آج 14 اگست ہے۔ پاکستان کا یوم آزادی۔ یعنی وہ دن جب لبرلز 2 سانسوں میں 2 باتیں کہتے ہیں۔ پہلی سانس میں یہ کہ مولوی قیام پاکستان کے مخالف تھے۔ اور دوسری سانس! دوسری سانس کا ابتدائی حصہ وہ ایک ٹھنڈی آہ پر صرف کرکے باقی نصف سانس میں فرماتے ہیں
’انگریز کا دور کتنا اچھا تھا، اس نے یہ بنایا وہ بنایا‘۔
مطلب؟ فقط اتنا کہ مولوی قیام سے قبل اور لبرل قیام کے بعد پاکستان کا مخالف نظر آتا ہے۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ 75 سال بعد بھی اس ملک کے باسیوں کو یہ صورتحال کیوں درپیش ہے؟ عدم اطمینان اور بے یقینی کی یہ فضا کیوں موجود ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں ہمیشہ بددیانتی کا مظاہری کیا گیا۔ اگر بددیانتی کا مظاہرہ کرنے والوں کے مؤقف کو ایک جملے میں سمیٹا جائے تو خلاصہ یہ بنتا ہے
’بار بار کی فوجی مداخلت نے پاکستان کو مستحکم نہ ہونے دیا‘۔
دعویٰ تو دلیل بھی چاہتا ہے سو دلائل کا آغاز کچھ یوں ہوتا ہے
’پاکستان ابھی 11 برس کا ہی تھا کہ سکندر مرزا اور ایوب خان نے جمہوریت ڈی ریل کردی اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔‘
یوں یہ بد دیانت موقف پاکستانی جمہوریت کی تاریخ 1947 کی بجائے 1958 سے شروع کرتا ہے۔حالانکہ فساد کی جڑ 1958 سے پیچھے کے ان 11 سالوں میں موجود ہے، جب راج پاکستان کے پہلے مقدس گروہ تھا۔ وہ گروہ جسے ’تحریک پاکستان کے کارکن‘ کے نام سے پکارا جاتا۔ ان لوگوں کو کیسی تقدیس حاصل تھی، اس کا اندازہ لگانا ہو تو اخبارات اور پی ٹی وی کی 90 کی دہائی تک کی نشریات کھنگال لی جائیں۔ جب ہر 14 اگست پر ڈھونڈ ڈھانڈ کر کوئی ضعیف العمر لایا جاتا اور بتایا جاتا
’انہوں نے قائد اعظم کے فلاں جلسے میں نعرے لگائے تھے۔ اور تب ان کی عمر صرف 10 سال تھی‘
اندازہ لگا لیجیے کہ اگر 90 کی دہائی تک صورتحال یہ تھی کہ قائد اعظم کے جلسے میں نعرہ لگانے والے کو بھی ایک مقدس مخلوق کے طور پر نیشنل ٹی وی پر پیش کیا جا رہا تھا تو ان لوگوں کا تقدس کس لیول کا رہا ہوگا جو قیام پاکستان کے بعد اس کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں جلوہ افروز تھے؟ وہ مجید نظامی اب ہم میں نہیں رہے جو ہر 14 اگست پر یہ ڈرامے بازیاں کروا کر قیام پاکستان کو سیاسی ایونٹ کی بجائے معجزہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے۔ سو ہم اب یکسو ہوکر ان وجہ پر غور کرسکتے ہیں جس نے ملک کو اب بھی اپنی منزل سے کوسوں دور رکھا ہوا ہے۔
ملک کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں بیٹھے مقدس گروہ کے سامنے چند سیاسی سوالات کھڑے ہوگئے تھے، جو درج ذیل تھے۔
*کیا پاکستان ایک مضبوط مرکز کے تحت چلے گا ، یا صوبائی خودمختاری کو فوقیت دی جائے؟
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا عالمی قد کاٹھ
مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے نمائندوں کا مؤقف تھا کہ ملک ابھی نیا نیا بنا ہے، اسے مضبوط مرکز کے ذریعے متحد اور مستحکم کرنا بہتر راہ ہوگی۔ مشرقی پاکستان والوں کا کہنا تھا کہ ملک کے 2 حصے جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے دور واقع ہیں لہذا صوبائی خود مختاری ٹھیک رہے گی تاکہ دونوں حصے اپنے اپنے مسائل اپنے اپنے حساب سے حل کرسکیں۔
٭ نمائندگی آبادی کی بنیاد پر ہو یا ملک کے دونوں حصوں کو مساوی نمائندگی دی جائے؟
مغربی پاکستان والی مقدس مخلوق کا مؤقف تھا کہ مساوی نمائندگی ہونی چاہیے۔ جبکہ مشرقی پاکستان والوں کا کہنا تھا کہ آفاقی اصول کے مطابق نمائندگی آبادی کی بنیاد پر ہو۔ مسئلہ یہ تھا کہ آبادی میں مشرقی پاکستان کا حصہ 55 فیصد تھا۔ سو مغربی پاکستان والی مقدس مخلوق کا کہنا تھا کہ اگر آبادی کی بنیاد پر نمائندگی دی گئی تو راج ہمیشہ مشرقی پاکستان کا رہے گا۔
٭آئین اسلامی ہو یا سیکولر؟
علماء اور مذہبی فکر کہنا تھا ملک کا آئین اسلامی ہو۔ جبکہ دیگر کا تقاضا تھا کہ آئین کو سیکولر رکھا جائے۔
٭ پارلیمانی نظام ہو یا صدارتی ؟
مشرقی پاکستان کے نمائندوں کا کہنا تھا، برٹش دور میں پارلیمانی نظام کا جو تجربہ میسر ہے اسی کو کام میں لایا جائے، صدارتی نظام والا نیا تجربہ نہ کیا جائے۔ جبکہ سول ملٹری بیوروکریسی اور مغربی پاکستان کے کچھ سیاسی نماندے صدارتی نظام کے حق میں تھے۔
٭ پاکستان کی قومی زبان کیا ہو ؟
مغربی پاکستان کے نمائندے اردو کے حق میں تھے۔ جبکہ مشرقی پاکستان کے نمائندے بنگالی زبان کو بھی مساوی درجہ دینے کا تقاضا کر رہے تھے۔
یہ سولات اس مقدس مخلوق کو درپیش تھے جس کا گمان تھا کہ قیام پاکستان ان کے ہاتھ سے صادر ہونے والا معجزہ ہے۔ اور چونکہ پاکستان 27 رمضان کو بنا ہے لہذا یہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ یعنی قرآن مجید کی طرح ہی اس کا تحفظ گویا اللہ سبحانہ و تعالی کی ذمہ داری ہے۔ مگر معجزے والی والی مقدس مخلوق مذکورہ سوالات پر 7 سال، جی ہاں ! 7 سال لڑتی رہی۔ آئین سازی تو دور یہ ان سوالات کا ہی کوئی حل نہ ڈھونڈ سکے اور اور یوں 1954 میں گورنر جنرل غلام محمد نے انہیں اسمبلی سے باہر پھینکا۔ کیا پاکستان سے کئی گنا بڑے انڈیا کو ان سے ملتے جلتے سوالات درپیش نہ رہے تھے؟ ان کا تو رقبہ ہی نہیں بلکہ لسانی و مذہبی تقسیم بھی زیادہ وسیع تھی۔ لیکن ان کا آئین 1950 میں منظور ہوگیا تھا۔ جس کا مطلب ہے کہ ان کے ہاں سیاسی سنجیدگی بھی موجود تھی اور سیاسی چیلنجز سے نمٹنے کی اہلیت بھی رکھتے تھے۔
جب بیوروکریسی اور فوج پر ایک بار یہ بات واضح ہوگئی کہ ملک کے سب سے مقدس سیاستدان ہی اس قدر نااہل ہیں تو پھر انہیں مداخلت سے کون روک سکتا تھا؟ نتیجہ یہ نکلا کہ اگرچہ دوسری دستور ساز اسمبلی نے 2 سال میں آئین منظور کرلیا مگر بات اب ہاتھ سے نکل چکی تھی۔ یوں پہلا وار سول بیوروکریسی نے کیا، جس پر فوج نے سوچا کہ اگر ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کا اصول ہی رکھنا تو پھر لاٹھی تو ہماری زیادہ مضبوط ہے۔ سو وہ آگئے اپنی لاٹھی سمیت۔ ہر آنے والے کو جانا بھی پڑتا ہے۔ یوں فوج کو بھی جانا پڑا مگر تب جب قیام پاکستان کا معجزہ ٹوٹ کر آدھا رہ گیا۔
