Juraat:
2025-08-17@15:51:41 GMT

ٹرمپ ۔۔مودی اور پوتن

اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT

ٹرمپ ۔۔مودی اور پوتن

ڈاکٹر سلیم خان

صدرڈونلڈٹرمپ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے تعلقات میں شدیدسر دمہری بلکہ دشمنی جیسی کیفیت کی وجہ آخر سامنے آہی گئی۔امریکہ کے ایک معتبر جریدے بلوم برگ نے دعویٰ کیاہے کہ ٹرمپ اور نریندر مودی کے درمیان 17 جون کو 35 منٹ طویل گفتگو نے سارا کھیل بگاڑ دیا۔ جی 7 سمٹ سے صدر ٹرمپ درمیان میں لوٹ گئے اس لیے وزیر اعظم نریندر مودی سے ان کی ملاقات نہیں ہوسکی ۔ ٹرمپ نے واپس آنے کے فوراً بعدمودی کو امریکہ آنے کی دعوت دی جوانہوں نے مسترد کردی۔ وزیر اعظم نریندر مودی کا معمول ہے کہ وہ ایک دورے پر جاتے ہیں تو راستے میں کچھ اور لوگوں سے مل لیتے ہیں ۔ جی ٧ کے لیے جاتے ہوئے موصوف سائپرس گئے تھے اور واپسی میں انہیں کروشیا جیسے غیر اہم ملک سے ہوکرآنا تھا ایسے میں کینیڈا سے لوٹتے ہوئے ٹرمپ کی دعوت پر امریکہ جانا ان کے لیے سعادت کی بات تھی توآخر کس چیز نے انہیں مذکورہ ملاقات سے روک دیا؟
بلومبرگ کے مطابق مودی جی کو یہ خدشہ لاحق ہوگیا کہ کہیں ٹرمپ ان سے وہاں موجودپاکستان کے فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات نہ کروادیں۔ مودی جی کو اس ملاقات کے منفی نتائج کا اندازہ ہوگیا۔ ان دونوں کے سامنے ٹرمپ اگر اپنا جنگ رکوانے کا دعویٰ دوہراتے تو عاصم منیر تائید کردیتے اور مودی کے لیے دھرم سنکٹ ہوجاتا۔ ملک میں حزب اختلاف اور عوام دونوں کے سامنے جاناان کے لیے مشکل ہوجاتا اس لیے انہوں نے بجا طور پر معذرت چاہ لی مگراس فون کال کے بعد وائٹ ہاؤس کا لہجہ تبدیل ہوگیا۔ وہ مودی اور ٹرمپ کے درمیان گفت و شنید تھی۔ آپریشن سیندور کے دوران بھی ہندوستانی وزیر خارجہ نے امریکہ کے نائب صدر وینس کی مودی سے بات چیت کا اعتراف کیا حالانکہ وہ دونوں ہم منصب نہیں ہیں۔ مودی کے ذریعہ ٹرمپ کی دعوت ٹھکرانے کے بعد قصرِ ابیض نے کہا کہ بھارت سے ہم آہنگی ممکن نہیں تاہم بات چیت جاری رہے گی۔
اناپرست ٹرمپ نے اس انکار کو اپنی توہین مان کر ہندوستان کے خلاف محاذ کھول دیااور ٹیرف دوگنا ہوگئے ۔یہ مہم بڑے غلط وقت پر شروع ہوئی کیونکہ ٹرمپ بھول گئے بہت جلد یعنی تین ہفتہ بعد ہی ایس سی او اجلاس 31 اگست اور یکم ستمبر 2025 کو چین میں منعقد ہوگا۔ چینی وزارت خارجہ کے مطابق، اجلاس میں 20 سے زائد ممالک کے سربراہان اور 10 بین الاقوامی تنظیموں کے رہنما شرکت کریں گے اور وزیر اعظم نریندر مودی بھی اس شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے چین جا نے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے 2018 میں وزیر اعظم مودی نے چین کا دورہ کیا تھا۔15 جون 2020 کو مشرقی لداخ کی گلوان وادی میں چینی فوج کے ساتھ جھڑپ کے دوران ہندوستان کے 20 فوجی جوان ہلاک ہو گئے تھے ۔ موجودہ معاہدے کے تحت یہ تصادم بغیر ہتھیاروں کے ہوا تھا جس میں چینی افواج کو بھی بھاری نقصان پہنچا لیکن اس نے کبھی سرکاری طور پر اسے تسلیم ہی نہیں کیا۔ اس واقعے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی آ گئی تھی اور ہندوستان کا جھکاو امریکہ کی جانب بہت بڑھ گیا تھا مگر ٹرمپ کی ناعاقبت اندیشی نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا اور بازی الٹ گئی۔
