پاکستان منی لانڈرنگ اسکیموں کی مؤثر روک تھام میں ناکام
اشاعت کی تاریخ: 16th, August 2025 GMT
کمپنیوں کے حقیقی مالکان کے اعداد و شمار استعمال نہیں کررہا، کرپشن سے جڑی منی لانڈرنگ اسکیموںاور جعلی کمپنیوں کو سرکاری ٹھیکے حاصل کرنے سے روکنے میں رکاوٹ ہے
سرکاری فنڈز کی خورد برد اور غیر منصفانہ ٹھیکہ داری صرف جعلی کمپنیوں کو بے نقاب کر کے کم کی جا سکتی ہے ،بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی گورننس اور کرپشن کی رپورٹ مکمل
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے مشاہدہ کیا ہے کہ پاکستان کمپنیوں کے حقیقی مالکان کے اعداد و شمار کو مؤثر طور پر استعمال نہیں کر رہا، جو کرپشن سے جڑی منی لانڈرنگ اسکیموں کی روک تھام اور جعلی کمپنیوں کو سرکاری ٹھیکے حاصل کرنے سے روکنے میں رکاوٹ ہے۔عالمی ادارے کی گورننس اور کرپشن ڈائگناسٹک اسیسمنٹ کی مسودہ رپورٹ میں پاکستان کے بینیفیشل اونرشپ نظام کے موثر نفاذ میں بڑے نقائص کی نشاندہی کی گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور تفتیشی اداروں کے درمیان بینیفیشل اونرشپ ڈیٹا کے تبادلے اور مالیاتی تحقیقات میں اس کے استعمال کے لیے باقاعدہ رابطے کا کوئی واضح ثبوت نہیں ملا۔پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف کے اس موقف سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ادارے بینیفیشل اونرشپ ڈیٹا کا استعمال کر رہے ہیں، سوائے مخصوص غیر مالیاتی کاروبار اور افراد (DNFBPs) کے معاملات میں۔پاکستان نے 8سال قبل فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کی شرائط کے تحت بینیفیشل اونرشپ کے قواعد سخت کیے تھے، تاہم دیگر کئی معاملات کی طرح اس پر عملدرآمد مطلوبہ معیار سے کم ہے۔آئی ایم ایف کے مطابق مالیاتی تحقیقات میں بینیفیشل اونرشپ معلومات کے موثر استعمال کے لیے ایس ای سی پی، اسٹیٹ بینک، ایف بی آر، کمرشل بینکوں، منی سروس فراہم کنندگان اور تفتیشی اداروں کے درمیان باقاعدہ تبادلہ ناگزیر ہے۔رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ پاکستان کو انسداد بدعنوانی تحقیقات کے لیے بینیفیشل اونرشپ ڈیٹا کے جائزے کے لیے کثیر ادارہ جاتی ورکنگ گروپ قائم کرنا چاہیے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کا بینیفیشل اونرشپ فریم ورک بنیادی اہمیت کا حامل ہے، مگر رجسٹری کے نفاذ، تصدیق، قانون سازی، اور بین الادارہ رسائی میں کمزوریاں اس کی مؤثریت کم کر دیتی ہیں۔پاکستانی حکام کے مطابق ایس ای سی پی نے تفتیشی اداروں کو بینیفیشل اونرشپ ڈیٹا بیس تک براہِ راست رسائی فراہم کی ہے اور فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (FMU) مشتبہ لین دین کے تجزیے میں یہ ڈیٹا استعمال کر رہا ہے۔2018 میں ایس ای سی پی نے کمپنیوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے حقیقی مالکان کی معلومات جمع کریں تاکہ کمپنیوں کی ملکیت کے ڈھانچے میں شفافیت لائی جا سکے۔کمپنیوں سے حقیقی مالک کے بارے میں کم از کم معلومات میں پورا نام، والد یا شوہر کا نام، شناختی یا پاسپورٹ نمبر، قومیت، ملکِ اصل، ای میل، رہائشی پتہ، رجسٹر میں نام درج ہونے اور مالکیت ختم ہونے کی تاریخ اور وجوہات شامل ہیں۔تاہم آئی ایم ایف کے مطابق ان قوانین اور قواعد کے نفاذ میں سنگین خلا موجود ہیں جو ناجائز دولت کے استعمال کی روک تھام میں رکاوٹ ہیں۔ عالمی ادارے نے کہا کہ سرکاری فنڈز کی خورد برد اور غیر منصفانہ ٹھیکہ داری صرف جعلی کمپنیوں کو بے نقاب کر کے کم کی جا سکتی ہے۔