آج 14 اگست ہے۔ پاکستان کا یوم آزادی۔ یعنی وہ دن جب لبرلز 2 سانسوں میں 2 باتیں کہتے ہیں۔ پہلی سانس میں یہ کہ مولوی قیام پاکستان کے مخالف تھے۔ اور دوسری سانس! دوسری سانس کا ابتدائی حصہ وہ ایک ٹھنڈی آہ پر صرف کرکے باقی نصف سانس میں فرماتے ہیں
’انگریز کا دور کتنا اچھا تھا، اس نے یہ بنایا وہ بنایا‘۔
مطلب؟ فقط اتنا کہ مولوی قیام سے قبل اور لبرل قیام کے بعد پاکستان کا مخالف نظر آتا ہے۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ 75 سال بعد بھی اس ملک کے باسیوں کو یہ صورتحال کیوں درپیش ہے؟ عدم اطمینان اور بے یقینی کی یہ فضا کیوں موجود ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں ہمیشہ بددیانتی کا مظاہری کیا گیا۔ اگر بددیانتی کا مظاہرہ کرنے والوں کے مؤقف کو ایک جملے میں سمیٹا جائے تو خلاصہ یہ بنتا ہے
’بار بار کی فوجی مداخلت نے پاکستان کو مستحکم نہ ہونے دیا‘۔
دعویٰ تو دلیل بھی چاہتا ہے سو دلائل کا آغاز کچھ یوں ہوتا ہے
’پاکستان ابھی 11 برس کا ہی تھا کہ سکندر مرزا اور ایوب خان نے جمہوریت ڈی ریل کردی اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔‘
یوں یہ بد دیانت موقف پاکستانی جمہوریت کی تاریخ 1947 کی بجائے 1958 سے شروع کرتا ہے۔حالانکہ فساد کی جڑ 1958 سے پیچھے کے ان 11 سالوں میں موجود ہے، جب راج پاکستان کے پہلے مقدس گروہ تھا۔ وہ گروہ جسے ’تحریک پاکستان کے کارکن‘ کے نام سے پکارا جاتا۔ ان لوگوں کو کیسی تقدیس حاصل تھی، اس کا اندازہ لگانا ہو تو اخبارات اور پی ٹی وی کی 90 کی دہائی تک کی نشریات کھنگال لی جائیں۔ جب ہر 14 اگست پر ڈھونڈ ڈھانڈ کر کوئی ضعیف العمر لایا جاتا اور بتایا جاتا
’انہوں نے قائد اعظم کے فلاں جلسے میں نعرے لگائے تھے۔ اور تب ان کی عمر صرف 10 سال تھی‘
اندازہ لگا لیجیے کہ اگر 90 کی دہائی تک صورتحال یہ تھی کہ قائد اعظم کے جلسے میں نعرہ لگانے والے کو بھی ایک مقدس مخلوق کے طور پر نیشنل ٹی وی پر پیش کیا جا رہا تھا تو ان لوگوں کا تقدس کس لیول کا رہا ہوگا جو قیام پاکستان کے بعد اس کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں جلوہ افروز تھے؟ وہ مجید نظامی اب ہم میں نہیں رہے جو ہر 14 اگست پر یہ ڈرامے بازیاں کروا کر قیام پاکستان کو سیاسی ایونٹ کی بجائے معجزہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے۔ سو ہم اب یکسو ہوکر ان وجہ پر غور کرسکتے ہیں جس نے ملک کو اب بھی اپنی منزل سے کوسوں دور رکھا ہوا ہے۔
ملک کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں بیٹھے مقدس گروہ کے سامنے چند سیاسی سوالات کھڑے ہوگئے تھے، جو درج ذیل تھے۔
*کیا پاکستان ایک مضبوط مرکز کے تحت چلے گا ، یا صوبائی خودمختاری کو فوقیت دی جائے؟
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا عالمی قد کاٹھ
مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے نمائندوں کا مؤقف تھا کہ ملک ابھی نیا نیا بنا ہے، اسے مضبوط مرکز کے ذریعے متحد اور مستحکم کرنا بہتر راہ ہوگی۔ مشرقی پاکستان والوں کا کہنا تھا کہ ملک کے 2 حصے جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے دور واقع ہیں لہذا صوبائی خود مختاری ٹھیک رہے گی تاکہ دونوں حصے اپنے اپنے مسائل اپنے اپنے حساب سے حل کرسکیں۔
٭ نمائندگی آبادی کی بنیاد پر ہو یا ملک کے دونوں حصوں کو مساوی نمائندگی دی جائے؟
مغربی پاکستان والی مقدس مخلوق کا مؤقف تھا کہ مساوی نمائندگی ہونی چاہیے۔ جبکہ مشرقی پاکستان والوں کا کہنا تھا کہ آفاقی اصول کے مطابق نمائندگی آبادی کی بنیاد پر ہو۔ مسئلہ یہ تھا کہ آبادی میں مشرقی پاکستان کا حصہ 55 فیصد تھا۔ سو مغربی پاکستان والی مقدس مخلوق کا کہنا تھا کہ اگر آبادی کی بنیاد پر نمائندگی دی گئی تو راج ہمیشہ مشرقی پاکستان کا رہے گا۔
٭آئین اسلامی ہو یا سیکولر؟
علماء اور مذہبی فکر کہنا تھا ملک کا آئین اسلامی ہو۔ جبکہ دیگر کا تقاضا تھا کہ آئین کو سیکولر رکھا جائے۔
٭ پارلیمانی نظام ہو یا صدارتی ؟
مشرقی پاکستان کے نمائندوں کا کہنا تھا، برٹش دور میں پارلیمانی نظام کا جو تجربہ میسر ہے اسی کو کام میں لایا جائے، صدارتی نظام والا نیا تجربہ نہ کیا جائے۔ جبکہ سول ملٹری بیوروکریسی اور مغربی پاکستان کے کچھ سیاسی نماندے صدارتی نظام کے حق میں تھے۔
٭ پاکستان کی قومی زبان کیا ہو ؟
مغربی پاکستان کے نمائندے اردو کے حق میں تھے۔ جبکہ مشرقی پاکستان کے نمائندے بنگالی زبان کو بھی مساوی درجہ دینے کا تقاضا کر رہے تھے۔
یہ سولات اس مقدس مخلوق کو درپیش تھے جس کا گمان تھا کہ قیام پاکستان ان کے ہاتھ سے صادر ہونے والا معجزہ ہے۔ اور چونکہ پاکستان 27 رمضان کو بنا ہے لہذا یہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ یعنی قرآن مجید کی طرح ہی اس کا تحفظ گویا اللہ سبحانہ و تعالی کی ذمہ داری ہے۔ مگر معجزے والی والی مقدس مخلوق مذکورہ سوالات پر 7 سال، جی ہاں ! 7 سال لڑتی رہی۔ آئین سازی تو دور یہ ان سوالات کا ہی کوئی حل نہ ڈھونڈ سکے اور اور یوں 1954 میں گورنر جنرل غلام محمد نے انہیں اسمبلی سے باہر پھینکا۔ کیا پاکستان سے کئی گنا بڑے انڈیا کو ان سے ملتے جلتے سوالات درپیش نہ رہے تھے؟ ان کا تو رقبہ ہی نہیں بلکہ لسانی و مذہبی تقسیم بھی زیادہ وسیع تھی۔ لیکن ان کا آئین 1950 میں منظور ہوگیا تھا۔ جس کا مطلب ہے کہ ان کے ہاں سیاسی سنجیدگی بھی موجود تھی اور سیاسی چیلنجز سے نمٹنے کی اہلیت بھی رکھتے تھے۔
جب بیوروکریسی اور فوج پر ایک بار یہ بات واضح ہوگئی کہ ملک کے سب سے مقدس سیاستدان ہی اس قدر نااہل ہیں تو پھر انہیں مداخلت سے کون روک سکتا تھا؟ نتیجہ یہ نکلا کہ اگرچہ دوسری دستور ساز اسمبلی نے 2 سال میں آئین منظور کرلیا مگر بات اب ہاتھ سے نکل چکی تھی۔ یوں پہلا وار سول بیوروکریسی نے کیا، جس پر فوج نے سوچا کہ اگر ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کا اصول ہی رکھنا تو پھر لاٹھی تو ہماری زیادہ مضبوط ہے۔ سو وہ آگئے اپنی لاٹھی سمیت۔ ہر آنے والے کو جانا بھی پڑتا ہے۔ یوں فوج کو بھی جانا پڑا مگر تب جب قیام پاکستان کا معجزہ ٹوٹ کر آدھا رہ گیا۔
