Express News:
2025-11-16@23:02:47 GMT

سوڈان سے سبق سیکھیے؟

اشاعت کی تاریخ: 17th, November 2025 GMT

سوڈان ‘ افریقہ کا ایک بدقسمت ملک ہے ۔ تقریباً بیس لاکھ مربع کلو میٹر پر مشتمل یہ بہت بڑا خطہ ہے۔ سات ملکوں کے درمیان گھرا ہوا‘ سوڈان آگ ‘ بارود اور خون کے سمندر میں ڈوبا ہوا ہے۔ پانچ کروڑ افراد کیسے زندہ رہ رہے ہیں‘ یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے ۔سوڈان کے 97فیصد لوگ مسلمان ہیں۔ یعنی ہم بغیر کسی مخمصے میں پڑے کہہ سکتے ہیں کہ یہ ملک مسلمانوں کا ہے۔

عرض کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کرہ ارض پر جس ملک میں بھی مسلمان اکثریت میں بستے ہیں اور حکمرانی کر رہے ہیں، وہاں انسانی حقوق ‘ جمہوریت اورقانون کی حکمرانی ختم ہو جاتی ہے۔حکمران امیر اور عوام غریب ‘ یہ حکمرانی کا وہ ماڈل ہے جو پچاس سے زیادہ مسلم ریاستوں میں جاری و ساری ہے ۔ اور اس طرز حکمرانی میں تبدیلی لانا ناممکن نظر آ رہا ہے۔ سوڈان کی صورت حال بدامنی کا شکار اکثر مسلمان ممالک سے زیادہ بدتر ہے ۔

1989میں عمر البشیر نے سوڈان کی حکومت پر قبضہ کیا ۔ تین دہائیاں سیاہ و سفید کا مالک رہا ۔ وہ اور اس کا خاندان دولت کے انبار اکٹھے کرتا رہا ۔ مگر عام سوڈانی غربت کی دلدل میں دھنستا رہا۔ عمرالبشیر اور اس کے خاندان نے سوڈان کو کتنا نقصان پہنچایا، اس کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ پھر وہی ہوا جو اس طرز حکومت کا منطقی انجام ہوتا ہے۔ 2019 میں فوج نے صدر عمرحسن البشیر کے خلاف بغاوت کر دی اور وہ اقتدار سے محروم ہو گیا۔جمہوریت کا ڈول ڈالا گیا ۔ عوام کے مسائل پر توجہ دینے کی ادھوری سی کوشش ہوئی ۔ مگر اس کو چلنے نہیں دیا گیا۔ 2021میں سوڈان اسی جگہ پہنچ گیا جہاں وہ بتیس سال پہلے تھا۔

یہ انقلاب دو جرنیل لے کر آئے تھے۔ جنرل عبدالفتح البرہان فوج کا سربراہ تھا ۔ فوری طورپر ملک کا صدر بن گیا۔ اس کا دست راست جنرل محمد ہمدان بھی حکومت میں شامل ہو گیا۔

لیکن آہستہ آہستہ اختلاف رنگ دکھانے لگا۔ تنازعہ کی بنیادی وجہ دولت کا ارتکاز اور ایک لاکھ آر ایس ایف کے سپاہیوں کو فوج میں شامل کرنا تھا۔ جو جنرل ہمدان کے وفادار تھے۔ اصل مسئلہ وہی ہے جو صدیوں سے جاری و ساری ہے کہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔ پندرہ اپریل 2023 کو دونوں عمائدین کے وفادار سپاہیوں نے جنگ شروع کی۔ آر ایس ایف اور ریاستی فوج کی لڑائی آج بھی خون بہا رہی ہے۔ کبھی ایک شہر آر ایس ایف کے قبضے میں چلا جاتا ہے اور کبھی اسی شہر پر ریاستی فوج قبضہ کر لیتی ہے ۔

