Daily Mumtaz:
2025-10-04@22:45:19 GMT

صحرائی ریت روشنی میں بدل رہی ہے

اشاعت کی تاریخ: 19th, August 2025 GMT

صحرائی ریت روشنی میں بدل رہی ہے

 

 

اعتصام الحق

“ریت نہیں سبزہ  آگے بڑھے گا “۔بہتر ماحول کے عزم کی ضامن یہ  سطر  چین کے  نِنگشیا  خود اختیار کا علاقے  چونگ وے  میں ایک منصوبے کے تعارف میں لکھی ہوئی تھی ۔یہ منصوبہ صحرائے تھنگ گے لی میں قائم ہے جہاں دور تک جاتی انسانی نظر صرف شمسی پینلز ہی دیکھ سکتی ہے ۔یہ علاقہ  کبھی تیز آندھیوں اور  ریت کے طوفانوں کے لئے جانا جاتا تھا۔صحرائے تھنگ گے لی    کی   ریت کے طوفان یہاں کی زمین، کھیت اور بستیوں کو ڈھانپ لیتے تھے اور  یہ خطہ بنجر صحرا کا منظر پیش کرتا تھا۔ مگر آج یہ علاقہ ایک نئی پہچان اختیار کر چکا ہے: یہاں ریت کی جگہ سبزہ اگ رہا ہے، شمسی توانائی کے پینل چمک رہے ہیں اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے بڑے بڑے ٹربائن کھڑے ہیں۔

چونگ وے  میں توانائی کے منصوبے صرف چند چھوٹے پلانٹ نہیں بلکہ عالمی پیمانے کے ہیں۔ یہاں گیگاواٹ سطح پر شمسی توانائی اور ہوائی بجلی کے منصوبے قائم کیے گئے ہیں۔ بڑی فیکٹریاں لگائی گئی ہیں جو جدید سولر پینل تیار کرتی ہیں، جبکہ توانائی کو ذخیرہ کرنے کے لیے بڑے بیٹری سسٹم بھی نصب ہیں۔یہ منصوبے نہ صرف صاف بجلی پیدا کر رہے ہیں بلکہ ملک کے دیگر حصوں تک براہِ راست بجلی بھیجنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جن میں  ننگشیا سے ہونان تک براہِ راست بجلی کی ترسیل کا منصوبہ ایک نمایاں پیش رفت ہے۔

یہ ترقی ماحول دشمن نہیں بلکہ ماحول دوست ہے۔ جب سولر پینل صحرائی علاقوں میں نصب کیے گئے تو ان کے ساتھ “ریت روکنے” اور “درخت اگانے” کے منصوبے بھی شروع کیے گئے۔ شمسی توانائی کے پینل زمین کو ڈھانپ کر ریت کو اڑنے سے روکتے ہیں اور نیچے نمی محفوظ رہتی ہے، جس سے گھاس اور جھاڑیاں اگنے لگتی ہیں۔ یوں بجلی کے ساتھ ساتھ صحرا بھی سبزہ زار میں بدل رہا ہے۔

یہ  نیو انرجی بیس،  چین کے قومی ترقی اور اصلاحات کمیشن اور  نیشنل انرجی ایڈمنسٹریشن کی جانب سے منظور شدہ پہلے  10 ملین کلوواٹ سطح کے  انرجی بیس میں سے ایک ہے ۔ یہ  ننگشیا ہونا ن ڈی سی  منصوبے کا بھی ایک اہم  حصہ ہے   جو کہ چین میں صحرائی فوٹووولٹک بیسز کی ترقی اور نئی توانائی کی ترسیل کے لیے بنائی گئی پہلی الٹرا ہائی وولٹیج ٹرانسمیشن چینل ہے۔نیشنل انرجی گروپ نے اعلیٰ معیارات اور موثر تعمیر پر عمل کرتے ہوئے،  چودھویں پانچ سالہ  قومی منصوبے  کے دوران 10 ملین کلوواٹ سطح کا  یہ بیس  سب سے تیزی  سے  مکمل کیا، جو کہ ملک بھر میں نئی توانائی بیسز کی جامع ترقی کے لیے ایک مثال ہے۔اس منصوبے کی بدولت جہاں متبادل توانائی کے ذرائع میں اضافہ ہوا ہے وہیں صحرا ذدگی کی روک تمام میں بھی مدد ملی ہے۔

“ننگشیا ہونان ڈی سی منصوبے کی  آلٹرنیٹو  الیکٹرسٹی  کی کل تنصیب شدہ صلاحیت 17.