گلوان وادی میں ہند و چین افواج کے درمیان پرتشدد جھڑپ کے بعد پہلی بار مودی چین جارہے ہیں تو اس دورے کو ہندوستان اور چین کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔ویسے وزیر اعظم مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کی آخری ملاقات اکتوبر 2024 میں روس کے اندر منعقدہ برکس سربراہی اجلاس کے دوران ہوئی تھی۔ برکس امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی آنکھ کا کانٹا ہے ۔ ا ن کے مطابق برکس ممالک ڈالر کو کمزور کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ٹرمپ ابھی پچھلے مہینے بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ برکس کا قیام ہمارے نقصان کے لیے اور امریکی ڈالر کو گرانے کے لیے کیا گیا تھا۔ ڈالر کا وقار چھن جانا گویا کسی عالمی جنگ میں شکست کھانے کے مترادف ہے ۔ یہ ایک حقیت ہے کہ اس سے امریکہ کی عالمی برتری خاک میں مل جائے گی اس لیے وہ ڈالر کو گرنے نہیں دیں گے لیکن دنیا ان کی مرضی سے تو نہیں چلتی۔ قوموں کا زوال ان کی مرضی کا محتاج نہیں ہوتا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ مشیت خود انہیں سے قبرکھدوا کر اس میں دفن کردیتی ہے ۔ امریکہ فی الحال اسی مکافاتِ عمل کا شکار نظر آتا ہے ۔
ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے اپنے امریکی دورے پر جب اعلان کیا کہ وہ ڈالر ہی میں کاروبار کریں گے تو ٹرمپ نے محسوس کیا یہ برکس کی کمزورکڑی ہے ۔ انہوں نے سوچا ہوگا کہ ہندوستان پر دباو ڈال کر اسے توڑا جاسکتا ہے اور وہیں سے یہ رسوائی کا کھیل شروع ہوگیا لیکن وہ بھول گئے کہ ایک خاص حد تک کھینچنے سے رسیّ ٹوٹ جاتی ہے اور ٹرمپ کی حماقت نے نہ صرف ہند امریکی تعلقات کو برباد کیا بلکہ ایک حلیف کو اپنے دشمن روس وچین کا دوست بنادیا۔ برکس نے جب اپنی کرنسی کا اعلان کیاتو امریکہ میں کھلبلی مچ گئی کیونکہ امریکی معیشت ویسے بھی قرض میں ڈوبی ہوئی ہے اور اس پر سب سے زیادہ قرض حریف اول چین کا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یوروپ کے ممالک اپنی مشترکہ کرنسی یورو بناکر اس میں کاروبار کرسکتے ہیں تو برکس میں شامل ممالک ایسا کیوں نہیں کرسکتے ؟ ویسے بھی دنیا بھر کے ممالک برکس کی جانب متوجہ ہورہے ہیں اور اس کے ارکان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی نے سات سال بعد چین جانے کا اعلان کرکے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے زخموں پر نمک چھڑکنے کاکام کیاہے ۔ موصوف 31 اگست کو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے چینی شہر تیانجن جائیں گے ۔ ویسے تو چین مودی کے پسندیدہ ممالک میں سے ایک ہے کیونکہ وہ ہندوستان میں بھی اسی طرح کی آمریت نافذ کرنا چاہتے ہیں ۔ وزیر اعظم بننے کے بعد انہوں نے چینی سربراہ کو ہندوستان بلا کر جھولا جھلایا مگر جن پنگ نے واپس جاکر ڈوکلام میں حملہ کروادیا۔ اس کے باوجود مودی نے جون 2018 کے اندر شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی غرض سے چین کا دورہ کیا۔2020 میں گلوان سرحد پر جھڑپوں نے یہ سلسلہ بند کروادیا۔پچھلے برس اکتوبر میں روس کے اندر برکس سربراہی اجلاس کے موقع پر نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کی ملاقات سے کشیدگی میں کمی ہوئی۔ اس کے بعد آپریشن سیندور میں چین نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا مگر مودی کا اس کو بھول کر چین جانا ان کی سفارتی مجبوری اور امریکہ سے ناراضی کا غماز ہے ۔
