WE News:
2025-09-18@00:28:45 GMT

مزاح نگاری مصنوعی ذہانت کے بس کی بات نہیں، مصنفین

اشاعت کی تاریخ: 27th, August 2025 GMT

مزاح نگاری مصنوعی ذہانت کے بس کی بات نہیں، مصنفین

مصنوعی ذہانت (اے آئی) نے حالیہ برسوں میں زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں اپنی موجودگی ثابت کی ہے اور طب، تعلیم، تحریر، موسیقی اور یہاں تک کہ فلم سازی جیسے تخلیقی شعبے بھی اس کی پہنچ میں آ چکے ہیں۔ تاہم جہاں بات ہو طنز و مزاح جیسے باریک اور جذباتی فن کی وہاں ماہرین مزاح اور لکھاری متفق ہیں کہ یہ میدان اب بھی انسانوں کے تخلیقی شعور کا محتاج ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مصنفین مصنوعی ذہانت کے ہاتھوں کام کھو بیٹھنے کے خدشے کا شکار

ماہرین کے نزدیک مزاح صرف الفاظ کا جوڑ نہیں بلکہ سماجی سیاق، جذباتی گہرائی اور انسانی مشاہدے کا نچوڑ ہوتا ہے جو فی الحال اے آئی کے بس کی بات نہیں لگتی۔

امریکی اداکارہ، مصنفہ اور کامیڈین ٹینا فے

اسی حقیقت کی جانب معروف امریکی اداکارہ، مصنفہ اور کامیڈین الزبتھ اسٹیمٹینا فے (المعروف ٹینا فے) نے بھی حالیہ ایڈنبرا ٹی وی فیسٹیول میں توجہ دلائی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اے آئی سے خوفزدہ نہیں کیونکہ ابھی تک اس کو مزاح لکھنا نہیں آیا۔

ایڈنبرا ٹی وی فیسٹیول کے آخری روز خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت گیت لکھ سکتی ہے، تصویریں بنا سکتی ہے اور اس کے لیے کئی دیگر چیزیں بھی ممکن ہو گئی ہیں لیکن اب تک طنزومزاح لکھنا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔

لائیو شوز سے شہرت پانے والی ٹینا فے نے سنہ 2008 کے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل نائب صدارتی امیدوار سیرا پالن کی نقالی کی تھی جسے آج بھی ان کے یادگار کرداروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیے: مضامین لکھوانے کے لیے مصنوعی ذہانت پر انحصار دماغ کو کمزور کرتا ہے، تحقیق میں انکشاف

ٹینا فے کے بقول میں شو چھوڑ چکی تھی لیکن مجھے واپس بلایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ میں جانتی تھی کہ میں شکل سیرا پالن سے ملتی جلتی ہے مگر مجھے لگا کہ کرسٹن وِگ بھی یہ کردار بہ خوبی ادا کر سکتی تھیں۔

برطانوی ورژن اور اسکرپٹ لکھنے کے طریقے پر گفتگو کرتے ہوئے ٹی وی فیسٹیول میں معروف میزبان گراہم نارٹن بھی ٹینا فے کے ہمراہ موجود تھے جنہوں نے برطانوی مزاحیہ لکھاریوں کی وقت پر اسکرپٹ مکمل نہ کرنے کی عادت پر شکوہ کیا۔ تاہم ٹینا فے نے ہنستے ہوئے کہا کہ میں آپ کو ایک راز کی بات بتاؤں، آپ صبح سے بھی کام شروع کر سکتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ رات بھر جاگیں۔

ٹینا فے

ٹینا فے نے انکشاف کیا کہ ایک موقعے پر برطانیہ کے سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے ان سے ذاتی ملاقات کی خواہش ظاہر کی اور کہا کہ برطانوی ٹی وی انڈسٹری ایک شاندار اثاثہ ہے۔

اپنے نئے شو ’دی فور سیزنز‘ کے بارے میں بات کرتے ہوئے ٹینا نے کہا کہ یہ ایک ضبط نفس کی مشق ہے جہاں مصنفین کو یاد دلایا جاتا ہے کہ ہر کردار غیر معمولی نہیں ہونا چاہیے بلکہ بعض کو بس عام انسان بھی بننے دیں۔