64 ملین کلوواٹ  ہے ۔ یہ منصوبہ پانچ صوبوں  اور ایک شہر سے گزرتا ہے، جن میں ننگشیا، گانسو، شانزی، چونگ چھنگ ، ہوبئی، اور ہونان شامل ہیں۔اس کی کل لمبائی 1,634 کلومیٹر ہے۔ منصوبے میں نئی توانائی کی کل تنصیب شدہ صلاحیت کا منصوبہ  13 ملین کلوواٹ ہے، جس میں 9 ملین کلوواٹ فوٹووولٹک بجلی کی  پیداوار اور 4 ملین کلوواٹ ونڈ پاور شامل ہیں۔توانائی کے منصوبے صرف بجلی بنانے تک محدود نہیں رہے۔ یہاں پر سولر پینل، بیٹریاں، اور جدید انرجی اسٹوریج سسٹم تیار کرنے والی صنعتیں بھی لگائی گئی ہیں جس سے ہزاروں مقامی لوگوں کو روزگار ملا ہے اور ایک نیا صنعتی سلسلہ وجود میں آیا ہے۔

یہ منصوبے صرف آج کی ضرورت نہیں بلکہ مستقبل کی معیشت کا حصہ ہیں۔ سبز توانائی کی بدولت نئی صنعتیں مثلاً ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، ماحول دوست فیکٹریاں اور جدید مینوفیکچرنگ کے شعبے جنم لے رہے ہیں۔ یہ سب کچھ چین کے اُس بڑے ہدف کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کے تحت وہ 2060 تک کاربن نیوٹرل ہونا چاہتا ہے۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ  چونگ وے  نے “ریت کو روشنی میں بدل دیا ہے”۔ وہ زمین جو کبھی بنجر اور بے کار سمجھی جاتی تھی، آج دنیا کے سب سے بڑے قابلِ تجدید توانائی کے مراکز میں سے ایک ہے۔ یہاں شمسی پینل سورج کی روشنی کو بجلی میں بدلتے ہیں، ہوا کے ٹربائن مستقبل کے خواب جگاتے ہیں اور ہر طرف ایک نیا سبز انقلاب برپا ہے۔

Post Views: 8

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

چھتوں پہ نصب سولر سسٹم، پاورگرڈ کے لیے چیلنج

بجلی کے نرخ بڑھنے کی وجہ سے چھتوں پر نصب ہونیوالے سولر پینلز کے رجحان میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور صارفین کی بڑی تعداد اس کی طرف منتقل ہورہی ہے۔ یہ رجحان بلوں میں کمی کے ساتھ ساتھ صارفین کو توانائی کے معاملے میں خود مختار بنا رہا ہے۔

لیکن دوسری جانب پاکستان کے روایتی بجلی کے نظام کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر بھی سامنے آیا ہے،کیونکہ یہ نظام صرف ایک سمت میں بجلی کی ترسیل یعنی گرڈ سے صارف تک کے لیے ہے۔

موجودہ نیٹ میٹرنگ پیکیج 5 سے 25 کلو واٹ کے سولر منصوبوں پر سرمایہ 2 سے 4 سال میں واپس ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پورے کے پورے محلے سولر انرجی کی جانب منتقل ہو رہے ہیں۔ نتیجتاً وہ صارفین جو صرف بجلی استعمال کرتے تھے، اب پروزیومرز (Prosumers) بن گئے ہیں۔

یعنی وہ بیک وقت بجلی پیدا بھی کرتے ہیں اور استعمال بھی۔یہ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب پروزیومرز زیادہ بجلی پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں اور گرڈ سے بجلی لینا بند کر دیتے ہیں، چونکہ روایتی نظام میں بجلی کا بہاؤ صرف ایک سمت میں ہوتا ہے، یعنی بجلی پاور پلانٹ سے پیدا ہوتی ہے، ٹرانسمیشن نیٹ ورک کے ذریعے مقامی گرڈ تک پہنچتی ہے اور پھر تقسیم کے نظام کے ذریعے صارفین کو فراہم کی جاتی ہے۔

