Express News:
2025-11-03@06:40:12 GMT

رانا ثناء ا للہ کے گھر پر حملہ پر سزائیں

اشاعت کی تاریخ: 27th, August 2025 GMT

رانا ثنا ء اللہ کے گھر پر حملے کے جرم میں بھی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کو سخت سزائیں سنا دی ہیں۔

تحریک انصاف کی قیادت کا موقف ہے کہ عسکری تنصیبات پر حملوں پر سخت سزائیں سنائی گئیں لیکن کیا رانا ثنا ء اللہ کا گھر بھی حساس تنصیب ہے جو اتنی سخت سزائیں سنائی گئی ہیں۔ میں تحریک انصا ف کے اس موقف سے متفق نہیں ہوں۔ میری رائے میں ہر عام شہری کا گھر اتنا ہی مقدم ہے جتنی کوئی عکسری تنصیب ہے۔ تحریک انصا ف کو ایسے فضول دلائل ڈھونڈنے کے بجائے اپنے جرم پر معافی مانگنی چاہیے۔ سیاست کوئی ایک دوسرے کو مارنے کا کھیل نہیں، روداداری کا کھیل ہے۔

اس میں اختلاف ہے لیکن اختلاف کی حدود ہیں۔ اختلاف کا مطلب ایک دوسرے کو مارنے کا نہیں، مخالف کی بات کو برداشت کرنا ہی سیاست کا حسن ہے، مخالفین کے گھروں پر حملہ کرنا کوئی سیاست نہیں، یہ عسکریت پسندی ہے۔ جو لوگ رانا ثناء اللہ کے گھر پر حملہ کے جرم پر سزاؤں پر اختلاف کر رہے ہیں، وہ سوچیں اگر یہی حملہ ان کے گھر پر ہوا ہوتا تو ان کے کیا جذبات ہوتے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ بانی تحریک انصا ف کی جانب سے ایسی تقاریر کی گئیں جن میں کارکنوں کو رانا ثناء للہ کے گھر پر حملہ کی ترغیب دی گئی۔

وہ کئی دفعہ بانی تحریک انصاف کی سیاسی دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ اس لیے صرف سرکار کا نہیں سب کے گھر مقدم ہیں۔ سب کے گھروں کا احترام ہونا چاہیے۔ ویسے آجکل سزاؤں کا موسم چل رہا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کے خلاف جتنے بھی ایسے مقدمات ہیں سب پر سزاؤں کا عمل جاری ہے۔

سزاؤں کے اس موسم نے تحریک انصاف کی قیادت کو اندر سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ تحریک انصاف کے اندر خوف کا ایک ماحول ہے۔ چاہے کوئی کتنا ہی طاقتور اور بااثر ہے، ہر کسی کا خیال ہے کہ اسے بھی سزا ہو سکتی ہے۔ جنھیں کوئی چھو نہیں سکتا تھا، انھیں بھی اپنی سزا سامنے نظرا ٓرہی ہے۔ اور ہر کوئی سوچ رہا ہے کہ اگر اسے سزا ہوگئی تو وہ کیا کرے گا۔ اس لیے مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف کے اندر مزاحمتی سیاست کے خلاف بھی ایک رائے بن رہی ہے۔ اب ایک سوچ بن رہی ہے کہ ان سے غلطیاں ہو ئی ہیں۔ وہ بند گلی میں پہنچ گئے ہیں۔ یہاں سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

نو مئی کو صرف رانا ثناء اللہ کے گھر پر حملہ نہیں ہوا تھا۔ لاہور میں مسلم لیگ ہاؤس پر بھی حملہ کیا گیا تھا۔ وہاں بھی توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔ آگ لگائی گئی تھی۔ اس کا مقدمہ بھی چل رہا ہے۔ ایک سیاسی جماعت کو دوسری سیاسی جماعت کے دفتر پر بھی حملہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بھی سیاسی دہشت گردی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہوئے ایک دوسرے کا احترام بھی کرنا چاہیے۔ سیاسی کارکنوں کو اشتعا ل دینا کوئی اچھی سیاست نہیں۔ سیاسی کارکنوں کو اختلاف برداشت کرنے کی ترغیب دینا ہی اصل سیاست ہے۔

