ مواقع پر برآمد کنندگان کے لیے ضروری ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھانے اور برآمدات کو بڑھانے کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ طے کیا جائے۔
انہوں نے وزیر خزانہ اور سیکرٹری تجارت کی کوششوں کے ساتھ ساتھ اس سنگ میل کو حاصل کرنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کرنے میں نجی شعبے کی حمایت کو سراہا۔
معاون خصوصی ہارون اختر نے کہا کہ علاقائی فائدے کو اجاگر کرنے اور حکومت موجودہ حالات سے پیدا ہونے والے کاروباری مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے صنعت کو زیادہ سے زیادہ تعاون فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
صنعت کے نمائندوں نے تجارتی سفارت کاری میں حکومت کی کوششوں کو سراہتے ہوئے سازگار تجارتی ماحول اور پالیسی سپورٹ پر زور دیا جس کا مقصد مینوفیکچرنگ کی لاگت کو بہتر بنانا اور مستقبل کے کاروباری مواقع کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ان پٹ تک رسائی حاصل کرنا ہے۔
وزیر تجارت نے کہا کہ بہتر تعاون اور فیصلہ کن اقدامات کے ذریعے پاکستان کی برآمدی صنعتیں نمایاں ترقی حاصل کر سکتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ برآمد کنندگان کی طرف سے تمام سفارشات وزیر اعظم کو غور کے لیے پیش کی جائیں گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: برآمد کنندگان کرنے کے لیے نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
انگور اڈہ میں این ایل سی بارڈر ٹرمینل کو باضابطہ طور پر کسٹمز پورٹ کا درجہ دے دیا گیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 11 اگست2025ء) فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے افغانستان کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کے لیے انگور اڈہ میں این ایل سی بارڈر ٹرمینل کو کسٹمز پورٹ کا درجہ دے دیا ہے۔ ویلتھ پاکستان کو دستیاب نوٹیفکیشن کے مطابق ایف بی آر نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے این ایل سی بارڈر ٹرمینل انگور اڈہ کو باضابطہ طور پر کسٹمز پورٹ قرار دیا ہے۔ انگور اڈہ جنوبی وزیرستان کے ضلع اور افغانستان کے صوبہ پکتیکا کے درمیان سرحد پر واقع ایک قصبہ ہے۔ مذکورہ فیصلہ پاکستانی حکومت کی جانب سے سرحدی انفراسٹرکچر کو جدید خطوط پر استوار کرنے، کسٹمز کے عمل کو آسان بنانے اور سرحد پار تجارت کو بڑھانے کی وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہے۔نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ کسٹمز ایکٹ 1969 (IV of 1969) کی دفعہ 9 کی شق (a) اور (c) اور دفعہ 10 کی شق (a) اور (b) کے تحت دیئے گئے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ایف بی آر این ایل سی بارڈر ٹرمینل، انگور اڈہ جس کا رقبہ 194.5 کنال ہے، کو مال کی لوڈنگ، ان لوڈنگ اور کلیئرنس کے لیے کسٹمز پورٹ قرار دیا جاتا ہے۔(جاری ہے)
این ایل سی بارڈر ٹرمینل جو 194.5 کنال پر محیط ہے اب پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی سامان کی آمدورفت کا ایک اہم گیٹ وے ثابت ہو گا۔ اس اقدام سے کسٹمز کلیئرنس میں تاخیر کی کمی، لاجسٹک آپریشنز بہتر ہونے اور ریونیو میں اضافے کی توقع ہے۔ اس اقدام سے تاجروں اور درآمد کنندگان کے لیے سامان کی لوڈنگ، ان لوڈنگ اور کلیئرنس کا عمل مزید آسان اور تیز ہو گا جس سے بارڈر کے ذریعے قانونی تجارت کا حجم بڑھنے کا امکان ہے۔ویلتھ پاکستان سے گفتگو کرتے ہوئے ایف بی آر کے ایک سینئر اہلکار نے کہا ہے کہ نیا ٹرمینل سرحدی سکیورٹی کو مضبوط بنانے اور پاکستان و افغانستان کے درمیان تجارت کو منظم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ نئے کسٹمز پورٹ کے قیام سے ہم نہ صرف سرحد پار تجارت کو سہولت فراہم کر رہے ہیں بلکہ مزید منظم ریونیو پیدا کرنے کے مواقع بھی پیدا کر رہے ہیں۔ یہ اقدام پاکستان کے معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ کسٹمز آپریشنز میں شفافیت اور کارکردگی کو بہتر بنائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس ٹرمینل کی سٹریٹجک لوکیشن پاکستان اور افغانستان کے درمیان سامان کی پروسیسنگ کو تیز کرنے کے لیے نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ یہ سرحدی علاقہ طویل عرصے سے تجارتی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے اور نیا کسٹمز پورٹ تجارتی سامان کے بہائو کو ہموار کرنے، سمگلنگ پر قابو پانے اور قومی خزانے کے لیے اہم ریونیو پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔\932