Express News:
2025-09-18@00:09:29 GMT

رانا ثناء ا للہ کے گھر پر حملہ پر سزائیں

اشاعت کی تاریخ: 27th, August 2025 GMT

رانا ثنا ء اللہ کے گھر پر حملے کے جرم میں بھی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کو سخت سزائیں سنا دی ہیں۔

تحریک انصاف کی قیادت کا موقف ہے کہ عسکری تنصیبات پر حملوں پر سخت سزائیں سنائی گئیں لیکن کیا رانا ثنا ء اللہ کا گھر بھی حساس تنصیب ہے جو اتنی سخت سزائیں سنائی گئی ہیں۔ میں تحریک انصا ف کے اس موقف سے متفق نہیں ہوں۔ میری رائے میں ہر عام شہری کا گھر اتنا ہی مقدم ہے جتنی کوئی عکسری تنصیب ہے۔ تحریک انصا ف کو ایسے فضول دلائل ڈھونڈنے کے بجائے اپنے جرم پر معافی مانگنی چاہیے۔ سیاست کوئی ایک دوسرے کو مارنے کا کھیل نہیں، روداداری کا کھیل ہے۔

اس میں اختلاف ہے لیکن اختلاف کی حدود ہیں۔ اختلاف کا مطلب ایک دوسرے کو مارنے کا نہیں، مخالف کی بات کو برداشت کرنا ہی سیاست کا حسن ہے، مخالفین کے گھروں پر حملہ کرنا کوئی سیاست نہیں، یہ عسکریت پسندی ہے۔ جو لوگ رانا ثناء اللہ کے گھر پر حملہ کے جرم پر سزاؤں پر اختلاف کر رہے ہیں، وہ سوچیں اگر یہی حملہ ان کے گھر پر ہوا ہوتا تو ان کے کیا جذبات ہوتے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ بانی تحریک انصا ف کی جانب سے ایسی تقاریر کی گئیں جن میں کارکنوں کو رانا ثناء للہ کے گھر پر حملہ کی ترغیب دی گئی۔

وہ کئی دفعہ بانی تحریک انصاف کی سیاسی دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ اس لیے صرف سرکار کا نہیں سب کے گھر مقدم ہیں۔ سب کے گھروں کا احترام ہونا چاہیے۔ ویسے آجکل سزاؤں کا موسم چل رہا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کے خلاف جتنے بھی ایسے مقدمات ہیں سب پر سزاؤں کا عمل جاری ہے۔

سزاؤں کے اس موسم نے تحریک انصاف کی قیادت کو اندر سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ تحریک انصاف کے اندر خوف کا ایک ماحول ہے۔ چاہے کوئی کتنا ہی طاقتور اور بااثر ہے، ہر کسی کا خیال ہے کہ اسے بھی سزا ہو سکتی ہے۔ جنھیں کوئی چھو نہیں سکتا تھا، انھیں بھی اپنی سزا سامنے نظرا ٓرہی ہے۔ اور ہر کوئی سوچ رہا ہے کہ اگر اسے سزا ہوگئی تو وہ کیا کرے گا۔ اس لیے مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف کے اندر مزاحمتی سیاست کے خلاف بھی ایک رائے بن رہی ہے۔ اب ایک سوچ بن رہی ہے کہ ان سے غلطیاں ہو ئی ہیں۔ وہ بند گلی میں پہنچ گئے ہیں۔ یہاں سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

نو مئی کو صرف رانا ثناء اللہ کے گھر پر حملہ نہیں ہوا تھا۔ لاہور میں مسلم لیگ ہاؤس پر بھی حملہ کیا گیا تھا۔ وہاں بھی توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔ آگ لگائی گئی تھی۔ اس کا مقدمہ بھی چل رہا ہے۔ ایک سیاسی جماعت کو دوسری سیاسی جماعت کے دفتر پر بھی حملہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بھی سیاسی دہشت گردی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہوئے ایک دوسرے کا احترام بھی کرنا چاہیے۔ سیاسی کارکنوں کو اشتعا ل دینا کوئی اچھی سیاست نہیں۔ سیاسی کارکنوں کو اختلاف برداشت کرنے کی ترغیب دینا ہی اصل سیاست ہے۔