مزید پڑھیں: مصنوعی ذہانت کے باعث زیادہ متاثر ہونے والی نوکریاں کون سی ہیں؟

انہوں نے کہا کہ میں 55 برس کی ہوں اور اس عمر میں ایسی بہت سی چیزیں ہو سکتی ہیں جن میں سے کچھ عجیب اور کچھ افسوسناک ہوسکتی ہیں اور یہ سب مجھے لکھنے کا مواد فراہم کرتی ہیں۔

ٹینا فے کی رائے اور مصنوعی ذہانت کا بیباک تبصرہ

ٹینا فے کی رائے پر جب وی نیوز نے مصنوعی ذہانت کے ایک نمایاں ماڈل چیٹ جی پی ٹی سے اس کا مؤقف طلب کیا تو اس نے غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا تبصرہ کیا۔

چیٹ جی پی ٹی کا کہنا تھا کہ اے آئی تکنیکی طور پر لطیفے بنا سکتی ہے، اسکرپٹ کے انداز میں مزاحیہ مکالمے لکھ سکتی ہے اور اسٹینڈ اپ کامیڈی کی طرز کی نقل بھی کر سکتی ہے لیکن یہ سب کچھ ایک تربیت یافتہ، مشینی پیٹرن پر مبنی ہوتا ہے جس میں اکثر ظاہری طور پر مزاح تو محسوس ہوتا ہے مگر اس میں اصل انسانی مشاہدہ، جذبات، درد اور طنز کی باریکی اور زندگی کی معنویت کی گہرائی کمیاب ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: کیا مصنوعی ذہانت فلموں کی ڈبنگ آسان اور حقیقی بنا دے گی؟

چیٹ بوٹ کی ایک خیالی تصویر

ماڈل نے کہا کہ مزاح محض الفاظ کی ترتیب یا چالاک جملوں کا کھیل نہیں بلکہ یہ ایک گہرا انسانی تجربہ ہے جس میں جذبات، سماجی سیاق، ثقافتی حساسیت اور اظہار کا صحیح وقت شامل ہوتا ہے۔

اس کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت تکنیکی طور پر ’فنی‘ (مزاحیہ) ہو سکتی ہے مگر ابھی وہ انسانی طور پر مزاحیہ بننے سے قاصر ہے۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ طنز، معاشرتی تضادات پر تبصرہ یا روزمرہ زندگی کے پیچیدہ مزاح کو سمجھنے اور تخلیق کرنے کے لیے جو شعور درکار ہے وہ صرف انسانوں کے پاس ہے۔

یہ بھی پڑھیے: اے آئی نے ویب سائٹس کا مستقبل تاریک کردیا، حل کیا ہے؟

چیٹ جی پی ٹی نے ٹینا فے جیسی تجربہ کار مزاح نگار کی رائے کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’فی الوقت مزاح کے میدان میں مصنوعی ذہانت انسان کا متبادل نہیں بن سکی اور شاید کچھ عرصے تک نہ بن سکے‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ٹینا فے چیٹ جی پی ٹی طنزومزاح مزاح نگار مصنوعی ذہانت مصنوعی ذہانت اور مزاح نگاری.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ٹینا فے چیٹ جی پی ٹی مزاح نگار مصنوعی ذہانت مصنوعی ذہانت اور مزاح نگاری مصنوعی ذہانت کے چیٹ جی پی ٹی کہنا تھا کہ کرتے ہوئے نے کہا کہ سکتی ہے ٹینا فے ہوتا ہے اے ا ئی کی بات کہ میں کے لیے اور اس

پڑھیں:

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ نے اسے ہرن جیسی ٹانگیں اور گھوڑے جیسے پھیپھڑے دیے تھے‘ وہ پورے گاؤں میں سب سے تیز بھاگتا تھا‘ وہ مسلسل سارا دن بھی بھاگ سکتا تھا‘ یہ غیرمعمولی صلاحیت تھی اور اس نے اس صلاحیت سے میرا تھن چیمپیئن بننے کا فیصلہ کیا‘ اس نے جب لوگوں کو اپنے ارادے کے بارے میں مطلع کیا تو سب نے پہلے قہقہہ لگایا اور پھر اسے بتایا میرا تھن گوروں کی اسپورٹس ہے۔

