WE News:
2025-11-03@16:56:48 GMT

مزاح نگاری مصنوعی ذہانت کے بس کی بات نہیں، مصنفین

اشاعت کی تاریخ: 27th, August 2025 GMT

مزاح نگاری مصنوعی ذہانت کے بس کی بات نہیں، مصنفین

مصنوعی ذہانت (اے آئی) نے حالیہ برسوں میں زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں اپنی موجودگی ثابت کی ہے اور طب، تعلیم، تحریر، موسیقی اور یہاں تک کہ فلم سازی جیسے تخلیقی شعبے بھی اس کی پہنچ میں آ چکے ہیں۔ تاہم جہاں بات ہو طنز و مزاح جیسے باریک اور جذباتی فن کی وہاں ماہرین مزاح اور لکھاری متفق ہیں کہ یہ میدان اب بھی انسانوں کے تخلیقی شعور کا محتاج ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مصنفین مصنوعی ذہانت کے ہاتھوں کام کھو بیٹھنے کے خدشے کا شکار

ماہرین کے نزدیک مزاح صرف الفاظ کا جوڑ نہیں بلکہ سماجی سیاق، جذباتی گہرائی اور انسانی مشاہدے کا نچوڑ ہوتا ہے جو فی الحال اے آئی کے بس کی بات نہیں لگتی۔

امریکی اداکارہ، مصنفہ اور کامیڈین ٹینا فے

اسی حقیقت کی جانب معروف امریکی اداکارہ، مصنفہ اور کامیڈین الزبتھ اسٹیمٹینا فے (المعروف ٹینا فے) نے بھی حالیہ ایڈنبرا ٹی وی فیسٹیول میں توجہ دلائی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اے آئی سے خوفزدہ نہیں کیونکہ ابھی تک اس کو مزاح لکھنا نہیں آیا۔

ایڈنبرا ٹی وی فیسٹیول کے آخری روز خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت گیت لکھ سکتی ہے، تصویریں بنا سکتی ہے اور اس کے لیے کئی دیگر چیزیں بھی ممکن ہو گئی ہیں لیکن اب تک طنزومزاح لکھنا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔

لائیو شوز سے شہرت پانے والی ٹینا فے نے سنہ 2008 کے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل نائب صدارتی امیدوار سیرا پالن کی نقالی کی تھی جسے آج بھی ان کے یادگار کرداروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیے: مضامین لکھوانے کے لیے مصنوعی ذہانت پر انحصار دماغ کو کمزور کرتا ہے، تحقیق میں انکشاف

ٹینا فے کے بقول میں شو چھوڑ چکی تھی لیکن مجھے واپس بلایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ میں جانتی تھی کہ میں شکل سیرا پالن سے ملتی جلتی ہے مگر مجھے لگا کہ کرسٹن وِگ بھی یہ کردار بہ خوبی ادا کر سکتی تھیں۔

برطانوی ورژن اور اسکرپٹ لکھنے کے طریقے پر گفتگو کرتے ہوئے ٹی وی فیسٹیول میں معروف میزبان گراہم نارٹن بھی ٹینا فے کے ہمراہ موجود تھے جنہوں نے برطانوی مزاحیہ لکھاریوں کی وقت پر اسکرپٹ مکمل نہ کرنے کی عادت پر شکوہ کیا۔ تاہم ٹینا فے نے ہنستے ہوئے کہا کہ میں آپ کو ایک راز کی بات بتاؤں، آپ صبح سے بھی کام شروع کر سکتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ رات بھر جاگیں۔

ٹینا فے

ٹینا فے نے انکشاف کیا کہ ایک موقعے پر برطانیہ کے سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے ان سے ذاتی ملاقات کی خواہش ظاہر کی اور کہا کہ برطانوی ٹی وی انڈسٹری ایک شاندار اثاثہ ہے۔

