واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو خبردار کیا ہے کہ اگر ماسکو یوکرین میں امن کے قیام میں رکاوٹ ڈالتا ہے تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یہ تنبیہ بدھ کے روز اس وقت سامنے آئی جب ٹرمپ نے عندیہ دیا کہ اگر الاسکا میں ہونے والی ملاقات نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی تو روس پر ممکنہ طور پر اقتصادی پابندیوں سمیت دیگر اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

امریکی صدر نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ پیوٹن سے پہلی ملاقات ٹھیک رہی تو ہم فوراً ایک دوسری مختصر ملاقات کریں گے، جس میں مجھ سمیت صدر پیوٹن، صدر زیلینسکی اورشامل ہوں گے۔

ٹرمپ نے ممکنہ نتائج کی نوعیت واضح نہیں کی، تاہم انہوں نے کہا کہ یہ بات چیت ایک دوسرے دور کی بنیاد رکھ سکتی ہے، جس میں زیلینسکی بھی شریک ہوں گے۔

علاوہ ازیں ٹرمپ نے یوکرین میں جاری تنازع کا ذمہ دار سابق صدر بائیڈن کی پالیسیوں کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بائیڈن کا کام ہے، میرا نہیں۔ یہ جنگ کبھی نہ ہوتی اگر میں صدر ہوتا۔ لیکن جو ہے سو ہے، میں اسے ٹھیک کرنے آیا ہوں۔

صحافیوں سے گفتگو میں امریکی صدر نے ایک بار پھر عالمی تنازعات میں اپنے کردار پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہم بے شمار زندگیاں بچا سکیں تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ میں نے گزشتہ چھ ماہ میں 5 جنگیں رکوائیں۔ اس کے علاوہ ہم نے ایران کی ایٹمی صلاحیت کو مکمل طور پر ختم کیا۔

Post Views: 6.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کہا کہ

پڑھیں:

ٹرمپ نے پیوٹن سے ملاقات کے لیے الاسکا ہی کاانتخاب کیوں کیا؟ الیگزینڈر بوبروف کا تجزیہ

الاسکا کو 15 اگست 2025 کے ڈونلڈ ٹرمپ–ولادیمیر پوتن دوطرفہ اجلاس کے مقام کے طور پر منتخب کرنے کا فیصلہ محض ایک جغرافیائی سہولت نہیں بلکہ ایک نادر قسم کی علامتی اہمیت رکھتا ہے۔

یہ ماضی کی گہرائیوں میں جاتا ہے، موجودہ جغرافیائی و سیاسی توازن کی عکاسی کرتا ہے، اور مستقبل کے امریکا روس تعلقات کے ممکنہ خدوخال کی جھلک دیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: صدر زیلینسکی نے الاسکا میں امریکی اجلاس کو پیوٹن کی ’ذاتی فتح‘ قرار دیدیا

تاریخی یادداشت کے لحاظ سے امریکا میں کوئی اور جگہ ایسی نہیں جو ’ہمسائیگی‘ اور باہمی فائدے پر مبنی تعاون کی اُس روح کو اس قدر نمایاں کرے جو سرد جنگ کے دوران ختم ہو گئی۔

1737 سے 1867 تک یہ وسیع اور کم آبادی والا خطہ ’روسی امریکا‘ کہلاتا تھا، روسی سلطنت کا نیم دُورافتادہ حصہ، جو اپنے یوریشیائی مرکز سے الگ لیکن ایک اور ریاست کی سرحد سے ملا ہوا تھا۔

زاریہ الیگزینڈر دوم کا الاسکا کو 72 لاکھ ڈالر میں امریکا کو فروخت کرنے کا فیصلہ 19ویں صدی کی سب سے زیادہ بحث انگیز سفارتی ڈیلز میں سے ایک تھا۔

