خدمت، دیانت و امانت کے علمبردار مولوی
اشاعت کی تاریخ: 28th, August 2025 GMT
خیبرپختونخوا میں کلاوڈ برسٹ، طوفانی بارشیں اور سیلابی ریلے کتنے ہلاکت خیز تھے اس کو ضبط تحریر میں لانا ناممکن ہے، بڑوں کی شفقت اور بچوں کی محبتوں سے بھرے گھروں میں رہنے والے کھلے آسمان تلے پڑے نصرت الہی کے منتظر ہیں۔ ہم قیامت صغریٰ اور اس کی تباہ کاریوں پر لکھ چکے ہیں آج امدادی سرگرمیوں اور بحالی کے لیے ہونے والے اقدامات اور اس مہم کے دوران منظر عام پر نئے آنے والے قومی ہیروز پر لکھیں گے۔
اللہ رب العزت نے ہمیں ہر حال میں صبر اور شکر کی تلقین کی ہے، سب کو اللہ تعالیٰ کی مرضی اور فیصلے پر راضی رہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں مگر متاثرین کی بحالی ایک صبر آزما امتحان ہے۔ مگر یہ امتحان صرف متاثرین کے لیے نہیں ریاست، صاحب حیثیت اور آسودہ حال پاکستانی شہریوں کے لیے بھی ہے۔
اللہ رب العزت کبھی لے کر تو کبھی دے کر آزماتا ہے۔ میرے مرشد و مربی باباجانؒ فرماتے تھے اپنی مخلوق سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والے خالق حقیقی کی رضا تک پہنچنے کا آسان ترین راستہ مخلوق کی خدمت ہے۔ مجھ سمیت کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم سیلاب سے بچ گئے تو ہماری نجات ہوگئی۔ جب تک ہم صرف خالق حقیقی کی رضا کی خاطر اس کی مخلوق کی بحالی میں اپنی استطاعت کے مطابق حصہ نہیں ڈالیں گے ہم دین و دنیا کے خطرات سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
بلاشبہ اللہ کی گرفت بہت شدید ہے اور اس سے بچنے کے لیے اگر اللہ کا دیا ہوا سب کچھ صدقہ کردیں تو سودا پھر بھی بہت سستا ہے۔ شکر الحمدللہ اس آفت و مصیبت کی گھڑی میں بہت سے فلاحی ادارے اور ہزاروں کی تعداد میں عوام الناس امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، امدادی سرگرمیوں میں حسب سابق پاک فوج کی خدمات قابل تحسین و قابل تقلید ہیں۔
مگر خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کی نااہلی اور شرمناک کارکردگی پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے مگر ان پر ماتم کرنا وقت کا ضیاع ہے اس لیے آج ہم ان قابل تحسین و تقلید کرداروں اور ہیروز کی بات کریں گے جو صرف رضائے خالق کی خاطر مخلوق کی خدمت کررہے ہیں۔ خدمت خلق فاونڈیشن، خدائی خدمت گار اور دوسرے کئی مقامی فلاحی اداروں کے رضا کار دن رات امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ مگر علماء کرام اور مدارس دینیہ کے طلباء نے جو حیران کن اور معجزاتی کردار ادا کیا اس کو ضبط تحریر میں لانا مشکل نہیں ناممکن ہے۔ بونیر کے عوام کے دلوں پر راج کرنے والے جمعیت علمائے اسلام ضلع بونیر کے امیر مفتی فضل غفور خدمت، امانت و دیانت کا استعارہ بن کر سامنے آچکے ہیں۔ وہ اس قیامت صغریٰ میں سب سے پہلے میدان عمل آئے اور آج تک اپنے آپ کو متاثرین کی بحالی کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ شہداء کی لاشوں کو ملبے سے نکالنے، نماز جنازہ و تدفین کے ساتھ مساجد، متاثرین کے گھروں، حجروں، دکانوں، بازاروں اور رستوں سے ملبہ ہٹانے میں اپنے کارکنان و طلباء کے شانہ بشانہ مصروف ہیں ۔
