Express News:
2025-11-16@23:00:58 GMT

’’آئین نَو‘‘ سے ڈرنے اور ’’طرزِ کہن‘‘ پر اَڑنے والے

اشاعت کی تاریخ: 17th, November 2025 GMT

علامہ محمد اقبال ؒ ، جنہیں اہلِ ایران محبت سے اقبالِ لاہوری کہتے ہیں،ہمارے قومی شاعر ہیں۔ اُنہیں جدید دَور کے علمائے فلاسفہ میں بھی بلند مقام حاصل ہے ۔ ہم اُنہیں شاعرِ مشرق ، حکیم الامت اور یکے از بانیِ پاکستان کے خوبصورت اور دلکش ناموں سے بھی یاد کرتے اور پکارتے ہیں ۔ اِس موقع پر مجھے ’’اقبال کے حضور‘‘ نامی ایک نہائت شاندار تصنیف یاد آ رہی ہے ۔ اِسے جناب سید نذیر نیازی نے تحریر کیا۔یہ دراصل علامہ اقبال کے دولت کدے پر برپا لاتعداد مجالس کی ڈائری ہے ۔

سید نذیر صاحب مرحوم اِن بلند علمی مجالس میں باقاعدہ شریک ہوتے تھے ۔ حکیم الامت کی زبان سے جو کچھ بھی سُنتے ، ڈائری میں لکھ لیتے اور بعد ازاں علامہ اقبال کو اپنے لکھے الفاظ دکھا اور پڑھا کر اِسے محفوظ کر لیتے ۔ یہی محفوظ الفاظ بعد ازاں کتابی شکل میں ’’اقبال کے حضور‘‘ کے زیر عنوان شائع ہُوئی ۔ اِس دلکشا تصنیف میں ہم علامہ اقبال ؒ کو اپنے کلام ، نظریات اور افکار کی تشریح وتفسیر اور گرہ کشائی فرماتے دیکھتے ہیں ۔مذکورہ تصنیف میں مصنف نے، محبت و احترام سے، علامہ اقبال ؒ کو ہر جگہ ’’حضرت علامہ‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے ۔

یہی بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر ، فلسفی اور ہمارے نظریہ ساز، علامہ اقبالؒ، اپنے ایک معروف شعر میں فرماتے ہیں کہ دُنیا میں وہی قومیں اپنی منزل پر پہنچنے میں رکاوٹوں اور کٹھن کا سامنا کرتی ہیںجو آئینِ نَو سے ڈرتی اور طرزِ کہن پر اَڑتی ہیں ۔

یہ طرزِ فکر و عمل ٹھیک نہیں ہے : آئینِ نَو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اَڑنا/ منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں! حضرت علامہ ؒ نے تو ہمیں شعر کی زبان میں ہمارے اجتماعی مرض کی نشاندہی کرتے ہُوئے مدتوں قبل فرما دیا تھا کہ آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی راہ میں کونسے عناصر ’’کٹھن‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اب جب کہ آئینِ پاکستان میں 27ویں ترمیم کی صورت میں ’’آئینِ نَو‘‘ سامنے آ چکا ہے ، دونوں ایوانوں سے منظور بھی ہو چکا ہے اور صدرِ مملکت اِس پر دستخط بھی فرما چکے ہیں تو پرانے آئین پر بدستور اَڑنے اور اَکڑنے کی ضرورت کیا باقی رہ جاتی ہے ؟

لیکن نہیں صاحب ! بعض لوگ ’’آئینِ نَو‘‘ سے ڈرتے ہُوئے اور اپنی طرزِ کہن پر اَ ڑتے ہُوئے اپنے بلند عہدوں سے مستعفی ہورہے ہیں ۔ حالیہ27ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں سپریم کورٹ سے اپنے بلند عہدوں سے بطورِ احتجاج مستعفی ہوتے ہُوئے جن دو صاحبان نے بنامِ صدر جو خطوط لکھے ہیں(ویسے دورانِ ملازمت بھی خط لکھنا ان کا خاص مشغلہ رہا )، اِن خطوط کا بالاستعیاب مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اعلیٰ ترین عہدوں اور اعلیٰ ترین مراعات کی حامل ملازمتوں سے رخصت ہوتے ہُوئے اُنہیں خوش رنگ ’’چمن‘‘ کی یاد بھی شدت سے آتی رہی۔