اُس وقت سینٹ پیٹرزبرگ میں یہ بات واضح تھی کہ اگر الاسکا کو چھوڑ دیا گیا تو وہ برطانوی سلطنت کے ہاتھ لگ سکتا ہے، جو اُس وقت روس کی سب سے بڑی حریف تھی۔ چنانچہ اسے واشنگٹن کے حوالے کرنا کمزوری نہیں بلکہ مستقبل کے تعلقات میں ایک سرمایہ کاری سمجھی گئی۔

روس و امریکا کا مابین الاسکا کی خرید و فروخت سے متعلق حتمی مذاکرات مصور کی نظر کا منظر مصور کی آنکھ سے

20ویں صدی میں یہ علامتی رشتہ ایک نئی معنویت اختیار کر گیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران، فیئربینکس شہر، جس کی آبادی صرف تیس ہزار تھی، ’لینڈ-لیز‘ پروگرام کا ایک اہم مرکز بنا، جہاں سے امریکا نے سوویت یونین کو جہاز، سازوسامان اور مواد فراہم کیا۔ الاسکا کے ہوائی اڈے امریکی طیاروں کو مشرقی محاذ تک پہنچانے کے اہم راستے تھے۔

آج بھی الاسکا کو امریکا کی ’سب سے روسی‘ ریاست سمجھا جاتا ہے، جہاں 19ویں صدی میں مذہبی آزادی کی تلاش میں آنے والے ’اولڈ بیلیورز‘ آباد ہیں، اور جہاں آرتھوڈوکس چرچ، نیکولائیفسک اور ووزنی سینسک جیسے مقامات کے نام، اور روسی جھیلوں کے کنارے اب بھی موجود ہیں۔

لیکن الاسکا کا انتخاب صرف تاریخ کو سلامی نہیں، بلکہ ایک سیاسی حکمت عملی بھی ہے۔ ٹرمپ واضح طور پر یہ نہیں چاہتے کہ کسی تیسرے فریق جیسے ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان یا متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زاید النہیان، جو اہم بین الاقوامی ثالثی کردار ادا کرتے ہیں، اجلاس کے ایجنڈے اور لہجے کو بدلیں۔

ٹرمپ نے امریکا کی سب سے جغرافیائی طور پر دُور دراز ریاست کا انتخاب کر کے اپنے ڈیموکریٹک حریفوں اور نیٹو اتحادیوں سے فاصلے کا اشارہ دیا ہے۔ ان اتحادیوں کی بڑی تعداد، کیف کے مفاد میں، کسی بھی ممکنہ پیش رفت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرے گی۔

عملی اعتبار سے بھی یہ فیصلہ موزوں ہے

الاسکا کی کم آبادی سیکیورٹی ایجنسیز کے لیے دہشتگردی یا کسی منصوبہ بند اشتعال انگیزی کے خطرات کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے، اور بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے گرفتاری وارنٹ کے قانونی مسائل سے بچاتی ہے۔ امریکہ 2002 میں روم اسٹیچیوٹ سے دستبردار ہو چکا ہے اور اپنی زمین پر ICC کے دائرۂ اختیار کو تسلیم نہیں کرتا۔

اس انتخاب کا ایک اور پہلو بھی ہے

الاسکا امریکہ کا واحد حقیقی آرکٹک خطہ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ٹرمپ انتظامیہ کینیڈا اور گرین لینڈ پر زیادہ امریکی اثر قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، ’ہائی نارتھ‘ ایک اہم اسٹریٹجک میدان بن رہا ہے۔ روس اور امریکا کے یہاں مشترکہ مفادات ہیں، برنگ اسٹریٹ کے راستے ’شمالی سمندری راہداری‘ کی ترقی سے لے کر سمندری تیل و گیس کے ذخائر تک۔ لومانوسوف رِج، جسے روس اپنے براعظمی شیلف کا فطری حصہ قرار دیتا ہے، اس کی ایک مثال ہے۔

مشترکہ آرکٹک منصوبے اس خطے کو دنیا کے خوشحال ترین علاقوں میں بدل سکتے ہیں، یا پھر یہ ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات اور فضائی دفاعی مشقوں کا میدان بھی بن سکتا ہے۔