ایس او سی کانفرنس میں امریکہ کا ایک اور دشمن روس بھی موجود ہوگا۔ اس دورے کا ہندوستان اور امریکہ کے تعلقات پر کیا اثر پڑے گا اس کا اندازہ اس وقت ہوگا جب مودی جی اقوام متحدہ کے اجلاس میں شریک ہونے کے لیے امریکہ جائیں گے ۔ فی الحال ہند امریکہ تعلقات میں سنگین کشیدگی کی پہلی وجہ تویہ ہے کہ درآمدی اشیاء پر ایشیا میں سب سے زیادہ تجارتی ٹیرف ہندوستان عائد کیا گیا ہے اور اوپرسے روسی تیل کی خریداری پر صد فیصد جرمانہ کی دھمکی بھی دی گئی ہے ۔صدر ٹرمپ کے اعلیٰ سفارتی نمائندے اسٹیو وٹکوف اس وقت ماسکو میں موجود ہیں، جہاں وہ اُس ڈیڈلائن سے محض دو روز قبل مذاکرات کر رہے ہیں جو صدر ٹرمپ نے روس کو یوکرین میں امن معاہدہ طے کرنے کے لیے دی تھی، بصورتِ دیگر روس کو نئی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا ہو گا۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ اس بیچ پوتن اور ٹرمپ کی ملاقات کے چرچے بھی ہونے لگے ۔ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی سٹیو وٹ کوف کے ساتھ پوتن کی تین گھنٹے طویل ورکنگ میٹنگ کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان آمنے سامنے ملاقات کے منصوبہ سامنے آیا۔اس ملاقات میں کوئی بھی یورپی ہم منصب شریک نہ ہوگا بلکہ ٹرمپ کے ساتھ صرف پوتن اور زیلنسکی موجود ہوں گے ۔
صدر ٹرمپ تو ایک دن کے اندر جنگ روکنے والے تھے ۔ اس کے لیے انہوں نے یوکرین کے صدر زیلنسکی کوقصرِ ابیض میں ڈانٹ پھٹکار بھی لگائی مگر وہ نہیں جھکے اور اس طرح خود ٹرمپ رسوا ہوگئے ۔ اپنی ناکامی کا نزلہ ہندوستان پر اتارنا خلافِ انصاف ہے مگریہ کہنے کی ہمت مودی سرکار میں نہیں ہے ۔ اس کے باوجود ٹرمپ نے حکومت ہند کو عملی اقدامات کے لیے ضرور مجبور کردیا ہے مثلاً مودی کے جیمز بانڈ اور حکومت ہند کے مشیرِ قومی سلامتی اجیت دوول کا ایک طے شدہ دورے پر روس پہنچ کرروسی تیل کی خریداری سے متعلق ہندوستانی موقف واضح کرنا ۔ اجیت دوول کی اپنے روسی ہم منصب سے ملاقات ایک فطری امرہے اور اس میں دفاعی تعاون پر بات چیت بھی لازمی ہے ۔ ان کے ایجنڈا میں روسی ایس 400 فضائی دفاعی نظام کی بھارت کو تیز تر فراہمی اور صدر ولادیمیر پوتن کے ممکنہ دورئہ بھارت پر گفتگو بھی ہوئی۔ قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ہندوستانی دورے کی تصدیق تو کردی مگرتاریخوں کا ذکر نہیں کیا مگر انٹرفیکس نیوز ایجنسی کے مطابق یہ دورہ اگست کے اواخر میں متوقع ہے ۔ ویسے اجیت دووال نے صدر پوتن کے ہندوستان آنے کی خبر سے خوش اور پرجوش ہونے کا اعلان کرکے امریکی صدرکے زخموں پر نمک مل دیا ۔اس آگ میں گھی ڈالنے کے لیے کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے روس کے ساتھ تجارتی تعلقات توڑنے پر مجبور کرنے کو غیر قانونی بتادیا اور اب امریکہ اور ہندوستان کی دوستی کا استوار ہونا نہایت مشکل ہوگیا ہے ۔
٭٭٭

