کراچی؛ بی آر ٹی منصوبے میں تاخیر کو عدالت میں چیلنج کردیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 27th, August 2025 GMT
کراچی:
سندھ ہائی کورٹ میں شہری نے بی آر ٹی منصوبے میں تاخیر کو چیلنج کردیا اور مؤقف اپنایا کہ منصوبہ شہریوں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے تھا لیکن بدانتظامی کی وجہ سے اذیت کا باعث بن گیا ہے۔
کراچی کے علاقے نیو ایم اے جناح روڈ کے رہائشی آصف اقبال نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی اور مؤقف اپنایا ہے کہ 2017 میں بی آر ٹی ریڈ لائن منصوبے کا اعلان کیا گیا تھا اور یہ منصوبہ 2023 میں مکمل ہونا تھا لیکن بروقت تکمیل کے بجائے بارہا توسیع کی گئی۔
درخواست گزار نے کہا ہے کہ منصوبے کا مقصد شہریوں کو سفری سہولیات کی فراہمی تھا لیکن بدانتظامی کے باعث اذیت بن گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 79 ارب روپے لگایا گیا تھا مگر تاخیر سے منصوبے کی لاگت 103 ارب تک پہنچ گئی ہے، اس دوران یوٹیلیٹی کی تنصیبات سے ڈیزائن میں متعدد بار تبدیلی کی گئی۔
شہری نے درخواست میں کہا کہ ریڈ لائن منصوبے مکمل کرنے کی نئی مدت 2026 تک دی گئی ہے، برسات کے دوران سڑکوں کی کھدائی، نامکمل تعمیرات اور غیر محفوظ راستوں سے حادثات رونما ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی منصوبے کے نگران کی حیثیت سے ناکام ہوئی ہے، ایشیائی ترقیاتی بینک بھی فنڈز کے مناسب استعمال کا نگران ہے۔
درخواست میں چیف سیکریٹری، میئر کراچی، سندھ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی، ٹرانس کراچی، ایشیائی ترقیاتی بینک اور سی آر 3 ایم ایسوسی ایشن کو فریق بنایا گیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پی ٹی آئی کا پنجاب لوکل گورنمنٹ بل 2025 عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ
لاہور:پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب لوکل گورنمنٹ بل 2025 کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما اعجاز شفیع کے مطابق پارٹی بروز پیر ہائی کورٹ میں آئینی درخواست دائر کرے گی۔ اس حوالے سے نمائندگی شیخ امتیاز محمود، اعجاز شفیع، منیر احمد اور میاں شبیر اسماعیل کی جانب سے جمع کرائی گئی ہے جو صدر، وزیراعظم، گورنر پنجاب اور وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت دیگر اعلیٰ حکام کو ارسال کی گئی ہے۔
اعجاز شفیع نے بتایا کہ قانونی ماہرین کی مدد سے تیار کردہ تفصیلی اعتراضات حکومت کو بھجوا دیے گئے ہیں۔ ان کے مطابق پنجاب لوکل گورنمنٹ بل کی متعدد شقیں آئین پاکستان کے آرٹیکلز 17، 32 اور 140-اے سے متصادم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غیر جماعتی، ایک ووٹ ملٹی ممبر یونین کونسل ماڈل پر شدید تحفظات ہیں، کیونکہ یہ سیاسی جماعتوں کے کردار کو کمزور کرتا ہے اور بلدیاتی اداروں کی خودمختاری کو متاثر کرتا ہے۔
اعتراضات کے متن میں کہا گیا ہے کہ بل کے تحت مقامی نمائندوں کی جگہ انتظامی افسران کو کنٹرول دینا اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے اصول کے خلاف ہے۔ مزید یہ کہ مالیاتی اختیارات کا مرکزیت کی طرف منتقل ہونا بلدیاتی خودمختاری کو کمزور کرے گا۔ غیر معینہ مدت تک ایڈمنسٹریٹر تعینات کرنے کا اختیار بھی غیر آئینی قرار دیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی رہنماؤں نے مطالبہ کیا ہے کہ یونین کونسل چیئرمین کے براہ راست انتخاب کی بحالی کی جائے، بلدیاتی اداروں کی پانچ سالہ مدت آئینی طور پر طے کی جائے اور واضح انتخابی شیڈول جاری کیا جائے۔ ساتھ ہی ایگزیکٹو مداخلت اور ایڈمنسٹریٹر کے اختیارات پر سخت پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
اعجاز شفیع کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں بروز پیر اعلامیہ اور حکمِ امتناع کی درخواست دائر کی جائے گی، جس میں متنازع شقوں پر عملدرآمد روکنے اور بلدیاتی جمہوریت کے تحفظ کی استدعا کی جائے گی۔