اپنے نئے شو ’دی فور سیزنز‘ کے بارے میں بات کرتے ہوئے ٹینا نے کہا کہ یہ ایک ضبط نفس کی مشق ہے جہاں مصنفین کو یاد دلایا جاتا ہے کہ ہر کردار غیر معمولی نہیں ہونا چاہیے بلکہ بعض کو بس عام انسان بھی بننے دیں۔

مزید پڑھیں: مصنوعی ذہانت کے باعث زیادہ متاثر ہونے والی نوکریاں کون سی ہیں؟

انہوں نے کہا کہ میں 55 برس کی ہوں اور اس عمر میں ایسی بہت سی چیزیں ہو سکتی ہیں جن میں سے کچھ عجیب اور کچھ افسوسناک ہوسکتی ہیں اور یہ سب مجھے لکھنے کا مواد فراہم کرتی ہیں۔

ٹینا فے کی رائے اور مصنوعی ذہانت کا بیباک تبصرہ

ٹینا فے کی رائے پر جب وی نیوز نے مصنوعی ذہانت کے ایک نمایاں ماڈل چیٹ جی پی ٹی سے اس کا مؤقف طلب کیا تو اس نے غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا تبصرہ کیا۔

چیٹ جی پی ٹی کا کہنا تھا کہ اے آئی تکنیکی طور پر لطیفے بنا سکتی ہے، اسکرپٹ کے انداز میں مزاحیہ مکالمے لکھ سکتی ہے اور اسٹینڈ اپ کامیڈی کی طرز کی نقل بھی کر سکتی ہے لیکن یہ سب کچھ ایک تربیت یافتہ، مشینی پیٹرن پر مبنی ہوتا ہے جس میں اکثر ظاہری طور پر مزاح تو محسوس ہوتا ہے مگر اس میں اصل انسانی مشاہدہ، جذبات، درد اور طنز کی باریکی اور زندگی کی معنویت کی گہرائی کمیاب ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: کیا مصنوعی ذہانت فلموں کی ڈبنگ آسان اور حقیقی بنا دے گی؟

چیٹ بوٹ کی ایک خیالی تصویر

ماڈل نے کہا کہ مزاح محض الفاظ کی ترتیب یا چالاک جملوں کا کھیل نہیں بلکہ یہ ایک گہرا انسانی تجربہ ہے جس میں جذبات، سماجی سیاق، ثقافتی حساسیت اور اظہار کا صحیح وقت شامل ہوتا ہے۔

اس کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت تکنیکی طور پر ’فنی‘ (مزاحیہ) ہو سکتی ہے مگر ابھی وہ انسانی طور پر مزاحیہ بننے سے قاصر ہے۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ طنز، معاشرتی تضادات پر تبصرہ یا روزمرہ زندگی کے پیچیدہ مزاح کو سمجھنے اور تخلیق کرنے کے لیے جو شعور درکار ہے وہ صرف انسانوں کے پاس ہے۔

یہ بھی پڑھیے: اے آئی نے ویب سائٹس کا مستقبل تاریک کردیا، حل کیا ہے؟

چیٹ جی پی ٹی نے ٹینا فے جیسی تجربہ کار مزاح نگار کی رائے کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’فی الوقت مزاح کے میدان میں مصنوعی ذہانت انسان کا متبادل نہیں بن سکی اور شاید کچھ عرصے تک نہ بن سکے‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ٹینا فے چیٹ جی پی ٹی طنزومزاح مزاح نگار مصنوعی ذہانت مصنوعی ذہانت اور مزاح نگاری.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ٹینا فے چیٹ جی پی ٹی مزاح نگار مصنوعی ذہانت مصنوعی ذہانت اور مزاح نگاری مصنوعی ذہانت کے چیٹ جی پی ٹی کہنا تھا کہ کرتے ہوئے نے کہا کہ سکتی ہے ٹینا فے ہوتا ہے اے ا ئی کی بات کہ میں کے لیے اور اس

پڑھیں:

جو کام حکومت نہ کر سکی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-8

 