پاکستانی حکام نے بتایا کہ کچھ ریاستی ادارے ایس ای سی پی کے آن لائن بینیفیشل اونرشپ ڈیٹا بیس کو فعال طور پر استعمال کر رہے ہیں اور ایف ایم یو اہم اسٹیک ہولڈرز کے لیے ڈیٹا تک بہتر رسائی اور رپورٹنگ اداروں کے لیے ہدایت، تربیت اور بین الادارہ تعاون کے ذریعے منی لانڈرنگ سے متعلق ذمہ داریوں کے بہتر نفاذ کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔حکام کے مطابق مالیاتی اداروں نے PEPs پر خصوصی نظر اور خطرے پر مبنی ڈیو ڈیلجنس میں پیش رفت کی ہے، تاہم DNFBP سیکٹر میں تکنیکی صلاحیت، تعمیل کلچر اور نگرانی کی سطح مختلف ہے۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: جعلی کمپنیوں کو ایس ای سی پی منی لانڈرنگ ا ئی ایم ایف رپورٹ میں کے مطابق کے لیے
پڑھیں:
گاڑیوں پر ای ٹیگز، ایم ٹیگز لگانا اور شہریوں کا ڈیٹا جمع کرنا کیوں ضروری؟ وزیراطلاعات نے بتا دیا
وفاقی وزیراطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ بہت ضروری ہے کہ گاڑیوں پر شناختی نمبرز اور ایم ٹیگ لگے ہوں، اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے بچوں اور پیاروں کی حفاظت اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے اقدام کریں۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں ڈیجیٹل پارکنگ اور ایم ٹیگ سسٹم نافذ کرنے کا فیصلہ
نجی ٹی وی سے گفتگو کے دوران گاڑیوں پر ای ٹیگ اور ایم ٹیگ اور اسلام آباد کے شہریوں کا ڈیٹا جمع کرنے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں وفاقی وزیراطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ دنیا میں کئی ممالک نے دہشتگردی کو شکست دی ہے۔ کور مسئلہ یہ ہے کہ نان کسٹمز پیڈ گاڑیاں آتی ہیں، اس میں خودکش بمبار آتا ہے، کچہری کے باہر دھماکہ کرتا ہے جس میں 12 شہری شہید ہوتے ہیں، اور ہم اس بحث میں لگے ہوئے ہیں کہ ہمیں شہریوں کا ڈیٹا جمع کرنا ہے یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ سری لنکا نے دہشتگرد تنظیم ایل ٹی ٹی ای کو شکست دی اور ملک کو دہشتگردی سے پاک کیا۔ ہر چوتھے دن سری لنکا میں خودکش حملہ ہوتا تھا۔ پاکستان میں سیف سٹی کے کیمرے لگے ہوئے ہیں جن میں ہر گاڑی کو چیک کیا جا سکتا ہے کہ کون کہاں جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں گاڑیوں کی سیف سٹی کیمروں کے ذریعے مانیٹرنگ ہوتی ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ کہاں جرم سرزد ہوا اور کس سے ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں کروائے جانے والا ’سیکیور نیبرہڈ سروے‘ کیا ہے؟ اور یہ کیوں ضروری ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ گاڑیوں پر شناختی نمبرز اور ایم ٹیگ ہو، بلکہ ریڈ ٹیک کے تحت گاڑی کی تفصیلات دینا بھی ضروری ہے۔ آج تک ہمارے ملک میں کوئی بھی لینڈ لارڈ اپنا ڈیٹا جمع نہیں کرواتا، حالانکہ اس کے تحت تھانے میں تفصیلات جمع کروانی ہوتی ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے بچوں اور پیاروں کی حفاظت اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے اقدام کریں۔
وزیراطلاعات نے کہا کہ گاڑیوں کی رجسٹریشن ضروری ہے اور اس کے لیے پولیس اور سول ایڈمنسٹریشن کے پاس اختیار موجود ہے۔ گاڑی رجسٹر کروانا یا جہاں آپ رہ رہے ہیں اسے رجسٹر کروانا کوئی حرج نہیں، یہ اس لیے ضروری ہے کہ دہشتگرد کہیں پناہ گاہ لیتے ہیں، وہاں سے نکلتے ہیں اور باہر جا کر دھماکہ کر دیتے ہیں۔ شہریوں کا ڈیٹا پروٹیکٹ کرنا حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news ای ٹیگز ایم ٹیگز پاکستان عطاتارڑ وزیراطلاعات