اگر یہ کہا جائے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم کے فلیش بَیک میں مستعفی ہونے والے معزز افراد کے یہ احتجاجی خطوط دراصل ’’دُکھے دِلوں کی فریاد ‘‘ اور صدا ہے تو اِسے بے جا بھی نہیں کہا جائیگا ۔ استعفیٰ دینے والے دو صاحبان میں سے ایک بڑے صاحب کا دُکھی خط تومبینہ طور پر 13صفحات کو محیط ہے ۔ اِسی سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ چوٹ کتنی گہری ہے اور رُخصتی کسقدر بادلِ نخواستہ ہے ۔ آئینِ نَوسے ڈرنے اور طرزِ کہن پر اَڑنے پر مُصر اِن مستعفی حضرت نے دُکھے دِل اور اپنے ’’ضمیر کی آواز‘‘ کی عکاسی کرتے ہُوئے کچھ اشعار بھی شاملِ خط کیے ہیں ۔ مثلاً:’’مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی/ مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے‘‘۔ وغیرہ۔

ستم ظریف اور’’ بیدرد‘‘وفاقی وزیر دفاع، خواجہ محمد آصف، نے اِس خط اور اشعار پر ردِ عمل دیتے ہُوئے ’’ایکس‘‘ پر لکھا:’’ یہ شعر اُس وقت کیوں یاد نہ آئے جب انصاف کا قتلِ عام ہورہا تھا؟ جب ایک ٹولہ مل کر آئین اور قانون کے محافظ کی بجائے کسی کے سیاسی مفادات کے محافظ بنے ہُوئے تھے ۔ یہ سیاسی پارٹی کے ورکر بنے ہُوئے تھے ۔‘‘خواجہ صاحب نے ردِ عمل دیتے ہُوئے بعض ایسے الفاظ بھی ’’ایکس‘‘ پر لکھ مارے ہیں جن کا ہم یہاں اعادہ نہیں کر سکتے ۔ اتنا مگر ضرور ہے کہ خواجہ صاحب کے یہ الفاظ سُن اور پڑھ کر مستعفی حضرات مزید دُکھی ہُوئے ہوں گے ۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں جو صاحبان بھی مستعفی ہُوئے ہیں، عوام میں اُن کے استعفے پذیرائی حاصل کر سکے ہیں نہ اُنہیں عوام کی ہمدردیاں حاصل ہو سکی ہیں ۔

عوام کے مصائب اور دُکھوں سے لاتعلقی کا یہی نتیجہ نکلتا ہے ، مگر جب اقتدار اور اختیار کے شہ زور گھوڑے پر انسان بیٹھا ہو تو اُسے بیکس اور انصاف سے محروم طبقات و افراد کہاں نظر آتے ہیں ؟ وقت کا سفاک اور بیدرد کارواں مگر تھمتا نہیں ہے ۔ دو جسٹس صاحبان کے استعفے اگر سامنے آئے ہیں تو نئی وفاقی آئینی عدالت کے نئے سربراہ ، جناب جسٹس امین الدین خان ، اور تین جج صاحبان بھی اگلے تین برسوں کے لیے حلف بھی اُٹھا چکے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان صاحب کو وفاقی آئینی عدالت کا پہلا سربراہ بننے کا شرف ملا ہے ۔ ساتھ ہی لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج صاحب بھی مستعفی ہونے والوں کی ٖفہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔

آئینِ نَو سے ڈرنے اور طرزِ کہن پر اَڑیل ٹٹو کی طرح اَڑنے والے کچھ افراد ، گروہ اور عاقبت نااندیش ہماری مغربی سرحد کے پار بھی بَس رہے ہیں ۔ یہ لوگ اب افغان طالبان، ٹی ٹی پی ، ٹی ٹی اے ، فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں ۔ مہلک ، لالچی اور اجتماعی طور پر اُمتِ اسلامیہ و اُمتِ پاکستان کے خلاف عناد پر آمادہ مذکورہ گروہوں کا خیال ہے کہ طرزِ کہن پر اَڑے رہنے ہی میں وہ اپنے نجی، گروہی ، بھارتی اور اسرائیلی مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں ۔

