غزہ سے جبری نقل مکانی کے بارے تل ابیب اور جوبا کے مذاکرات ناکام
اشاعت کی تاریخ: 16th, August 2025 GMT
ایک ایسے وقت میں کہ جب غاصب اسرائیلی رژیم، غزہ کی پٹی کی آبادی کے ایک قابل قدر حصے کو جنوبی سوڈان منتقل کرتے ہوئے خطے میں انسانی بحران کا ایک متنازعہ حل تلاش کرنیکی کوشش میں ہے، باخبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ اب تک کی ناکامی کے باوجود بھی تل ابیب جوبا کیساتھ مذاکرات جاری رکھنے کی کوشش میں ہے اسلام ٹائمز۔ کینیڈین خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے 3 باخبر ذرائع سے نقل کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل اور جنوبی سوڈان، غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کو یہاں لانے کے لئے کسی معاہدے کے انعقاد پر بات چیت کر رہے ہیں تاہم ابھی تک کوئی حتمی معاہدہ طے نہیں ہوا۔ روئٹرز کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے دونوں فریقوں کے درمیان انجام پانے والے مذاکرات کی ناکامی کے بعد بھی یہ بات چیت ہنوز جاری ہے۔ ادھر امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی اس منصوبے کے لئے واشنگٹن کی حمایت کے بارے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا ہے کہ ہم نجی سفارتی مذاکرات نہیں کرتے!
روئٹرز کے مطابق یہ مسئلہ غاصب اسرائیلی حکام اور جنوبی سوڈان کے وزیر خارجہ منڈا سمایا کمبا کے درمیان ملاقات کے دوران اٹھایا گیا تھا تاہم، جنوبی سوڈان کی وزارت خارجہ نے اس منصوبے سے متعلق خبروں کی تردید کرتے ہوئے انہیں "بے بنیاد" قرار دیا ہے۔ اس ہفتے جنوبی سوڈان کے دارالحکومت جوبا کا دورہ کرنے والی اسرائیلی نائب وزیر خارجہ شارن ہاسکل کا بھی کہنا ہے کہ اس بات چیت میں فلسطینیوں کی آباد کاری کے معاملے پر توجہ نہیں دی گئی۔
دوسری جانب غاصب اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے جولائی میں منڈا سمایا کمبا کے ساتھ ملاقات کے دوران اعلان کیا تھا کہ اسرائیل غزہ سے نکلنے کے خواہشمند فلسطینیوں کے لئے منزل کی تلاش کی خاطر کئی ایک ممالک کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہے، تاہم نیتن یاہو نے اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ نیتن یاہو کی جانب سے قبل ازیں بھی متعدد بار اعلان کیا جا چکا ہے کہ تل ابیب غزہ چھوڑنے کے خواہشمند فلسطینیوں کے لئے کسی منزل کی تلاش میں جنوبی سوڈان سمیت متعدد ممالک کے ساتھ گفتگو میں مصروف ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جنوبی سوڈان بات چیت کے لئے
پڑھیں:
پیوٹن۔ٹرمپ الاسکا ملاقات کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟
روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن آج جمعہ کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے امریکی ریاست الاسکا میں ملاقات کریں گے۔
اس سربراہی اجلاس میں سب سے اہم موضوع یوکرین تنازع کے حل کی کوششیں ہوں گی، جبکہ روس۔امریکا 2 طرفہ تعلقات پر بھی بات چیت متوقع ہے۔
الاسکا: امریکا کی روس سے قریب ترین ریاستیہ ملاقات الاسکا میں ہوگی، جو بیئرنگ اسٹریٹ کے پار روسی سرحد سے صرف چند میل کے فاصلے پر ہے۔ اجلاس جمعہ کی صبح اینکریج شہر میں قائم جوائنٹ بیس ایلمینڈورف-رچرڈسن پر شروع ہوگا۔
