وزیراعظم کی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پھنسے افراد کے انخلا کےلئےجاری آپریشن کو تیز کرنے کی ہدایت
اشاعت کی تاریخ: 27th, August 2025 GMT
وزیراعظم شہباز شریف نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پھنسے ہوئے افراد کے انخلا کے لئے جاری آپریشن تیز کرنے اور متاثرہ علاقوں میں خوراک، ادویات اور خیموں کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کردی۔
وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت ملک کے مختلف علاقوں میں سیلابی صورتحال اور امدادی کارروائیوں کے حوالہ سے جائزہ اجلاس منعقد ہوا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے ہدایت کی کہ دریائے ستلج کے سیلاب سے متاثرہ پنجاب کے اضلاع میں ریسکیو آپریشنز تیز تر کیا جائے۔
انہوں نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پھنسے ہوئے افراد کے انخلاء کے لئے جاری آپریشن میں مزید تیزی لانے ، متاثرہ علاقوں میں خوراک، ادویات اور خیموں کی فراہمی یقینی بنانے اور چیئر مین این ڈی ایم اے کو پنجاب کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے ادارے سے مکمل رابطے میں رہنے کی ہدایت کی۔
اجلاس میں ملک میں سیلابی صورتحال اور امدادی سرگرمیوں پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ دریائے ستلج میں سیلاب کے حوالے سے پیشگی اطلاع کی وجہ سے آبادی کے انخلاء کے باعث متاثرہ علاقوں سے اب تک کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔
دریائے ستلج کے سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں متعلقہ اداروں کے ریسکیو آپریشنز جاری ہیں ، اب تک ایک لاکھ 74 ہزار 74 افراد کو محفوظ مقامات پر پہنچایا جا چکا ہے ۔
وزیراعظم کو بتایا گیا کہ ضلع نارووال میں لہری بند کے سیلاب سے متاثرہ علاقے سے مقامی آبادی کے انخلاء کو یقینی بنایا جا رہا ہے، صوبہ خیبرپختونخوا کے متاثرہ علاقوں میں بجلی کی بحالی کا کام جاری ہے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ گلگت بلتستان میں قومی شاہراہ کا 2 کلومیٹر کا علاقہ سیلاب کی وجہ سے زیر آب ہے جس کی بحالی کا کام جاری ہے ، دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا، سلیمانکی دریائے راوی میں جسٹر اور دریائے چناب میں مرالہ کے مقامات پر اونچے درجے کا سیلاب ہے۔
نالہ ڈیک میں بھی شدید سیلابی صورتحال ہے ، اگلے 12 سے 24 گھنٹوں میں لاہور، گوجرانوالا ، گجرات، راولپنڈی ڈویژنز، آزاد جموں و کشمیر کے اضلاع میں شدید بارشیں جبکہ گلگت بلتستان کے کئی مقامات پر بھی بارشیں متوقع ہیں۔
اجلاس میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی ڈاکٹر مصدق ملک، وفاقی وزیر مواصلات عبدالعلیم خان، وفاقی وزیر پاور ڈویژن سردار اویس احمد لغاری ، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ ، وفاقی وزیر مذہبی امور سردار یوسف ، وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر توقیر شاہ اور متعلقہ اعلیٰ سرکاری افسران نے شرکت کی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: متاثرہ علاقوں میں سیلاب سے متاثرہ دریائے ستلج وفاقی وزیر
پڑھیں:
سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض کا خطرناک پھیلاؤ، 24 گھنٹوں میں 33 ہزار سے زائد مریض رپورٹ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور: پنجاب کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں، جس نے حکام اور صحت کے شعبے کے لیے سنگین چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔
محکمہ صحت پنجاب کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں بخار، جلدی امراض، آشوب چشم، ڈائریا، سانپ اور کتے کے کاٹنے کے 33 ہزار سے زائد کیسز رجسٹر ہوئے ہیں، جبکہ سیلاب زدہ علاقوں میں مجموعی طور پر مریضوں کی تعداد 7 لاکھ 55 ہزار تک جا پہنچی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک دن کے دوران سانس کی تکلیف کے شکار 5 ہزار افراد، بخار سے متاثرہ 4300، جلدی الرجی کے 4 ہزار اور آشوب چشم کے 700 مریض سامنے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈائریا کے 1900 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، جبکہ سانپ کے کاٹنے کے 5 اور کتے کے کاٹنے کے 20 واقعات بھی ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار سیلاب سے تباہ حال علاقوں میں صحت کے نظام پر بڑھتے ہوئے دباؤ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
محکمہ صحت کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 405 مستقل طبی کیمپ قائم کیے گئے ہیں، جہاں اب تک 2 لاکھ 79 ہزار سے زائد مریضوں کا معائنہ اور علاج کیا جا چکا ہے۔ حکام نے بتایا کہ ان کیمپوں میں بنیادی طبی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں، لیکن بیماریوں کے تیزی سے پھیلاؤ نے صورتحال کو پیچیدہ کر دیا ہے۔
ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ صاف پانی کی کمی، ناقص صفائی ستھرائی اور متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں کی رفتار سست ہونے کی وجہ سے وبائی امراض کا خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے اضافی وسائل اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے، جبکہ شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور طبی امداد کے لیے قریبی کیمپوں سے رجوع کریں۔
یہ صورتحال نہ صرف صحت کے شعبے بلکہ امدادی اداروں کے لیے بھی ایک امتحان ہے، کیونکہ متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکام سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ فوری طور پر ادویات کی فراہمی اور طبی عملے کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ اس بحران سے نمٹا جا سکے۔