زندہ رہنے کے لیے جنگل اگائیں!
اشاعت کی تاریخ: 18th, August 2025 GMT
1979میں آسام میں خوفناک سیلاب آیا تھا۔ آبادیاں‘ درخت ‘ مال مویشی سب کچھ قدرت کے ہاتھوں بے بس ہو چکا تھے۔ اس وقت کی حکومت‘ اپنے تئیں ‘ عام لوگوں کو پانی کے عذاب سے محفوظ رکھنے کے لیے بھرپور کوشش کر رہی تھی۔ مگر پاک و ہند کے تمام اکابرین‘ عوام کے تحفظ کے لیے بے جان سے اقدامات کرتے ہیں۔
سیلاب کے بعد‘ گرمی کی شدت میںبھی اضافہ ہو چکا تھا۔ بحالی کا کام بہر حال جاری تھا۔ تباہ شدہ علاقے میں ایک سولہ برس کا نوجوان بھی تھا۔ جس کانام یادیو پیانگ تھا۔ واجبی شکل و صورت رکھنے والا لڑکا‘ کسی کی دوسری نظر کا مستحق نہیں تھا۔ چوڑی چپٹی ناک‘ کالا بھجنگ رنگ‘ اندر کو دھنسی ہوئیں بے کار سی آنکھیں اور چھوٹا سا قد‘ تعلیم بھی بس واجبی سی تھی۔ مگر جناب‘ یادیو ایک ایسا شخص تھا جو کسی بھی قوم اور معاشرے کے لیے نایاب تحفہ ہوتا ہے۔
سیلاب کے تھوڑے عرصے بعد یادیو کو ایک جگہ بہت سے مرے ہوئے سانپ نظر آئے۔ اسے لگا‘ کہ پانی نے ان سانپوں کی رہنے والی قدرتی جگہ یعنی درختوں کو برباد کر دیا ہے۔ یہ تمام علاقہ دریائے برہم پترا کے ساتھ ایک ریتلہ علاقہ تھا۔ زرخیر مٹی‘ ریت کے نیچے دفن ہو چکی تھی۔ یادیو‘ ایک نزدیکی آبادی میں گیا۔ جہاں بانس کے کچھ درخت لگے ہوئے تھے۔ وہاں سے پچاس ٹہنیاں اتاریں اور ریتلے علاقہ میں بے ترتیبی سے لگا دیں۔
روز آتا۔ بانس کے پودوں کو پانی دیتا اور ان کی حفاظت کرتا۔ اسے لگا کہ تمام کی تمام ٹہنیاں ‘ جڑ پکڑ چکی ہیں۔ تیزی سے بڑی ہو رہی ہیں۔ ان میں نئے پتے بھی نکل رہے ہیں۔ اب ہوا کیا۔ ایک ایسا واقعہ جس نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں درختوں ‘ پودوں اور ان سے منسلک زندگی سے محبت کرنے والوں کو ششدر کر دیا۔ یادیو روز صبح اٹھتا۔ نزدیکی آبادیوں اور چھوٹے چھوٹے منسلک باغوں میں جاتا۔ وہاں کے لوگوں سے نوزائدہ پودے‘ درخت کی ٹہنیاں لیتا ۔ پھر اسی ریتلے علاقہ میں آجاتا جہاں اس نے پچاس بانس کے پودے ایستادہ کیے تھے۔
روز کئی کلو میٹر پیدل چلتا اور دریا کے نزدیکی بنجر علاقوں میں پودے لگاتا چلا جاتا۔ جگہ جگہ پر ٹہنیاں بھی لگا دیتا۔ یہ تمام کام ‘ یادیو کی زندگی کا مقصد بن چکا تھا۔ چند مقامی لوگ‘ اسے دیوانہ سمجھتے تھے۔ مگر بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو یادیو کو ایک اچھا انسان سمجھتے تھے۔ اسے پودے مفت فراہم کرتے تھے۔ یادیو ایک مشین کی طرح وسیع علاقے میں بس پودے لگاتا جاتا تھا۔ اس سارے عمل میں تیس برس گزر گئے۔ یعنی یہ کوئی ایک دو برس کی بات نہیں۔ بلکہ ایک انسانی زندگی کے بہترین سالوں کی کہانی ہے۔