یوکرین کا مسئلہ اس اجلاس کے ایجنڈے پر غالب رہے گا۔ مغربی میڈیا نے پہلے ہی علاقائی تبادلوں کے امکان کی خبر دی ہے، مثلاً روس کی جانب سے سومی، خارکیف، دنیپروپیٹرووسک اور نکولائیف کے کچھ حصوں میں رعایت کے بدلے یوکرینی افواج کا دونیتسک عوامی جمہوریہ سے انخلا۔ مغربی تجزیہ کار بھی مانتے ہیں کہ یہ ماسکو کی بڑی سفارتی کامیابی ہوگی، کیونکہ روس جس غیر مقبوضہ علاقے پر قبضہ کرے گا وہ ان علاقوں سے چار گنا بڑا ہوگا جن سے وہ دستبردار ہوگا۔

الاسکا اس قسم کی بات چیت کے لیے موزوں علامتی پس منظر فراہم کرتا ہے

اس کی اپنی تاریخ یاد دلاتی ہے کہ سرحدی ملکیت کوئی ابدی حقیقت نہیں بلکہ ایک سیاسی و سفارتی متغیر ہے جو مخصوص تاریخی مواقع پر بڑی طاقتوں کے معاہدوں سے طے پاتا ہے۔

الاسکا میں ہونے والا یہ اجلاس محض دو رہنماؤں کی ملاقات نہیں بلکہ براہِ راست اور بلاواسطہ مکالمے کی واپسی، تاریخی روابط کی یاد دہانی، اور اس بات کا امتحان ہے کہ آیا ماسکو اور واشنگٹن اُن جگہوں پر ساتھ کام کرنے کو تیار ہیں جہاں اُن کے مفادات نہ صرف ملتے ہیں بلکہ یکساں بھی ہو سکتے ہیں۔

الاسکا کی کہانی روسی طور پر شروع ہوئی، امریکی طور پر جاری رہی — اور اب یہ ایک مشترکہ باب بن سکتی ہے، اگر دونوں فریق اسے موقع سمجھیں، خطرہ نہیں۔

تجزیہ نگار الیگزینڈر بوبروف تاریخ میں پی ایچ ڈی، انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک ریسرچ اینڈ فار کاسٹس کے شعبۂ سفارتی مطالعات کے سربراہ، کتاب The Grand Strategy of Russia کے مصنف، اور Diplomacy and the World ٹیلیگرام چینل کے منتظم ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

الاسکا امریکا روس صدر پیوٹن صدر ٹرمپ مذاکرات یوکرین

متعلقہ مضامین

  • یوکرین نے اپنی شمولیت کے بغیر کسی بھی معاہدے کے امکان کو مسترد کردیا
  • ٹرمپ۔ پیوٹن سربراہی اجلاس: امریکا کی روس پر پابندیوں میں عارضی نرمی
  • ٹرمپ کی بڑی پیشکش: پیوٹن اور زیلنسکی کو ایک میز پر بٹھانے کا منصوبہ
  • یوکرین کو زمین سے متعلق کسی بھی امن معاہدے میں شامل ہونا چاہیے،صدرٹرمپ
  • الاسکا میں ٹرمپ اور پیوٹن کی تاریخی ملاقات، یوکرین جنگ بندی پر امکانات اور اختلافات زیر بحث
  • پیوٹن کی پہلی مرتبہ الاسکا آمد، جنگ بندی پر مذاکرات کا امکان
  • ٹرمپ نے پیوٹن سے ملاقات کے لیے الاسکا ہی کاانتخاب کیوں کیا؟ الیگزینڈر بوبروف کا تجزیہ
  • صدر زیلینسکی نے الاسکا میں امریکی اجلاس کو پیوٹن کی ’ذاتی فتح‘ قرار دیدیا
  • ٹرمپ پیوٹن کی متوقع ملاقات اور غزہ پر قبضے کا مذموم اسرائیلی منصوبہ