آصف محمود

کسی کا بھٹو زندہ ہے، کسی کا ببر شیر دھاڑ رہا ہے، کوئی چشم تصور میں عشق عمران میں مارے جانے پر نازاں ہے، ایسے میں ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بنو قابل کی صورت امید کا دیا تھما رکھا ہے۔ کیا اس مبارک کام کی تعریف میں صرف اس لیے بخل سے کام لیا جائے کہ یہ جماعت اسلامی والے کر رہے ہیں اور جماعتیوں کے بارے میں کلمہ خیر کہنا سکہ رائج الوقت نہیں ہے؟ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر تو حیرت ہوتی ہے۔ ان کو اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو وہ نوجوانوں سے اس درجے میں لاتعلق کیوں ہیں۔ اب آ کر مریم نواز صاحبہ نے بطور وزیر اعلیٰ نئی نسل سے کچھ رابطے بڑھائے ہیں اور انہیں اپنا مخاطب بنایا ہے ورنہ مسلم لیگ تو یوں لگتا تھا کہ اب بس بزرگوں کی جماعت ہے اور چراغ سحر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ بلاول زرداری نوجوان قیادت ضرور ہیں لیکن وہ آج تک نوجوانوں کو اپنا مخاطب نہیں بنا سکے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی بیانیے میں ایسا کچھ بھی نہیں جس میں نئی نسل کے لیے کوئی کشش ہو۔ دائو پیچ کی سیاست کی ہنر کاری سے کسی بھی جماعت کے لوگ توڑ کر پیپلز پارٹی میں ضررو شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس سے پارٹی میں کوئی رومان قائم نہیں کیا جا سکتا اور رومان کے بغیر سیاسی جماعت کی حیثیت ہجوم سے زیادہ نہیں ہوتی۔ نئی نسل کو صرف تحریک انصاف نے اپنا مخاطب بنایا ہے۔ اس نے جوانوں کو نفرت کرنا سکھایا ہے۔ ان میں رد عمل، اشتعال اور ہیجان بھر دیا ہے۔ ان کو کوئی درست فکری سمت دینے کے بجائے ان کی محرومیوں کو مائنڈ گیم کا ایندھن بناتے