مزید پڑھیے: کون بچائے گا اسرائیل کو؟
بھٹو صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ یہ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے عوامی سیاست کی بنیاد ڈالی اور سیاست کو ڈرائینگ رومز سے نکال کر عام آدمی کی گلی کوچے تک پہنچایا۔ مگر ہم اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ہم اسے بھٹو کا بڑا کارنامہ تو مانتے ہیں۔ مگر سب سے بڑا نہیں۔ بھٹو کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے قیام پاکستان کا معجزہ سرزد کرنے والے مقدس گروہ سے ملک کو نجات دلائی۔ اور سیاستدانوں کی ایک نئی نسل سامنے لائے۔ مگر ایک بڑی گڑ بڑ یہ ہوگئی کہ بھٹو صاحب خود کو نجات دہندہ سمجھ بیٹھے۔ مقدس مخلوق سے نجات دلانے والا، فوج سے نجات دلانے والا اور ایک حد تک مشرقی پاکستان سے بھی نجات دلانے والا۔ یوں جمہوری آمریت قائم ہوگئی۔ اب آمریت تو فوجی ہی بھرپور ہوتی ہے۔ سو فوج نے ایک بار پھر سوچا کہ اگر آمریت ہی چلانی ہے تو وہ تو سب سے بہتر ہم ہی چلا سکتے ہیں۔
مرد مومن، مرد حق تشریف لے آئے۔ حق مغفرت کرے، بہت نیک ہی نہیں بلکہ شدید قسم کے ڈیڑھ شانڑی شخصیت کے مالک تھے۔ آپ واردات دیکھیے، داد تو آپ کے اچھے بھی دیں گے۔ ایک تو وہ رعایتی قیمت پر دستیاب ایسے شیخ الاسلام ڈھونڈ لائے جن کے پرکھوں نے پہلی دستور ساز اسمبلی کو رونق بخش رکھی تھی۔ اور ساتھ ہی مجید نظامی مرحوم کو آنکھ کا اشارہ فرما دیا کہ تحریک پاکستان کے کارکنوں والا منتر شروع کیجیے۔ تاکہ قوم کو باور کرایا جاسکے کہ یہ جو 1970 کے بعد والے سیاستدان ہیں، یہ تو واہیات لوگ ہیں۔ اصل لوگ تو وہ تھے جن کی باقیات کو اب نظامی صاحب نے چن چن کر پی ٹی وی پر نمائش کے لیے پیش کرنا تھا۔ دروغ برگردن راوی مگر شنید یہی ہے آخری سالوں میں نظامی صاحب تحریک پاکستان کے کچھ کارکن مقبروں سے بھی اٹھا لائے تھے۔ اس ڈرامے بازی کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1970 کے عام انتخابات نے جو امید جگائی تھی، وہ دم توڑ گئی۔ بعد کی تاریخ تو سب ہی جانتے ہیں۔ اس پر ہم کیا وقت برباد کریں؟
ہم ذاتی مثال سے ایک پیمانہ دیدیتے ہیں جس سے اندازہ ہوجائے گا کہ اس ملک کی 3 نسلوں کے ساتھ پچھلے 75 سالوں میں کیا واردات ہوئی ہے۔ جب ملک بنا تو ہمارے والد کی عمر 12 سال تھی۔ اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ ان کے بزرگوں نے قیام پاکستان کے کیا کیا شاندار ممکنہ نتائج انہیں نہ بتائے ہوں گے۔ مگر اسی بنتے بگڑتے پاکستان میں ان نتائج کا نتظار کرتے کرتے وہ 2003ء میں فوت ہوگئے۔ ہم ان کی پہلی اولاد ہیں۔ عمر کا پہلا حصہ ہم نے بھی ان کے ساتھ معجزے کے نتائج کے انتظار میں صرف کیا۔ اور باقی نصف ہم نے یہ انتظار اپنے بچوں کی معیت میں کیا۔ لیکن جب ووٹ کو عزت دلوانے کا دعوی رکھنے والوں کی مہارانی مریم نواز ایک روز خاکی لباس میں لسی والے گلاس کے ساتھ نمودار ہوئیں تو ہم سمجھ گئے کہ قافلہ ایک بار پھر لٹ گیا۔ تب سے ہم نے بھی قیام پاکستان والے معجزے کے نتائج کا انتظار ترک کردیا ہے۔ اور اپنی 33، 30 اور 25 برس کی عمر والی جوان اولاد کو بھی سمجھا دیا ہے کہ پہلی 2 نسلوں والی غلطی تم مت کرنا۔