ہر نوجوان بچپن میں کوئی نہ کوئی خواب دیکھتا ہے۔ کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا ہے۔ کوئی انجینئر اور کوئی سرکاری افسر۔ ہر انسان کے اپنے ذاتی خواب ہوتے ہیں۔ جو کبھی اس کی عملی زندگی میں پورے ہو جاتے ہیں۔ اور کبھی ادھورے رہ جاتے ہیں۔ عملی زندگی کی راہداریاں‘ انسان کو ان جانی پگڈنڈیوں پر لے جا کر کیا سے کیا بنا ڈالتی ہیں۔ جو نوجوان اسٹوڈیو میں ہیرو بننے آتا ہے‘ وہ وہیں‘ اسٹوڈیو کے باہر‘ چائے بیچنے والا بن جاتا ہے۔ پھلوں کو فروخت کرنے والا نوجوان ‘ قدرت اور محنت کے ہاتھوں دلیپ کمار بن جاتا ہے۔دراصل قدرت کے سامنے‘ ہم سارے کچی مٹی کے مجسمہ سے ہوتے ہیں۔
وہ ہمیں‘ ایک ماہر کمہار کی طرح‘ نت نئے سانچے میں ڈھال دیتی ہے۔ جس کا ہمارے بچپن کے خوابوں سے دور دور کا تعلق نہیں ہوتا۔ مگر یادیو کا صرف ایک ہی خواب تھا۔ دریائے برہم پترا کے ساتھ علاقہ میں مسلسل درخت لگاتے رہنا۔ اور اسے دنیا کے سامنے ایک جنگل بنا کر دکھانا۔ اس کی محنت بلکہ ریاضت رنگ لائی۔
تین دہائیوں کی شب و روز محنت نے اس کے علاقے کو ایک خوبصورت جنگل میں تبدیل کر دیا۔ ہزاروں نہیں‘ لاکھوں پرندے‘ ہرے بھرے درختوں پر منتقل ہو گئے۔ ان گنت درندے بھی وہاں حفاظت سے زندگی بسر کرنے لگے۔ جس میں شیر‘ گینڈے ‘ چیتے بھی تھے۔ سیکڑوں ہرن بھی وہاں موجود ہیں۔ جب عام لوگوں نے یہ کارنامہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تو انھوں نے اپنے پالتو جانور اور پرندے بھی یادیو کے جنگل میں چھوڑ دیے۔
مگر کمال کی بات ہے کہ آسام کی حکومت کو پورے تیس برس معلوم ہی نہ ہوا‘ کہ ایک دیہاتی نوجوان نے کتنا بڑا کارنامہ انجام دے ڈالا ہے۔ ویسے ہمارے خطے کی حکومتیں‘ تقریباًایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔ نااہل ‘ نکمی‘ نکھٹو اور کرپٹ۔ 2008میں آسام کے جنگلات اور جانوروں کے تحفظ کے محکمہ کو معلوم ہوا کہ ان کے ایک سرکاری ذخیرے سے ایک سو پندرہ ہاتھی غائب ہیں۔ بابوؤں کو کچھ سمجھ نہیں آیا۔ اخباروں میں سرکاری محکمہ کی نااہلی اور نالائقی کے چرچے ہونے لگے۔ جب سرکاری بابوؤں کے پاس کوئی چارہ نہیں رہا تو انھوں نے ہاتھی ڈھونڈنے شروع کر دیے۔
انھیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے ‘ یادیو کے جنگل تک پہنچ گئے۔ جب انھوںنے یہ ذخیرہ دیکھا تو حیران رہ گئے۔ ان کے کاغذوں میں تو یہ ‘ ریتلہ علاقہ تھا۔ مگر وہاں تو ہر طرح کے جانور اور پرندے بڑے سکون سے زندگی گزار رہے تھے۔ ان کے گمشدہ ہاتھی بھی وہاں موجود تھے۔ جب سرکار کو یہ معلوم ہوا کہ ان کے کرنے کا کام‘ ایک نیم خواندہ نوجوان ‘ تیس برس سے مسلسل کرتا جا رہا ہے۔ تو اس کی تعریف کے ڈونگرے بجنے لگے۔ درباری بابو‘ یادیو کے گھر پہنچ گئے جو مٹی کا بنا ہوا تھا۔ کوئی کہتا تھا کہ‘ اس نے ‘ یادیوکی تربیت کی کہ وہ پودے لگائے۔ کوئی بابو فرماتا تھا کہ نہیں جناب‘ میں نے یادیو کو پودے لگانے سکھائے۔ مگر سچ صرف یہ تھا کہ اس عظیم نوجوان نے کسی بھی حکومتی مدد کے بغیر ایک جنگل بنایا اور اگا کر دکھایا۔
روزانہ‘ میڈیا میں حکومتی اشتہار دیکھتا ہوں کہ حکومت نے درخت لگانے کی بڑی زبردست مہم شروع کر رکھی ہے۔ کروڑوں روپے صرف اور صرف پبلسٹی پر ضایع کیے جا تے ہیں۔ قلم کار‘ درختوں کی اہمیت بتاتے بتاتے اپنے قلم توڑ چکے ہیں۔ ان کی پند نصیحت کا کوئی بھی اثر نہیں ہو پایا۔ مگر انھوں نے اس اہم ترین موضوع پر لکھنے کا حق ادا کر دیا ہے۔ اصل حقائق حد درجہ ابتر ہیں۔ 1992میں پاکستان میں جنگلات 3.
2025میں وہ صرف 3ملین ہیکٹر رہ چکے ہیں۔ بین الاقوامی اداروں کے مطابق‘ ہمارا ملک‘ گیارہ ہزار ایکڑ جنگل ہر برس‘ ضایع کر رہا ہے۔ یعنی جنگلات کا حجم خطرناک حد تک کم ہو چکا ہے۔ قیامت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جنگلات‘ پورے رقبہ کا محض پانچ فیصد ہیں۔ ہمسایہ ملک میں یہ نسبت بیس فیصد ہے۔ چین میں یہ چوبیس فیصد ہے۔ دیگر ممالک میں جنگلات کی شرح‘ ہر سال بڑھتی جا رہی ہے۔ مگر ہمارے ہاں یہ ایک المیہ بن چکا ہے۔ یعنی ہماری شرح کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کا خمیازہ اب ہم ذلت سے بھگت رہے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی‘ بے وقت سیلاب‘ پہاڑی علاقوں میں شدید لینڈ سلائنڈنگ ‘ زرخیز مٹی کی کمی اور انسانی جانوں کا ضیاع‘ سب کچھ اس میں شامل ہیں۔ مگر کیا آپ کو مرکزی یا کسی صوبائی حکومت میں وہ مضبوط قوت ارادی نظر آ تی ہے جس کی اس وقت شدید ضرورت ہے۔ذرا دیکھیے! ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ ہمسایہ ملکوں سے بے سود جنگیں‘ شدید غریب ہونے کے باوجود مہنگا ترین اسلحہ خریدنا‘ ایک ناکارہ اور بوسیدہ نظام کو جبر کے ذریعے لوگوں پر مسلط کرنا‘ بے تکے بیرونی دورے کرنا اور اسی طرح کی خرافات میں مبتلا رہنا۔ ویسے‘ اب تو یہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ ہماری حکومتیں اور ریاستی ادارے دراصل چاہتے کیا ہیں؟ ہاں ایک بات صاف نظر آتی ہے ۔