کچھ دوستوں کی رائے کہ تحریک انصاف کو باقاعدہ رانا ثناء اللہ سے معافی مانگنی چاہیے۔ ان سے معذ رت کرنی چاہیے۔ اور ان سے درخواست کرنی چاہیے کہ وہ سب کو معاف کر دیں۔ میں نے جواب دیا کہ دیکھو معافی کی بات نہیں کرو۔ ساری لڑائی معافی کی ہے۔ ابھی حال ہی میں ملک میں معافی پر اتنی بڑی لڑائی ہوئی ہے۔ اور پھر اگر تحریک انصاف نے معافی ہی مانگنی ہوتی تو وہ مانگ لیتے۔ حالات اتنے خر اب ہی نہ ہوتے۔ لیکن تحریک انصاف کا سیاسی موقف تو یہ ہے کہ ہم نے تو کبھی اپنے باپ سے معافی نہیں مانگی تو کسی سے معافی کیوں مانگیں۔ حالانکہ انھیں جواب میں بتایا گیا کہ والدین سے تو سب معافی مانگ لیتے ہیں۔

بہر حال رانا ثناء اللہ کے گھر پر حملہ کے مقدمہ میں سزاؤں نے سیاسی ماحول میں تلخی پیدا کی ہے۔ تحریک انصاف اس وقت شدید مشکلات کا شکار نظر آتی ہے۔ ایک طرف سزائیں ہیں دوسری طرف اندرونی اختلافات ہیں۔ یہ طے کرنا مشکل ہے کہ زیادہ نقصا ن سزاؤں سے ہو رہا ہے یا اختلافات سے ہو رہا ہے۔ ایک طرف سزائیں دوسری طرف ان سزاؤں سے خالی ہوئی نشستوں پر ضمنی انتخاب کا تنازعہ بھی شدت اختیار کر گیا ہے۔ اس ضمن میں بھی تحریک انصا ف نے بانی تحریک انصاف کا فیصلہ ماننے سے انکار کردیا ہے۔تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے لوگ تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کے ارکان کی بات ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔

یہ رائے بھی سامنے آرہی ہے کہ جو لوگ تحریک انصاف کی طرف سے ضمنی انتخاب لڑ رہے ہیں، وہ بانی کے غدار ہیں۔ انھیں بانی کی حمائت حاصل نہیں۔ اس لیے پارٹی کے ووٹر کو انھیں ووٹ نہیں ڈالنا چاہیے۔  ہر حال رانا ثناء اللہ کے گھر پر حملہ پر سخت سزاؤں نے رانا صاحب کے سیاسی مفاہمت اور ڈائیلاگ کے حق میں دیے جانے والے بیانات کو بھی متاثر کیا ہے۔ ان کی ڈائیلاگ والے موقف اب وزن نہیں رہا۔ یہ ممکن نہیں کہ ان کے گھر پر حملہ پر سخت سزائیں بھی ہوں اور وہ سیاسی ڈائیلاگ کی بات بھی کریں۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ رانا صاحب کو اپنی سیاسی لائن بھی بدلنی ہوگی۔ اب ان کی ڈائیلاگ والی بات آگے چلتی نظر نہیں آتی۔

تحریک انصاف کی قیادت کا یہ بھی موقف سامنے آیا ہے کہ ان پر دباؤ ٖڈالا جاتا ہے کہ وہ بانی کی رہائی کو ممکن بنائیں۔ لیکن قیادت کا موقف ہے کہ جب انھیں سیاسی فیصلوں میں آزادی نہیں تو ان سے توقع کیوں ہے۔ یہ رائے بھی دی جا رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اور شہباز شریف جب گرفتار ہوئے تھے تب انھوں نے سارے سیاسی اختیارات پارٹی کو دے دیے تھے۔ اور ان کی پارٹی کی قیادت نے ان کی رہائی کے لیے راستہ بنایا تھا۔ جب تک ہمیں بھی اختیارات نہیں دیے جاتے تو رہائی کی توقع بھی نہ کی جائے۔ یہ ایک دلچسپ دلیل ہے۔

 لیکن دوسری طرف یہ بھی رائے کہ تحریک انصاف کی اکثریت اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کی حامی ہے ۔ وہ لڑائی بند کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ لڑائی بند کر کے ہی مقدمات سے نکلنے کی راہ نکل سکتی ہے لہٰذا ماحول کو ٹھنڈا کرنا ہوگا۔ ورنہ سزاؤں کے موسم میں سختی آئے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تحریک انصاف کے تحریک انصاف کی تحریک انصا ف رانا ثناء ا کارکنوں کو ایک دوسرے کی قیادت رہی ہے رہا ہے اس لیے کی بات

پڑھیں:

 عمران خان کی رہائی کےلیے تحریک چلانے کا اعلان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے سابق رہنمائوں نے عمران خان کی رہائی کےلیے کمر کس لی ہے۔تحریک انصاف کے سابق اور منحرف ارکان نے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے تحریک چلانے کا اعلان کردیا۔

 اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے سابق رہنمائوں نے پارٹی کے بانی چیئرمین عمران خان کی رہائی کے لیے سیاسی جماعتوں اور دیگراسٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطوں کا فیصلہ کیا گیا ہے،اس حوالے سے رابطہ کاری مشن میں فواد چودھری، عمران اسماعیل، علی زیدی، محمود مولوی، سبطین خان اور دیگر رہنماءشامل ہیں۔

سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے بتایا کہ ہم نے سوچا کوشش کریں کہ عمران خان باہر آسکیں اور یہ ٹمپریچرنیچے لاکر ہوگا، اس کے لیے پی ٹی آئی کے اصل لوگ جو جیل میں ہیں وہ کرسکتے ہیں اور وہ بھی یہی چاہتے ہیں۔

 ہم نے ن کے اہم وزراءسے ملاقاتیں کی ہیں جو بات کرنا چاہتے ہیں، ہم نے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کو کہا اگر پی ٹی آئی کو انگیج نہی کریں گے تو ٹکرائو کے سوا کیارہ جائےگا؟۔

شاہ محمود قریشی عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں اور وہ وہی کریں گے جو عمران خان کا فیصلہ ہوگا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ درجہ حرارت نیچے آئے اور بات چیت شروع ہو ، ہمیں ہرطرف سے سپورٹ مل رہی ہے اور ہر طرف سے سپورٹ کے بغیر تویہ ممکن بھی نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ میں100 فیصد پی ٹی آئی میں ہوں، اگر نہ ہوتا تو اس وقت وزیر ہوتا اور جو اب پارٹی چلانے والے ہیں ان کی تو دہاڑیاں لگی ہوئی ہیں ،یہ جو قبرستانوں کے لیڈر بننا چاہتے ہیں، یہ عمران خان کی رہائی نہیں چاہتے۔

 میں نے عمران خان کو کہا میں جنگجونہیں، بندوق چلانا نہیں آتی تو پھر کیا پہاڑوں پرچڑھ جاو ¿ں؟ میں تو سیاستدان ہوں اور مجھے اسپیس چاہیے۔

میں نے عمران خان کو کہا آپ نے 50ملین ڈالرز کی معیشت باہریوٹیوبرز کی بنائی ہوئی ہے، آپ کے اپنے لوگ ہی آپ کو باہر نہیں آنے دیں گے،جنہوں نے ماچس پکڑی ہوئی ہے اور آگ لگادیتے ہیں۔

 اسی طرح ن لیگ اور پیپلزپارٹی والے پریشان ہوجاتے ہیں کیوں کہ اگر پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کی سیٹنگ ہوگئی تویہ سب فارغ ہوجائیں گے۔

ویب ڈیسک Faiz alam babar

متعلقہ مضامین

  • پنجاب میں قبضہ مافیا، دھوکا دہی اور جعلسازوں کو سخت سزائیں کیلیے قوانین تیار
  • تحریک انصاف ،پنجاب لوکل گورنمنٹ بل ہائیکورٹ میں چیلنج کرنیکا اعلان
  • تحریک انصاف کا پنجاب لوکل گورنمنٹ بل چیلنج کرنے کا فیصلہ
  • آزاد کشمیر میں سیاسی عدم استحکام جاری، پی پی نے تحریک عدم اعتماد تاحال جمع نہ کروائی
  • پی ٹی آ ئی کی پرانی قیادت ’’ریلیز عمران خان‘‘ تحریک چلانے کیلیے تیار،حکومتی وسیاسی قیادت سے ملاقاتوں کا فیصلہ
  • شاہ محمود سے سابق پی ٹی آئی رہنماں کی ملاقات، ریلیز عمران تحریک چلانے پر اتفاق،فواد چوہدری کی تصدیق
  •  عمران خان کی رہائی کےلیے تحریک چلانے کا اعلان
  • پی ٹی آئی رہنما ذاتی نہیں قومی مفاد میں کام کریں: رانا ثنا اللہ
  • شاہ محمود قریشی سے سابق پی ٹی آئی رہنماؤں کی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی
  • تحریک انصاف کا کے ایم سی میں موجود منحرف ارکان سے متعلق الیکشن کمیشن کو خط