مزید پڑھیں: ’اسلام کا دفاع‘
آخری بات یہ کہ تاریخ 2 طرح کی ہوتی ہے۔ ایک اختیاری اور دوسری جبری۔ اختیاری تاریخ وہ ہوتی ہے جو ہمارے اپنے ارادے اور اعمال کے نتیجے میں ترتیب پاتی ہے۔ مثلا ہمارا تعلیم یا ملازمت کے لیے ادارہ منتخب کرنا اور وہاں یہ مقاصد حاصل کرنا۔ جبکہ جبری تاریخ وہ ہوتی ہے جس میں ہم بالکل بے اختیار ہوتے ہیں۔ مثلاً ہمارا کسی گھرانے اور ملک میں پیدا ہونا۔ ایسی تاریخ کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ سو پاکستان ہمارے حصے کی جبری تاریخ ہے۔ اس کے آگے ہم بے بس ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 14 اگست بیوروکریسی جنرل ضیا الحق ذوالفقار علی بھٹو دستور ساز اسمبلی مغربی پاکستان مشرقی پاکستان قیام پاکستان کا کہنا تھا پاکستان کا مقدس مخلوق پاکستان کے کی بنیاد کے ساتھ ہوتی ہے کہ اگر کو بھی تھا کہ کے لیے ملک کے
پڑھیں:
جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن نے ستمبر میں لاپتہ افراد کے 113 کیسز نمٹا دیئے
چیئرمین کی متحرک قیادت میں کمیشن نے گزشتہ 3 ماہ کے دوران 289 کیسز نمٹائے۔ کمیشن نے ہر ماہ 96 کیسز نمٹائے، لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کیے، کمیشن نے گمشدہ افراد کے اہلِ خانہ کی سہولت کیلئے خصوصی سیل بھی تشکیل دیا۔ اسلام ٹائمز۔ جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن نے ستمبر 2025ء میں لاپتہ افراد کے 113 کیسز نمٹا دیئے۔ جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن نے ستمبر 2025ء کے لیے اپنی رپورٹ جاری کر دی، مارچ 2011ء سے ستمبر 2025ء تک 10 ہزار 636 کیسز میں سے 8 ہزار 986 کیسز نمٹائے گئے۔ رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں کمیشن کا علاقائی دفتر صوبہ بلوچستان سے متعلق کیسز کو نمٹاتا ہے، بلوچستان میں ستمبر 2025ء کے دوران 14 لاپتہ افراد گھر واپس پہنچے۔
چیئرمین جسٹس (ر) سید ارشد حسین شاہ کی متحرک قیادت میں کمیشن نے گزشتہ 3 ماہ کے دوران 289 کیسز نمٹائے۔ کمیشن نے ہر ماہ 96 کیسز نمٹائے، لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کیے، کمیشن نے گمشدہ افراد کے اہلِ خانہ کی سہولت کیلئے خصوصی سیل بھی تشکیل دیا۔ سیل گمشدہ افراد کے بچوں کے ب فارم، پنشن فراہمی اور دیگر معاملات میں ریلیف فراہم کرتا ہے۔
تعلیم، صحت اور دیگر امور میں مدد کے لیے وفاقی، صوبائی حکومتوں کے اعلیٰ حکام کو ضروری ہدایات بھی جاری کر دی گئیں۔ کمیشن میں زیرِ تفتیش اور "جبری گمشدگی" قرار نہ دیئے گئے کیسز میں مسلسل معاونت کی فراہمی کیلئے تمام متعلقہ محکموں کے ساتھ مل کر منصوبہ بھی تیار کیا جا رہا ہے۔