ہوئے انہیں زہر کی دلدل میں پھینک دیا ہے۔ اس کی عملی شکل سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے۔ نوجوان تعمیری گفتگو کی طرف کم ہی راغب ہوتے ہیں۔ ہیجان، نفرت، گالم گلوچ، اندھی عقیدت، پاپولزم، کیسے کیسے عارضے قومی وجود سے لپٹ چکے ہیں۔ دو فقروں کے بعد یہ باشعور مخلوق ہانپنے لگتی ہے اور پھر چھلانگ لگا کر نتیجے پر پہنچتی ہے اور نتیجہ کیا ہے: باقی سب چور ہیں، ایک اکیلا کپتان دیانت دار ہے اور وہ پاکستانی سیاست کا آخری ایماندار ہے اوپر سے ہنڈ سم سا بھی ہے تو بس اس کے بعد قیامت ہے۔ عمران ہی سب کچھ ہے، گندم کی فصل بھی اگر وقت پر تیار ہو جائے تو یہ عمران خان کے ویژن کا کمال ہے اور جون میں سورج کی تپش اگر تکلیف دے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں۔ نوجوان ہی تحریک انصاف ہی قوت ہیں اوور ان ہ کا فکری استحصال کر کے اس کی رونقیں قائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے لیے تحریک انصاف نے کیا کام کیا؟ مرکز میں بھی اس کی حکومت رہی اور خیبر پختون خوا صوبے میں تو تسلسل سے اس کی حکومت رہی، اس سارے دورانیے میں تحریک انصاف کی حکومت نے نوجوانوں کے لیے کیا کیا؟ چنانچہ آج بھی نوجوانوں کا ابرار الحق صاحب کے ساتھ مل کر بس کپتان خاں دے جلسے اچ نچنے نوں جی کردا۔ اس کے علاوہ کوئی سرگرمی انہیں دی جائے تو ان کا دل کرے کہ وہ کچھ اور بھی کریں۔ نوجوانوں کو مائنڈ گیم کی مہارت سے الگوردم کے کمالات سے اور عشروں تک کی سرپرستانہ مارکیٹنگ کے طفیل کھائی کی سمت دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ جلسوں کا ایندھن بھی بنتے ہیں۔ احتجاجوں میں قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور پھر جیلوں میں جا پہنچتے ہیں تو قیادت ان کی خیر خبر لینے بھی نہیں آتی۔ جوانوں کو مسلسل ریاست کی انتظامی قوت سے الجھائے رکھا گیا، لیکن یہ اہتمام کیا گیا کہ یہ نوجوان دوسروں کے گھرانے کے ہوں۔ قیادت کے اپنے بچے کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔ مائنڈ گیم کی مہارت غریب کے بچوں پر استعمال کی گئی، اپنے بچوں پر نہیں۔ اپنی طرف تو مزے ہی مزے ہیں۔ نئی کابینہ ہی کو دیکھ لیجیے، عمر ایوب خان کا چچازاد بھائی بھی وزیر بنا لیا گیا ہے، اسد قیصر کے چھوٹے بھائی جان بھی وزیر بنا دیے گئے ہیں۔ شہرام ترکئی کے بھائی جان کو بھی وزارت دے دی گئی ہے۔ نوجوان اگر تحریک انصاف کے ساتھ تھے تو تحریک انصاف کو ان کے ساتھ خیر خواہی دکھانی چاہے تھی۔ ان کے لیے کوئی منصوبہ لانا چاہیے تھا۔ انہیں معاشرے کا مفید شہری بننے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیںہو سکا۔ ایک زمانے میں ایک ٹائیگر فورس بنی تھی، آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ سماج کی بہتری کے لیے اس فورس کی کارکردگی کیا رہی اور یہ فورس اس وقت موجود بھی ہے یا نہیں۔ ایسے عالم میں، ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کو با مقصد سرگرمی کی طرف راغب کیا ہے۔ بنو قابل پروگرام کی تفصیلات قابل تحسین ہیں۔ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا تھا جو جماعت اسلامی کر رہی ہے۔ آنے والے دور کے تقاضوں سے نوجوانوں کو ہم آہنگ کرنا حکومتوں اور وزارت تعلیم وغیرہ کے کرنے کا کام تھا، یہ ان کو دیکھنا چاہیے تھا کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں اور نصاب میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی چاہییں۔ حکومتوں کی مگر یہ ترجیحات ہی نہیں۔ ایسے میں الخدمت فائونڈیشن کا بنو قابل پروگرام ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ جن نوجوانوں کو آئی ٹی کے کورسز کروائے جا رہے ہیں ان سب کا تعلق جماعت سے نہیں ہے۔ نہ ہی ان سے کوئی پوچھتا ہے کہ تمہارا تعلق کس جماعت سے ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ نوجوان ان پروگرامز کو مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی ایک ہی شناخت ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابتدائی ٹیسٹ میں آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، ای کامرس ڈیولپمنٹ، سائبر سیکورٹی جیسے کئی پروگرامز کامیابی سے چل رہے ہیں۔ جن کی عملی افادیت ہے اور وہ نوجوانوں کو حصول روزگار میں مدد دے سکتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن، نے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ اس نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو اس پر واجب بھی نہیں تھے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلافات ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ یہ اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کا شکریہ اس سماج پر واجب ہے۔ (بشکریہ: 92 نیوز)

 

آصف محمود

متعلقہ مضامین

  • کیا مصنوعی ذہانت کال سینٹرز کا خاتمہ کر دے گی؟
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • ایکسکلیوسیو سٹوریز اکتوبر 2025
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • پاک افغان مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے
  • مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے،پاکستان
  • چینی صدر کا مصنوعی ذہانت کی نگرانی کا عالمی ادارہ قائم کرنے پر زور
  • مصنوعی ذہانت
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • تجدید وتجدّْد