مزید پڑھیے: کون بچائے گا اسرائیل کو؟
بھٹو صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ یہ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے عوامی سیاست کی بنیاد ڈالی اور سیاست کو ڈرائینگ رومز سے نکال کر عام آدمی کی گلی کوچے تک پہنچایا۔ مگر ہم اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ہم اسے بھٹو کا بڑا کارنامہ تو مانتے ہیں۔ مگر سب سے بڑا نہیں۔ بھٹو کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے قیام پاکستان کا معجزہ سرزد کرنے والے مقدس گروہ سے ملک کو نجات دلائی۔ اور سیاستدانوں کی ایک نئی نسل سامنے لائے۔ مگر ایک بڑی گڑ بڑ یہ ہوگئی کہ بھٹو صاحب خود کو نجات دہندہ سمجھ بیٹھے۔ مقدس مخلوق سے نجات دلانے والا، فوج سے نجات دلانے والا اور ایک حد تک مشرقی پاکستان سے بھی نجات دلانے والا۔ یوں جمہوری آمریت قائم ہوگئی۔ اب آمریت تو فوجی ہی بھرپور ہوتی ہے۔ سو فوج نے ایک بار پھر سوچا کہ اگر آمریت ہی چلانی ہے تو وہ تو سب سے بہتر ہم ہی چلا سکتے ہیں۔
مرد مومن، مرد حق تشریف لے آئے۔ حق مغفرت کرے، بہت نیک ہی نہیں بلکہ شدید قسم کے ڈیڑھ شانڑی شخصیت کے مالک تھے۔ آپ واردات دیکھیے، داد تو آپ کے اچھے بھی دیں گے۔ ایک تو وہ رعایتی قیمت پر دستیاب ایسے شیخ الاسلام ڈھونڈ لائے جن کے پرکھوں نے پہلی دستور ساز اسمبلی کو رونق بخش رکھی تھی۔ اور ساتھ ہی مجید نظامی مرحوم کو آنکھ کا اشارہ فرما دیا کہ تحریک پاکستان کے کارکنوں والا منتر شروع کیجیے۔ تاکہ قوم کو باور کرایا جاسکے کہ یہ جو 1970 کے بعد والے سیاستدان ہیں، یہ تو واہیات لوگ ہیں۔ اصل لوگ تو وہ تھے جن کی باقیات کو اب نظامی صاحب نے چن چن کر پی ٹی وی پر نمائش کے لیے پیش کرنا تھا۔ دروغ برگردن راوی مگر شنید یہی ہے آخری سالوں میں نظامی صاحب تحریک پاکستان کے کچھ کارکن مقبروں سے بھی اٹھا لائے تھے۔ اس ڈرامے بازی کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1970 کے عام انتخابات نے جو امید جگائی تھی، وہ دم توڑ گئی۔ بعد کی تاریخ تو سب ہی جانتے ہیں۔ اس پر ہم کیا وقت برباد کریں؟
ہم ذاتی مثال سے ایک پیمانہ دیدیتے ہیں جس سے اندازہ ہوجائے گا کہ اس ملک کی 3 نسلوں کے ساتھ پچھلے 75 سالوں میں کیا واردات ہوئی ہے۔ جب ملک بنا تو ہمارے والد کی عمر 12 سال تھی۔ اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ ان کے بزرگوں نے قیام پاکستان کے کیا کیا شاندار ممکنہ نتائج انہیں نہ بتائے ہوں گے۔ مگر اسی بنتے بگڑتے پاکستان میں ان نتائج کا نتظار کرتے کرتے وہ 2003ء میں فوت ہوگئے۔ ہم ان کی پہلی اولاد ہیں۔ عمر کا پہلا حصہ ہم نے بھی ان کے ساتھ معجزے کے نتائج کے انتظار میں صرف کیا۔ اور باقی نصف ہم نے یہ انتظار اپنے بچوں کی معیت میں کیا۔ لیکن جب ووٹ کو عزت دلوانے کا دعوی رکھنے والوں کی مہارانی مریم نواز ایک روز خاکی لباس میں لسی والے گلاس کے ساتھ نمودار ہوئیں تو ہم سمجھ گئے کہ قافلہ ایک بار پھر لٹ گیا۔ تب سے ہم نے بھی قیام پاکستان والے معجزے کے نتائج کا انتظار ترک کردیا ہے۔ اور اپنی 33، 30 اور 25 برس کی عمر والی جوان اولاد کو بھی سمجھا دیا ہے کہ پہلی 2 نسلوں والی غلطی تم مت کرنا۔
مزید پڑھیں: ’اسلام کا دفاع‘
آخری بات یہ کہ تاریخ 2 طرح کی ہوتی ہے۔ ایک اختیاری اور دوسری جبری۔ اختیاری تاریخ وہ ہوتی ہے جو ہمارے اپنے ارادے اور اعمال کے نتیجے میں ترتیب پاتی ہے۔ مثلا ہمارا تعلیم یا ملازمت کے لیے ادارہ منتخب کرنا اور وہاں یہ مقاصد حاصل کرنا۔ جبکہ جبری تاریخ وہ ہوتی ہے جس میں ہم بالکل بے اختیار ہوتے ہیں۔ مثلاً ہمارا کسی گھرانے اور ملک میں پیدا ہونا۔ ایسی تاریخ کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ سو پاکستان ہمارے حصے کی جبری تاریخ ہے۔ اس کے آگے ہم بے بس ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 14 اگست بیوروکریسی جنرل ضیا الحق ذوالفقار علی بھٹو دستور ساز اسمبلی مغربی پاکستان مشرقی پاکستان قیام پاکستان کا کہنا تھا پاکستان کا مقدس مخلوق پاکستان کے کی بنیاد کے ساتھ ہوتی ہے کہ اگر کو بھی تھا کہ کے لیے ملک کے
پڑھیں:
پاکستان کا بھگت سنگھ حسن ناصر
میری نسل نے بھگت سنگھ کے قصے پڑھ کر جانا کہ سچائی اور جرات کیا ہوتی ہے۔ وہ حیدرآباد کے ایک کھاتے پیتے گھرانے کا چشم و چراغ تھے۔ ان کے والد اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز تھے اور حسن ناصر ناز و نعم میں پلے بڑھے تھے۔ انھوں نے کنونٹ سے تعلیم حاصل کی اور وہ زمانہ طالب علمی سے ہی مزدور تحریک سے نہ صرف وابستہ ہوگئے بلکہ انھوں نے اسے ہی اپنی حیات کا مقصد بنا لیا۔
وہ کراچی آگئے اور انھوں نے تعلیم کو خیر باد کہہ دیا۔ کراچی آکر اچھی ملازمت حاصل کرنا، ان کے لیے کوئی مشکل امر نہیں تھا مگر وہ اپنا تمام وقت مزدور تحریک پر صرف کرنے لگے اور اسی کو زندگی کا مقصد بنا لیا۔ وہ اس سرزمین کا ’’بھگت سنگھ‘‘ بن گیا۔ اس کی للکار اس کی نظریاتی استقامت سب کچھ اس دھرتی کے نام ہوئی، جس کے مزدوروں اور کسانوں کو وہ جبرکی زنجیروں سے آزاد دیکھنا چاہتا تھا۔
وہ قید خانوں سے بھی خوفزدہ نہ ہوا، اس کی آنکھوں میں انقلاب کی چمک تھی۔ اس کے خواب بڑے تھے، طبقاتی برابری کے انسان کی حرمت کے استحصال کے خاتمے کے۔ وہ کسی حال اور قیمت پر اپنے خوابوں سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھا۔ ایک ایسا سماج جہاں مزدورکو اس کا حق ملے جہاں کسان مجبور اور لاچار نہ ہو۔ وہ ایک ایسے سماج کا خواب دیکھتا تھا۔ جو جرات اور جی داری حسن ناصر کے مزاج میں تھی، وہ دوسروں کو حوصلہ دیتی تھی۔ خواب دیکھنے کا اپنے حق کے لیے لڑ جانے کا اور مٹ جانے کا اور آخری سانس تک اپنے اصولوں کے لیے ڈٹے رہنے کا۔