مگر یہاں ایک اہم ترین نقطہ سامنے لانے کی ضرورت ہے ۔ سوڈان میں سونے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ ورلڈ گولڈ کونسل کے مطابق سوڈان سونے کے ذخائر رکھنے والا سولہواں بڑا ملک ہے۔اور یہی فساد کی جڑ ہے ۔ ہر حکمران گروہ سونے کے ذخائر پر قابض ہونا چاہتا ہے اور اس کے لیے بین الاقوامی کمپنیوں اور ملکوں کی مدد لی جاتی ہے۔ گیارہ سو ٹن سونے کے ذخائر نے پورے ملک کو خون میں نہلا دیا ہے۔

کیا آپ یہ نہیں پوچھیں گے کہ ان متحارب گروہوں کے پاس اسلحہ کہاں سے آتا ہے؟ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق یہ مہلک اسلحہ روس ‘ چین ‘ ترکی ‘ یمن ‘ سربیااور متحدہ عرب امارات کے ذریعے ان گروہوں تک پہنچتا ہے۔ سوڈان سے سونا اسمگل ہو کر خلیجی ملک پہنچتا ہے ۔ یہاں دنیا میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ انٹر نیشنل ریسکیو کمیٹی کے مطابق چالیس لاکھ سوڈانی شہری ہمسایہ ممالک میں پناہ لے چکے ہیں۔ ڈھائی کروڑ سوڈانی ‘ غذا سے محروم ہیںاور قحط میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

ڈیڑھ کروڑ افراد بے گھر اور بے سرو سامان ہو چکے ہیں۔ ان کے پاس کسی قسم کی کوئی چھت نہیں ۔ ہزاروں خواتین اور بچوں کوجنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ڈھائی سے آٹھ لاکھ تک عام شہری مارے جاچکے ہیں ، شہر کے شہر تباہ ہو چکے ہیں۔ اسپتالوں اور کلینکس پر بھی فضائی حملے کیے گئے ہیں۔ پورا ملک ایک قبرستان کی شکل اختیار کر چکا ہے۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق امداد فراہم کرنے والی مختلف ایجنسیوں نے غذا مفت مہیا کرنے کے لیے جو کچن بنائے تھے ، ان میں سے گیارہ سو باورچی خانے بند کر دیے گئے ہیں۔ انسانی المیہ کی یہ شکل دنیا کے سامنے ہے ۔ مگر کوئی بھی اس پر توجہ نہیں دیتا۔

متحارب عسکری گروہ مسلمان ہیں۔قتل ہونے والے عام شہری ‘ بچے اور خواتین بھی مسلمان ہیں۔ مگر کوئی بھی اسلامی ملک اس جنگ کو بند کرانے میں سنجیدہ نظر نہیں آتا۔ ایسے لگتا ہے کہ کسی کو پرواہ ہی نہیں ۔ غزہ میں ساٹھ ستر ہزار مسلمان اسرائیلی بربریت کا نشانہ بنے تھے اور دنیا کی ہر قوم اور ملک نے کسی نہ کسی طریقے سے اس میں مثبت یا منفی اعلانات کیے تھے۔ پر بدقسمتی سے کسی بھی مسلمان ملک کے حکمرانوں کا ضمیر سوڈان کی ہولناک سول وار کی وجہ سے نہیں جاگ سکا۔ ایسے لگتا ہے کہ کچھ ہو ہی نہیں رہا۔ اب میں ایک تلخ سوال کرنا چاہتا ہوں۔ہمارے مذہبی حلقے ہر دم ‘ لفاظی کی حد تک فلسطین کا ذکر ضرور کرتے ہیں ۔

مسلم امہ کی یکجہتی کی دعائیں بھی مانگتے ہیں ۔ کشمیر میں مسلمانوں کی زبوں حالی پر سینہ کوبی کرتے ہیں مگر سوڈان میں مسلمانوں کے باہمی قتل وعام پر ایک لفظ ادا نہیں کرتے۔ پاکستانی حکمرانوں کا ذکر کرنا تو عبث ہے اس لیے کہ دنیا کاکوئی طاقتور ملک انھیں سنجیدہ نہیں لیتا ہے ۔