سیاسی مخالفین کو غدار اور ملک دشمن قرار دینا اور سزائیں دلوانا ۔اس ادنیٰ ماحول میں کون میری آواز سنے گا؟کہ ملک‘ درختوں کی کمی کی بدولت برباد ہو رہا ہے۔ جنگل ‘ لکڑی کے ڈاکوؤں کی گرفت میں ہیں۔ خدارا‘ پودے لگانے کے لیے قومی ایمرجنسی کا اعلان کیا جا ئے۔ پانچ فیصد جنگلات کو‘ بیس فیصد تک کیسے لے کر جانا ہے۔ اس پر وزیراعظم اور تمام وزراء اعلیٰ ‘ سر جوڑ کر بیٹھیں اور ایک عملی لائحہ عمل ترتیب دیں۔ مگر نہیں صاحب‘ ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔ ہاں ‘ بیانات کی بارش ضرور ہو گی جو عام لوگوں کو اب تیزاب جیسی معلوم ہوتی ہے۔خیر چلیے‘ حکومت کو رہنے دیجیے ۔ ہمارے پچیس کروڑ افراد میں ایک بھی یادیو بیانگ نہیں ہے۔ جو اپنے ذاتی جذبہ اور ہمت سے ہزاروں ایکڑ کا جنگل لگا دے؟
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
مجھ سے جو ہو سکا
رواں ہفتے قیام پاکستان کے 78 سال مکمل ہوئے۔ اس ملک نے ہمیں کیا دیا؟ اس موقع پر یہ سوال اکثر سننے کو ملتا ہے۔ تنقید نما یہ سوال اتنا بے جا بھی نہیں تاہم اس سوال کے پیچھے بیشتر اوقات ہم ایسے لوگوں کا تساہل اور تن آسانی بھی چھپی ہوتی ہے جو شکوہ ظلمت شب کو ہی اپنا کمال جانتے ہیں تاہم بقول فراز حقیقت کچھ یوں ہے:
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
بہت زیادہ نہ سہی لیکن وطن عزیز میں چند نام ور لوگ ضرور ایسے ہیں جنھوں نے بامقصد زندگی گزاری اور اس ملک کے لیے اپنی اپنی حیثیت میں جو بن پڑا، کیا۔ یوم آزادی سے تین دن قبل ایک کتاب موصول ہوئی ’’مجھ سے جو ہو سکا‘‘ جسے جمہوری پبلی کیشنز نے شایع کیا ہے۔ یہ کتاب معروف صحافی اور انسانی حقوق کے پرچارک حسین نقی کی سوانح حیات ہے۔
صحافت اور انسانی حقوق کے لیے بڑے بڑے کارسازوں کے سامنے ایک عمر اصولوں پر قائم رہنے پر مطمئن حسین نقی کی سوانح کا ٹائٹل خودنمائی سے مبرا ہے حالانکہ عموماً سوانح حیات لکھنے والے ٹائٹل سے لے کر آخری سطر تک مصر رہتے ہیں کہ انھی سے تو چراغوں میں روشنی تھی۔
حسین نقی کی سوانح پڑھنا شروع کی تو ان کی سادہ بیانی، واقعات اور مختلف کرداروں کے پس منظر، تعلق داریوں اور رشتہ داریوں کی وضاحتوں کے سبب ماضی کے بہت سے سیاسی وسماجی معاملات کی گرہیں کھلتی گئیں۔ مدت بعد اس قدر شاندار کہانی پڑھنے کا موقع ملا۔
حسین نقی جہاں دیدہ صحافی ہیں جو 1938 کو متحدہ ہندوستان کے شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنی طویل صحافتی زندگی میں مختلف ادوار دیکھے، اتار چڑھاؤ دیکھے لیکن انسانی حقوق اور آزادی صحافت کے لیے مسلسل جدوجہد کا راستہ نہ چھوڑا۔