 سیاہ فام لوگ یہ نہیں کھیل سکتے‘ ہم ان سے جیت بھی نہیں سکتے‘ ایلوڈ نے وجہ پوچھی تو اسے بتایا گیا‘ گوروں کے پاس پیسہ ہوتا ہے‘ ان کے پاس ٹرینر بھی ہوتے ہیں اور ان کی خوراک بھی ہم سے بہتر ہوتی ہے لہٰذا یہ جی جان سے پریکٹس کرسکتے ہیں‘ اسے یہ بھی بتایا گیا میرا تھن کے سارے ریفری‘ کمنٹیٹرز اور شائقین بھی گورے ہوتے ہیں‘ گورے گوروں کو سپورٹ کرتے ہیں‘ یہ سیاہ فام کو کام یاب نہیں ہونے دیتے‘ تم بھی یہ خواب دیکھنا بند کر دو‘اس کے دوستوں اور بزرگوں نے یہ باتیں اتنی بار دہرائیں کہ یہ اس کے ذہن میں بیٹھ گئیں لیکن اس کے باوجود ایتھلیٹکس اس کا جنون تھا‘ وہ سارا دن بھاگتا رہتا تھا‘ اس کے پاس جوتے نہیں تھے‘ وہ ننگے پاؤں بھی بھاگتا تھا‘ اس کے پاس گراؤنڈ نہیں تھا‘ وہ جنگل میں بھی بھاگتا تھا‘ اس نے میرا تھن میں شریک نہیں ہونا تھا لیکن وہ اس کے باوجود بھی بھاگتا تھا‘ بھاگنا اس کی زندگی تھا۔

وہ فارغ وقت میں جس گراؤنڈ میں بھاگتا تھا وہاں پیٹرک نام کا ایک کوچ نوجوانوں کو پریکٹس کراتا تھا‘ کوچ نے دیکھا ایک سیاہ فام لڑکا کوچنگ کے بغیر اس کے تمام اسٹوڈنٹس سے زیادہ تیز دوڑتا ہے‘ اس نے ایک دن اسے روک کر انٹرویو کیا تو پتا چلا یہ لڑکا غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے‘ دن کے وقت والدین کے ساتھ محنت مزدوری کرتا ہے اور شام کے وقت دوڑنا شروع کر دیتا ہے‘ پیٹرک کو اس پر رحم آ گیا۔

 اس نے اسے اپنی کلاس میں شامل کر لیا اور وہ اسے ایتھلیٹس کی بنیادی تکنیکس سکھانے لگا‘ لڑکا پیدائشی اسپورٹس مین تھا‘ یہ بہت جلد تمام تکنیکس سیکھ گیاجس کے بعد پیٹرک نے اس کا نام کینیا کی اگلی میراتھن میں لکھوا دیا‘ وہ میراتھن میں شریک ہوا لیکن ہار گیا‘ اس کی ہار نے کوچ کو ڈسٹرب کر دیا‘کیوں؟ کیوں کہ وہ جانتا تھا اس میں کینیا کے تمام ایتھلیٹس سے زیادہ پوٹینشل ہے‘ اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا‘ کوچ نے میراتھن کی ریکارڈنگ منگوائی اور دیکھنا شروع کر دی‘ وہ بار بار ٹیپ دیکھتا تھا اور کیپ چوج کو دیکھتا تھا‘ اس نے نوٹ کیا دوڑتے وقت جوں ہی کوئی گورا کھلاڑی اس کے قریب آتا تھا تو اس کی اسپیڈ کم ہو جاتی تھی جب کہ یہ تمام سیاہ فام کھلاڑیوں کو آسانی سے پیچھے چھوڑ دیتا ہے یوں محسوس ہوتا تھا گورے کو دیکھ کر اس کا گیئر ڈاؤن ہو گیا ہو۔