ایسے بھی لگتا ہے کہ مذہبی جماعتیں ‘ جس مسلم امہ کا رو رو کر ذکر کرتی ہیں ، وہ طویل عرصے سے ختم ہو چکی ہیں۔کیا آپ نے کسی پاکستانی یا مسلم حکمران کا سوڈان میں قتل عام کے حوالے سے کوئی بیان سنا ہے ۔ مجھے طالب علم کے طور پر جمہوریت یا کسی بھی دیگر نظام میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ صرف اور صرف ایک عنصر اہم ہے اور وہ عام آدمی کی فلاح و بہبود کا ۔جو کم از کم ہمارے ملک میں دور دور تک دوربین لگا کر بھی نظر نہیں آتا۔ ہماری اپنی معاشی ‘ سماجی ‘ سیاسی اور اقتصادی صورت حال اس قدر ابتر ہے کہ اس کا ذکر کرتے ہوئے بھی تکلیف ہوتی ہے ۔ حکومتی جھوٹ اس قدر زیادہ بولا جا رہا ہے کہ ہر ذی شعور دنگ رہ جاتا ہے۔ پچیس کروڑ لوگوں پر مشتمل یہ ملک ‘ کیا سوڈان کی طرح کسی خانہ جنگی کی طرف جا رہا ہے؟ اس کے سوا مطلق کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔

سوڈان میں طاقتور حکمران گروہوں نے ملکی ذخائر پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ ملک کو لاشوں اور خون سے بھردیا گیا ہے۔ ایک دولت مند ملک کس طرح ختم ہوا ہے‘ اس کی سب سے تازہ مثال سوڈان ہے۔

اگر ہم سوڈان کی خانہ جنگی ‘ سونے کے ذخائر اور قتل عام کو دیکھیں تو ہمیں بلوچستان کی صورت حال سمجھنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ ہندوستان ‘ چین اور امریکا کی باہمی کھینچا تانی ایک طرف اور بعض مسلم ملک ایک طرف۔ تمام باخبر لوگ یہ جانتے ہیں لیکن خاموشی ہے۔ پاکستان شدید دہشت گردی کا شکار ہے۔لیکن مت بھولیے کہ کبھی کبھی قیمتی دھاتوں کے ذخائر ملکوں کو غیر مستحکم بنا دیتے ہیں۔ سوڈان کا حال سامنے رکھیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سونے کے ذخائر سوڈان میں سوڈان کی کے مطابق چکے ہیں ہے اور اور اس

پڑھیں:

پاکستان کرکٹ ہمیشہ ناٹ آئوٹ

کراچی:

’’تمہارے ملک میں بم دھماکا ہوا ہے، ہم اب نہیں کھیل سکتے، ہمیں واپس جانا ہے، بورڈ بات کر رہا ہے‘‘جب ایک سری لنکن کرکٹر نے پاکستانی کھلاڑی سے یہ کہا تو وہ پریشان ہو گیا لیکن چہرے پر ایسے اثرات نہ آنے دیے، پھر اسے جواب دیا۔

’’ یار ڈرنے کی کوئی بات نہیں، کچھ نہیں ہو گا، اگر کوئی خطرہ ہوتا تو سب سے پہلے میں بھاگ جاتا‘‘ اس کی کوشش تھی کہ ہلکے پھلکے انداز میں خدشات دور کرے ، بعد میں دیگر پاکستانی کرکٹرز نے بھی سری لنکنز سے بات کر کے ان کا خوف دور کرنے کی کوشش کی۔ 

یہ واقعہ مجھے ایک پاکستانی کھلاڑی نے سنایا، جس وقت یہ خبر سامنے آئی کہ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے کئی سری لنکن کرکٹرز نے واپس جانے کا فیصلہ کر لیا ہے تو ہر پاکستانی کے دل میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی، سب یہی سوچ رہے تھے کہ اب آگے کیا ہوگا۔ 

اگر سری لنکز چلے جاتے تو ہماری کرکٹ پھر ماضی کی طرح تنہائی کا شکار ہو سکتی تھی، دیگر ٹیمیں بھی آنے میں ناز نخرے دکھاتیں، آئی سی ایونٹس کی میزبانی ملنا دشوار ہو جاتا، ساتھ پی ایس ایل کیلیے غیرملکی کرکٹرز کی خدمات حاصل کرنے میں بھی مشکل ہوتی۔ 

