مراعات یافتہ طبقے کا پاکستان
اشاعت کی تاریخ: 15th, August 2025 GMT
پاکستان میں جرائم کی ایسی ہولناک خبریں آتی ہیں جو ہر باشعور اور حساس دل رکھنے والے انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔بلوچستان، خیبر پختون خوا، دیہی سندھ اورجنوبی پنجاب کے قبائلی و نیم قبائلی علاقوں میں ہی نہیں بلکہ شہروں میں بھی سفاکانہ جرائم تواتر سے ہورہے ہیں، خصوصاً خواتین اور معصوم بچوں کے ساتھ ایسے ایسے بہیمانہ مظالم اور درندگی کی خبریں آتی ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے۔
پاکستان کا لیگل سسٹم ایسے بھیانک اور بہیمانہ جرائم کے منابع بند کرنے میں مسلسل ناکام چلاآرہا ہے۔ آئین بھی موجود ہے ، قوانین نافذ ہیں، ادارے قائم ہیں، اس کے باوجود ہتھیار بند جھتے ڈبل کیبن ڈالوں اورکروڑوں روپے مالیت کی ایس یو ویز پر بیٹھے دندناتے پھر رہے ہیں ۔
خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تو بغیر نمبر پلیٹس نان کسمٹزپیڈ گاڑیاں سٹرکوں پر دوڑ رہی ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ ان صوبوں میں طاقتور طبقوں اور ان کے حواریوں کا ڈیفیکٹو حق حکمرانی تسلیم کرلیا گیا ہے، یہ منہ زور اور دولت مند طبقہ ریاست پاکستان کو ٹیکس دیتا ہے نہ ریاست کا قانون تسلیم کرتا ہے لیکن ریاست کی تمام مراعات اور سہولیات حاصل کرتا ہے، ان کی وجہ سے پاکستان کو عالمی سطح پر بدنامی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان کا یہ بیمار کہنہ نظام کمزوروں کے لیے درندگی اور ظلم سے لبریز ہے لیکن طاقت کے سامنے منمنانے، منت ترلے اور غلامی سے عبارت ہے۔ ثبوت دیکھنا ہو تو ہماری سیاسی قیادت کا طرز عمل ملاحظہ کر لیں‘ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ چونکہ سب سے زیادہ طاقتور ہے‘ اس لیے باقی تمام طاقتور سٹیک ہولڈرز اس کے سامنے لیٹے نظر آتے ہیں۔سرمایہ داربھی اس کی توجہ حاصل کرنے کے لیے تگ ودو میں رہتے ہیں، جاگیردار بھی اسی راستے کے مسافر ہیں ، بیوروکریسی بھی سرجھکا کر رہتی ہے اور سیاستدان بھی۔
پاکستان کا نظام جمہوری نہیں بلکہ طاقت، خوف اور رسوخ کا نمایندہ نظام ہے ، جس میں سرداروں، وڈیروں ، قبائلی عمائدین، مذہبی لیڈران ،گدی نشین وڈیرے اور کاروباری طبقات کو آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ وہ اسمبلیوں میں بیٹھ کر قانون سازی میں حصہ لیتے ہیں، وزارتیں لیتے ہیں، سرکاری فنڈز حاصل کرتے ہیں اور پھر انھی فنڈز اور سیاسی اثرو رسوخ کے زور پر اپنی سلطنت قائم رکھتے ہیں جہاں کمزور کی کوئی انسانی حیثیت نہیں ہے۔
کمزور طبقے کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ تعلیم، صحت، وراثت اور شادی جیسے معاملات تک میں بھی اس کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں۔ قبائلی علاقوں میں تو یہ ظلم کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ جہاں غریب لوگ اپنی مرضی سے سانس بھی لے لیں تو یہ جرم بن جاتا ہے۔ جب بھی کہیں سے ظلم کی خبر آتی ہے چند روز شور مچتا ہے، سوشل میڈیا پر غم و غصہ کا اظہار ہوتا ہے، اخبارات میں اداریے اور کالم لکھے جاتے ہیں، مگر پھر سب کچھ معمول پر آ جاتا ہے۔ مجرم آزاد پھرتے ہیں اور مظلوم قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے۔
ہم ایک ایسے سماج میں جی رہے ہیں جہاں قانون کتابوں میں تو لکھا ہے، لیکن عمل نظر نہیں آتا۔ غیرت کے نام پر قتل صرف قتل نہیں، بلکہ ایک ثقافتی تماشا بن چکا ہے۔ پولیس بظاہر جرائم کو نظرانداز نہیں کرتی لیکن جب ملزم گرفتار ہو جائے تو پہلے مرحلے میں پولیس کی تفتیش ہی ناقص ہوتی ہے، قبائلی و سرداری نظام والے علاقوں میں تو پولیس اور قانون صرف نام کے لیے ہوتا ہے، عینی شاہد ہو بھی تو وہ خوف کے مارے گواہی نہیں دیتا ، یوں ملزمان ضمانت پر رہا ہوجاتے ہیں۔ ضمانت کے بعد یا اس دوران مقتول کے خاندان سے معافی یا لین دین کر کے کیسز کو بند کردیا جاتا ہے، یوں جرائم پیشہ ذہنیت کے حامل لوگوں کو مزید حوصلہ ملتا ہے۔