اس لیے خلق خدا ان کی خدمات کے معترف ہیں۔ ایک طرف وہ متاثرین کے سروں پر دست شفقت رکھ کر ان کا سہارا بنے، تو دوسری طرف امدادی سرگرمیوں کو منظم رکھنے کے لیے ہمہ وقت موجود ہیں۔ انھوں نے مدارس کے طلباء سے اپیل کی تو خیبرپختونخوا کے سیکڑوں مدارس کے ہزاروں طلباء ان کی قیادت میں کام کرنے کے لیے پہنچ گئے اور پورے علاقہ میں بلا تفریق مذہب و سیاست صفائی کر کے علاقہ کا نقشہ بدل ڈالا جس پر اپنے پرائے سب ان کے معترف ہیں متاثرین میں مفتی صاحب کے سیاسی مخالفین بھی ان کو اپنا محسن ماننے پر مجبور اور ماضی کی مخالفت پر نادم ہیں۔
صرف متاثرہ علاقوں میں نہیں پورے ملک میں مفتی فضل غفور عزم و ہمت، دیانت و امانت کا استعارہ بن چکا ہے۔ ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں نے ان کی خدمات کو سراہا اور شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا ۔ مفتی صاحب کے ساتھ انصار الاسلام کے رضا کار، جمعیت علمائے اسلام کے راہنما اور کارکنان شانہ بشانہ دن رات دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں، مدارس کے طلبا مساجد، گھروں، حجروں، دکانوں، بازاروں، گلی کوچوں اور سڑکوں سے کیچڑ اور ملبہ ہٹانے، متاثرین کو کھانا کھلانے، بیماروں کے لیے فوری دوائیوں کا بندوبست کرنے میں مصروف ہیں۔
ہر بندہ و تنظیم اپنی استطاعت سے بڑھ کر کام کررہے مگر یہ حقیقت ہے کہ جے یو آئی کے علاوہ کوئی سیاسی جماعت بحیثیت جماعت سرگرم اور متحرک نظر نہیں۔ مفتی صاحب نے چھوٹے کاروباری متاثرین کے لیے کاروبار شروع کرنے، جن کے رکشے سیلاب میں بہہ گئے ان کے لیے رکشے اور مزدوروں کے ہاتھ ٹرالیاں لینے کا اعلان کردیا ہے۔
کیونکہ اس سانحہ کے فوراً بعد مولانا فضل الرحمن نے اپنی جماعت کے ہر کارکن کو امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لینے کی ہدایت کی تھی۔ یہ صرف بونیر کی کہانی نہیں ہر متاثرہ علاقے میں مولوی اور مدارس کے طلباء نے قابل تحسین و تقلید مثالیں قائم کیں، ضلع صوابی میں مولانا فضل باقی، مولانا ابراہیم مظہری، مولانا تاج نبی خان مظہری جیسے علماء کرام کی قیادت و راہنمائی میں دینی مدارس کے طلباء سب پر سبقت لے گئے۔ مدارس کے طلباء اور علماء نے خدمت امانت و دیانت کی بینظیر مثالیں قائم کیں، صفائی کے دوران لاکھوں روپے کے ملنے والے طلائی زیورات متاثرین کو واپس کیے۔ اگر تعصب کی عینک اتار کر دکھی انسانیت کی خدمت میں دینی مدارس کا موازنہ لاکھوں عصری علوم کے سرکاری اور غیرسرکاری اداروں سے کریں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
عصری علوم کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے لاکھوں طلباء میں ان ارب پتی والدین کے بچے بھی شامل ہیں جنھوں نے اس قوم کے اربوں روپے کھا کر ڈکار بھی نہیں لی مگر آج خیبرپختونخوا میں گاؤں کے گاؤں ملیا میٹ ہوچکے ہیں، گھر بار، کھیت کھلیان اور کاروبار تباہ ہوچکے ہیں، ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے کہ مرنے والوں کے کفن کے لیے کپڑا اور تدفین کے لیے خشک زمین میسر نہیں اور زندہ بچ جانے والوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی پتھروں میں پھنسی اپنے پیاروں کی لاشیں تلاش کررہے ہیں۔