ظاہر ہے یہ خدشات نہ صرف پی سی بی حکام بلکہ دیگر اعلیٰ شخصیات کے ذہنوں میں بھی ہوں گے،ایک وقت ایسا آیا جب 90 فیصد دورہ ختم ہونے کا امکان تھا،سری لنکن ٹیم کے واپس جا کر چند روز بعد دوبارہ آ کر کھیلنے کی بھی باتیں ہو رہی تھیں۔

البتہ محسن نقوی کی مہمان کھلاڑیوں کے ساتھ 90 منٹ کی ملاقات نے انھیں روکنے پر قائل کرنے میں اہم کردار کیا،اس دوران پاکستانی کرکٹرز بھی ان کو سمجھاتے رہے، حکومتی سطح پر رابطوں کا یہ فائدہ ہوا کہ سری لنکن بورڈ بھی سیدھا رہا، ورنہ سب جانتے ہیں کہ وہ بی سی سی آئی کے کتنا قریب ہے۔

بھارت ایک سیریز کی لالچ دیتا اور وہ پلٹ جاتا،البتہ جب اپنے ملکی اعلیٰ حکام کی ہدایات ملیں تو اس نے پلیئرز کو ٹور جاری نہ رکھنے کی صورت میں ڈھکے چھپے الفاظ میں کارروائی کی بھی دھمکی دے دی، جب کسی کو اپنی سیکیورٹی پر خدشات ہوں تو کوئی بھی ایسی بات اسے نہیں روک سکی۔ 

دراصل یہ اعلیٰ پاکستانی حکام پی سی بی اور پلیئرز کی کوششیں تھیں جو رنگ لائیں اور تحفظات دور کیے، یوں سیریز آن رہی، صرف شیڈول میں معمولی ردوبدل کرنا پڑا، اب تو بااحسن انداز میں تینوں ون ڈے میچز کا انعقاد بھی ہو چکا۔

پاکستان کرکٹ ہمیشہ ناٹ آؤٹ رہے گی، یہ سب کی جیت ہوئی ہے،آپ اگر کرکٹ کے فین نہیں ہیں تب بھی میرا مشورہ ہے کہ سیریز کے کسی میچ کی جھلکیاں دیکھیں، بچے، نوجوان ، بزرگ، مرد اور خواتین سب ہی راولپنڈی اسٹیڈیم میں کھیل سے لطف اندوز ہوتے دکھائی دیں گے۔ 

یہ کرکٹ کی خصوصیت ہے یہ کھیل پوری قوم کو جوڑ دیتا ہے، اگر لوگ ڈرے ہوئے ہوتے تو اسٹیڈیم خالی نظر آتا لیکن پوری سیریز میں شائقین کی بڑی تعداد آئی، اس سے واضح ہو گیا کہ پاکستانیوں کو ایسی حرکات سے خوفزدہ نہیں جا سکتا۔ 

بلاشبہ سری لنکا نے بھی ایک پھر دوستی کا حق ادا کر دیا، ماضی میں جب ان پر برا وقت آیا ہوا تھا تب پاکستانی ٹیم نے کبھی دورے سے انکار نہیں کیا، اب وہ بھی اس کا جواب دے رہے ہیں، اسی کے ساتھ زمبابوے کو بھی بھلانا نہیں چاہیے، اس کے کھلاڑی بھی ہمیشہ یہاں آئے۔

اب بھی جب سری لنکنز کی ممکنہ واپسی کے حوالے سے خبریں چل رہی تھیں تب جہاز میں بیٹھے ہوئے سکندر رضا نے سوشل میڈیا پر اپنی تصویر جاری کی جس میں پاکستان جانے کا بتایا، ہمیں ایسے ہی دوستوں کی ضرورت ہے، حالیہ واقعے میں بھارتی ہاتھ نظرانداز نہیں کیا جا سکتا جو نہیں چاہتا کہ ہمارے میدان آباد رہیں۔ 