حسن ناصر اس وقت بھی اور آج بھی انقلاب اور جدوجہد کا وہ نام ہے جس پر جتنا ناز کیا جائے وہ کم ہے۔ آج پاکستان کے جو حالات ہیں اس میں حسن ناصر جیسے نڈر اور جیالے انسان کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے۔ حکومت مزدور کارکنوں کو غدار، وطن دشمن، ملحد اور بیرونی ایجنٹ تصور کرتی تھی مگر اس کا حقیقت سے رتی برابر بھی تعلق نہیں تھا۔ آٹھ اکتوبر 1958 کو ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا۔
ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے جب کہ صدارت اسکندر مرزا کے پاس ہی رہی۔ ملک کا آئین منسوخ کردیا گیا۔ سیاسی جماعتوں اور ٹریڈ یونینوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ بائیں بازوکے سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی۔ بہت سے کارکن گرفتار ہوئے اورکچھ روپوش ہوگئے۔ حسن ناصر بھی روپوش ہوگئے مگر ساتھیوں سے ملاقات کا سلسلہ جاری رہا۔ جب ایوب خان کی مارشل لاء حکومت اپنے مخالفوں کو مٹانے پر تلی ہوئی تھی، تب حسن ناصر اس دلیر قافلے کی پہلی صف میں کھڑا تھا۔
1959 میں ملک گیر انتخابات کرائے جانے کا فیصلہ ہوا۔ اس وقت بائیں بازو کی قوت میں اضافہ ہونے کے امکانات بہت واضح تھے۔ روپوشی کے دوران بھی وہ ایک جگہ نہیں ٹھہرتے تھے، کبھی کسی ساتھی سے ملنے پہنچ جاتے تو کبھی کسی کو ملاقات کے لیے پیغام بھجواتے۔
اگست کے مہینے میں ان کو گرفتار کر لیا گیا اور قید کرکے لاہور کے شاہی قلعہ میں رکھا گیا۔ حسن ناصر پر جو تشدد کیا گیا، اس کو لکھتے ہوئے لکھنے والے کے ہاتھ کانپ جائیں مگر حسن ناصر نے بہادری کی وہ مثال قائم کی کہ جو صرف وہی کرسکتا ہے جس کے دل میں مزدور اور کسان کی محبت ہو جو ایک ایسے سماج کا خواب دیکھتا ہو جہاں کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو، جہاں بھوک نہ ہو۔ حسن ناصر نے اپنے نظریہ اور سوچ کے لیے جان کی پروا بھی نہیں کی۔ جس عمر میں نوجوان زندگی کی محبت لیے جیتے ہیں، اس نے اس عمر میں موت کو ہنستے ہنستے گلے لگا لیا۔
13 نومبر 1960 کو یہ خبر آئی کہ حسن ناصر نے خود کشی کر لی۔ حسن ناصر کی موت کی خبر نے اس کے ساتھیوں کو توڑ دیا، وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اس طرح کال کوٹھری میں وہ بہادر حسن ناصرکو یوں موت کی نیند سلا دیں گے۔ نہتے حسن ناصر سے وہ اتنا ڈرے کہ اس کی جان لینے کے بعد اس کی موت کو خودکشی کا رنگ دے دیا۔