کریملن کے خارجہ پالیسی کے مشیر یوری اوشاکوف کے مطابق اس فوجی بیس کے قریب وہ مقام ہے جہاں دوسری جنگِ عظیم کے دوران لینڈ-لیز معاہدے کے تحت طیارے پہنچانے والے سوویت پائلٹس، فوجی اور شہری دفن ہیں۔
اس مقام کو دونوں ملکوں کے درمیان عسکری بھائی چارے کی یادگار قرار دیا جاتا ہے۔
بالمشافہ ملاقاتسربراہی اجلاس کا آغاز پیوٹن اور ٹرمپ کی ون آن ون ملاقات سے ہوگا، جس میں صرف مترجمین شریک ہوں گے۔ اس کے بعد بات چیت 5-5 ارکان پر مشتمل دونوں وفود کے درمیان جاری رہے گی۔
یہ بھی پڑھیں:پیوٹن کی پہلی مرتبہ الاسکا آمد، جنگ بندی پر مذاکرات کا امکان
ابتدا میں یہ طے تھا کہ اجلاس کے بعد دونوں رہنما مشترکہ پریس کانفرنس کریں گے، لیکن ٹرمپ نے بعد میں کہا کہ اگر بات چیت کامیاب نہ ہوئی تو وہ اکیلے میڈیا سے گفتگو کریں گے۔
اعلیٰ سطحی وفودروسی وفد میں وزیر خارجہ سرگئی لاوروف، وزیر دفاع آندرے بیلوسوف، وزیر خزانہ آنتون سیلوانوف، صدر کے خصوصی نمائندہ برائے غیر ملکی سرمایہ کاری کریل دیمتریف، اور مشیر یوری اوشاکوف شامل ہوں گے۔ اجلاس میں ماہرین بھی شریک ہوں گے۔
امریکی وفد کے اراکین کے بارے میں روس کو اطلاع دی گئی ہے، لیکن سرکاری اعلان سے قبل نام ظاہر نہیں کیے گئے۔ ٹرمپ نے بھی تاحال اپنی ٹیم کا اعلان نہیں کیا۔
امن بات چیت اور دیگر موضوعاتاجلاس کا مرکزی ایجنڈا یوکرین تنازع ہے، تاہم تجارت، معیشت اور دیگر دو طرفہ تعاون کے امور پر بھی بات ہوگی۔
پیوٹن کے مطابق ٹرمپ کی انتظامیہ بحران ختم کرنے اور دونوں ملکوں کے درمیان دیرپا امن قائم کرنے کے لیے ’کافی سنجیدہ اور پرجوش کوششیں‘ کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:صدر زیلینسکی نے الاسکا میں امریکی اجلاس کو پیوٹن کی ’ذاتی فتح‘ قرار دیدیا
کریملن کا کہنا ہے کہ اس ملاقات کے نتیجے میں کسی معاہدے یا دستاویز پر دستخط متوقع نہیں۔
ٹرمپ نے اس اجلاس کو ایک ’ابتدائی جانچ پرکھ‘ کی ملاقات قرار دیا ہے تاکہ وہ پیوٹن کے مؤقف کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔
انہوں نے یہ بھی اشارہ دیا کہ یوکرین میں ممکنہ تصفیے میں روس کے ساتھ زمینی تبادلے (territorial exchanges) شامل ہوسکتے ہیں، اور انہوں نے یوکرین کی جانب سے اس پر اعتراضات کو مسترد کر دیا ہے۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اور مغربی یورپی ممالک کے رہنماؤں کو اس اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا۔
پس منظریہ سربراہی اجلاس اچانک اس وقت ترتیب پایا جب گزشتہ ہفتے ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف ماسکو گئے۔
ٹرمپ پہلے ہی اعلان کر چکے تھے کہ وہ یوکرین جنگ ختم کریں گے، لیکن حالیہ دنوں میں انہوں نے روس۔یوکرین مذاکرات کی سست رفتاری پر عدم اطمینان ظاہر کیا۔
کریملن نے کہا کہ وٹکوف ماسکو ایک ایسا ’قابلِ قبول‘ امریکی تجویز لے کر گئے جو اس ملاقات کے انعقاد کا باعث بنی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
الاسکا امریکا امریکی صدر پیوٹن ٹرمپ روسی صدر یوکرین