پاکستانی پس منظر میں ہمیں قبائلی اور جاگیردارانہ پدر شاہی رویے ہر جگہ نظر آتے ہیں ۔ بعض دانشور سمجھتے ہیں کہ جیسے جیسے شہروں کی آبادی بڑھ رہی ہے، قبائلی و جاگیرداری نظام کمزور ہورہا ہے لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ اسلام آباد، کراچی اور لاہور جیسے جدید ترین شہروں میں بسنے والے امراء کے بچوں کا رویہ بھی انسانیت نواز نہیں ہے، یہ طبقہ بھی خود نمائی اور نرگسیت کا شکار ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں عورتوں اور معصوم بچوں کے خلاف سفاکانہ جرائم کی شرح میں خوفناک اضافہ ہوچکا ہے۔ کمزوروں کا استحصال، جبر اور تشدد کی نئی اور الگ الگ قسمیں متعارف ہورہی ہیں، عورتوں اور بچوں پر بے رحمانہ تشدد، ان کے سفاکانہ قتل نے سماجی صورتحال کو سنگین بنادیا ہے ۔
پاکستان کا نظام اگر مہذب اور منصفانہ ہوتا تو آج ملک میں تعلیم، صحت، ترقی، روزگارکی صورتحال ایسی نہ ہوتی۔ ہمیں پدرسری نظام کی منہ زوری پر قابو پانے کے لیے نئی قانون سازی کرنا ہوگی ، ایسی قانون سازی جو غیرمبہم اور دوٹوک الفاظ پر مشتمل ہو ۔ پارلیمنٹ میں ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے جو کمزور طبقات کو جینے کا حق دے، مذہب و مسلک کے نام پر تنظیمیں اور جماعتیں بنانے پر پابندی عائد کی جائے اور مسلح گروہ کو خلاف قانون قرار دیا جائے اور ایسے متشدد گروہوں کی قیادت و کارکنان پر بھی پابندی عائد کی جائے۔ میڈیا، سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ یہ پورے پاکستان کا اہم ترین مسئلہ ہے اور جب تک ہم اسے قومی مسئلہ نہیں مانیں گے، تب تک یہ ظلم جاری رہے گا۔
ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم قانون کے مطابق چلنے والی ریاست چاہتے ہیں یا چند طاقتور طبقات کے فیصلوں پر چلنے والی سلطنت۔ ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ ہم آئین کو بالا دست مانتے ہیں یا دھونس دھاندلی کے نظام کو۔ پاکستان میں عوام کے مفاد کو سب سے زیادہ اہم سمجھا جانا چاہیے نہ کہ مٹھی بھر مراعات یافتہ طبقے کو۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان میں پاکستان کا جاتا ہے میں تو کے لیے
پڑھیں:
مریم نواز کو چیلنج کرتی ہوں، سندھ اور پنجاب میں صحت کا نظام کا موازنہ کر لیتے ہیں: شرمیلا فاروقی
---فائل فوٹوپاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما شرمیلا فاروقی نے کہا ہے کہ سندھ اور پنجاب کی کارکردگی کا بیٹھ کر موازنہ کر لیتے ہیں، مریم نواز کو چیلنج کرتی ہوں، موازنہ کر لیتے ہیں سندھ میں صحت کا نظام کیا ہے اور پنجاب میں کیا ہے۔
’جیوپاکستان‘ میں گفتگو کے دوران شرمیلا فاروقی نے کہا کہ سندھ سیلاب زدگان کے لیے کیا کر رہا ہے، پنجاب کیا کر رہا ہے، افتتاح کرنے سے اور سلائی کی مشینیں دینے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔
شرمیلا فاروقی کا کہنا ہے کہ جب ایک صوبے کاچیف ایگزیکٹو یہ کہے گا کہ میرا پیسہ، میرا پانی، انگلی توڑ دیں گے، یہ بدقسمتی ہے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن کی اہم اتحادی ہے اس کا ادراک ن لیگ کو ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم سیلاب زدگان کو ریلیف دینے پر بات کر رہے ہیں ذاتیات پر نہیں، بلاول بھٹو نے دورۂ جنوبی پنجاب کے دوران کہا مریم بی بی اچھا کام کر رہی ہیں، انہوں نے لوگوں کی حالت دیکھی تو کہا کہ بی آئی ایس پی سے لوگوں کو رقم دے دیں۔
شرمیلا فاروقی کا کہنا تھا کہ یہ مطالبہ بلاول بھٹو نے وفاق سے کیا کیوں کہ یہ وفاق کا پراجیکٹ ہے، ہم نے تو پنجاب کی بات نہیں کی، ہم تو پنجاب والوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں، سندھ میں 2022ء میں سیلاب آیا، ہم نے بی آئی ایس پی کے زریعے کیش ٹرانسفر کیا۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب میں لوگوں کی فوری مدد کا بی آئی ایس پی کے بجائے اور کوئی ذریعہ نہیں، پیپلز پارٹی کے سوا اور کوئی حکومت ایسا پراجیکٹ بنا ہی نہیں سکی، آپ کو بی بی شہید کا نام پسند نہیں تو ان لوگوں کا کیا قصور جو سڑکوں پر ہیں، بی آئی ایس پی کے زریعے پیسے لوگوں کی جیب میں جارہے ہیں، پیپلز پارٹی کی جیب میں نہیں۔
اِن کا کہنا تھا کہ آپ ہماری بے عزتی کریں گے تو کیا ہم حکومت بینچز پر بیٹھ کر سنتے رہیں گے، نہ یہ آپ کا پانی ہے نہ میرا، یہ پاکستان کے عوام کا ہے، پانی تقسیم کرنے کا طریقہ کار ملک میں موجود ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ نہریں نکالیں باقی دوصوبے سوکھ جائیں۔
شرمیلا فاروقی نے یہ بھی کہا کہ کل پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی بیٹھک ہوئی کچھ چیزوں پر بات ہوئی ہے، اس وقت سیاست نہ کریں لوگوں کی مدد کریں یہ ہمارا مؤقف ہے۔