اس کی ماں نے کبھی سوچا نہ ہوگا کہ اس کا بیٹا لاہور کے قلعے کی تاریکی میں دفن کر دیا جائے گا۔ حسن ناصرکی والدہ ہندوستان سے تشریف لائیں اور انھوں نے عدالت سے درخواست کی کہ ان کو اپنے بیٹے کی لاش ہندوستان لے جاکر دفنانے کی اجازت دی جائے۔ عدالت نے ان کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے لاش کو قبر سے نکالنے کے احکامات جاری کیے۔ لاش کی برآمدگی کے بعد یہ سوال ضرور اٹھتا کہ حسن ناصر پر تشدد کیا گیا اور اس طرح پولیس کی قلعی کھل جاتی۔ جب ایک مسخ شدہ لاش حسن ناصر کی والدہ کو یہ کہہ کر دکھائی گئی کہ یہ حسن ناصر کی لاش ہے تو انھوں نے اسے حسن ناصر کی لاش ماننے سے انکارکردیا۔ یوں وہ لاش دوبارہ دفنا دی گئی اور اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ کس طرح پولیس نے اپنے جرم کی پردہ پوشی کی۔
یہ سوچ کر بھی روح کانپ جاتی ہے کہ حسن ناصرکی والدہ پر کیا گزری ہوگی، پہلے تو کڑیل جوان بیٹے کی موت کا صدمہ اور اس کے بعد وہ نہ بیٹے کو آخری بار دیکھ سکیں، نہ اس کو دفنانے ہندوستان لے جاسکیں۔ اس ماں کے دکھ کا تصورکر کے آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔
حسن ناصر کے گرفتار ساتھیوں نے جیل میں بیانات دیے۔ وہ کہتے تھے کہ ہم پر جو ظلم ہوا وہ حسن ناصر پر بھی ہوا ہوگا بلکہ اس سے بھی زیادہ تشدد کیا گیا ہوگا، جو ہم پہ ہوا۔ وہ تو انتہائی نفیس طبیعت کا ملک انسان تھا وہ دبلا پتلا سا تھا مگر اس کا حوصلہ بہت بلند تھا، وہ فولادی ارادوں کا مالک تھا۔حسن ناصر کے جسم کو قید کیا گیا، مٹی کے نیچے چھپا دیا گیا مگر اس کی سوچ کو دنیا کی کوئی جیل، کوئی لاٹھی، کوئی شکنجہ قید نہ کر سکا۔ وہ نظریہ جو اس نے پیش کیا، اب بے شمار دلوں میں دھڑکتا ہے، مزدوروں، کسانوں اور طلبہ کے دلوں میں۔بھگت سنگھ نے لالہ لاجپت رائے کے قتل پر سچ کی چنگاری جلائی تھی۔ حسن ناصر نے اس دھرتی پر بھوک، غربت اور آمریت کے خلاف وہی چنگاری روشن کی۔ دونوں کی قربانیوں میں ایک ہی رنگ دکھائی دیتا ہے، انسانیت کی آزادی کا رنگ۔
آج جب پاکستان کے نوجوان اس کی تصویرکو دیکھتے ہیں تو شاید سمجھ نہ پائیں کہ وہ دبلا پتلا لڑکا کس طرح ایک ریاست کے سامنے دیوار بن کرکھڑا تھا، مگر جو قومیں اپنے سچ بولنے والوں کو بھول جائیں وہ اندھیروں میں بھٹکتی رہتی ہیں۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ اگر حسن ناصر آج کے پاکستان میں ہوتا تو کیا ہوتا؟ اسے شاید پھرگرفتار کر لیا جاتا، پھر ’’غدار‘‘ کہا جاتا، پھر اس کا نظریہ بدنام کیا جاتا، مگر شاید ایک فرق ہوتا ،آج اس کی آواز دبانا اتنا آسان نہ ہوتا۔ آج اس کی چیخیں لاہور قلعے کی دیواروں میں گم نہ ہوتیں، وہ پورے ملک میں ہر اس گھر میں، ہر اس بستی میں سنائی دیتیں، جہاں آج بھی کوئی مزدور اپنے بچے کو بھوکا سوتے دیکھ کر آنسو بہاتا ہے۔
پاکستان کے اس ’’بھگت سنگھ‘‘ کی زندگی مختصر تھی مگر وہ تاریخ میں اپنا نام کندہ کرگیا۔ اس کا خون قلعے کی اینٹوں میں جذب ہوا مگر اس کی فکر ہواؤں میں آج بھی زندہ ہے۔ اس کی قبر بے نشان سہی، مگر اس کی قربانی نشانِ راہ ہے۔ تاریخ کا سب سے بڑا انصاف یہ ہے کہ سچ لکھا جائے۔ حسن ناصرکا سچ یہ ہے کہ وہ ایک عام نوجوان نہیں تھا۔ وہ خواب دیکھتا تھا، ایک پرامن دنیا کا، ایک ایسی دنیا کا جہاں انصاف سب کے لیے ہو۔