کچھ دوستوں کی رائے کہ تحریک انصاف کو باقاعدہ رانا ثناء اللہ سے معافی مانگنی چاہیے۔ ان سے معذ رت کرنی چاہیے۔ اور ان سے درخواست کرنی چاہیے کہ وہ سب کو معاف کر دیں۔ میں نے جواب دیا کہ دیکھو معافی کی بات نہیں کرو۔ ساری لڑائی معافی کی ہے۔ ابھی حال ہی میں ملک میں معافی پر اتنی بڑی لڑائی ہوئی ہے۔ اور پھر اگر تحریک انصاف نے معافی ہی مانگنی ہوتی تو وہ مانگ لیتے۔ حالات اتنے خر اب ہی نہ ہوتے۔ لیکن تحریک انصاف کا سیاسی موقف تو یہ ہے کہ ہم نے تو کبھی اپنے باپ سے معافی نہیں مانگی تو کسی سے معافی کیوں مانگیں۔ حالانکہ انھیں جواب میں بتایا گیا کہ والدین سے تو سب معافی مانگ لیتے ہیں۔

بہر حال رانا ثناء اللہ کے گھر پر حملہ کے مقدمہ میں سزاؤں نے سیاسی ماحول میں تلخی پیدا کی ہے۔ تحریک انصاف اس وقت شدید مشکلات کا شکار نظر آتی ہے۔ ایک طرف سزائیں ہیں دوسری طرف اندرونی اختلافات ہیں۔ یہ طے کرنا مشکل ہے کہ زیادہ نقصا ن سزاؤں سے ہو رہا ہے یا اختلافات سے ہو رہا ہے۔ ایک طرف سزائیں دوسری طرف ان سزاؤں سے خالی ہوئی نشستوں پر ضمنی انتخاب کا تنازعہ بھی شدت اختیار کر گیا ہے۔ اس ضمن میں بھی تحریک انصا ف نے بانی تحریک انصاف کا فیصلہ ماننے سے انکار کردیا ہے۔تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے لوگ تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کے ارکان کی بات ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔

یہ رائے بھی سامنے آرہی ہے کہ جو لوگ تحریک انصاف کی طرف سے ضمنی انتخاب لڑ رہے ہیں، وہ بانی کے غدار ہیں۔ انھیں بانی کی حمائت حاصل نہیں۔ اس لیے پارٹی کے ووٹر کو انھیں ووٹ نہیں ڈالنا چاہیے۔  ہر حال رانا ثناء اللہ کے گھر پر حملہ پر سخت سزاؤں نے رانا صاحب کے سیاسی مفاہمت اور ڈائیلاگ کے حق میں دیے جانے والے بیانات کو بھی متاثر کیا ہے۔ ان کی ڈائیلاگ والے موقف اب وزن نہیں رہا۔ یہ ممکن نہیں کہ ان کے گھر پر حملہ پر سخت سزائیں بھی ہوں اور وہ سیاسی ڈائیلاگ کی بات بھی کریں۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ رانا صاحب کو اپنی سیاسی لائن بھی بدلنی ہوگی۔ اب ان کی ڈائیلاگ والی بات آگے چلتی نظر نہیں آتی۔

تحریک انصاف کی قیادت کا یہ بھی موقف سامنے آیا ہے کہ ان پر دباؤ ٖڈالا جاتا ہے کہ وہ بانی کی رہائی کو ممکن بنائیں۔ لیکن قیادت کا موقف ہے کہ جب انھیں سیاسی فیصلوں میں آزادی نہیں تو ان سے توقع کیوں ہے۔ یہ رائے بھی دی جا رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اور شہباز شریف جب گرفتار ہوئے تھے تب انھوں نے سارے سیاسی اختیارات پارٹی کو دے دیے تھے۔ اور ان کی پارٹی کی قیادت نے ان کی رہائی کے لیے راستہ بنایا تھا۔ جب تک ہمیں بھی اختیارات نہیں دیے جاتے تو رہائی کی توقع بھی نہ کی جائے۔ یہ ایک دلچسپ دلیل ہے۔