بعض حلقے آئی پی ایل کا اینگل بھی سامنے لا رہے ہیں لیکن ہمیں سری لنکن کرکٹرز کا مثبت پہلو ہی دیکھنا چاہیے کہ وہ مان گئے، پاکستان کرکٹ چند ماہ کے دوران دوسری بار سنگین بحران کا شکار ہوئی۔ 

اس سے قبل ایشیا کپ میں ’’ہینڈ شیک تنازع‘‘پر جب پاکستان نے بائیکاٹ کا ارادہ کر لیا تب بھی ایسا لگتا تھا کہ اس کے سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں اور ملکی کرکٹ جمود کا شکار ہو جائے گی۔ 

البتہ شکر ہے دونوں بار ایسا نہ ہوا، اس میں کامن چیئرمین پی سی بی محسن نقوی تھے، انھوں نے معاملات کو اچھے انداز میں ہینڈل کیا جس سے عالمی سطح پر پاکستان کرکٹ کی ساکھ بہتر ہوئی۔ 

بھارت کو بھی اندازہ ہو گیا کہ پاکستانی اپنی عزت و وقار کیلیے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں، اس سے پہلے ہائبرڈ ماڈل منوانا بھی بڑی کامیابی تھی، میدان سے باہر تو پرفارمنس بہتر رہی لیکن کھیل میں ٹیم اچھا پرفارم نہیں کر رہی تھی، البتہ اب وقت بدلتا دکھائی دے رہا ہے۔ 

ٹرائنگولر سیریز میں فتح اور پھر ایشیا کپ کے فائنل میں رسائی پرانی بات نہیں، البتہ بھارت سے تین شکستیں اس پر حاوی ہو گئی تھیں ، مگر جنوبی افریقہ کے بعد اب سری لنکا کو بھی سیریز میں ہرا کر پاکستان ٹیم درست ٹریک پر واپس آ چکی ہے۔ 

ون ڈے میں شاہین شاہ آفریدی نے اپنی ابتدائی دونوں سیریز جیت کر قیادت کا لوہا منوا لیا، حالیہ سیریز کی سب سے خاص بات بابر اعظم کی 2 سال بعد پہلی سنچری تھی،اس دوران 83 بار انھیں بیٹنگ کا موقع ملا لیکن تہرے ہندسوں میں رسائی نہیں پا سکے تھے۔ 

لوگ یہ بھی باتیں کر رہے تھے کہ زمبابوے کی ٹیم آ رہی ہے تو بابر بھی سنچری بنا دیں گے، البتہ انھوں نے سری لنکا کیخلاف ہی یہ جمود توڑ دیا، پاکستان کرکٹ کیلیے یہ بہت بڑی خوشخبری ہے، آدھے سے زیادہ تو بابر کے مداح ہی میچ دیکھنے آتے ہیں۔ 

حالیہ میچز کے دوران ہم نے یہ بھی دیکھا کہ بابر آؤٹ ہوئے تو بہت سے لوگ اسٹیڈیم چھوڑ کر چلے گئے، ماضی میں ایسا شاہد آفریدی کے وکٹ گنوانے پر ہی ہوا کرتا تھا، ملکی میدان آباد ہیں، بابر کی فارم بھی واپس آ گئی، شائقین کرکٹ کو اور کیا چاہیے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

متعلقہ مضامین

  • وہ چند ہزار
  • ’’آئین نَو‘‘ سے ڈرنے اور ’’طرزِ کہن‘‘ پر اَڑنے والے
  • پاکستان کرکٹ ہمیشہ ناٹ آئوٹ
  • ٹی ٹی پی نہیں، بلکہ ٹی ٹی اے یا ٹی ٹی بی
  • دنیا کو انسانوں کی ضرورت ہے، سپرپاورز کی نہیں
  • کتابو ں سے رومانس
  • سوڈان میں مفادات کی جنگ، انسانیت کی شکست
  • خامہ خرابیاں
  • کون اللہ میاں