پاکستان کے خلاف یہی لالچ افغانستان کے مقتدر طالبان مُلّاؤں اور ملوانوں کے وزیر خارجہ، امیر متقی، کو بھارت لے گیا ۔ اور اب اِنہی پاکستان دشمن افغان طالبان رجیم کے نائب وزیر اعظم ، مُلّا عبدالغنی برادر، نے طرزِ کہن پر اَڑے رہنے کی جبلّت کا ثبوت فراہم کرتے ہُوئے 12نومبر2025ء کو اعلان کیا ہے :’’ ہم پاکستان کے ساتھ اپنی جملہ لین دین بند کررہے ہیں۔‘‘برادر کشی کردار کے حامل،عبدالغنی برادر، نے افغان تاجروں کویہ بھی تنبیہ کی ہے کہ ’’ اگلے تین ماہ کے اندر (پاکستان سے ) اپنا تجارتی حساب کتاب بیباک کرو اور تجارت کے لیے نئے ممالک میں نئے راستے تلاش کرو، وگرنہ (پاکستان کے معاملے میں ) ہم کسی افغان تاجر و ٹریڈر کی مدد نہیں کر سکیں گے ۔‘‘

افغان نائب وزیر اعظم کے مذکورہ بیان کا پاکستان نے مناسب ترین اور ترنت جواب دیا ہے ۔ خواجہ آصف نے بھی خوب کہا ہے کہ ’’افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ہمیں نقصان پہنچا رہی ہے ۔‘‘ مُلّا عبدالغنی برادر(جو کبھی برسوں پاکستان کی مفت روٹیاں کھاتا اور پاکستانی اداروں کی میزبانیوں سے بے تحاشہ لطف اندوز ہوتا رہا ہے ) نے مذکورہ اعلان کرکے دراصل بھارت، بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور بھارتی اُجیت ڈووَل کی زبان بولی ہے۔ اِس اعلان کے بعد راقم نے کئی بھارتی اخبارات کا مطالعہ کیا ہے ، سبھی عبدالغنی برادر پر نہال ہو رہے ہیں ۔

گویا افغانستان کی غیر نمایندہ حکومت کے عبوری وزیر خارجہ (امیر خان متقی) کے دَورئہ بھارت کے نتائج نکلنا شروع ہو گئے ہیں ۔ حیرت کی بات مگر یہ ہے کہ افغان نائب وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ ہر قسم کی تجارت بند کرنے کا اعلان کررہا ہے اور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اپنے ’’ امن جرگہ‘‘ ( منعقدہ 12 نومبر2025) میں مطالبہ کرتی سنائی دے رہی ہے کہ ’’افغانستان کے ساتھ سارے تجارتی راستے کھولے جائیں ۔‘‘ ایسے ہی موقع پر شائد بولا جاتا ہے: ناطقہ سر بگریباں ہے کیا کہیئے!ہم سمجھتے ہیں کہ مُلّا برادر کا اعلان پاکستان کے لیے Blessing in Disguise ہے ۔ خس کم ،جہاں پاک۔شائد اِسی لیے ہمارے وزیر دفاع نے بھی کہا ہے :’’افغانستان سے آمدورفت کم ہوگی تو پاکستان میں دہشت گردی بھی کم ہوگی۔‘‘ اور اگر ہم روزنامہ ’’ایکسپریس ٹربیون‘‘ میں 14 نومبر2025ء کو ممتاز رپورٹر شہباز رانا کی رپورٹ بالتفصیل پڑھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ مُلّا برادر کے اعلان پر اگر پوری طرح عمل ہوتا ہے تو افغانستان ہی کو بھاری تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دیکھ لیں افغان طالبان طرزِ کہن پر اَڑ کر !!