 لیکن دوسری طرف یہ بھی رائے کہ تحریک انصاف کی اکثریت اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کی حامی ہے ۔ وہ لڑائی بند کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ لڑائی بند کر کے ہی مقدمات سے نکلنے کی راہ نکل سکتی ہے لہٰذا ماحول کو ٹھنڈا کرنا ہوگا۔ ورنہ سزاؤں کے موسم میں سختی آئے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تحریک انصاف کے تحریک انصاف کی تحریک انصا ف رانا ثناء ا کارکنوں کو ایک دوسرے کی قیادت رہی ہے رہا ہے اس لیے کی بات

پڑھیں:

سیلاب ،بارش اور سیاست

رفیق پٹیل
۔۔۔۔۔۔۔
ّ آج کل

کسی بھی ملک میں مہنگائی، بے روزگاری ، غربت ،جرائم اور انسانی حقوق کی پامالی میںاضافہ ہورہا ہو تو اس کی اہم ترین وجہ ناقص حکمرانی ہوتی ہے۔ پاکستان کے ماہر معیشت حفیظ پاشا نے پاکستان کے اسی قسم کے مسائل کی نشاندہی کی ہے موجودہ وقت میں کوئی بھی ذی شعور شخص حکومت کے ترقی اور استحکام کے دعوؤں پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سیلاب نے مسائل کی شدّت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ حکومت کے قریبی تصور کیے جانے والے مبصر نجم سیٹھی کا بھی یہ کہنا ہے کہ ” موجودہ حکمرانوں کے خلاف عوام میں غصّہ اور نفرت کی کیفیت بڑھتی جارہی ہے ”۔ ملک میں قدرتی آفت ہو یابیرونی جارحیت ہو اس صورت حال کا مقابلہ حکومت اور عوام مل کر کرتے ہیں۔ عوام کا اعتماد حکومت کو حاصل نہ ہو تو متاثرہ لوگوں کی بحالی میں رکاوٹ ہو جاتی ہے ۔پاکستان میں موجودہ سیلاب کی تباہ کاری میں عوام کو متحرک کرکے امدادی کام کرنے والی تنظیموں کے کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے الزامات سامنے آرہے ہیں۔ یہاں تک کہ امدادی کاموں میں بھی مبینہ بدعنوانی کا تذکرہ تک کیا جارہاہے۔
معاشرہ اخلاقی طور پر زوال پذیر ہو تو بدعنوانی نچلی سطح تک جا پہنچتی ہے۔ مختلف فلاحی اور سیاسی تنظیموں نے الزام عائد کیا ہے کہ پنجاب میں انتظامیہ دبائو ڈال رہی ہے کہ ہر امدادی سامان کی تھیلی پر پنجاب کی وزیر اعلیٰ کی تصویر لگائی جائے جس کی وجہ سے بعض مقامات پر مختلف تنظیمیں اور افراد امدادی کاموں میں حصّہ لیے بغیر واپس چلے گئے۔ اس قسم کی اطلاعات سے امدادی کاموں کے لیے رضا کارانہ کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ عوام بھی بد دل ہوجاتے ہیں اور متاثرین کی محرومیوں اور پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ سیلاب میں سینکڑوں قیمتی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے۔ لوگوں کے گھر ختم ہوگئے ۔فصلیں اور کاروبار تباہ ہوگئے۔ مویشی سیلاب میں بہہ گئے ۔دوسری تباہی اس سیاست کی وجہ سے ہے جس میں سیاسی اور فلاحی تنظیموں کو امداد سے روکا جا رہا ہے۔ ایک مقبول اور عوام کے اعتماد کی حامل حکومت آسانی سے قدرتی آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام کو متحرک کر سکتی ہے لیکن ایسی حکومت جسے عوام کا اعتما د حاصل نہ ہو ،وہ عوام کو متحرک نہیں کرسکتی اور اگر ایسی کوئی حکومت فلاحی اور مدادی کاموں میں رکاوٹ بنے اور محض نمائشی اقدامات اور نام و نمود کی جانب توجہ دے تو ایک جانب سیلاب سے آنے والی تباہی کا نقصان ہوگا اور دوسرا اس قسم کی منفی سیاست کا نقصان ہوگا۔