بائیں بازو سے اپنے تعلق اور اصولوں کے ساتھ صحافت میں بہادری سے اپنا وقت گزارا۔ پاکستان میں پہلے پنجابی روزنامے ’’سجن‘‘ کا اجرا حسین نقی کا منفرد کارنامہ تھا۔ ان کی سوانح ’’مجھ سے جو ہو سکا‘‘ ان کی اپنی کہانی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی 70 سالہ سیاسی، سماجی اور صحافتی کہانی بھی ہے۔
کہانی کچھ یوں شروع ہوتی ہے… میرے ننھیال والے لکھنؤ کے محلے وزیر گنج کے تھے۔ میرے خاندان کا بڑا حصہ کیونکہ آج بھی لکھنؤ میں رہتا ہے اس لیے میرا آنا جانا بھی رہا۔ ماضی قریب تک دلی، لکھنؤ، لاہور اور دیگر علاقوں میں خاندانوں کا ملاپ، رشتہ داری کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی بلکہ اکثر خاندانوں میں یہ چلن عام تھا۔ اگر آپ کی اس چلن پر نظر ہوگی تو 1947 سے قبل کے سیاسی وسماجی منظرنامے کا تجزیہ کرتے ہوئیآپ غچہ نہیں کھائیں گے۔
مجھے آج یہ لگتا ہے کہ آزادی کی جو لڑائی بیسویں صدی کے پہلے نصف میں ہوئی اس میں سبھی لیڈرشپ اشرافیہ ہی سے تعلق رکھتی تھی۔ اس وقت اولین اہمیت طبقاتی سوال کو نہیں بلکہ آزادی کے سوال کو حاصل تھی۔ ہماری لیڈرشپ سو سال آگے دیکھ کر فیصلے نہ کر سکی لیکن ہندوستان کی حکمران قیادت نے زرعی اصلاحات، تعلیم اور ترقی پر بہت توجہ دی…
ضیاء الحق دور میں اپنی گرفتاری کا واقعہ یوں لکھتے ہیں:… اس دوران دو تین بار انٹیلی جنس کے لوگ پوچھ گچھ کے لیے آئے، اندازہ ہو گیا کہ اب کچھ ہونے والا ہے۔ یہ دسمبر 1978 کا کوئی دن تھا جب کچھ لوگ میرے دفتر آئے اور کہا کہ ہم آپ کو لے جانے آئے ہیں۔ آپ سے پوچھ گچھ کرنی ہے۔
انھوں نے مجھے پولیس وین میں بٹھایا اور لاہور کے شاہی قلعہ لے آئے، جہاں بدنام زمانہ عقوبت خانہ تھا۔ سردیوں کا موسم تھا، میں نے کوٹ اور سردی بچانے کا لباس پہنا تھا۔ جس سیل میں رکھا گیا تھا وہاں ایک سائیڈ پر بڑی سی کنالی رفع حاجت کے لیے پڑی تھی جو بہت مشکل مرحلہ تھا۔
میں رات بوٹ اتارے بغیر ویسے ہی لیٹ گیا۔ یخ بستہ ٹھنڈی ہوا کا بسیرا تھا… رات تفتیش کے لیے ایک ڈی ایس پی آگئے۔ ان سے ایسے ہی حالات میں ایک بار پہلے بھی ملاقات ہو چکی تھی۔ بولے نقی صاحب آپ کو ہر ایک سے اختلاف ہو جاتا ہے؟ میں نے کہا: نہیں لوگوں کو مجھ سے اختلاف ہو جاتا ہے۔
