کیا پاکستان ایک اور ’سپر فلڈ‘ کے دہانے پر ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, August 2025 GMT
پاکستان میں دریاؤں کی بپھرتی ہوئی لہروں اور پانی کی تیزی سے بلند ہوتی سطح نے ماہرین کو خبردار کر دیا ہے: کیا ہم ایک اور تباہ کن “سپر فلڈ” کا سامنا کرنے والے ہیں؟
ملک کے مختلف حصوں میں پانی کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حالات پر قابو نہ پایا گیا تو 2010 اور 2022 کی طرح کی سنگین قدرتی آفت دوبارہ جنم لے سکتی ہے۔
سپر فلڈ کیا ہوتا ہے؟
ماہرین کے مطابق “سپر فلڈ” ایک ایسا غیر معمولی اور شدید سیلاب ہوتا ہے جو اپنی شدت، رفتار اور پھیلاؤ کے لحاظ سے عام سیلابوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ ایسے سیلاب میں دریا اپنی گنجائش سے کئی گنا زیادہ پانی خارج کرتے ہیں، جس سے لاکھوں لوگ متاثر ہوتے ہیں، زرعی زمینیں تباہ ہو جاتی ہیں اور پورا معاشی نظام لرز کر رہ جاتا ہے۔
وجوہات میں گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلنا، غیر متوقع اور شدید مون سون بارشیں، اور ناقص نکاسی آب شامل ہیں۔ ساتھ ہی دریاؤں میں پانی کی غیر معمولی روانی اس صورتحال کو مزید بگاڑ دیتی ہے۔
کیا ہم تیار ہیں؟
حکومت کی جانب سے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA)، ابتدائی وارننگ سسٹمز اور دیگر اقدامات تو کیے گئے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے آبی ذخائر محدود ہیں، منصوبہ بندی کمزور ہے
فنڈز ناکافی ہیں اور عوام میں آگاہی کا شدید فقدان ہے یہی کمزوریاں ماضی میں بھی ہم پر بھاری پڑی ہیں۔
بھارت کی جانب سے پانی چھوڑنا – ایک نیا خطرہ؟
ماہرین اور تجزیہ کار خبردار کر رہے ہیں کہ بھارت کی جانب سے دریاؤں میں اچانک پانی چھوڑنے سے صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، “جب دریا بپھرنے لگے تھے، تب اس پر کوئی سنجیدہ تجزیہ نہیں کیا گیا۔ اب ہم چناب، راوی، ستلج، جہلم اور سندھ کے معاون دریاؤں میں خطرناک حد تک پانی کی سطح بلند ہوتی دیکھ رہے ہیں۔ شمالی علاقوں میں ممکنہ سیلاب کی پیشگوئی کرنی چاہیے۔”
2010 – پاکستان کی تاریخ کا سب سے تباہ کن سیلاب
2 ہزار افراد جاں بحق
ملک کا ایک تہائی حصہ زیرِ آب
2 کروڑ افراد متاثر
انفراسٹرکچر، زرعی زمینیں، مکانات تباہ
معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان
یہ سیلاب دراصل ایک ’دریائی سیلاب‘ تھا، جس میں دریاؤں کی سطح معمول سے کہیں زیادہ بلند ہو گئی تھی۔
2022 – بارشوں سے جنم لینے والا قہر
3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر
1,739 ہلاکتیں
30 ارب ڈالر سے زائد کا مجموعی نقصان
سندھ، بلوچستان، جنوبی پنجاب شدید متاثر
116 اضلاع متاثر
یہ سیلاب ’فلیش فلڈ‘ کی صورت میں آیا، جس کا سبب شدید اور مسلسل بارشیں تھیں۔
اس آفت کے بعد اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اور ہالی وڈ اداکارہ انجلینا جولی نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ لیکن عالمی توجہ کے باوجود، ہم دوبارہ اسی خطرے کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی اور ہم – ایک غفلت بھرا رویہ؟
سینئر سیاستدان مشاہد حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے سب سے زیادہ حساس ممالک میں شامل ہے، مگر سیلاب جیسے خطرات اب بھی حکومتی ترجیحات میں شامل نظر نہیں آتے۔
وفاقی اور صوبائی سطح پر درجنوں ادارے موجود ہیں، لیکن ان کے درمیان ہم آہنگی، پیشگی تیاری اور سنجیدہ تحقیق کا فقدان ہے۔”
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: دریاو ں پانی کی سپر فلڈ
پڑھیں:
پاکستان سیلاب: اقوام متحدہ نے جاں بحق و بے گھر افراد کے اعدادوشمار جاری کردیے