موجودہ دور میں پاکستان کے مسائل کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ بد نظمی اور ناقص حکمرانی ہے۔ پاکستان کی مقتدر اشرافیہ اپنی خراب کارکردگی کی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور ملک میں جاری موجودہ نظام کی خامیوں کو دور کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی۔ مقتدر اشرافیہ اپنے وقتی اور فوری مفادات کے حصول کو ترجیح دیتی ہے۔ دولت اور عہدے کے حصول اوراس کو برقرار رکھنا اس میں اضافہ کرنا ہی اس کی کوششوں کا مرکز ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ تما م قوانین اور ضوابط کی پرواہ بھی نہیں کرتے ۔اگر کوئی رکاوٹ ہو تو قوانین بھی بدل دیتے ہیں۔ اس سے ملک میں مزید افراتفری اور عدم استحکام پیداہوتا ہے ۔نتیجہ یہ ہے کہ ہر ادارہ کمزور ہوجاتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک نے موسمیاتی تبدیلی اورماحولیات سے پیدا ہونے کے لیے بیس سال پہلے سے سنجیدگی سے کام کر نا شروع کر دیا تھا۔ موسمیاتی تبدیلی آج کے دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ جس سے نمٹنے کے لیے مستحکم ،منظم اور موثر کارکردگی کے حامل اداروں کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر کے کسی بھی ملک کا کوئی ادارہ ،تنظیم اور کاروبار قواعد اور ضوابط کے بغیر کام نہیں کرسکتا ۔فرض کریں کے پولیس کی بھرتی کے قواعدکی خلاف ورزی کی جائے معذور اور متعدی امراض کے شکار مریضوں کوبھرتی کیا جائے ۔ہر امتحان میں ناکام ہونے کے باوجود سفارشی شخص کو افسر بھرتی کر لیا جائے یاعمر کی کوئی قید نہ رہے تو ایسی صورت میں پولیس کا ادارہ بدترین تباہی کا شکار ہوگا،جس ادارے میں جتنا زیادہ نظم و ضبط ہوگا قواعدو ضوابط کی پابند ی ہوگی، وہ ادارہ اتنا ہی زیادہ موثر ہوگا۔ معاشرے اور ملک میں نظم و ضبط قائم رکھنے کی بنیاد آئین اور دیگر قوانین ہیں جس کی وجہ سے ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ امریکا ،برطانیہ،کنیڈا،فرانس ،جرمنی اور دیگر جمہوری ملکوںکی ترقی اور خوشحالی میں آزادی اظہار، انسانی حقوق پر اور آئین اور قانون کی بالادستی کا بنیادی کردار ہے، دس لاکھ افراد بھی جمع ہوکر مظاہرہ کرتے ہیں اور جمہوری حکومت کام کرتی رہتی ہے۔ حکومت اس وقت تک کام کرتی ہے جب تک حکومت کو عوام کامینڈیٹ حاصل رہتا ہے۔ اگر ان جمہوری ممالک میں دھاندلی کے ذریعے غیر نمائندہ حکومت قائم ہوجائے ،آزادی اظہار پر پابندی لگ جائے اور انسانی حقوق ختم کردیے جائیں تو یہ ترقّی یا فتہ ممالک زوال کا شکار ہوجائیں ۔معیشت منجمد ہوجائے گی۔ افراتفری کے نتیجے میں تباہی کا شکار ہوجائیں گے۔ پاکستان کے موجودہ مسائل کی وجہ یہی اخلاقی زوال ہے۔