 کوچ بار بار ٹیپ دیکھتا رہا اور یہ سوچتا رہا آخر ایشو کیا ہے؟ یہ گورے کھلاڑی کو دیکھ کر آہستہ کیوں ہو جاتا ہے؟ اس کا سانس کیوں پھول جاتا ہے‘ بار بار ٹیپ دیکھنے کے بعد پتا چلا یہ ذہنی طور پر سفید فام کھلاڑیوں سے خائف ہے‘ یہ ان سے گھبراتا ہے اور اس وجہ سے اس کی اسپیڈ کم ہو جاتی ہے‘ یہ ایک دل چسپ صورت حال تھی‘ کوچ نے اس کا انٹرویو شروع کیا تو پتا چلا اس نے جب بھاگنا شروع کیا تھا تو تمام لوگوں نے اسے بتایا تھا ایتھلیٹکس گوروں کی اسپورٹس ہے‘ اس میں صرف گورے جیتتے ہیں لہٰذا بھاگتے ہوئے جوں ہی کوئی گورا اس کے قریب پہنچتا ہے تو آٹومیٹک اس کی اسپیڈ کم ہو جاتی ہے۔

کوچ نے اسے سمجھانا شروع کیا لیکن صورت حال جوں کی توں رہی‘ کوچ نے مجبوراً اسپورٹس سائیکالوجسٹ سے رابطہ کیا‘ اس نے کیپ چوج کو اسٹڈی کیا تو پتا چلا گوروں کا غلبہ اس کے سب کانشیس میں چلا گیا ہے‘ یہ اب جتنا چاہے کوشش کر لے اس کا سب کانشیس اسے ہلنے نہیں دے رہا‘ سائیکالوجسٹ نے کوچ کو بتایا‘ ہمارے سب کانشیس میں جب کوئی بات بیٹھ جاتی ہے تو پھر ہمارے اندر سیلف سبوتاژ کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے جس کے بعد ہمیں باہر سے کوئی نہیں ہراتا‘ ہم اندر سے ہار جاتے ہیں‘ ہم اندر سے شکست تسلیم کر بیٹھتے ہیں۔

کوچ کو مسئلہ سمجھ آ گیا لہٰذا  اس نے کیپ چوج کو سمجھایا تم نے دوڑتے وقت دائیں بائیں نہیں دیکھنا صرف اور صرف اپنے ہدف پر توجہ دینی ہے‘ دوسرا تم نے یہ گنتے رہنا ہے تم نے کتنے سیاہ فام باشندوں کو پیچھے چھوڑا‘ کیپ چوج کوچ کی بات کو سیریس لیتا تھا لہٰذا اس نے یہ مشورہ پلے باندھ لیا اور نتائج نے سب کو حیران کر دیا‘ آپ بھی یہ جان کر حیران رہ جائیں گے یہ ایلوڈ کیپ چوج 2019میں دنیا کا پہلا شخص تھا جس نے 42 اعشاریہ 195 کلومیٹر کی میراتھن دو گھنٹے سے کم وقت میں مکمل کرلی اور یہ ورلڈ ریکارڈ تھا اور اس کے بعد اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا‘ آپ اگر آج اس کے ریکارڈز اور ایوارڈز دیکھیں تو آپ کی آنکھیں اور دماغ تھک جائے گا لیکن اس کے ریکارڈز اور ایوارڈز کی فہرست ختم نہیں ہوگی۔