جب پروزیومرز ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں تو اس کا نتیجہ ’’ریورس پاور فلو‘‘ کی صورت میں نکلتا ہے۔گھریلو آلات کے برعکس، جنھیں ضرورت نہ ہونے پر بند کردیا جاتا ہے۔

تاہم نیشنل گرڈ کے پاس ایسا کوئی آف سوئچ نہیں جس کو دبا کر اضافی بجلی لینا بند کردے، لہٰذا جب پروزیومرز بجلی لینا بند کرکے اضافی سولر توانائی برآمد کرتے ہیں تو گرڈ کو وہ بجلی لینا پڑتی ہے، چاہے اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔

سولر پینلز سے گرڈ میں بھیجی جانیوالی اضافی بجلی ریورس پاور فلو کی صورت میں ٹرانسفارمرز کے لوڈنگ ماڈل کے تیسرے حصے میں آتی ہے، جہاں ایکٹیو اور ری ایکٹیو دونوں اقسام کی توانائی بیک وقت گرڈ میں داخل ہوتی ہیں۔

یہ صورتحال ٹرانسفارمرز پر ضرورت سے زیادہ دباؤ ڈالتے ہیں، جسے اوور ایکسائٹیشن کہا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں کور سیچوریشن پیدا ہوتی ہے، جس سے کور لاسز بڑھ جاتے ہیں، حرارت میں اضافہ ہوتا ہے اور انسولیشن تیزی سے خراب ہونے لگتی ہے۔

یہ تمام عوامل مل کر تقسیم کار ٹرانسفارمرزکی عمرکو نمایاں طور پر کم کردیتے ہیں۔ اوور ایکسائٹیشن وولٹیج میں شدید اتار چڑھاؤ اور ہارمونکس کی پیداوار کا باعث بن سکتی ہے، جو پاور کوالٹی پر منفی اثر ڈالتی ہے۔

وولٹیج کے اُتار چڑھاؤ پر قابو پانے کے لیے کے۔ الیکٹرک جیسی پاور یوٹیلیٹیز ٹرانسفارمرزکی ٹیپ پوزیشن میں تبدیلی کرکے وولٹیج کو مستحکم رکھنے کی کوشش کرتی ہیں، لیکن جیسے ہی سولر آؤٹ پٹ میں تبدیلی آتی ہے، وولٹیج کی سطح بھی دوبارہ بدل جاتی ہے، جس کے باعث ٹرانسفارمرز کی ٹیپ پوزیشن دوبارہ تبدیل کرنا پڑتی ہے۔

ٹرانسفامرز ٹیپنگ میں بار بار تبدیلی مکینیکل خطرات کو بڑھادیتی ہے ، جس سے مرمت کے اخراجات اور فیل ہونے کے خدشات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے، جو صرف دستی ایڈجسٹمنٹ تک محدود نہ ہو، تاکہ ریورس پاور فلو کے منفی اثرات کو درست بھی کرے۔

اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ صارفین ایسے اسمارٹ انورٹرز نصب کریں جن میں خودکار ’’وولٹ۔ وار کنٹرول‘‘ موجود ہو، جو مقامی وولٹیج کے مطابق ری ایکٹیو پاورکو ایڈجسٹ کرے، اگرچہ یہ فیچر ریورس پاور فلو کو مکمل طور پر روک نہیں سکتا، لیکن یہ وولٹیج کو مستحکم رکھنے اور ٹرانسفارمرز سمیت دیگر آلات پر دباؤ کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔

ساتھ ہی یوٹیلٹیز کو یقینی بنانا چاہیے کہ نصب کیے جانے والے انورٹرز IEEE 1547-2018 کے معیار اور خصوصی صلاحیت کے حامل ہوں، جو گرڈ کے استحکام کو یقینی بنائے۔ اسی طرح AEDB سے تصدیق شدہ انسٹالرز کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان جدید فیچرز کو مکمل طور پر سمجھیں اور انورٹرز کو درست طریقے سے ہم آہنگ کریں۔

یوٹیلٹیز کو چاہیے کہ وہ تقسیم شدہ توانائی کے ذرایع کے انضمام کے لیے ایڈوانسڈ ڈسٹری بیوشن مینجمنٹ سسٹم (ADMS) کی منصوبہ بندی کریں، تاکہ گرڈ کو زیادہ پائیدار اور مستحکم بنایا جاسکے۔

ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ڈسٹری بیوشن ٹرانسفارمرز کے لو ٹینشن سائیڈ پر مقامی بیٹری انرجی اسٹوریج سسٹمز (BESS) نصب کیے جائیں۔ یہ بیٹریاں دن کے وقت سولر سسٹمز سے پیدا ہونے والی اضافی بجلی کو محفوظ کرلیتی ہیں اور رات کے اوقات میں صارفین کو دوبارہ فراہم کرتی ہیں۔

لو ٹینشن سائیڈ پر اگر درست سائزنگ کے ساتھ BESS نصب کیا جائے تو یہ ریورس پاور فلو کو نمایاں طور پر کم کر تا ہے اور نیٹ ورک اَپ گریڈ پر آنیوالے بھاری اخراجات سے بچا تا ہے۔ آسٹریلیا میں پہلے ہی ’’پول ماؤنٹڈ بیٹریز‘‘ کے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے تاکہ نیٹ ورک کی کارکردگی قابل اعتماد اور گرڈ کی استعداد کو بہتر بنایا جاسکے۔

آسٹریلیا کی کچھ یوٹیلٹیز نے ’’ سن ٹیکس‘‘ بھی نافذ کیا ہے، یعنی جب پروزیومرز سولر پیداوار کے عروج کے اوقات کے دوران بجلی گرڈ کو بھیجتے ہیں تو ان پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ اس پالیسی کو نیٹ ورک پر دباؤ کو کم کرنے کے لیے نافذ کیا گیا ہے۔

2015 میں ہوائی کی پبلک یوٹیلٹیزکمیشن نے ریاست کے تمام نئے سولر صارفین کے لیے نیٹ میٹرنگ ختم کرنے کا فیصلہ سنایا۔ یہ فیصلہ ہواوے الیکٹرک کمپنی HECO) کی اس درخواست پر سنایا گیا کہ نیٹ میٹرنگ کے باعث گرڈ کی قابل اعتماد کارکردگی متاثر ہو رہی ہے کیونکہ وولٹیج میں اتار چڑھاؤ اور ریورس پاور فلو بڑھ گئے ہیں۔

اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے HECO نے ایسے متبادل پروگرام متعارف کروائے جو نیٹ میٹرنگ کے مقابلے میں محدود اور قابوشدہ برآمد کی اجازت دیتے ہیں۔2023 میں کیلیفورنیا نے ایک نیا نیٹ بلنگ NEM 3.0 متعارف کرایا، جس کے تحت پروزیومرز کو بجلی کی مکمل خوردہ قیمت دینے کے بجائے وہ رقم دی جاتی ہے جو برآمد کے وقت بجلی کی اصل ’’قدر‘‘ کے مطابق ہو۔ایسی پالیسیاں نہ صرف پاور انفرا اسٹرکچر کو تحفظ فراہم کرتی ہیں بلکہ یہ بھی یقینی بناتی ہیں کہ سولر انرجی کی ترقی پائیدار انداز میں جاری رہے۔

متعلقہ مضامین

  • چھتوں پہ نصب سولر سسٹم، پاورگرڈ کے لیے چیلنج
  • اب عمارتیں خود بجلی بنائیں گی، ایم آئی ٹی کا انقلابی کنکریٹ متعارف
  • تیل کی بڑھتی قیمتیں، ٹیکسٹائل انڈسٹری شمسی توانائی پر منتقل
  • امریکی سائنس دانوں نے بجلی پیدا کرنے والا کنکریٹ تیار کرلیا
  • بلال اظہر کیانی کی اماراتی وزیر توانائی و انفرا اسٹرکچر سہیل محمد المزروعی سے ملاقات
  • شمسی توانائی یورپی یونین میں بجلی کا مرکزی ذریعہ بن گئی: رپورٹ
  • چین پورے مشرقی خطے کے لیے روشنی کی ایک کرن ہے ،صدرآصف علی زرداری
  • پاکستان اور سعودی عرب: تاریخ کے سائے، مستقبل کی روشنی
  • سستی بجلی، پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن اور پیسکو کے درمیان معاہدہ
  • سستی بجلی، کوٹو پن بجلی منصوبے کی کامیاب تکمیل