پاکستان کے تقریباًتما م مبصرین اس بات کو کسی نہ کسی انداز میں تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ سیاسی ڈھانچہ ووٹوں کی چوری کے ذریعے کھڑا گیا ہے۔ امریکی جریدے نے دولت مشترقہ کے ان مبصرین کی رپورٹ بھی شائع کردی ہے جو پاکستان کے انتخابات کا جائزہ لینے کے لیے آئے تھے لیکن ان کی رپورٹ سامنے نہیں آئی تھی۔ جریدے نے تحریر کیا ہے کہ اس رپورٹ میں فروری کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔اس رپورٹ نے حکومت کی ساکھ کو ایک اور بڑانقصان پہنچایا ہے۔ حکومت نے تحریک انصاف کو مسئلہ تصور کر رکھا ہے جبکہ اصل مسائل مہنگائی،بدعنوانی،بے روزگاری ،غربت،جرائم اور ناانصافی کے علاوہ ایک ایسی حکومت کوگھسیٹنے کی کوشش ہے جس پر عوام کا اعتماد نہیں بلکہ حکمراں جماعتوںکی ساکھ کامسلسل خاتمہ ہے۔ ترقی کرنے والے ممالک چاہے جمہوری ہوں یا کسی اور نظام پر مشتمل ہو، اخلاقیات اور عوام کے بغیر ترقی نہیں کرسکتے۔ جاپان پر اگست1945 میں جو ایٹمی حملہ ہوا تھا ،ایسی تباہی دنیا نے کبھی نہیں دیکھی لیکن جاپان نے عوام کی مدد سے اپنے اداروں کی شفافیت اور معاشرے میں اخلاقی اقدار کو فروغ دے کر حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ چین کی ترقی کی وجہ بھی ا یک ا یسی عوامی تحریک تھی جس نے نچلی سطح تک ایک جماعت کو منظم کیا اور سیاسی استحکام کو فروغ دیا ۔بدعنوانی اور غربت کاخاتمہ کیاحیران کن حد تک چھوٹی بڑی صنعتوں کاوسیع جال بچھایا ۔زراعت کو فروغ دیا ۔دفاع پر بھی بھر پو ر توجہ دی۔ امریکا کی ترقی میں بھی وہاں کا مستحکم سیاسی نظام اور عوام کو دی جانے والی آزادی اور سیاسی عمل میں ان کی شراکت نے کردار اداکیاہے۔ پاکستان انصاف پر مبنی،بد عنوانی سے پاک سیاسی ڈھانچہ ضروری ہے جسے عوامی حمایت حاصل ہو۔ سیاسی استحکام کی بنیاد اسی طرح ممکن ہے ۔حکمراں جماعتیں عوامی حمایت کی محرومی کے باعث سیاسی استحکام قائم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہورہی ہیں یا ہوچکی ہیں۔غیر جانبدارانہ ، منصفانہ انتخابات ہو ں تو عوام کی امنگوں ،خواہشات اور جذبات کی صحیح اور سچائی پر مبنی عکاسی ہوگی ،ورنہ ہم اسی جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے مزید اخلاقی پستی اور عدم استحکام کے دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے ۔شاید ہم سچ کا سامنا کرنے کے قابل بھی نہیں رہے۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • فلسطین کے مسئلے پر ہار ماننا درست نہیں، فرانچسکا آلبانیز
  • ہونیاں اور انہونیاں
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • سرویکل ویکسین سے کسی بچی کو کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ نہیں: وزیر تعلیم
  • تحریک انصاف اب کھل کر اپوزیشن کرے ورنہ سیاسی قبریں تیار ہوں گی، عمران خان
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • دہشتگردوں کا ملک کے اندر اور باہر پورا بندوبست کیا جائے گا،راناثنااللہ
  • وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور شہدا کے لیے 5 منٹ نہیں نکال سکے، بیرسٹر عقیل ملک
  • لاہور: تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجا دیگر کے ساتھ پریس کانفرنس کر رہے ہیں
  • مولانا ثناء اللہ جماعت اسلامی ضلع سائٹ غربی حاجی بشیر احمد کے بھائی ڈاکٹر عبدالرشید کے انتقال پرتعزیت کررہے ہیں