 میں آگے بڑھنے سے قبل آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں میراتھن 42 اعشاریہ 195 کلومیٹر کیوں ہوتی ہے؟ 1908میں کوئین الیگزینڈرا برطانیہ کی ملکہ تھی‘ 1908 میں لندن میں اولمپکس ہوئیں‘ ملکہ نے حکم جاری کیا‘ میرا تھن ونڈسر کاسل کے لان سے اسٹارٹ ہو گی اور وائیٹ سٹی اسٹیڈیم میں رائل باکس کے سامنے ختم ہو گی‘ اس حکم کی دو وجوہات تھیں‘ ملکہ چاہتی تھی جب ریس شروع ہو تو اس کا خاندان ونڈسر کاسل کی کھڑکی سے ریس دیکھ سکے اور جب یہ ختم ہو تو ملکہ اور اس کا خاندان رائل باکس میں جیتنے والے کھلاڑی کو دیکھ سکیں اور دوسری وجہ ملکہ کام یاب کھلاڑی کو سب سے پہلے دیکھنا چاہتی تھی‘ ماہرین نے کھڑکی اور باکس کے درمیان کا فاصلہ ماپا تو یہ 26 میل اور 385 میٹر یعنی 42 اعشاریہ 195کلومیٹر تھا یوں میرا تھن 42 اعشاریہ 195 کلو میٹر ہو گئی‘ میں کیپ چوج کی طرف واپس آتا ہوں۔

ایلوڈ کیپ چوج سب کانشیس کے سیلف سبوتاژ کا شکار تھا‘ اب سوال یہ ہے یہ کیا بلا ہوتی ہے؟ ہمارے دماغ کے دو حصے ہوتے ہیں‘ کانشیس (Concious) اور سب کانشیس (Subconcious) کانشیس صرف معلومات اکٹھی کرتا ہے جب کہ سب کانشیس اسے پراسیس کر کے ہمارے یقین کا حصہ بناتا ہے‘ ہماری زندگی کا نوے فیصد حصہ سب کانشیس کے کنٹرول میں ہوتا ہے‘ ہم مسلمان اور پاکستانی ہیں‘ ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں یہ سارا ڈیٹا ہمارے بلیو (Believe) سسٹم یا سب کانشیس کاحصہ ہوتا ہے‘ بچوں کا کانشیس اور سب کانشیس پیدائش کے بعد کورا کاغذ ہوتے ہیں‘ ہم سب مل کر اسے بھرتے ہیں یا پر کرتے ہیں‘ بچے ہمیں دیکھ اور سن کر زبان سے لے کر عادتوں تک ہر چیز سیکھتے ہیں اور یہ آگے چل کر ان کا بلیو یعنی یقین بنتا ہے اور یہیں سے ان کی کام یابی اور ناکامی کا سفر شروع ہو تا ہے‘ کیپ چوج کو اس کے ماحول نے اتنی بار گوروں سے ڈرایا تھا‘ اسے اتنی مرتبہ یہ بتایا گیا تھا کہ ایتھلیٹکس گوروں کی اسپورٹس ہے۔

 تم سیاہ فام ہو اورتم خواہ کتنا ہی تیز دوڑ لو تم کام یاب نہیں ہو سکتے اور یہ بات بار بار دہرانے کی وجہ سے اس کے سب کانشیس میں چلی گئی جس کے بعد یہ جوں ہی کسی گورے کو دوڑتا ہوا دیکھتا تھا تو اس کا سب کانشیس اسے پیغام دے دیتا تھا تم اس گورے سے نہیں جیت سکتے‘تمہیں زیادہ توانائی ضایع کرنے کی ضرورت نہیں اور اس کے بعد اس کے پھیپھڑے خود بخود ڈھیلے پڑ جاتے تھے اور ٹانگوں کی توانائی کم ہو جاتی تھی یوں اس کے ساتھ بھاگنے والا گورا اس سے آگے نکل جاتا تھا‘ نفسیات کی زبان میں اس عمل کو سیلف سبوتاژ (Self Sabotage) کہتے ہیں یعنی آپ اپنی جیت کو خود ہی ہار میں تبدیل کر دیں‘ آپ اپنی کام یابی کو ناکامی میں بدل دیں یا آپ چھکا مارتے ہوئے جان بوجھ کر آؤٹ ہو جائیں‘ کیپ چوج بھی سیلف سبوتاژ کا شکار ہو گیا تھا‘ اس کے خاندان اور ماحول نے مل کر اس کے دل میں گوروں کا خوف بٹھا دیا تھا جس کے بعد اس کا سب کانشیس اسے گوروں کے مقابلے میں جیتنے نہیں دیتا تھا۔