ہم نے کراچی میں سیاست کی تھی، اسٹوڈنٹس جماعت چلائی تھی مگر ہم نے یہ ہمیشہ خیال رکھا کہ اس میں سندھی، پنجابی، پختون، بلوچ، میمن وغیرہ بھی شامل ہوں۔ اس میں فرقہ پرستی کا عنصر نہ ہو اور غیرمسلم بھی ایسی تنظیموں کو اپنا سمجھیں اور طبقاتی تقسیم کا بھی دھیان رکھیں۔
تب جا کے ہم کراچی کی نمایندگی کر سکتے ہیں اور کراچی کے مسئلوں کا حل نکال سکتے ہیں۔ 1960 کی دہائی میں حیدرآباد اپنے قیام کے دوران جب مہاجر پختون اتحاد بنایا گیا تو مجھے بطور سیاسی ورکر لسانی منافرت کے خطرے کی بو آنے لگی۔ بعد ازاں 80 کی دہائی کے کراچی میں تو چل سو چل۔
10 اپریل 1986 میں وزیراعظم بننے سے قبل ہم صحافیوں نے بے نظیر سے کئی ملاقاتیں کیں۔ اس میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے مجھ سے شہید بابا سے اختلاف بارے پوچھا۔ میں نے جواب دیا کہ گزر جانے والوں سے اختلاف نہیں کیا جاتا۔ ایک بار انھوں نے یہ بھی کہا کہ مجھ میں اور بابا میں کیا فرق ہے ؟ تو میں نے کہا کہ آپ کے بابا سنتے زیادہ تھے جب کہ آپ بولتی بہت ہیں۔ آپ سنیں زیادہ اور پارٹی کو کھڑا کریں۔
جب سے میں لاہور مستقل شفٹ ہوا، میرا یہ پکا خیال تھا کہ پنجابی زبان کے فروغ کے لیے ایک روزنامہ نکلنا چاہیے۔ زبان کے بارے میں مجھ میں حساسیت لکھنو سے ہی پیدا ہو گئی تھی جب 50 کی دہائی میں یک دم اردو میڈیم بند کر دیا گیا اور کہا گیا کہ یا ہندی میڈیم رکھو یا انگلش میڈیم۔
پنجابی کے پہلے روزنامہ ’’سجن‘‘ کا پہلا شمارہ تین فروری 1989 کو نکلا۔ سجن میں سب رضاکار ہی تھے۔ کچھ لوگ وہیں سو جاتے، ہم نے سوچا 100 دن کا تجربہ کیا جائے کہ اخبار نکل سکتا ہے یا نہیں؟ یہ اخبار ہم نے 18 ماہ چلایا، 10/12 ہزار بھی چھاپا تو بکا۔ اگر ہمارے اشتہارات بند نہ ہوتے تو ہم اس کی سرکولیشن 30 ہزار تک لے جا سکتے تھے۔
میں نے بطور ترقی پسند اپنی جدوجہد کا آغاز طلبہ سیاست سے کیا۔ طلبہ سیاست کا کام انقلاب لانا تو نہیں تھا مگر ہم نے طلبہ سیاست کی۔ اسی طرح میں نے صحافت شروع کی۔ اب جنرلزم بہت مختلف ہو چکی ہے تاہم ہم نے جہاں جہاں کام کیا، صحافت کی ٹریڈ یونین بھی قائم کی اور جس قدر گنجائش بن سکتی تھی، صحافیوں کے مفاد کو مدنظر رکھا۔ نوکریاں بھی کیں، پنجاب ٹائمز، پنجاب پنچ، ویو پوائنٹ ، سجن بھی کیا۔
اس کے علاوہ ایک درجن دوسرے اخباری اداروں کے لیے لکھتا اور مشورے بھی دیتا رہا۔ کتاب کا آخری باب ختم کرتے ہوئے ہم اسی سوچ میں رہے کہ جو بھی خلوص دل کے ساتھ، اپنے نظریے، جمہوری پاسداری اور انسانی حقوق کے لیے کھڑے ہوئے، انھوں نے یقینا اس ملک کے لیے بہت کچھ کر دیا، چاہے وہ اس کا کریڈٹ لینے سے طبعاً گریز کریں۔