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: کے اجلاس میں کے درمیان مودی اور کے مطابق انہوں نے کے اندر کے ساتھ ٹرمپ کی مودی کے ٹرمپ کے چین کا کے لیے اور اس کے بعد ہے اور

پڑھیں:

بھارت ٹوٹنے کے قریب؟ واشنگٹن میں خالصتان کے حق میں ریفرنڈم آج ہو گا

واشنگٹن:

بھارت کی اقلیت دشمن پالیسیوں کے خلاف سکھ برادری کی عالمی سطح پر مزاحمت میں شدت آ گئی ہے، آج امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں خالصتان ریفرنڈم کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس میں امریکہ بھر سے ہزاروں سکھوں کی شرکت متوقع ہے۔

یہ ریفرنڈم سکھس فار جسٹس (SFJ) کے زیر اہتمام منعقد کیا جا رہا ہے، جو خالصتان تحریک کی ایک سرکردہ تنظیم ہے۔ اس ریفرنڈم کا مقصد سکھ قوم کے آزاد وطن خالصتان کے قیام کے لیے عوامی رائے کو اجاگر کرنا ہے۔

SFJ  کے رہنماؤں نے ایک پریس کانفرنس میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت نہ صرف بھارت کے اندر اقلیتوں کو نشانہ بنا رہی ہے بلکہ بیرونِ ملک سرگرم خالصتان کے حامیوں کو بھی دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خالصتان تحریک کے مرکزی رہنما گرپتونت سنگھ پنن کو ایک خط لکھا ہے جس میں امریکہ میں موجود سکھ شہریوں کے تحفظ کی مکمل یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

اس اقدام کو خالصتان تحریک کی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی مقبولیت کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔

کینیڈا، امریکہ اور آسٹریلیا میں حالیہ دنوں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے ان نیٹ ورکس کو بے نقاب کیا گیا ہے جو مبینہ طور پر خالصتان کے حامی سکھوں کو نشانہ بنانے میں ملوث ہیں۔ ان انکشافات کے بعد بھارت کی عالمی ساکھ کو شدید دھچکا لگا ہے۔

منتظمین کے مطابق یہ ریفرنڈم ایک پرامن اور جمہوری عمل ہے جس کے ذریعے عالمی برادری کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ سکھ قوم اب مزید بھارتی مظالم برداشت کرنے کو تیار نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ٹیرف جاری رہے تو امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے گا، اشوک کمار متل
  • امریکہ اور بھارت کا تجارتی تنازعہ شدت اختیار کرگیا، ٹرمپ نے مذاکرات منسوخ کردیئے
  • عنوان: موجودہ عالمی حالات
  • بھارت ٹوٹنے کے قریب؟ واشنگٹن میں خالصتان کے حق میں ریفرنڈم آج ہو گا
  • مڈل کلاس سیاست
  • مودی کا جنگی جنون
  • یوکرین جنگ: پوتن ٹرمپ ملاقات اور یو این کا تنازع کے منصفانہ حل پر زور
  • پیوٹن، ٹرمپ اور چین۔آخری کھیل شروع، مودی کے لیے خطرے کی گھنٹی
  • امریکی ماہرِ معیشت کی مودی کو تنبیہ: چین مخالف امریکی ایجنڈے کا مہرہ نہ بنیں