آفت زدہ علاقوں کی اکثریت امداد کی منتظر ہے اس مشکل اور قیامت خیز موقع پر انھوں نے کیا مدد کی اور عصری علوم کے اداروں میں زیر تعلیم ان کے بچوں نے کیا کردار ادا کیا؟ مدارس کے طلباء کی طرح بیلچے اور کھدال لے کر ملبہ ہٹانے میں حصہ لینا تو دور کی بات کسی اسکول، کالج یا یونیورسٹی کا کوئی امدادی کیمپ نظر بھی نہیں آیا آخر کیوں؟
یہ اس لیے کہ عصری علوم کے ان اداروں میں پڑھنے والے ہمارے بچوں کواحترام انسانیت اور خدمت خلق سکھایا جاتا اور نہ کردار سازی پر کوئی توجہ دی جاتی ہے اور یہی ہمارا قومی المیہ ہے۔ میں جب عصری علوم کے اداروں اور مدارس دینیہ کا موازنہ کرتاہوں تو شدید ذہنی اضطراب میں مبتلا ہوجاتا ہوں کہ آخر کیوں ہمارے عصری علوم کے اداروں میں مستقبل کے معمار قوم کے بچوں کی کردار سازی پر مدارس کی طرح توجہ نہیں دی جاتی؟
کاش ہمارے پالیسی ساز کم از کم مستقبل کے معماروں کی کردار سازی کے لیے مدارس کے نظام اور ماڈل پر عصری علوم کے اداروں میں اصلاحات کریں۔
دین بیزار لبرلز کا مدارس و علماء کے بارے میں متعصبانہ رویہ، بلا جواز تنقید اور نشتربازی تو جاری رہتی ہے مگر آج وہ متاثرین کی بحالی میں مصروف علماء اور مدارس دینیہ کے بے مثال و لاجواب کارکردگی پر لب کشائی سے کتراتے ہیں۔
مگر ان کی خدمت میں عرض کرتا چلوں کہ بونیر، صوابی اور خیبرپختونخوا کے دوسرے اضلاع میں یا اندرون سندھ سیلاب، متاثرین کے لیے دعائیں مولوی کریں، سیلابی ریلوں سے بچانے مولوی پہنچیں، خیمے مولوی لگائیں، لنگر مولوی تقسیم کریں، سیلاب زدگان کے گھروں، بازاروں، گلی کوچوں، حجروں اور مساجد کی صفائی مولوی کریں، متاثرین کے لیے رقوم اور ڈونیشنز مولوی اکٹھا کریں۔
آفت اور مصیبت کی گھڑیوں میں قوم کو متحد بھی مولوی رکھیں۔ یہ سب ریاست وحکومت کی ذمے داری ہے جو علماء کرام اور مدارس دینیہ کے طلباء کرام نے بہت احسن طریقے سے نبھائی مگر اس کے باوجود دین بیزار لبرلز کی دانست میں سیاست و حکومت پر صرف ان کا حق ہے۔ ان لبرلز کی فہم و دانش پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے مگر قوم تو ہوش کے ناخن لے کرملک و ملت اور اپنے بچوں کی مستقبل کی خاطر علماء کرام کے دست و بازو بن کر ان کا ساتھ دیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امدادی سرگرمیوں میں عصری علوم کے اداروں اور مدارس دینیہ متاثرین کے لیے مدارس کے طلباء میں مصروف ہیں علماء کرام کی بحالی کی خدمت نے والے کے ہیں ہے مگر
پڑھیں:
بہاولپور، علی پور اور لودھراں میں پاک فوج کی امدادی کارروائیاں
بہاولپور، علی پور اور لودھراں میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پاک فوج کی امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔
پاک فوج اور سول انتظامیہ دریائے ستلج سے ملحقہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف آپریشن میں مصروف ہے۔
افواج پاکستان سمیت تمام متعلقہ محکمے دن رات سیلاب متاثرین کی خدمت اور بحالی کے لیے کوشاں ہیں۔
فلڈ ریلیف کیمپس میں پاک فوج کی جانب سے فری میڈیکل کیمپ بھی قائم کیے گئے ہیں جہاں متاثرین کو علاج اور ادویات فراہم کی جا رہی ہیں۔
اس موقع پر کمانڈر بہاولپور کور نے سیلاب متاثرین کی بحالی، طبی امداد اور جاری ریسکیو آپریشن کا جائزہ بھی لیا۔