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عبدالغنی برادر علامہ اقبال پاکستان کے مستعفی ہ بھارتی ا کہن پر ا ا نہیں ہیں کہ

پڑھیں:

غیرقانونی امیگریشن برداشت نہیں، دستاویزات کے بغیر کسی کو سفر کی اجازت نہ دی جائے: وزیر داخلہ

لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ غیر قانونی امیگریشن برداشت نہیں کی جائے گی، ضروری دستاویزات کے بغیر کسی مسافر کو سفر کی اجازت نہ دی جائے۔ 

نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر برائے اوورسیزپاکستانیز چوہدری سالک  حسین نے لاہور ائیرپورٹ کا اچانک دورہ کیا، دونوں وزراء 2 گھنٹے تک لاہور ائیرپورٹ پر موجود رہے اور امیگریشن پراسیس کا مشاہدہ کیا۔ 

اس موقع پر وزیر داخلہ نے امیگریشن کاونٹرز پر رش دیکھ کر اظہار ناراضگی کیا اور  پراسیس جلد نمٹانے کے احکامات جاری کیے۔ 

لیبیا کے ساحل پر تارکین وطن کی دو کشتیاں الٹ گئیں، 4 افراد ہلاک

وفاقی وزرا نے بیرون ممالک جانے والے مسافروں سے بات چیت کی، امیگریشن پراسیس سےمتعلق پوچھا، وفاقی وزیر سالک حسین نے سفری دستاویزات پر پروٹیٹکرسٹیکرز چیک کیے۔

اس دوران ڈرائیورکی ملازمت کے لیے بیرون ملک جانے والے نوجوان کو ڈرائیونگ لائسنس نہ ہونے روک دیا گیا جبکہ وفاقی وزیر سالک حسین نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انکوائری کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ پروٹیٹکرکے تحت مسافروں کی متعلقہ ملازمت کی دستاویزات کی تصدیق کی جائے۔ 

رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے اہلکارکی مبینہ ملی بھگت سےبیرون ملک جانے والے مسافر کو امیگریشن کاونٹرپر روکا گیا اور آف لوڈ کیے گئے مسافر کو نجی کمپنی کو ادا کی گئی رقم واپس دلانے کی یقین دہانی کروائی گئی۔ 

مولانا فضل الرحمان نے مرکزی مجلس شوریٰ کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا

 وفاقی وزیرداخلہ نے دونوں نوجوانوں کو روکنے والے امیگریشن اہلکاروں کو بلا کر شاباش دی،  اپنی جیب سے انعام دیا اور تعریفی سرٹیفکیٹس بھی دینے کا اعلان کیا۔ 

اس موقع پر محسن نقوی نے کہا کہ ضروری دستاویزات کے بغیر کسی بھی مسافر کو سفر کی اجازت ہرگز نہ دی جائے، غیرقانونی امیگریشن قطعاً برداشت نہیں ہوگی۔

محسن نقوی کا کہنا تھا ملک کی بدنامی کا باعث بننے والے کسی مسافر کو سفر کی اجازت نہیں دی جائے گی جبکہ ایف آئی اے یا کسی بھی ادارے کے ملوث اہلکاروں کے خلاف سخت ایکشن ہوگا۔

پاکستان اور سری لنکا کے درمیان سیریز کا آخری ون ڈے آج کھیلا جائے گا

مزید :

متعلقہ مضامین

  • اندھی گولیاں، خودکشیاں اور ہلاکتیں
  • خیبر پختونخوا حکومت دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے بجائے بہانے بنا رہی ہے، احسن اقبال
  • حکومت قیدی 804کا نمبر تبدیل کر کے 420کر دے، احسن اقبال
  • ملک کی بدنامی کا باعث بننے والے کسی مسافر کو سفر کی اجازت نہیں دی جائیگی: محسن نقوی
  • غیرقانونی امیگریشن برداشت نہیں، دستاویزات کے بغیر کسی کو سفر کی اجازت نہ دی جائے: وزیر داخلہ
  • کالج پر حملہ کرنے والے درندے، دہشتگردوں سے کوئی بات نہیں ہوگی: محسن نقوی
  • ورلڈ سنوکر چیمپئن شپ: محمد آصف ایونٹ سے باہر، اعزاز کا دفاع کرنے میں ناکام
  • جی20 اجلاس خطرے میں! تین بڑی عالمی شخصیات نے شرکت سے انکار کر دیا
  • آئندہ تعمیرات ’’گرین بلڈنگ‘‘ کوڈ کے تحت ہونگی: احسن اقبال