آپ اگر کیپ چوج کی کہانی توجہ سے پڑھیں تو آپ خود کو بھی سیلف سبوتاژ کا شکار پائیں گے بلکہ رکیے آپ کو پوری قوم سیلف سبوتاژ کا شکار ملے گی‘ آپ کبھی نوٹ کیجیے آپ کو ہر طرف سے ہم ترقی نہیں کر سکتے‘ ہم ٹھیک نہیں ہو سکتے‘ ہم بے ایمان لوگ ہیں‘ ہم میں خداترسی نام کی چیز نہیں‘ ہم بہت گندے ہیں‘ ہم سسٹم نہیں بنا سکتے‘ ہماری حکومت بہت نکمی ہے‘ سارا نظام کرپٹ ہے ‘ ہمیں عدالتوں سے انصاف نہیں ملے گا‘ پاکستان میں کوئی چیز خالص نہیں‘ پولیس بڑی ظالم ہے۔

 سیاست دان نالائق اور کرپٹ ہیں‘ مولوی جاہل اور سخت ہیں‘ ہماری فوج بہت کم زور ہے اور ہم سیلاب کنٹرول نہیں کر سکیں گے جیسے فقرے سننے کو ملیں گے‘ آپ کسی جگہ بیٹھ جائیں آپ یہ سوال ضرور سنیں گے پاکستان کا کیا بنے گا‘ کیا ہم ٹھیک ہو جائیں گے اور ہمارا مستقبل کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ‘ آپ حد ملاحظہ کریں‘ ہم نے 10مئی کو جب بھارت کو شکست دی تھی تو پورے ملک نے کہنا شروع کر دیا تھا اگر چین ہماری مدد نہ کرتا تو ہمیں بڑی مار پڑتی‘ یہ کیا ہے؟ یہ سیلف سبوتاژ کی آخری اسٹیج ہے اور اس اسٹیج میں انسان ہو یا ملک یہ اپنا اعتماد مکمل طور پر کھو بیٹھتا ہے اور ہم بدقسمتی سے اس عمل سے گزر رہے ہیں بالخصوص ہماری کرکٹ ٹیم کے سب کانشیس میں یہ بات بیٹھ چکی ہے ہم بھارت سے نہیں جیت سکتے چناں چہ ہم جیتا ہوا میچ بھی ہار جاتے ہیں۔

 ہم اگر واقعی زندہ رہنا چاہتے ہیں یا ترقی کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں سیلف سبوتاژ سے باہر آنا ہو گا‘ ہمیں اپنے اوپر اعتماد کرنا ہو گا‘ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہو گا اگر ایلوڈ کیپ چوج تھوڑی سی حکمت عملی بدل کر کام یاب ہو سکتا ہے تو پھر ہم من حیث القوم یہ کیوں نہیں کر سکتے؟ ہم بھی کر سکتے ہیں بس ہمیں حکمت عملی اور جیت کو اپنا یقین بنانا ہو گا اور پھر چند برسوں میں وہ ہو جائے گا جو ہم نے سوچا بھی نہیں ہو گا۔

متعلقہ مضامین

  • اینڈی پائیکرافٹ تنازع، پاکستان اور یو اے ای کے درمیان میچ نہ ہونے کا امکان،ٹیم ایشیاء کپ سے دستبردار ہو سکتی ہے:ذرائع
  • ڈیجیٹل یوتھ ہب نوجوانوں کومصنوعی ذہانت پر مبنی وسائل تک ذاتی رسائی فراہم کرے گا، چیئرمین وزیراعظم یوتھ پروگرام سے یونیسف کی نمائندہ کی ملاقات
  • آئی فون 17 کی قیمت میں پاکستان میں کونسے منافع بخش کاروبار کیے جا سکتے ہیں؟
  • کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے: سپریم کورٹ
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • انقلاب – مشن نور
  • ون وے کی خلاف ورزی کرنے پر کتنے ماہ قید اور جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے؟
  • سیلاب کے باعث ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہو سکتی ہے، اسٹیٹ بینک
  • Self Sabotage
  • اسرائیل کو کھلی جارحیت اور مجرمانہ اقدامات پر کوئی رعایت نہیں دی جا سکتی: ترک صدر