پاکستان میں جاری تباہ کن مون سون بارشوں اور ان کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے ملک بھر میں تباہی مچا دی ہے جہاں 1000 سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں اور 25 لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔ جان سے جانے والوں میں بچوں کی تعداد ایک چوتھائی کے قریب ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قائم مقام صدر کی مخیر حضرات اور عالمی اداروں سے سیلاب متاثرین کی فوری مدد کی اپیل
اقوام متحدہ کے مطابق جون کے اواخر سے شروع ہونے والی شدید بارشوں نے ملک کے مختلف حصوں میں زمین کھسکنے، سیلاب اور گلیشیئر جھیلوں کے پھٹنے جیسے حالات پیدا کیے جن سے مجموعی طور پر 60 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔
صوبہ پنجاب میں دریاؤں میں طغیانی کے باعث 47 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں خصوصاً راوی، ستلج اور چناب میں آنے والے پانی نے فصلیں، بستیاں اور بنیادی ڈھانچہ برباد کر دیا ہے۔ بھارت کی جانب سے پانی چھوڑے جانے کے باعث صورتحال مزید خراب ہوئی۔
ادھر خیبر پختونخوا میں 16 لاکھ افراد متاثر ہوئے جب کہ گلگت بلتستان میں گلیشیئر جھیلوں کے پھٹنے سے کئی وادیاں دیگر علاقوں سے مکمل طور پر کٹ چکی ہیں۔
سندھ میں بھی ممکنہ خطرے کے پیش نظر ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔
قدرتی آفات سے بچاؤ کے قومی ادارے (این ڈی ایم اے) کے مطابق اب تک 8،400 مکانات، 239 پل اور 700 کلومیٹر سڑکیں تباہ ہو چکی ہیں۔
مزید پڑھیے: امن بحالی کے اقدامات اور سیلاب متاثرین کی بھرپور مدد کر رہے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ
22 لاکھ ہیکٹر زرعی زمین زیر آب آ چکی ہے خاص طور پر پنجاب میں جہاں گندم سمیت اہم فصلیں متاثر ہوئی ہیں۔ خوراک کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور صرف ستمبر کے پہلے ہفتے میں آٹے کی قیمتوں میں 25 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا۔
انسانی بحران: خوراک، پانی، صحت کی شدید کمیاقوام متحدہ کے امدادی ادارے متاثرہ علاقوں میں امداد کی فراہمی کی کوشش کر رہے ہیں۔ 50 لاکھ ڈالر ہنگامی فنڈ جاری کیے گئے ہیں اور مزید 15 لاکھ ڈالر مقامی تنظیموں کو دیے گئے ہیں۔
یونیسف، ورلڈ فوڈ پروگرام، اور دیگر ادارے پینے کے صاف پانی، غذائیت، صحت و صفائی اور بچوں کے لیے عارضی اسکول فراہم کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: سیلاب سے متاثرہ دربار صاحب کرتار پور کو صفائی کے بعد سکھ یاتریوں کے لیے کھول دیا گیا
تاہم ٹوٹے ہوئے پل، زیرآب سڑکیں اور کٹے ہوئے علاقے امدادی کارروائیوں میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ کئی مقامات پر صرف کشتیوں یا ہیلی کاپٹرز کے ذریعے ہی رسائی ممکن ہے۔
ملیریا، ڈینگی، اور ہیضہ جیسے بیماریوں کے پھیلاؤ کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
پاکستان میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور کے نمائندے کارلوس گیہا کا کہنا ہے کہ یہ قدرتی آفات پاکستان کی موسمیاتی تبدیلی کے ہاتھوں بڑھتی ہوئی قیمت کا حصہ ہیں جس کے پیدا کرنے میں پاکستان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ملالہ یوسف زئی کا پاکستان میں سیلاب متاثرہ تعلیمی اداروں کی بحالی کے لیے گرانٹ کا اعلان
انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ صرف فوری امداد ہی نہیں بلکہ طویل المدتی بحالی، خوراک کی خود کفالت اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے بھی پاکستان کی حمایت کرے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقوام متحدہ پاکستان سیلاب پاکستان سیلاب نقصانات